1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لوگوں کو چاہئے کہ بادشاہوں کو برا کہنے میں مشغول نہ ہوں

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏1 جنوری 2018۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حدیث قدسی:

    مشکوٰۃ شریف کے ص 315 میں حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ میں اﷲ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے دست قدرت میں ہیں ۔جب لوگ میری تابعداری کریں، میں بادشاہوں کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب میری مخالفت کریں تو ان کے دلوں کو عذاب اور غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو سخت ایذائیں دیتے ہیں تو لوگوں کو چاہئے کہ بادشاہوں کو برا کہنے میں مشغول نہ ہوں بلکہ ذکر اور عاجزی اختیار کریں پھر بادشاہوں کی طرف سے میں کافی ہوجائوں گا، یعنی وہ رعایا کے ساتھ سلوک و محبت سے پیش آئیں گے

    (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الامارۃ والقضائ، الفصل الثالث، حدیث نمبر 3721، جلد 2،ص 12)
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    بادشاہ ہمیشہ معصوم لوگوں کو قتل کرتا ہے بہت زیادہ ٹیکس ،،، چپ رہو اوردیکھو
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے کہہ رہے ہو یا حدیث قدسی کا جواب دے رہے ہو
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    بادشاہ سلیمان سعودی عرب
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس سے بھی پوچھنے والا شہنشاہوں کا شہنشاہ اوپر موجود ہے
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    وہ کس طرح پوچھتا ہے
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے آپ کی سمجھ نہیں آئی
    اللہ کے فرمان پر بھی آپ کو اعتراض ہے
    ایک بار پھر سے پڑھ لو

    حدیث قدسی:

    مشکوٰۃ شریف کے ص 315 میں حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ میں اﷲ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے دست قدرت میں ہیں ۔جب لوگ میری تابعداری کریں، میں بادشاہوں کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب میری مخالفت کریں تو ان کے دلوں کو عذاب اور غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو سخت ایذائیں دیتے ہیں تو لوگوں کو چاہئے کہ بادشاہوں کو برا کہنے میں مشغول نہ ہوں بلکہ ذکر اور عاجزی اختیار کریں پھر بادشاہوں کی طرف سے میں کافی ہوجائوں گا، یعنی وہ رعایا کے ساتھ سلوک و محبت سے پیش آئیں گے

    (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الامارۃ والقضائ، الفصل الثالث، حدیث نمبر 3721، جلد 2،ص 12)
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    دین اسلام کی بنیاد قرآن و حدیث ہیں۔ جس کی تعبیر و تشریع اصحاب کباررضوان اللہ عنھم سے لے کر تازمانہ ہمیشہ دقیق علوم و فنون کے ماہرین یعنی مفسرین و محدثین کرام کرتے رہے ہیں۔ ان میں جن امور پر امت مسلمہ کے آئمہ کرام کی اکثریت کا اتفاق ہو وہ امور، وہ عقائد، وہ نظریات و احکامات "اجماعِ امت" کہلاتے ہیں۔ البتہ عصر حاضر میں جب کہ اسلامی اقدار ہر شعبہ میں زوال پذیر ہیں اندریں حالات سعودی و نجدی مکتبہ فکر کی طرف امت مسلمہ میں متفقہ عقائد میں فتنہ گری کا عمل جاری ہے۔ ایسے دیگر فتنوں میں سے ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ ایک آدھ آیت یا حدیث کو پکڑ کر "مخصوص مفادات" کے تحت اسے کل دین بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
    بلاشبہ قرآنی آیات و فرموداتِ رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم بالکل حق ہیں۔ کسی مسلمان کے لیے تعارض و رد کرنے کی گنجائش نہیں۔ لیکن قران مجید و احادیث مبارکہ میں سے شریعت کے بنیادی اصول و عقائد اخذ کرنا اور انکی صحیح تطبیق کرنا ایک وسیع علم ہے اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر تاحال ہر زمانہ میں مفسرین کرام و محدثین عظام کا سلسلہ جاری ہے ۔
    قرآن و حدیث میں کسی مسلم حکمران کو "مسندِ اقتدار" تک پہنچنےکے جہاں بنیادی مشاورتی اصول واضح ہیں۔ وہیں اسکی اطاعت کی حدود بھی متعین ہیں۔ اور احکاماتِ دین سے بغاوت یا اعراض کی صورت میں حکمرانانِ وقت (وہ چاہے خلیفہ ہو، بادشاہ ہو، سربراہِ حکومت ہو) سے اختلاف اور اسکے خلاف پرامن جدوجہد کی بھی واضح راستے متعین ہیں۔
    اس لیے جب تک اسلامی ریاست میں حکمران اسلامی طریقہ کار کے مطابق منتخب ہو ۔۔ اسکی اطاعت کے احکامات اور ہیں۔
    اور اگر اسلامی ریاست میں کوئی ظالم غاصب جعل سازی، عدمِ مشاورت، اور محض ظلم، جبر، فراڈ اور دھاندلی سے ناحق مسندِ اقتدار پر قابض ہوجائے تو اسکے اقتدار سے باہر کرنے اور اسکی جگہ شریعتِ اسلامیہ کے تقاضوں کے مطابق نظام حکومت قائم کرنے کی پرامن جدوجہد کے احکامات بھی موجود ہیں۔
    اوپر بیان کی گئی حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں بادشاہ سے مراد عین اسلامی تقاضوں کے مطابق جموری مشاورتی طریقہ سے اقتدار میں آئے ہوئے حکمران کی طرف اشارہ ہے کہ اسے برا بھلا مت کہا جائے۔
    جبکہ خاندانی بادشاہت، عدمِ مشاورت اور دھن دھونس دھاندلی اور جبروظلم سے اقتدار پر قابض ہونے والے ظالم و جابر حکمران کے خلاف ، عامۃ المسلمین کے مفادِ عامہ میں کلمہ حق بلند کرنے کی نفی نہیں ہے۔ بلکہ ایسے ظالم و غاصب حکمران کے خلاف پرامن جدوجہد اور اعلائے کلمۃ الحق کہنا ہی عین اسلام ہے ۔۔
    البتہ مسلم حکمران کے خلاف قتال و خروج کی اجازت نہیں تاوقتیکہ حکمران اور اسکے طرزِ حکومت کا "کفر" واضح نہ ہوجائے۔
     
    پاکستانی55 اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نعیم بھائی آپ کی تمام وضاحت محترم و مکرم ہے لیکن حدیث میں قطعی شرعی اصولوں پر رائج حکمران کا ذکر نہیں
    بلکہ یہاں پر قرآن کی ایک آیت شیئر کرنا چاہونگی
    ومااصابکم مصیبۃ فیما کسبت ایدکم
    (سورہ شوری پارہ ۲۵ آیت ۳۰)
    ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا۔


    مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں‘ اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔ ان تکلیفوں کو اﷲ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے رفع ودرجات کے لئے ہوتی ہے۔

    محترم بھائ! درج بالا حدیث قدسی آپ نے پڑھی۔ اسے پڑھنے کے بعد آپ ذرا غور کریں کہ جن حکمرانوں کو ہم ظالم و جابر کہتے ہیں۔ یہ کہاں سے آئے؟ کس قوم میں سے آئے؟
    تو جواب یہی آئے گا کہ یہ ہم ہی میں سے آئے۔ یہ ہمارے ہی درمیان پلے بڑے اور آج حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ پھر یہ اتنے ظالم کیسے بن گئے؟ اقتدار میں آنے سے قبل تو یہ ہمارے درمیان نظر آتے تھے۔ ہمارے دکھوں کو اپنا دکھ قرار دیتے تھے، مہنگائی، کرپشن اور ظلم کو ختم کرنے کے ہم سے وعدے کرتے تھے مگر اقتدار میں آتے ہی یہ اتنے ظالم کیسے بن گئے؟

    حدیث قدسی میں اس کا جواب موجود ہے۔
    رب تعالیٰ فرماتا ہے جب لوگ میری اطاعت کریں تو میں بادشاہوں (حکمرانوں) کے دلوں میں رحمت اور نرمی ڈال دیتا ہوں اور جب لوگ میری نافرمانی کریں تو حکمرانوں کے دلوں کو غضب کی طرف پھیر دیتا ہوں پھر وہ ان کو (قوم کو) سخت ایذائیں دیتے ہیں۔
    معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کے سبب حکمران قوم کو تکالیف پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ حجاج بن یوسف خدا کی طرف سے ایک آزمائش تھا جو بندوں پر گناہوں کے موافق آیا ۔
    (تنبیہ المغترین، الباب الاول، صبرہم علی جور الحکام ص 42)
    سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ ہمیں ظالم حکمرانوں کے نقصان سے بچنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔
    امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تجھے ظالم بادشاہ کے ساتھ ابتلاء واقع ہوجائے اور اس کے سبب سے تیرے دین میں نقصان پیدا ہوجائے تو اس نقصان کا کثرت استغفار کے ساتھ تدارک کر اپنے لئے اور اس ظالم بادشاہ کے لئے ۔
    (تنبیہ المغترین، الباب اول، صبرہم علی جورالحکام، ص 42)


    معلوم ہوا کہ ظالم حکمرانوں کو برا کہنے کے بجائے ہم اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن جائیں۔ اس کی بارگاہ میں سچی اور پکی توبہ کریں۔ اس کے دربار میں سربسجود ہوجائیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوجائیں۔
    ذرا سوچئے! ہم جن مصیبتوں میں مبتلا ہیں خصوصاً مہنگائی‘ بے برکتی‘ تنگ دستی‘ ذلت و رسوائی‘ مہلک بیماریاں‘ دشمن کا خوف‘ ظالم حکمران‘ لوڈشیڈنگ‘ نافرمان اولاد ، کہیں یہ مصیبتیں درج ذیل گناہوں کی وجہ سے تو نہیں…؟؟؟

    ۱۔ ہم نے نمازوں کو بوجھ جان کر اسے وقت پر باجماعت ادا کرنا چھوڑ دیا۔
    ۲۔ روزے ہم اس لئے ترک کردیتے ہیں کہ ہمیں بھوک اور پیاس برداشت نہیں ہوتی۔
    ۳۔ ہم زکوٰۃ کو ٹیکس سمجھتے ہیں اور اسے پوری طرح ادا نہیں کرتے۔
    ۴۔ ہم نے رمضان کے عمرے کو فیشن بنالیا اور فرض حج کو مشقت کا باعث سمجھ کر اسے ترک کردیا۔
    ۵۔ والدین نے اپنی اولاد کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت نہیں کی۔
    ۶۔ اولاد ماں باپ کو بوجھ سمجھتی ہے اور انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتی۔
    ۷۔ بھائی اپنے سگے بھائی سے فقط مال کی وجہ سے محبت اور غریب بھائی سے تعلقات بھی نہیں رکھتا۔
    ۸۔ سگی بہن اگر غریب ہے تو بھائی اس کے گھر جانا بھی گوارا نہیں کرتا۔
    ۹۔ والدین اپنی مالدار اولاد کو غریب اولاد پر ترجیح دیتے ہیں۔
    ۱۰۔ بیوی شوہر کا قبلہ بن چکی ہے۔
    ۱۱۔ بیوی اپنے شوہر کی ناشکری بن چکی ہے۔
    ۱۲۔ نوجوان لڑکا باپ کو دور اور دوست کو قریب کرتا ہے۔
    ۱۳۔ والدین اپنی نوجوان اولاد اور بہو کے ساتھ بیٹھ کر فلمیں‘ ڈرامے دیکھتے ہیں۔
    ۱۴۔ موسیقی عام ہوچکی ہے‘ کوئی بھی مسلمان اپنے کانوں کو موسیقی سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔
    ۱۵۔ دعوتوں میں بے دریغ کھانا پھینکا جاتا ہے۔
    ۱۶۔ خود پسندی بڑھ رہی ہے‘ ہر چیز میں دکھاوا پیدا ہوچکا ہے۔
    ۱۷۔ مال کمانے کی لالچ بڑھتی جارہی ہے‘ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ حلال ہے یا حرام
    ۱۸۔ لسانیت کی بنیاد پر بھائی بھائی کے اوپر اسلحہ تانے کھڑاہے۔
    ۱۹۔ جس مومن کی عزت کو بیت اﷲ سے بھی بڑھ کر فرمایا اس کو سرعام گولیاں ماری جاتی ہیں۔
    ۲۰۔ مسلمان بھائی کا مال دوسرے مسلمان پر حرام ہے‘ مگر اس کے باوجود اسلحہ کے زور پر دوسرے مسلمان کو لوٹ لیا جاتا ہے۔
    ۲۱۔ اخبارات پر مقدس نام اور کلمات لکھے ہوتے ہیں مگر ہم چند روپے کے عوض اسے ردی میں فروخت کردیتے ہیں۔
    ۲۲۔ نقص والے مال کو اچھا ظاہر کرکے اپنے بھائی کو دھوکہ دیکر فروخت کرتے ہیں۔
    ۲۳۔ حسد اور عداوت کی بناء پر اپنے ہی مسلمان بھائی پر‘ اس کے گھر پر اور کاروبار پر کالا علم کرواتے ہیں۔
    ۲۴۔ سیٹھ صاحب اپنے ملازمین کو ان کا اصل حق نہیں دیتے۔
    ۲۵۔ ملازمین اپنے سیٹھ سے تنخواہ لینے کے باوجود سیٹھ کی جانب سے منگوائی جانے والی اشیاء پر کمیشن رکھتے ہیں۔
    ۲۶۔ رعایا کی نیت خراب ہوچکی ہے جبکہ حکمران عیاش اور مکار ہوچکے ہیں۔
    ۲۷۔ میڈیا پر بے دریغ اسلام اور شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
    ۲۸۔ مسلمان اپنے علماء کی غیبت کرتے ہیں اور ان کو برے القاب سے یاد کرتے ہیں۔
    ۲۹۔ قرآن مجید کو غلاف میں لپیٹ کر رکھ دیا‘ کبھی اس کی تلاوت پابندی سے نہیں کی اور نہ ہی اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
    ۳۰۔ ہم نے اپنے مولیٰﷺ کی سنتوں کو چھوڑ کر یہود و نصاریٰ کے طریقوں کو اپنالیا ہے۔
    ۳۱۔ سٹے بازی‘ جوا‘ ویڈیو گیم‘ شطرنج‘ اسنوکر اور دیگر بے ہودہ کھیل گلی گلی کھیلے جارہے ہیں۔
    ۳۲۔ سود کا نام منافع‘ شیئرز کا نام کاروبار‘ شراب کا نام وسکی‘ جھوٹ کا نام ٹکنیک‘ اور خنزیر کا نام دنبہ رکھ کر ان چیزوں کو خوب استعمال کیا جارہا ہے۔
    لمحہ فکریہ! ہم سب اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں ان میں سے کسی گناہ میں ہم ملوث تو نہیں؟ فوراً توبہ کریں اس سے پہلے کہ موت ہمیں آگھیرے…!!!
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ تبلیغی غلامانہ طرزِ فکر ہے جو بالعموم عرب ممالک میں رواج پذیر ہے۔ آمر یت و ملوکیت زدہ ممالک میں عوام الناس کو ایسی تاویلات و توجیہات پیش کرکے انہیں ذہنی و فکر ی طور پر ہمیشہ بادشاہ کی غلامی اور سرتسلیم خم رکھنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔
    میں کم علم آدمی ہوں میرے صرف مندجہ ذیل سوالات کا جواب مرحمت فرما دیں۔
    1۔۔آپکے نکتہ نظر کےمطابق کیا اسلام واقعی ہر غاصب و جابر و ظالم بادشاہ کے سامنے چپ چاپ سرجھکائے رکھنے کی تلقین کرتا ہے ؟
    2۔۔اگر ایسا ہی ہے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کرکے عوام کو محض نماز روزہ زکوۃ وغیرہ کی تبلیغ کیوں نہ کی؟
     
    Last edited: ‏23 جنوری 2018
    پاکستانی55 اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. سعدیہ
    آف لائن

    سعدیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    4,590
    موصول پسندیدگیاں:
    2,393
    ملک کا جھنڈا:
    زنیرہ آپکی سب پوسٹ بہت اچھی ہوتی ہیں۔ اور ہمیں اپنی انفرادی اصلاح کرنی چاہیے۔
    لیکن اوپر آپنے جو سوال چھوڑا ہے اسکا سیدھا سادھا جواب ہے کہ ملک پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے جس پر کرپٹ نظام سیاست کے ذریعے کرپٹ، چور لٹیرے حکمران قابض ہیں اور وہ سب ملکی وسائل بھی لوٹ کر کھا جاتے ہیں اور مزید بیرونی قرضے ملک پر چڑھا کر وہ بھی ہڑپ کر جاتے ہیں اس لیے غریب ہمیشہ غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ حیرت ہے اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی ؟
     
    نعیم, ناصر إقبال, پاکستانی55 اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محترم بھائی اگر آپ یہ وضاحت فرما دیتے کہ یہ جابر اور ظالم کہیں اور سے لشکر کشی کر کے آیا ہو تو پھر تو بہت آسان جواب تھا لیکن اگر عوام خود ایک چور ڈاکو اور لٹیرے کو اپنے اوپر مسلط کرے تو اسے اللہ کاعذاب سمجھ لیجیے
    اسی لیے میں اپنے اعمال سدھارنے پر اکتفا کرونگی
    اگر عقل و شعور بیدار ہوگا اور ہم دین کے قریب ہونگے تو ہم ایک دیندار شخص کو اپنے ملک کا حکمران بنانا پسند کرینگے
    ایک عقل و شعور والی شخصیت ہی حقدار کو ووٹ دیگا جو اسلام اور انسانیت کے لیے مفید ہو

    اسی لیے قرآن کی یہ آیت شیئر کرنا مناسب سمجھتی ہوں

    ومااصابکم مصیبۃ فیما کسبت ایدکم (سورہ شوری پارہ ۲۵ آیت ۳۰)
    ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا۔

    مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں‘ اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔ ان تکلیفوں کو اﷲ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے رفع ودرجات کے لئے ہوتی ہے۔

    پھر آپ کے دوسرے سوال کا جواب خود آسان ہو جائےگا
    کیوں کہ ایک دیندار شخص کو آپ نے حکمران مقرر کیا تو پھر وہی جہاد کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں
    اور دین کی سر بلندی کے لیے ہر شخص کفن سر سے باندھ کر نکلنے کے لیے تیار بھی رہےگا
    یہ چور لٹیرے حکمران اگر جہاد کا اعلان کر دین تو آپ کیا سمجھتے ہیں کوئی راضی ہوگا؟

    حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھے یہ نواز شریف ہیں کہاں وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کا تارا اور کہاں یہ چور لٹیرا قاتل

    یہ دور تلوار اٹھانے کا نہیں بقول آپ کے تبلیغی غلامانہ طرزِ فکر اختیار کر کے عوام کے شعور کو بیدار کیجیے اور پھر پھر دیکھیے ایک مثالی حکومت بنتی ہے کہ نہیں مجھ سے آپ کا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے عوام کے پاس تلوار کی جگہ ووٹ ہے آپ ان کے ذہن بنا کر درست استعمال پر آمادہ کریں
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سعدیہ بہن آپ کا جواب بھی اسی پوسٹ میں ہے جو میں نے ابھی نعیم بھائی سے ذکر کیا ہے
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میں آپ کی دونوں باتوں میں توازن پیدا کرتے ہوئے اس حد تک ضرور اتفاق کرتا ہوں کہ ظالم و جابر حکمران کہیں سے لشکرکشی کرکے نہیں آئے بلکہ یہ ہمارے اندر ہی سے ہیں۔
    لیکن سوال پھر وہی اٹھتا ہے محترمہ ! یزید بدبخت تو اصحاب کبار اور تابعین کے دور میں تختِ حکومت پر براجمان ہوگیا تھا؟ وہ بھی مسلمانوں کے اندر ہی سے تھا ؟ تو کیا آپکے پیش کردہ فارمولے کو اصحابِ کبار و تابعین عظام رضوان اللہ عنہم اور رحمھم اللہ تعالی پر معاذاللہ منطبق کریں گے؟ ذرا سوچیے محض بحث دربحث میں حد کراس نہیں کرنا چاہیے۔
    لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا میں جدوجہد اور قربانی نے یہ رہتی دنیا تک یہ بھی ثابت کردیا کہ جب ظالم، غاصب حکمران عوام الناس پر مسلط ہوجائیں تو پھر محض عبادات سے دین بچایا نہیں جا سکتا بلکہ اسکے لیے ظالم و جابر حکمران کے خلاف علمِ جہاد بلند کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ یہ جہاد بصورتِ بیداریء شعور، فروغِ علم، اور پرامن سیاسی جدوجہد کی صورت میں ہو نہ کہ قتال و خروج کی صورت میں۔
    تسلیم کرنا ہوگا کہ غاصب و ظالم حکمران ضروری نہیں کہ دشمن ملک سے لشکر کشی کرکے آنے والا ہوتا ہے۔۔ یا صرف اور صرف عوام ہی کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔
    بلکہ چور، غاصب جابر حکمران ملک و سلطنت کے اندر سے بھی دھاندلی، دھوکہ دہی یا ناانصافی کے چور دروازوں کے اقتدار تک پہنچ سکتا ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    پاکستان جیسے ملک میں "جمہوریت" کے نام جو جو دھوکہ بازی کا کھیل پچھلے 40-50 سال سے جاری ہے وہ بذات خود بہت بڑا فراڈ ہے ۔۔ یہ نہ اسلام ہے نہ جمہوریت ! بلکہ یہ اشرافیہ کا بچھایا ہوا جال ہے جس کے ذریعے نیک، صالح باکردار لوگوں کو اقتدار تو کیا اسمبلی یا مقننہ یا مجلسِ شوریٰ تک پہنچنا ہی محال بنا دیا گیا ہے۔ اسکے برعکس اس نظام کے تحت الا ماشاءاللہ چور اچکے بدقماش بدمعاش سمگلر رسہ گیر قاتل و ظالم افراد اسمبلی پہنچتے ہیں اور انہی میں سے چند ایک مخصوص خاندان کے لوگ کرسیء اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔ اس لیے انفرادی اصلاح کے ساتھ ساتھ اس ظالمانہ سیاسی نظام کے خلاف شعور بیدار کرنا، ظالم حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف عوام کو بیدار کرنا، علم و سیاسی شعور کے فروغ کے لیے ہر سطح پر پرامن سیاسی و جمہوری جدوجہد کرنا عین تقاضائے اسلام ہے۔
    وگرنہ برصغیر پاک و ہند میں محض تبلیغ کرنے والے تو ڈیڑھ سو سال سے تبلیغ کررہےہیں۔ لیکن کیا 150 سال سے زائد جدوجہد سے سب کے سب "اچھے مسلمان" بن گئے؟ کیا رشوت ختم ہوگئی؟ کیا زکوۃ کا درست نظام قائم ہوگیا ؟ کیا ظلم کا خاتمہ ہوگیا ؟
    جواب نفی میں واضح ہے۔ تو پتہ چلا ہے کہ انفرادی اصلاح کے ساتھ ساتھ اجتماعی سیاسی و جمہوری جدوجہد بھی معاشرتی اور ملکی اصلاح و ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
    اور ہاں محترمہ زنیرہ عقیل صاحبہ یہاں پر بھی آپ نے اوپر کافی پوسٹ میں اپنا موقف پیش کردیا ۔۔۔ میں نے اپنا موقف پیش کردیا ۔۔ بہتر ہے کہ اب یا تو دیگر افراد کو کچھ کہنے کا موقع دیا جائے یا پھر فورم کے محبت بھرے ماحول کو قائم دائم رکھنے کے لیے خاموشی اختیار کرلی جائے۔ اور آپ اپنے طریقہ سے قوم و ملت کی اصلاح کرتی جائیں ۔۔ باقی بھی ہر کوئی اپنی اپنی دینی و ملی استطاعت کے مطابق اصلاحِ احوال کی کوشش جاری رکھے۔ کیونکہ بقول قتیل شفائی
    شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

    والسلام ۔۔
     
    سعدیہ، زنیرہ عقیل اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    میں آپ کی تمام باتوں سے متفق ہوں
    علم و سیاسی شعور کے فروغ کے لیے ہر سطح پر پرامن سیاسی و جمہوری جدوجہد کرنا عین تقاضائے اسلام ہے۔
    ایک بات کہنا ضرور چاہونگی کہ چند اچھے لوگوں کی وجہ سے دنیا آباد ہے
    ہر مکتبہ فکر نے اپنے طور پر کوششیں کی ہیں اور کر رہے ہیں ۱۵۰ سال کی جدو جہد میں اگر آپ صرف یہ پتہ کرلیں کہ
    پاکستان میں کس کس مکتبہ فکر کے کتنے مدارس ہیں اور ہر سال کتنے لوگ دینی تعلیم سے بہرہ مند ہو کر نکلتے ہیں تو شاید فروغ علم کے سلسلے میں اچھے لوگوں کی فقدان کا مورد تبلیغ کو نہیں ٹھرائیںگے
    ان الفاظ کے ساتھ ختم کرونگی کہ اللہ ہمارے ایمانوں اور پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین
     
    سعدیہ اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں