1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مشرق وسطیٰ، لارنس آف عریبیہ اور فری میسنری

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏10 اپریل 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    مشرق وسطیٰ، لارنس آف عریبیہ اور فری میسنری
    10/04/2017
    [​IMG]

    مشرق وسطیٰ میں بہت ہی بھیانک و خوفناک کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے متعدد اسلامی ممالک کے حصے بخرے کرنے کا پلان بنایا جا چکا اور اس پر برسوں سے کام جاری ہے، جس کے لیے بیک وقت مذہب اور قومیت کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ استعماری قوتیں رواز اول سے امت مسلمہ کی تقسیم کے نت نئے حربے آزماتی آئی ہیں اور یہی حربے ایک بار پھر نئی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر، مگر پلاننگ یقیناً کسی ”لارنس آف عریبیہ“ کے دماغ کی اختراع معلوم ہوتی ہے۔ تقسیم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں متعدد علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں ملوث ہیں، جو خاص منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ میں جاری خونریزی کو ہوا دے رہی ہیں۔ پوری اسلامی دنیا کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کے لیے نہایت عیاری کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں لڑائی کو مذہبی رنگ میں رنگا گیا اور دو مختلف فرقوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا گیا، جس سے اب ایک کلمہ پڑھنے والوں کے درمیان یہ تصادم بہت دور تک پھیلتا نظر آ رہا ہے، حالانکہ یہ مذہبی و مسلکی جنگ نہیں بلکہ ظالم و مظلوم، قاتل و مقتول اور جابر و مجبور کی جنگ ہے۔ یہ سب ان کی سازش کا حصہ ہے کہ ایک کلمہ پڑھنے والوں کو آپس میں لڑا کر اتنا کمزور کردیا جائے کہ ان کی ساری طاقت ختم ہوجائے اور پھر تعاون کے نام پر مسلم دشمن قوتیں یہاں آکر قبضہ جمالیں جیسے بہت سے جنگ زدہ مسلم ممالک میں مسلمانوں کی آپسی لڑائی اور نااہلی کی وجہ سے مسلم دشمن ممالک قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں مسلم دشمنوں کے بنے جانے والے تانے بانے سمجھنے کے لیے اگر ہم ایک صدی پیچھے کو سفر طے کریں تو معاملہ آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔


    خلافت عثمانیہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قلزم اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگزار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ خلافت عثمانیہ نے اگرچہ عربوں کو بہت مایوس کیا، جس سے عربوں میں خلافت سے کوئی دلچسپی نہ رہی اور خلافت خود بھی بہت کمزور ہو چکی تھی، لیکن سامراجی قوتوں کی آنکھوں میں امت مسلمہ کے اتحاد کی صورت میں کھٹک رہی تھی، جسے وہ کسی صورت بھی ایک جھنڈے تلے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ لہٰذا ان حالات میں خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے کے لیے لارڈ کرزن نے ہوگرتھ کو مخصوص انگریز چال ” تقسیم کرو اور حکومت کرو“ پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔ اس مشن کے لیے برطانوی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس، جسے ٹی ای لارنس کے طور پر جانا جاتا تھا، کو خلافت عثمانیہ کے زیر تسلط عرب علاقوں میں بغاوت پھیلانے کا فریضہ سونپا گیا۔ اس شخص نے عربی زبان پر عبور حاصل کیا اور اپنے آپ کو ایک عرب کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے بصرہ کی ایک مسجد میں ہزاروں مسلمانوں کے روبرو صرف دکھاوے کے لیے اسلام قبول کر کے یہ تاثر دیا کہ وہ سچے دل سے اسلام قبول کر رہا ہے۔ ”لارنس آف عریبیہ“ نے نہایت ہی شاطرانہ طریقے سے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات کو جگا کر خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کو منظم کیا، جس کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے اور خلافت عثمانیہ اختتام پذیر ہوئی۔ آج مشرق وسطیٰ کو ان حالات تک پہنچانے کے پیچھے مسلمانوں کے لبادے میں چھپے یقیناً بہت سے ”لارنس آف عریبیہ“ چھپے ہوئے ہیں، جو ایک صدی پہلے قومیت کی آگ بھڑکا کر خلافت عثمانیہ کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اب مذہب و قومیت کی آڑ میں مشرق وسطیٰ کی تقسیم کا منصوبہ روبہ عمل ہے۔

    مسلم دشمن قوتیں مسلمان ملکوں کو نقصان پہنچانے کے لیے مختلف حربے اپناتی آئی ہیں۔ ایک جانب شاطرانہ اور خفیہ طریقوں سے مسلمانوں کے لبادے میں چھپے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلم ممالک کی تقسیم پر کام جاری رہا تو دوسری طرف مسلمانوں کی صفوں میں شامل کیے گئے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلمانوں کے راز حاصل کرنے کے ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا ہر طریقہ آزمایا اور ہر حربے پر کام کیا۔ مسلم دشمن قوتیں یہ تمام کام بہت ہی خفیہ اور شاطرانہ طریقے سے کرتی ہیں، جس میں سب سے بڑی معاون ان کی خفیہ تنظیمیں ہوتی ہیں، جن کے خفیہ لوگ بھیس بدل کر مسلم ممالک میں پھیل جاتے ہیں اور اہم مسلم افراد کو اپنے جھانسے میں پھنسا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آج ہم یہاں ایسی ہی ایک خفیہ تنظیم فری میسنری کا تعارف کرواتے ہیں۔ فری میسنری یہودیوں کی سب سے بڑی اور خفیہ عالمی تنظیم ہے، جس کے ارکان کا تعلق مختلف مذاہب اور اقوام سے ہوتا ہے، جن کو فری میسن کہا جاتا ہے۔ فری میسنری کے مراکز دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہیں، جن کو ”لاج“ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں اس خفیہ یہودی تنظیم کے دفاتر موجود تھے، لیکن اس کی تخریبی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان میں اس پر پابندی لگائی جاچکی، جبکہ دنیا بھر میں یہ تنظیم تیز رفتاری کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل میں سرگرم ہے۔ فری میسنری کا مقصد دنیا بھر کی حکومتوں، وسائل اور نشر و اشاعت کے اداروں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ یہ خفیہ تنظیم دنیا بھر کی حکومتوں کے ذریعے اپنا راج چلانے کی خواہش رکھتی ہے۔ امریکا میں فری میسنری کے ممبروں کی تعداد 80 لاکھ سے زیادہ ہے اور اسی طرح برطانیہ سمیت دیگر مغربی و غیر مغربی ممالک میں بھی اس کے ارکان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ خفیہ تنظیم فری میسنری کا ایک دفتر کراچی میں بھی تھا، فری میسنری سوسائٹی پاکستان میں بھی 25 سال تک سرگرم رہی۔ 1973ءمیں فری میسنری کے اس مرکز کو سیل کر دیا گیا تھا۔

    فراہم معلومات کے مطابق فری میسنری کی ابتدا 24 جون 1717ء کو انگلستان میں ہوئی۔
    فری میسنری کے آئین کی تشکیل اور منظوری 1723ء کو کی گئی، جس کا خالق مشہور فری میسنری شخصیت ”ڈاکٹر اینڈر سن“ تھا۔
    1723ء سے لے کر 1750ء کے دوران فری میسن نے انگلینڈ اور ارد گرد میں تیزی سے اپنا مقام بنا لیا۔ یہ اس وقت ہوا کہ جب شاھی خاندان، امرا، وزرا اور اعلیٰ طبقہ فری میسن سے وابستہ ہوا۔ انگلینڈ میں پہلے گرینڈ لاج کے قیام اور باضابطہ طور پر نئے سرے سے نئے مقاصد و عزائم اور لائحہ عمل کے ساتھ جدید فری میسن کے قیام نے انتہائی پذیرائی حاصل کر لی۔

    ماسٹر مائنڈ نے 1730ء مین آئر لینڈ اور 1736ء میں اسکاٹ لینڈ میں گرینڈ لاج قائم کر لیے۔

    فری میسنری مورخین کے مطابق 1721 میں بلجیم اور 1725 میں فرانس میں لاج قائم کیے گئے۔ اس خوفناک تنظیم نے خون آشام اغراض کی تکمیل کے لیے جو طریق کار وضع کیا، اس کے تین بنیادی اصول مرتب کیے جو یہ تھے:

    1. صاحب اقتدار اور بااثر و رسوخ لوگوں کو قابو میں لانے کے لیے مالی رشوت سے کام لیا جائے اور گوہر مقصود تک پہنچنے کے لیے جنسی رشوت بھی پیش کرنی پڑے تو دریغ نہ کیا جائے، تاکہ ہمارے مطلوبہ لوگ ہماری جماعت کے مقاصد کے نفاذ کی راہ میں روڑا نہ بنیں، بلکہ انہیں اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنا لیا جائے۔
    2. ہماری جماعت کے وہ اساتذہ جو یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ذہنی، ثقافتی اور علمی اعتبار سے فوقیت رکھنے والے طلبا کو زیرِ نظر رکھیں۔ ان کے اذہان میں اپنے نظریات بھرے جائیں اور جب وہ ہمارے نظریات مکمل طور پر قبول کر لیں پھر انہیں اپنے مخصوص اداروں میں تربیت دی جائے۔
    3. وسائلِ نشرو اشاعت مثلاً ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات و جرائد پر تسلط حاصل کیا جائے، تاکہ انہیں اپنی مرضی سے استعما ل کیا جائے۔
     
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:

    فری میسنری کی رکنیت کے کئی مدارج ہیں جو ڈگری کہلاتے ہیں۔ ہر ڈگری کا رکن صرف اپنے برابر کی ڈگری والوں سے رابطہ رکھ سکتا ہے۔ اس درجہ بندی پر اس قدر سختی سے عمل کیا جاتا ہے کہ ایک ڈگری کا رکن دوسری ڈگری کے رکن کے رکن کے مقاصد اور خفیہ منصوبوں سے کسی طرح آگاہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اونچے درجے کے اراکین کے مقاصد دوسرے اراکین سے، خواہ ان کی پوری زندگی فری میسن تنظیم کے رکن کی حیثیت میں گزری ہو، انتہائی خفیہ اور رازداری میں رکھے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کا طریقہ کار انتہائی خفیہ ہے۔ لاجوں کی روئیدادیں غیر معمولی طور پر خفیہ اور انتہائی رازداری میں رکھی جاتی ہیں اور ان کے ارکین کے علاوہ کسی اور کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ لاج کے اراکین ایک دوسرے سے خفیہ کوڈ میں بات چیت کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اپنے خفیہ اشاروں اور الفاظ کے ذریعہ پہچانتے ہیں۔ فری میسنری عام طور پر ملک کے افسران یا غیر ملکی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان او رعہدیداروں کو اپنا رکن بناتے ہیں۔ رکن بننے کے لیے کسی خاص رنگ، مذہب، نسل یا قومیت کی قید نہیں ہے، بلکہ اس ملک کے شہریوں کو رکن بنانے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اس کے بعد منصوبے کے مطابق انہیں اپنے ڈھب پر لایا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

    قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کے بڑے شہروں ڈھاکا، چٹاکانگ، مرشد آباد وغیرہ میں فری میسنری لاجیں قائم تھیں، جن کا تعلق گرینڈ لاج انگلینڈ سے تھا۔ اسی طرح مغربی پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بھی فری میسنری لاجیں کام کر رہی تھیں۔ لاہور، سیالکوٹ، پشاور، راولپنڈی، ملتان، کوئٹہ، حیدرآباد اور کراچی کی لاجیں زیادہ اہم شمار کی جاتی تھیں، لوگوں میں یہ جادو گھر کے نام سے مشہور تھیں۔ ایوب حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے دوران فری میسنوں کے خلاف موثر کارروائیاں کرنے کا مطالبہ پیش کیا گیا۔

    مارچ 1969 میں ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد مارشل لاء لگ گیا، اس دوران عالمی فری میسنری کی ہدایات پر ڈسٹرکٹ گرینڈ لارج لاہور کے ڈسٹرکٹ گرینڈ ماسٹر نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے نام 27 اپریل 1969ء کو ایک خط لکھا گیا، جس میں فری میسنری کے خلاف اٹھنے والی تحریک سے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کیا گیا تھا۔

    1971ء میں ذوالفقار کے دور میں فری میسنری پر پابندی لگانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

    22 جولائی 1972ء کو پنجاب اسمبلی میں ایک قرار داد پاس کر کے مرکزی حکومت کو پیش کی گئی کہ فری میسنری پر پابندی لگائی جائے اور اس کی املاک ضبط کی جائیں۔

    اس مسئلہ کو 21 ستمبر 1972ء کو قومی اسمبلی میں اکوڑہ خٹک کے مشہور عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے قومی اسمبلی میں اٹھایا اور یہ بتایا کہ فری میسنری یہودیوں کی عالمی تنظیم ہے، جس کا مقصد درپردہ صیہونی عزائم کی تکمیل ہے۔ یہ تنظیم عالم اسلام میں ملت مسلمہ کے خلاف مختلف سازشوں اور سرگرمیوں کی آماجگاہ بنی رہی ہے، خلافت اسلامیہ کے زوال اور اسلامی ممالک کے افتراق و بربادی میں اس کا بنیادی حصہ ہے۔

    7 جون 1973ء کو مولانا عبدالحق نے قومی اسمبلی میں فری میسنری پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش کی۔ وہ ابھی تقریر کر رہی رہے تھے کہ مرکزی وزیر داخلہ عبدالقیوم نے اٹھ کر اعلان کیا کہ حکومت نے 6 دسمبر 1972ء کو اس تحریک پر پابندی لگانے اور تمام عمارتوں کو اپنی تحویل میں لے کر تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اس غیر مبہم اعلان پر مولانا عبدالحق نے اپنی قرارداد واپس لے لی، لیکن عالمی میسنری نے بیرونی ذرایع سے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ایسا اقدام نہ کرے۔ جلد عوام کو بھی معلوم ہو گیا کہ حکومت نے فری میسنری پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

    4 جولائی 1973ء کو مولانا عبدالحق نے یہ معاملہ قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق کی صورت میں دوبارہ اٹھایا۔ اسلامی فکر کی حامل جماعتوں کے مسلسل مطالبہ پر حکومت پنجاب نے 2 مئی 1974ء کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے فری میسنری کو غیر قانونی تنظیم قرار دے دیا اور اس کی سرگرمیوں کو امن عامہ کے منافی قرار دیا۔

    3 اگست 1974ء کے نوٹیفیکیشن میں فری میسن اجتماعات پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ کراچی میں پہلے لاج یعنی ہوپ لاج کا سنگ بنیاد 7 ستمبر 1843 کو رکھا گیا۔

    ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں فری میسنری کا دفتر 1973 میں سیل کیا گیا، لیکن اس کے باوجود ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ 1985 میں ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پاکستان سمیت بیشتر اسلامی ممالک میں فری میسنری کی شاخیں اور ” فری میسن لاجز“ قائم تھے۔ اس خفیہ یہودی تنظیم کے حوالے سے انکشافات منظر عام پر آنے کے بعد بیشتر اسلامی ممالک میں اس تنظیم پر پابندی لگائی گئی، اس کے دفاتر سیل اور سرکاری تحویل میں لیے گئے، لیکن یہ تنظیم اب بھی دنیا بھر میں مصروف عمل ہے اور مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ جن ممالک میں اسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، وہاں اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ بظاہر مخیرانہ سرگرمیوں میں مصروف عمل غیر سرکاری تنظیموں میں بہت سی ”فری میسن“ کے مقاصد کی تکمیل کر رہی ہیں۔ فری میسنری خطرناک صیہونی تنظیم ہے، جس کے عزائم خطرناک ہیں، مسلم ممالک میں خونریزی پھیلانے میں فری میسنری کا کافی حد تک عمل دخل ہے۔ فری میسنری متعدد ممالک میں اپنے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر مشرق وسطیٰ سمیت پوری امت مسلمہ کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنا چاہتی ہے اور بہت سے مسلمان ان کی چالوں کا شکار ہوکر اپنے ہی مسلمان ملکوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔


    تحریر: عابد محمود عزام
     

اس صفحے کو مشتہر کریں