1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مسجد نبوی.... ایک نظر میں

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏18 دسمبر 2016۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    مسجد نبوی کی زمین کے اولین مالک: دو یتیم بچے، سہل اور سہیل۔
    قطعہ زمین کی قیمت: سکہ رائج الوقت کے مطابق دس دینار۔
    بنیاد رکھنے والے: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم۔
    مسجد کے دروازے: تین عدد۔
    مسجد نبوی کا رقبہ (اولین تعمیر): 05.5 مربع میٹر
    مسجد نبوی کی اونچائی: 2.9 میٹر۔
    مسجد نبوی میں توسیع: 7ہجری بعد ازفتح خیبر۔
    مسجد کا توسیعی رقبہ: 2475 مربع میٹر۔
    مسجد کی اونچائی: 4.06 میٹر
    تعمیر سوم مسجد نبوی: بعہد حضرت عمر فاروقؓ 17 ہجری
    تعمیر چہارم: بعہد حضرت عثمان غنیؓ 30ہجری
    تعمیر پنجم: بعہد ولید بن عبدالملک (گورنر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز) 91 ہجری۔
    اس توسیعی کام میں قیصر روم نے بھی اعانت کی اور ایک لاکھ مثقال سونا، ایک سو نامور کاریگر، چالیس اونٹ کندہ اور منقش پتھروں کے مدینہ بھجوائے۔
    مسجد نبوی میں پہلی مرتبہ محراب بنائی گئی جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کی جدت تھی، اس سے پہلے مسجدوں میں محراب نہیں ہوا کرتی تھی، مسجد کے چاروں کونوں پر چار مینار تعمیر کیے گئے، جن کی اونچائی اٹھاسی فٹ تھی، توسیع کے بعد مسجد کا رقبہ طولاً و عرضاً تین سو فٹ ہو گیا۔
    تعمیر ششم: بعہد محمد بن عبداللہ المہدی عباسی165 ہجری، اس توسیع میں دس ستونوں کا اضافہ کیا گیا۔
    تعمیر ہفتم: بعہد خلیفہ ملک ناصر الدین اور خلیفہ معتصمم باللہ۔ 655ہجری۔
    تعمیر ہشتم: بعہد ملک ظاہر ابوسعید 835 ہجری، اس موقع پر ریاض الجنة کی چھت تبدیل کی گئی۔
    تعمیر نہم: ترک سلاطین، سلطان محمد خاں اور سلطان عبدالمجید خان۔ 1233ہجری۔
    سلطان محمود نے روضہ اقدس کے گنبد کو از سرِ نو تعمیر کرایا اور 1255 ہجری میں اس نے گنبد پر سبز رنگ کروایا، جس کی وجہ سے اس خوبصورت گنبد کا نام ہی گنبد خضرا پڑ گیا۔
    ترک دور کے بعد
    مسجد نبوی میں پہلی سعودی توسیع شاہ عبدالعزیز بن سعود کے دور میں ربیع الاوّل 1373 ہجری میں ہوئی۔ توسیع کے بعد مسجد نبوی کا رقبہ 16500 مربع میٹر ہو گیا، دروازوں کی تعداد نو اور میناروں کی تعداد چار ہو گئی۔
    سعودی تعمیر کی تفصیلات
    دیوار سے ملحقہ چوکور ستونوں کی تعداد: 474
    گول ستونوں کی تعداد: 232
    مغربی دیوار کا طول: 128 میٹر 416 فٹ
    مشرقی دیوار کا طول: 128میٹر 416 فٹ
    شمالی دیوار کا طول: 91میٹر296 فٹ
    دروازے: نو عدد
    محراب اور ستونوں کی ڈاٹیں: 189
    کھڑکیاں: 44
    دیواروں اور ستونوں کی بنیادوں کی گہرائی: 5 میٹر 16 فٹ۔
    میناروں کی بنیادوں کی گہرائی: 17 میٹر 55 فٹ
    میناروں کی بلندی: 70 میٹر 227 فٹ۔
    سعودی دور کی دوسری توسیع
    یہ توسیع شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے دور میں ہوئی، 85 ہزار مربع میٹر کا مزید اضافہ ہوا، اس کے بعد مزید 5550 مربع میٹر سایہ دار میدان کا اضافہ کیا گیا۔
    تیسری توسیع
    شاہ خالد بن عبدالعزیز کے دور میں ہوئی، اس میں 43000 مربع میٹر کا اضافہ ہوا۔۔
    مسجد نبوی کی تاریخ میں سب سے بڑی توسیع
    شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں ہوئی، توسیع شدہ مسجد کے تین حصے ہیں:۔
    -i تہہ خانہ -ii زمینی منزل -iii پہلی منزل
    تہہ خانہ کی اونچائی 4.10 میٹر اور زمینی منزل کی اونچائی 12.65 میٹر ہے، جبکہ پہلی منزل (بشمول نئی اور پرانی توسیع) برآمدے اور 366 ستونوں پر مشتمل ہے، تہہ خانہ کو مسجد میں بہم پہنچائی جانے والی سہولتوں مثلاً الیکٹروٹیکنیکل کے آلات، ایئر کنڈیشنڈ سسٹم کی مشینری، فائر سسٹم، کمپیوٹرائزڈ نظام اور اسٹور کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ زمینی اور پہلی منزل نماز کے لیے استعمال ہو گی۔ مسجد میں ٹھنڈک پہنچانے کیلئے دنیا کا سب سے بڑا ایئر کنڈیشنڈ پلانٹ مسجد سے سات کلو میٹر دور لگایا گیا ہے، توسیع کے بعد مسجد کا کل رقبہ 98500 مربع میٹر ہو جائے گا، مسجد اور اس کے اردگرد میدانوں میں عہد رسالت کا پورا مدینہ شامل ہو جائے گا۔ مسجد کے گرد میدانوں کا کل رقبہ 235000 مربع میٹر ہے، پہلے مسجد نبوی کے چار مینار تھے، جن کی اونچائی 60 اور 70 فٹ تھی، اس میں چھ میناروں کا اضافہ کیا گیا ہے، اس طرح میناروں کی بلندی 104 میٹر ہے، جبکہ مینار پر بنے ہوئے پیتل کے تاج کی لمبائی 6 میٹر ہے، تہہ خانہ میں ستونوں کی تعداد 2554 ہے، مرکزی صحن یعنی زمینی منزل میں 2174 ستون ہیں، ستونوں کے بالائی حصوں پر پیتل کے منقش تاج لگائے گئے ہیں۔
    دروازے
    مسجد میں داخلے کے چودہ بڑے راستے ہوں گے، جبکہ نو مرکزی گیٹ ہوں گے۔ موجودہ دروازوں کی تعداد سولہ ہے، بہتردروازوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے، اس طرح مسجد کے دروازوں کی کل تعداد 88 ہو جائے گی۔
    سیڑھیاں اور فانوس
    چھت پر جانے کیلئے اٹھارہ عام سیڑھیاں اور چھ برقی سیڑھیاں ہوں گی، مسجد کی خوشنما چھتوں میں لٹکے ہوئے نہایت قیمتی اور دیدہ زیب فانوس مسجد کی خوبصورتی میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ بڑے فانوسوں کی تعداد 68 ہے، ان دائرہ نما فانوسوں کے چاروں طرف کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ ہیں۔
    حجاج کرام کے لیے تقریباً 7996 وضو خانے بھی بنائے جا رہے ہیں، 550 ٹھنڈے پانی کے کولر ہوں گے، اس کے علاوہ 2622 غسل خانے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
    اسطوانات رحمت
    اسطوانات، اسطوانہ کی جمع ہے، اسطوانہ کے معنی ستون کے ہیں، مسجد نبوی میں تاریخی اہمیت کے حامل سات ستون ہیں۔
    -1 اسطوانہ حنانہ: (حنانہ کے معنی رونے والی اونٹنی) یہ کھجور کے اس درخت کی جگہ بنایا گیا، جس کے ساتھ ٹیک لگا کر رسول اللہ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ منبر کی تعمیر ہوئی تو آپ اس پر خطبہ دینے لگے، تب یہ درخت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ، آواز سن کر رحمت دو عالم نے اسے سینے سے لگایا، اس ستون کو منبر کے نیچے دفن کر دیا۔
    -2 اسطوانہ حرس: یہ حضور کے پہرے دار کی جگہ تھی کہ وہ اسی مقام پر نماز بھی ادا کر لیا کرتے تھے۔
    -3 اسطوانہ وفود: باہر سے آنے والے وفود اسی مقام پر آپ کی خدمت میں باریابی حاصل کرتے تھے۔
    -4 اسطوانہ ابی لبابہؓ: اسے اسطوانہ توبہ بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابی لبابہؓ صحابی تھے، ان سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی تھی، اپنے آپ کو سزا دینے کیلئے اس ستون سے باندھ لیا تھا، اس لیے یہ ان سے منسوب ہو گیا۔
    -5 اسطوانہ سریر: سریر کا مطلب بستر اور چارپائی ہے، آنحضرت ﷺ دوران اعتکاف رات کے وقت یہاں استراحت فرماتے تھے۔
    -6 اسطوانہ جبرئیل: یہاں جبرئیل امین وحی لے کر آتے تھے۔۔
    -7 اسطوانہ عائشہؓ: ایک مرتبہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا تھا کہ میری مسجد میں ایک جگہ ایسی بھی ہے کہ اگر لوگوں کو وہاں نماز ادا کرنے کی فضیلت معلوم ہو جائے تو وہ اس جگہ کے لیے قرعہ اندازی کیا کریں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس جگہ کی نشاندہی کی، اس لیے یہ اسطوانہ عائشہؓ کہلایا۔
    منبر
    فتح خیبر کے بعد سامعین کی تعداد میں اضافہ کے باعث 7ہجری میں مسجد نبوی کی تعمیر دوم کے بعد منبر بنایا گیا، جس کے تین زینے تھے، منبر کا طول ایک گز اور چوڑائی نصف گز اور ہر زینے کی چوڑائی بھی نصف گز تھی۔ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں منبر کے لیے غلاف بنایا گیا۔ 50- ہجری میں مدینہ کے حاکم مروان نے چھ زینوں والا منبر بنوا کر منبر نبوی کو اس کے اوپر رکھ دیا۔ 656 ہجری میں شاہ یمن ملک مظفر نے ایک خوبصورت منبر بنوایا اور اسے منبر نبوی کی پرانی جگہ رکھوا دیا، فرمانروائے مصر رکن الدین (658ھ تا 676ھ) نے ایک نہایت دیدہ زیب منبر بنوا کر مسجد نبوی میں رکھوایا۔ پھر ملک ظاہر برقوق (792ھ تا 801ھ) اس کے بعد شاہ مصر ملک اشرف (872ھ تا 902ھ) بعد ازاں سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان مرزا (982ھ تا 1003ھ) نے سنگ مرمر کا بنا ہوا خوبصورت منبر حرم نبوی کے لیے بطور ہدیہ بھجوایا۔
    گنبد خضرا
    1282ءتک روضہ اقدس پر گنبد موجود نہ تھا، مصر کے سلطان محمد قالون الصالحی نے پہلی مرتبہ روضہ اطہر پر گنبد تعمیر کروایا، یہ گنبد لکڑی سے بنایا گیا، جسے شیشے سے ڈھانپا گیا تھا، سلطان قالون کے بیٹے ناصر شاہ نے اس کی تزئین و آرائش کروائی، 1366ءمیں الشریف شبان ابن حسن اور سلطان قائت بائی،1479ءکے دور میں گنبدکی درستی و مرمت کی گئی۔ 1484ءمیں مسجد میں آگ لگ جانے کی وجہ سے گنبد جل گیا، 1485ءمیں سلطان قائت نے دوبارہ تعمیر کرکے اس کی تزئین و آرائش کی۔ 1837ءتک گنبد کا رنگ سبز نہ تھا، اسے البیضا (یعنی سفید) ایفجا اور الزرقاءکے ناموں سے پکارا جاتا تھا، ڈیڑھ صدی پہلے ترکی کے سلطان عبدالمجید نے پہلی دفعہ سبز رنگ کروایا اور پھر اس کا نام گنبد خضرا بعنی سبز گنبد ہی پڑ گیا۔
    محراب
    عہد رسالت اور خلفائے راشدینؓ کے دور میں مسجد میں محراب نہیں تھی، محراب کی تعمیراتی جدت کے بانی حضرت عمر بن عبدالعزیز ہیں۔ ترک عہد میں تعمیر کی گئیں، درج ذیل محرابیں مسجد نبوی میں موجود ہیں۔
    1 محراب النبی: جہاں کھڑے ہو کر حضور نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔
    2 محراب سلیمانی: 938 ہجری میں سلطان سلیمان نے تعمیر کروائی۔
     
    پاکستانی55، چھٹا انسان اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ


    وجزاک اللہ العظیم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں