1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مرزا غالب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏10 اگست 2016۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:

    ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں __ اور
    مرزا غالب 27 دسمبر 1797ءکو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے مرزا غالب نے 15 فروری 1869ءکو دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔

    تیرہ برس کی عمر میں غالب کی دہلی کے ایک علم دوست گھرانے میں شادی ہوئی اور یوں غالب دلی چلے آئے جہاں انہوں نے اپنی ساری عمر بسر کردی۔ غالب نے اپنی زندگی بڑی تنگ دستی اور عسرت میں گزاری مگر کبھی کوئی کام اپنی غیرت اور خودداری کے خلاف نہ کیا۔
    ءمیں ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر ہوئے جن کے دربار سے انہیں نجم الدولہ دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔ جب 1857ءمیں بہادر شاہ ظفر قید کرکے رنگون بھیج دیئے گئے تو وہ نواب یوسف علی خاں والی ¿ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے انہیں آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا
    غالب فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے عظیم شاعر تھے جتنی اچھی شاعری کرتے تھے اتنی ہی شاندار نثر لکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی۔ غالب سے پہلے خطوط بڑے مقفع اور مسجع زبان میں لکھے جاتے تھے انہوں نے اسے ایک نئی زبان عطا کی اور بقول انہی کے ”مراسلے کو مکالمہ بنادیا“۔
    مرزا غالب
    اور ادبی طنز و مزاح.
    مرزا غالب شطرنج کے بڑے شوقین تھے۔ مولانا فیض الحسن سہارنپوری دلی میں نئے نئے آئے تھے۔ غالب کو پتا چلا کہ وہ بھی شطرنج کے اچھے کھلاڑی ہیں تو انہیں دعوت دی اور کھانے کے بعد شطرنج کی بساط بچھا دی۔ ادھر سے کچھ کوڑا کرکٹ ڈھونے والے گدھے گزرے تو
    مولانا نے کہا “دلی میں گدھے بہت ہیں!“
    مرزا غالب نے سر اٹھا کر دیکھا اور بولے “ہاں بھائی، باہر سے آ جاتے ہیں۔“
    غالب کی مفلسی کا زمانہ چل رہا تھا، پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی اور قرض خواہ مزید قرض دینے سے انکاری۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک شام انکے پاس پینے کیلیے بھی پیسے نہ تھے، مرزا نے سنِ شعور کے بعد شاید ہی کوئی شام مے کے بغیر گزاری ہو، سو وہ شام ان کیلیے عجیب قیامت تھی۔
    مغرب کی اذان کے ساتھ ہی مرزا اٹھے اور مسجد جا پہنچے کہ آج نماز ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اتنی دیر میں انکے کے دوست کو خبر ہوگئی کہ مرزا آج "پیاسے" ہیں اس نے جھٹ بوتل کا انتظام کیا اور مسجد کے باہر پہنچ کر وہیں سے مرزا کو بوتل دکھا دی۔
    مرزا، وضو کر چکے تھے، بوتل کا دیکھنا تھا کہ فورا جوتے پہن مسجد سے باہر نکلنے لگے۔ مسجد میں موجود ایک شناسا نے کہا، مرزا ابھی نماز پڑھی نہیں اور واپس جانے لگے ہو۔
    مرزا نے کہا، قبلہ جس مقصد کیلیے نماز پڑھنے آیا تھا وہ تو نماز پڑھنے سے پہلے ہی پورا ہو گیا ہے اب نماز پڑھ کر کیا کروں گا۔
     
    پاکستانی55 اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بس مجھے اس جملے سے اختلاف ہے ، بحیثیت شاعر غالب کی اہمیت بلکہ تمام شعراء اکرام پر سرداری مسلم ہے ۔ مگر زندگی کے دوسرے کسی بھی معاملے میں وہ ایک عام سے آدمی کے برابر بھی نہیں ۔ جناب امیر خسرو بھی دربار سے منسلک تھے اور مزے کی بات ہے کہ دونوں کے مزارات بھی پاس پاس ہیں ، مگر اللہ نے جو رونق امیر خسرو کے مزار پر بخشی ہے اُس کی کوئی مثال نہیں ، جبکہ لوگ غالب کی قبر تک بھولتے جا رہے ہیں ۔ ۔ ۔
     
  3. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    بات ان کے کردار کی نہیں ۔۔ بات شاعری کی ہے ۔۔کہتے ہیں کے اچھے صدقعہ جاریہ ہوتا ہے ۔۔ امیر خسرو کے مزار کا تعلق ہے وہاں پر جو کچھ ہوتا ہے ۔۔ کیا وہ ان کی روح کو سکوں دیتا ہوگا ۔۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بحیثیت شاعر تو میں نے غالب کی سرداری تسلیم کی ہے ۔ ۔ ۔ آپ کی بات بھی درست ہے صرف امیر خسرو ہی کیا ہم لوگوں نے اپنے تمام بزرگوں کی مقابر کو مزارات بنا کر وہاں وہ وہ بیہودگیاں کی ہیں کہ الآمان ۔ ۔ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں