1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

محسن نقوی صاحب کی شاعری ۔۔ پڑھیے اور شئیر کیجئے

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از ساگراج, ‏6 اکتوبر 2008۔

  1. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    :salam:
    میں آج سے یہ ایک نئی لڑی شروع کر رہا ہوں، جس میں سب دوست محسن نقوی صاحب کا کلام پیش کر سکتے ہیں۔
    امید ہے سب دوست یہاں تشریف لا کر شکریہ کا موقع دیں گے۔
    والسلام

    ساگراج
    :dilphool:
     
    عتیق انصاری اور عارف علی سندھو .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
    حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

    کیا جانیئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے؟
    خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر

    اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہونگے
    وہ جھوٹ نہ بولے گا میرے سامنے آ کر

    اب دستکیں دے گا تو کہاں اے غمِ احباب
    میں نے تو کہا تھا کہ مرے دل میں رہا کر

    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

    وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
    ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
     
    عارف علی سندھو نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ھے
    وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ھے

    یہ تجھ کو جاگتے رھنے کا شوق کب سے ھوا
    مجھے تو خیر ترا انتظار کرنا ھے

    وہ مسکرا کے وسوسوں میں‌ڈال گیا
    خیال تھا کہ اسے شرمسار کرنا ھے

    ترے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے
    کہ شغل شب تو ستارے شمار کرنا ھے

    خدا خیر یہ کوئی ضد کہ شوق ھے محسن
    خود اپنی جاں کے دشمن سے پیار کرنا ھے
     
    عارف علی سندھو نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    اس سے پہلے میں نے محسن نقوی صاحب کو اتنا نہیں‌پڑھا تھا۔ چند دوستوں کے کہنے پر جب پڑھنا شروع کیا ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے ان کی شاعری ہےہی میرے لیئے ۔
    ہر شعر دل کی گہرائی میں اتر جاتا ہے۔
    شکریہ خوشی خوبصورت غزل شئیر کرنے کا۔
    :dilphool:
     
  5. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ھے
    ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ھے

    یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
    وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ھے

    میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ھوا سا رھتا ھوں
    کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ھے

    کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ھے عشق ترا
    یہ زہر دل میں اتر کر ہی راس آتا ھے

    اسے گنوا کے میں زندہ ھوں اس طرح محسن
    کہ جیسے تیز ھوا میں چراغ جلتا ھے
     
    عارف علی سندھو نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    کیا بات ہے ساگراج بھائی، بہت عمدہ لڑی شروع کی ہے (اور شروعات بھی عمدہ کی ہے) :101:
     
    عارف علی سندھو نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    تعزیرِ اہتمامِ چمن کون دے گیا
    مجھ کو گلاب جیسا کفن کون دے گیا

    دیکھے جو خدّوخال تو سوچا ہے بارِہا
    صحرا کی چاندنی کو بدن کون دے گیا

    میری جبیں کی ساری لکیریں تیری عطا
    لیکن تِری قبا کو شکن کون دے گیا

    تیرے ہنر میں خلقتِ خوشبو سہی مگر
    کانٹوں کو عمر بھر کی چبھن کون دے گیا

    جنگل سے پوچھتی ہے ہواؤں کی برہمی
    جگنو کو تیرگی میں کرن کون دے گیا

    کس نے بسائے آنکھ میں اشکوں کے قافلے
    بے گھر مسافروں کو وطن کون دے گیا

    تجھ سے تو ہر پَل کی مسافت کا ساتھ تھا
    میرے بدن کو اتنی تھکن کون دے گیا

    توڑا ہے کس نے نوکِ سناں پر سکوتِ صبر
    لب بستگی کو تابِ سخن کون دے گیا

    محسن وہ کائناتِ غزل ہے اُسے بھی دیکھ
    مجھ سے نہ پوچھ مجھ کو یہ فن کون دے گیا​
     
    عارف علی سندھو نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    واہ واہ بہت اچھے
     
  9. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    عذاب دید میں‌آنکھیں لہو لہو کرکے
    میں شرمسار ھوا تیری جستجو کرکے

    سنا ھے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ھے
    چلیں گے ھم بھی مگر پیرہن رفو کرکے

    یہ کس نے ھم سے لہو کا خراج پھر مانگا
    ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے

    اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ھے
    ھماری آنکھ تری دید سے وضو کرکے

    کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن
    ملا ھے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کرکے
     
  10. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    این آر بھائی بہت شکریہ حوصلہ افزائی کا اور اتنی خوبصورت غزل شیئر کرنے کا۔
    خوشی آپ بھی بہت ہی خوبصورت غزلیں شئیر کر رہی ہو۔ بہت شکریہ۔
    جزاک اللہ
    :dilphool:
     
  11. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    :a191:

    آپ نے موقع فراہم کیا محسن جی کی لڑی بنا کر
     
  12. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    :a191:
    بالکل۔
     
  13. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    بہت اعلی بھئی۔
     
  14. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    اک دیا دل میں جلانا بھی بجھا بھی دینا
    یاد کرنا بھی اسے روز بھلا بھی دینا

    خط بھی لکھنا اسے مایوس بھی رھنا اس سے
    جرم کرنا بھی مگر خود کو سزا بھی دینا

    مجھ کو رسموں کا تکلف بھی گوارہ لیکن
    جی میں‌آئے تو یہ دیوار گرا بھی دینا

    کیا کہوں یہ مری چاہت ھے کہ نفرت اس کی
    نام لکھنا بھی مرا لکھ کے مٹا بھی دینا

    صورت نقش قدم دشت میں رھنا محسن
    اپنے ھونے سے نہ ھونے کا پتہ بھی دینا
     
  15. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    واہ۔
     
  16. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    کس نے سنگِ خامشی پھینکا بھرے بازار پر؟
    اک سکوتِ مرگ طاری ہے در و دیوار پر

    تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
    مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جراءتِ اظہار پر

    شاخِ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
    جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر

    سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول
    میں نے دیکھا ہے نیا منظر فرازِ دار پر

    اب کوئی تہمت بھی وجہِ کربِ رسوائی نہیں
    زندگی اک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر

    میں سرِ مقتل حدیثِ زندگی کہتا رہا
    انگلیاں اٹھتی رہیں محسن مرے کردار پر​
     
  17. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    واہ اچھا ھے
     
  18. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ھر رستہ سنسان ھوا
    اپنا کیا ھے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ھوا

    یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
    سوچ رھا ھوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ھوا

    صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ھوئیں
    مفت میں ھم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ھوا

    اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
    جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ھوا


    یوں بھی کم آمیز تھا محسن وہ اس شہر کےلوگوں میں
    لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ھوا
     
  19. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    خوشی اور این آر بی بھائی دونوں کا جزاک اللہ

    محسن نقوی صاحب میری سوچ سے بھی زیادہ خوبصورت شاعرثابت ہو رہےہیں۔ اور آپ دونوں دوست اس لڑی پر شفقت فرما رہے ہو ۔ بہت شکریہ۔
    :dilphool:
     
  20. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    کچھ اس ادا سے میرے یار سر کشیدہ ہوئے
    کہ فتح پا کے بھی قاتل علم دریدہ ہوئے

    عجیب طور سے ڈوبا ہے ڈوبنے والا
    کہ ساحلوں کے بگولے بھی آبدیدہ ہوئے

    جو اپنے سائے کی قامت سے خوف کھاتےہیں
    ہمارے بعد وہی لوگ برگزیدہ ہوئے

    میں چپ رہا تو اٹھیں‌مجھ پہ انگلیاں کیا کیا
    زباں ملی تو مرے حرف ناشنیدہ ہوئے

    ہماری لاش سے گزرے تو بے خبر گزرے
    وہ جن کے نام پہ ہم لوگ سربریدہ ہوئے

    جنھیں غرور تھا اپنی ستمگری پہ بہت
    ستم تو یہ ہے کہ وہ بھی ستم رسیدہ ہوئے

    عصائے حق ہے میسر نہ تختِ دل محسن
    ہم ایسے لوگ بھی کس سن میں سن رسیدہ ہوئے
     
  21. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    :a180: :a165:
     
  22. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    :a191:
     
  23. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    ذکر شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی
    میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

    مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
    رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی

    اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو
    مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی

    مجھ سے بچھڑ کے شہر میں‌ گل مل گیا وہ شخص
    حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی

    وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
    ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی

    سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
    شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

    تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پر کھلا یہ بھید
    سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی

    محسن میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حالِ دل
    درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
     
  24. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    واہ واہ، بہت خوب ساگراج بھائی۔
     
  25. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    رُوٹھا تو شہرِ خواب کو غارت بھی کر گیا
    پھر مسکرا کے تازہ شرارت بھی کر گیا

    شاید اُسے عزیز تھیں آنکھیں میری بہت
    وہ میرے نام اپنی بصارت بھی کر گیا

    [glow=red:3lpfy8wv]مُنہ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اِک چراغ
    پیدا میرے لہو میں حرارت بھی کر گیا[/glow:3lpfy8wv]
    بوسیدہ بادبان کا ٹکڑا ہوا کے ساتھ
    طوفاں میں کشتیوں کی سفارت بھی کر گیا

    دِل کا نگر اُجاڑنے والا ہنر شناس!
    تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کر گیا

    سب اہلِ شہر جس پہ اُٹھاتے تھے اُنگلیاں
    وہ شہر بھر کو وجہِ زیارت بھی کر گیا!

    محسن یہ دِل کہ اُس سے بچھڑتا نہ تھا کبھی
    آج اُس کو بھولنے کی جسارت بھی کر گیا​
     
  26. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    این آر بی بھائی بہت خوب
    بہت خوبصورت غزل ہے شئیر کرنے پر شکریہ۔
    :dilphool:
     
  27. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    لہو سے دل کبھی چہرے اجالنے کے لئے
    میں جی رہا ہوں اندھیروں کو ٹالنے کےلئے

    اتر پڑے ہیں پرندوں کے غول ساحل پر
    سفر کا بوجھ سمندر میں ڈالنے کےلئے

    سخن لباس پہ ٹھہرا تو جوگیوں نے کہا
    کہ آستیں ہے فقط سانپ پالنے کےلئے

    میں سوچتا ہوں کبھی میں بھی کوہکن ہوتا
    ترے وجود کو پتھر میں ڈھالنے کے لئے

    کسے خبر کہ شبوں کا وجود لازم ہے
    فضا میں چاند ستارے اچھالنے کےلئے

    بہا رہی تھی وہ سیلاب میں جہیز اپنا
    بدن کی ڈوبتی کشتی سنبھالنے کےلئے

    وہ ماہتاب صفت' آئینہ جبیں محسن
    گلے ملا بھی تو مطلب نکالنے کےلئے
     
  28. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    واہ ساگراج بھیا ۔۔ساری کی ساری غزل بہت عمدہ ہے۔۔۔ :a165:
     
  29. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    بہت مہربانی بہن جی اور شکریہ آپ کی تشریف آوری کا۔ آپ کی طرف سے ملنے والی داد سے بہت حوصلہ ملتا ہے۔ :dilphool:
     
  30. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

    سجا کے سر پہ ستاروں کے تاج رکھتا ھے
    زمیں پہ بھی وہ فلک کا مزاج رکھتا ھے

    سنورنے والے سدا آئینے کو ڈھونڈتے ھیں
    بچھڑ کے بھی وہ مری احتیاج رکھتا ھے

    صبا خرام خزاں پیرہن بہار بدن
    وہ موسموں کا عجب امتزاج رکھتا ھے

    ہم اس کے حسن کو تسخیر کرکے دیکھیں‌گے
    جبیں پہ کون شکن کا خراج رکھتا ھے

    چرا کے آنکھ میں‌کچھ خواب رکھ لیے محسن
    کسان جیسے بچا کے اناج رکھتا ھے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں