1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ماضی کے دو دشمن اب دو بڑے بزنس ٹائیکون

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏21 جنوری 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    ماضی کے دو دشمن اب دو بڑے بزنس ٹائیکون
    [​IMG]

    یہ کامیابی کی ایک پوری داستان ہے، لگ بھگ 18 برس قبل میاں عامر محمود کے کالج میں چودھری عبد الرحمٰن عام سے استاد تھے۔ میاں عامر نے کسی بات پر ناراض ہو کر چودھری عبد الرحمن کو اپنے کالج سے نکال دیا اورچودھری صاحب لمحوں میں بے روزگار ہو کر سڑک پر آ گئے۔ اس وقت انہوں نے میاں عامر سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ بدلہ مثبت سوچ کے ساتھ تھا۔ چودھری صاحب نے فیصلہ کیا کہ جس میاں عامر نے انہیں اپنی نظروں سے دور جانے کا کہا ہے وہ اسی میاں عامر کو ہر میدان میں بار بار نظر آئیں گے اور اتنا نظر آئیں گے کہ میاں عامر کے لئے انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہ رہے گا۔ جس میاں عامر نے انہیں اپنے کالج سے نکالا تھا انہوں نے اسی کے مقابلے میں اکیڈمی کھول لی۔ اس وقت یہ ہاتھی کے سامنے چیونٹی کی معمولی سی جسارت تھی ۔

    میاں عامر کامیابی کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ یہ لاہور کے طاقتور میئر بنے، انہوں نے پنجاب گروپ آف کالجز کے نام سے اپنے کالجز کی چین بنا لی، پھر انہوں نے اپنا ٹی وی چینل کھول لیا اور اس کے بعد دنیا اخبار بھی شروع کر دیا۔ یہ قسمت کے دھنی تھے ۔ انہوں نے مٹی میں بھی ہاتھ ڈالاتو وہ سونا بن گیا ۔ انہیں آج تک کسی کاروبار میں قابل ذکر نقصان نہیں ہوا۔ ان کے کالج کامیاب ہوئے، ان کا نیوز چینل کامیاب ہوا اور ان کا اخبار بھی ایک بڑے اخبار کے طور پر سامنے آیا۔

    اس وقت تک چودھری عبد الرحمٰن کو ان کے چند دوستوں کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا لیکن وہ مسلسل خود کو منوانے پر تلے ہوئے تھے۔ انہوں نے اکیڈمی بنائی، سکول کھول اور پھر ایک دن سپیریر گروپ آف کالجز کے نام سے اپنے کالجز کی چین بنا لی۔ یہ میاں عامر کو ان کا پہلا باقاعدہ جواب تھا کہ جس چودھری عبد الرحمن کو میاں عامر ناکام استاد سمجھتا تھا وہی چودھری عبد الرحمن پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کے بعد لوگوں کو پی ایچ ڈی کی تعلیم دے رہا تھا اور میاں عامر کے کالجز کے مقابلے میں اپنی یونیورسٹی تک کھڑی کر چکا تھا۔

    چودھری عبد الرحمن نے پھر "نئی بات" کے نام سے اخبار شروع کیا۔ یہ میاں عامر کو ان کے اخبار کا جواب تھا کہ اگر میاں عامر اخبار کا مالک ہے تو چودھری عبد الرحمن بھی اسی صف میں ہے۔

    اس کے بعد چودھری عبد الرحمن نے نیو چینل کا آغاز کیا۔ یہ میاں عامر کو دنیا نیوز کا جواب تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں عامر کا ستارہ مسلسل روشن ہے اور وہ آگے بڑھتے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔ چودھری عبد الرحمن تعلیمی میدان میں ان سے زیادہ آگے جا چکے ہیں کہ ان کا ادارہ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں اور عالمی ریسرچ کانفرنسز کی جانب بھی چل نکلا ہے۔ میڈیا کے میدان میں وہ ابھی میاں عامر سے کچھ پیچھے ہیں لیکن چودھری عبد الرحمن پھر بھی اس جنگ کے فاتح بن چکے ہیں۔ میاں عامر کے ادارے سے نکالے جانے والا ایک معمولی ملازم اس حد تک اپنا قد کاٹھ بلند کر چکا ہے کہ اب اس کی گاڑی میاں عامر کی گاڑی سے کہیں مہنگی ہے۔

    17 سال کی اس اعصاب شکن جنگ کے بعد چودھری عبد الرحمن کی کامیابیوں نے میاں عامر کو بھی مجبور کر دیا۔ 17 برس بعد دونوں کی ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات چودھری عبد الرحمن کے ڈیرے یعنی ادارے میں ہوئی ۔ انہوں نے اپنے ٹی وی چینل کے لئے ایک بڑے پروگرام کا آغاز کیا اور اس کی تقریب میں میاں عامر محمود ان کے ہمراہ کھڑے نظر آئے ۔ برف پگھل چکی ہے ۔ ماضی کے دود شمن اب دو بڑے بزنس ٹائیکون کے طور پر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں ۔ تقدیر انہیں سترہ برس بعد پھر ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے لیکن اب چودھری عبد الرحمن کی پوزیشن ملازم کی بجائے برابر کے ہاتھی کی سی ہے ۔ انہیں یہ جنگ جیتنے میں سترہ برس لگے ۔ ممکن تھا سترہ برس قبل اپنی تذلیل کو وجہ بنا کر وہ میاں عامر کو نقصان پہنچاتے اور خود جیل پہنچ جاتے۔ انتقام انسان کو ایسے ہی اقدامات پر ابھارتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اس وقت چودھری عبد الرحمن یا تو عمر قید پوری کر کے ایک ناکام انسان کے طور پر گمنامی کی دلدل میں ڈوب چکے ہوتے ۔ ان کی قسمت اچھی تھی کہ ان کا یہ انتقام ہی ان کی طاقت بن گیا۔ میں ان دونوں کی سترہ برس بعد ہونے والی ملاقات کی تصویر دیکھ کر سوچتا رہا کہ اس تصویر کے پیچھے ایک ایسے انتقام کی کہانی چھپی ہے جس نے بے روزگار ہونے والے استاد کو طاقتور اور امیر انسان بنا دیا ۔ یہ محض ایک تصویر نہیں ہے بلکہ نوجوانوں کے لئے ایک اہم سبق ہے ۔ انتقام بری چیز ہے لیکن یہی انتقام طاقت بن جائے تو انسان کی زندگی بدل دیتا ہے۔

    نوٹ: بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں، متفق ہونا ضروری نہیں۔

    تحریر: سید بدر سعید
    21 جنوری 2017
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں