1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عمامہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏13 دسمبر 2017۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بعض علاقوں میں عموماً عمامہ (پگڑی) پہننے کا رواج ہے اور اسے بھلے مانس اور شریف لوگوں میں عزت اور وقار کی ایک علامت سمجھا جاتاہے جبکہ ننگے سر رہنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس چیزمیں اس وقت مزید شدت آجاتی ہے کہ جب کچھ لوگ ننگے سر نماز ادا کرتے نظر آتے ہیں اور وہ ننگے سر نماز ادا کرنے پر اصرار کرتے ہیں بلکہ ننگے سر نماز ادا کرنے کو اُنہوں نے اپنی عادت بنا رکھا ہے اور اُنہوں نے اسے سنت کا درجہ دے رکھا ہے۔ دوسرے لوگ ان کی اس عادت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور اس طرح اس معاملہ میں محاذ آرائی کی ایک شکل پیدا ہوجاتی ہے۔ کسی بھی مسئلہ میں تنازع و اختلاف کی صورت میں اہل ایمان کو قرآن وحدیث کی طرف پلٹنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ 1

    ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا وَٱتَّقُواٱللَّهَ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿٧﴾...سوة الحشر
    ''اور تمہیں جو کچھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے تو اسے لے لو اور جس سے روکے تو رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو یقینا اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔''

    احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر عمامہ (پگڑی) باندھا کرتے تھے اور آپؐ کے عمامہ کا رنگ سیاہ تھا۔ کبھی آپ کے سر پر چادر بھی ہوتی جس سے آپ اپنے سر کو ڈھانپ لیا کرتے تھے، اسی طرح ٹوپی کا ذکر بھی احادیث میں موجود ہے جس کا عمامہ کی احادیث کے بعد ذکر کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز

    سیدنا جابر بن عبداﷲ انصاریؓ بیان کرتے ہیں :
    ''إن رسول اﷲ! دخل مکة وقال قتیبة دخل یوم فتح مکة وعلیه عمامة سوداء بغیر إحرام'' 2
    ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہوئے اور آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ ''

    صحیح بخاری (رقم:1846) اورصحیح مسلم (رقم:1357) میں سیدنا انس بن مالکؓ کی روایت میں ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے اور آپؐ کے سر پر مِغْفَر(خود) تھا۔'' حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
    ''اس حدیث میں یہ احتمال ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا، پھر آپ نے اسے اُتار دیا جیسا کہ اسی حدیث میں یہ بات موجود ہے اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ پہن لیا۔ اس طرح جس صحابی نے جو دیکھا، وہ بیان کردیا اور اس کی تائید سیدنا عمرو بن حریثؓ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اور آپ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔'' یہ حدیث امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے بیان کی ہے ''اور آپؐ نے یہ خطبہ کعبہ کے دروازے کے قریب دیا تھا اور آپؐ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔'' بعض علما نے ان احادیث میں اس طرح بھی تطبیق دی ہے کہ سیاہ عمامہ خود کے اوپر یا نیچے بندھا ہوا تھا تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو خود کے ذریعے محفوظ رکھ سکیں ۔'' 3

    سیدنا عمرو بن حریثؓ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں :
    إن رسول اﷲ ! خطب الناس وعلیه عمامة سوداء 4
    ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا اس حال میں کہ آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔''

    ان احادیث سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عمامہ پہننا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل عمامہ پہننا ہے، کیونکہ مکہ 8ہجری میں فتح ہوا اور آپؐ 11 ہجری کے شروع میں وفات پاگئے اور اس عرصہ کے دوران آپؐ سے اس کے خلاف کوئی عمل ثابت نہیں ہے۔

    سیدنا عمرو بن حریثؓ بیان فرماتے ہیں :
    '' کأني أنظر إلی رسول اﷲ ! علی المنبر وعلیه عمامة سوداء قد أرخٰی طرفیھا بین کتفیه'' 5
    ''گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہیں اور آپ کے سر پر سیاہ عمامہ ہے جس کا ایک حصہ آپؐ نے پیچھے دونوں کاندھوں کے درمیان چھوڑ رکھا ہے۔''

    سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے ، بیان کرتے ہیں :
    کان النبي ! إذا اعتم سدل عمامته بین کتفیه۔ قال نافع: وکان ابن عمر یسدل عمامته بین کتفیه۔ قال عبید اﷲ: ورأیت القاسم وسالما یفعلان ذلك 6
    ''نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ پہنتے تو اس کے ایک حصہ کو دونوں کاندھوں کے درمیان لٹکاتے۔ امام نافعؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبدللہ بن عمرؓ بھی عمامہ کے ایک حصہ کو کندھوں کے درمیان لٹکاتے اور امام عبیداللہ بن عمر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا محمد بن قاسم رحمة اللہ علیہ اور سالم بن عبداللہ رحمة اللہ علیہ کو دیکھا کہ وہ بھی اس حدیث کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ ''

    سیدنا ابوعبدالسلام رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کس طرح پہنتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ آپؐ عمامہ کے کپڑے کو سر پر گھما کر لپیٹتے تھے اور اس کے سرے کو پیچھے رکھنے کا قصد فرماتے اور دونوں کندھوں کے درمیان لٹکاتے تھے۔ 7

    سیدنا عبداللہ بن عمرؓ ایک طویل حدیث میں ذکر فرماتے ہیں :
    ''...پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوفؓ کو حکم دیا کہ وہ سریّہ کے لئے تیاری کریں کہ جس پر امیر بنا کر اُنہیں بھیجا جانا ہے۔ پس صبح ہوئی اور اُنہوں نے سیاہ کھدر کے کپڑے کا عمامہ پہنا پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پس آپؐ نے ان کا عمامہ اُتار دیا اور انہیں (درست طریقے سے) عمامہ پہنایا اور پیچھے کی طرف چار اُنگلیوں یا اس کے برابر کپڑے کا حصہ چھوڑ دیا۔ پھر فرمایا: اے ابن عوف! اس طرح عمامہ باندھا کرو، یہ زیادہ اچھا اور خوبصورت لگتا ہے۔ (پھر آپ نے جھنڈا دے کر اُنہیں جہاد کے سلسلہ کی ہدایات دیں ) 8

    سنن ابوداؤد (رقم:4079) میں بھی اس مضمون کی ایک مختصر روایت موجود ہے، لیکن اس کی سند میں ایک راوی شیخ اہل مدینہ مجہول ہے۔

    ان احادیث کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً اپنے سر پر عمامہ باندھاکرتے تھے۔ لہٰذا سر پر عمامہ باندھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اس سنت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص وہ لوگ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ قرآن و حدیث پر عامل ہیں ، ان کا اس سنت کواپنانا زیادہ ضروری ہے۔ان احادیث کو نگاہ میں رکھا جائے تاکہ سنت پر عمل پیرا ہونے کی اہمیت کا ہمیں اندازہ ہوسکے اور ترکِ سنت سے محرومی کا بھی پتہ چل سکے۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اس وقت بعض لوگ اس سنت پر عمل پیرا تو ہیں ، لیکن اُنہوں نے ہرے رنگ ہی کو اپنی شناخت بنا رکھا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامہ کا رنگ سیاہ تھا۔

    سیدنا عمرو بن امیہ ضمریؓ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :
    ''رأیت النبي ﷺ یمسح علی عمامته وخفیه''9
    ''میں نے صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمامہ اور موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔''

    اس حدیث سے واضح ہوا کہ آپؐ نے نماز کے لئے جب وضو فرمایا تو عمامہ پر مسح فرمایا اور عمامہ کے ساتھ نماز بھی ادا فرمائی اور حدیث کا ظاہر اسی بات کو چاہتا ہے اور اس بات سے ان لوگوں کا بھی ردّ ہوجاتا ہے کہ جو ننگے سر نماز پڑھنے پر ہی اِصرار کرتے ہیں ۔ قرآنِ مجید کی آیت ِ کریمہ {خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ...﴿٣١﴾...سورة الاعراف}کا سیاق بھی اسی بات کو چاہتا ہے کہ نماز میں سر کو ڈھانکا جائے کیونکہ زینت اسی میں ہے۔

    سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لئے قضاے حاجت سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے وضو فرمایا۔ ومسح بناصیته وعلی العمامة وعلی خفیه''اور آپ نے اپنی پیشانی، عمامہ اور موزوں پر مسح فرمایا۔ 10

    امام ترمذی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس باب میں عمرو بن اُمیہ، سلمان، ثوبان اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم کی بھی روایات ہیں اورمغیرہ بن شعبہؓ کی حدیث حسن صحیح ہے۔11

    سیدنا بلالؓ بیان فرماتے ہیں :
    ''إن رسول اﷲ ! مسح علی الخفین والخمار''12
    ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں اور چادر پر مسح فرمایا۔''

    دوسری روایت میں ہے:

    رأیت النبي ! یمسح علی الخفین والخمار 13
    ''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں اور خمار پر مسح کرتے دیکھا ہے۔''

    خمار اس چادر کو کہتے ہیں کہ جس کے ذریعے سر کو ڈھانپا جائے اور یہاں خمار سے مراد عمامہ ہے۔ 14

    سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ محرم کپڑوں میں سے کیا پہن سکتا ہے؟ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    لایلبس القمص ولاالعمائم ولاالسراویلات ولاالبرانس ولا الخفاف
    ''محرم قمیصیں ، عمامے، پاجامے (شلوار) برانس (برنس کی جمع یعنی بڑی ٹوپی ) اور موزے نہیں پہن سکتا۔الخ'' 15

    اس حدیث کو امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے کتاب الحج کے علاوہ کتاب اللباس، باب العمائم میں بھی وارد کیا ہے اور لباس اور عمامہ کے لئے اس حدیث کو دلیل بنایا ہے نیز امام بخاری نے اس حدیث کو گیارہ مقامات پر ذکر کیا ہے اور ہر جگہ کسی نہ کسی مسئلہ کا استدلال فرمایا ہے اور اس حدیث کو ہر جگہ اپنے مختلف اساتذہ سے ذکر فرما کر اس کی مختلف سندیں بھی ذکر فرمائی ہیں ۔
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سیدہ عائشہ صدیقہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن مبارک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
    ''إن رسول اﷲ ! کُفن في ثلاثة أثواب بیض سحولیة لیس فیھا قمیص ولا عمامة'' 16
    ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام سحول کے تین سفید دھلے ہوئے کپڑوں میں کفن دیا گیا ان کپڑوں میں قمیص اور عمامہ شامل نہیں تھا۔ ''

    اس حدیث کو امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے پانچ مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔اس حدیث میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں قمیص اور عمامہ کے نہ ہونے کا خصوصیت سے ذکر فرمایا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تک زندہ رہے تو قمیص اور عمامہ آپؐ کا خاص لباس تھا۔ البتہ محرم کی طرح میت کے لئے بھی قمیص اور عمامے کا استعمال درست نہیں ہے۔آج کل قمیص کا استعمال تو عام ہے،البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ قمیص کے ساتھ ساتھ عمامہ کا استعمال بھی عام کیا جائے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی دلیل ہے۔

    سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الإسبال في الإزار والقمیص والعمامة، من جَرَّ منھا شیئًا خیلاء لا ینظر اﷲ إلیه یوم القیامة ''درازیٔ اِزار، قمیص اور عمامہ (سب میں گناہ ہے)۔ جو شخص ان میں سے کسی چیز کو تکبر سے دراز کرے گا اور ٹخنوں کے نیچے تک اُنہیں لٹکائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف ( نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ 17

    احادیث میں اِزار وغیرہ کو ٹخنوں سے نیچے تک لٹکانے والے کے متعلق سخت وعید ذکر کی گئی ہیں ۔ سیدنا ابوذرغفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا اور نہ اُنہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا۔ سیدنا ابوذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: خراب و خاسر ہوگئے یہ لوگ۔ کون لوگ ہیں یہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !؟ تو آپؐ نے فرمایا: اِزار کو لٹکانے والا، اِحسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سودا فروخت کرنے والا۔ 18

    سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (پہلی اُمتوں میں سے) ایک شخص اپنی اِزار کو تکبر کے سبب گھسیٹتا ہوا چلا جارہا تھا کہ اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ 19

    صحیح مسلم (رقم:2088) میں بالوں پر فخر کرنے کا بھی ذکر آیا ہے اور آج یہ دونوں چیزیں نوجوانوں میں دیوانگی کی حد تک موجود ہیں ۔ بالوں پر ان کی ہر وقت نظر رہتی ہے۔ یہاں زلف کا کوئی بال پریشان ہوا اور فوراً ہی کنگھی جیب سے باہر آگئی اور اِزار (پتلون وغیرہ) کو تو اس قدر لٹکایا جاتا ہے کہ وہ زمین پر گھسٹتی ہی چلی جاتی ہے۔

    سیدنا ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام لیتے مثلاً یہ عمامہ ہے یا قمیص یا چادر ہے اور پھر فرماتے :

    اللھم لك الحمد أنت کسوتنیه أسألك خیرہ وخیر ما صُنِع له وأعوذ بك من شرہ وشرما صُنِع له 20
    ''اے اللہ آپ ہی کے لئے تعریف ہے کہ آپ نے مجھے یہ کپڑا پہنایا، میں تجھ سے اس کپڑے کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس چیز کی بھلائی کہ جس کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے،اس کے شر سے۔''

    سیدہ عائشہ صدیقہؓ ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ دوپہر کی گرمی میں ہم اپنے گھر کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے میرے والد ابوبکرؓ سے کہا: وہ دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چادر سے سر کو ڈھکے ہوئے تشریف لارہے ہیں ۔ 21

    اَلتَقَنُّع کا مطلب یہ ہے کہ ''سر پر کپڑا ڈال کر سر چھپانا'' اور اسی سے مُتَقَنِّعًا کا لفظ بنا ہے جس کا مطلب 'سر کو ڈھانپتے ہوئے' بنتا ہے۔

    سیدنا براء بن عازبؓ نے ایک طویل حدیث میں ابورافع یہودی کے قتل کا واقعہ بیان کیا ہے جسے سیدنا عبداللہ بن عتیک انصاریؓ نے ایک عجیب حیلہ سے آخر کار قتل کرڈالا۔ اور واپسی میں سیڑھیوں سے اُترتے وقت گر پڑے جس سے ان کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ پس اُنہوں نے اپنے عمامہ سے پنڈلی کو باندھ لیا۔فعصبتھا بعمامة 22

    ابو رافع یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید دشمن تھا اور وہ آپ کو اذیت پہنچاتا اور آ پ کے دشمنوں کی مدد کرتا رہتا تھا لہٰذا اس کا قتل ضروری ہوگیا تھا۔ اس حدیث میں عمامہ کا کہیں بھی ذکر نہیں تھا لیکن جب عبداللہ بن عتیکؓ کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی اور اُنہیں کپڑے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اُنہوں نے اپنے سر سے عمامہ اتارا۔ اس طرح عمامہ کا ذکربھی اس حدیث میں آگیا۔ اس حدیث سے واضح ہوا کہ صحابہ کرام ؓ عموماً اپنے سروں پر عمامہ باندھتے تھے اور یہ حدیث اس با ت کی زبردست شاہد ہے۔ نیز یہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے، کیونکہ یہ واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا ہے۔

    سیدنا سہل بن حنظلہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ عیینہ بن حصنؓ اور اقرع بن حابسؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوا ل کیا۔ آپ نے معاویہ کو حکم دیا کہ ان کے لئے لکھ دے چنانچہ اُنہوں نے لکھ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مہر ثبت فرمائی اور اس تحریر کو ان کے حوالے کیا۔ عیینہ ؓ نے پوچھا کہ اس تحریر میں کیاہے؟ آپ نے فرمایا کہ جس بات کا تم نے تقاضا کیا تھا، وہ اس تحریر میں ہے۔ پس اُنہوں نے اسے قبول کیا اور اپنے عمامہ میں اسے باندھ لیا۔ 23

    سیدنا محمد بن یحییٰ رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی حدرد اسلمیؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کا قرضہ اُتارنے کا حکم دیا تو وہ بازار گئے اور اپنے سر سے عمامہ اُتارا اور پھر بردہ (ایک دھاری دار چادر) اُتاری اور اسے بیچ ڈالا۔ 24

    یہ حدیث صحیح ہے اور مرفوع ہے کیونکہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عمامہ پہن رکھا تھا۔ اس حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ (عبدالرحمن) ابوحدرد اسلمیؓ صحابی ہیں جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے بھی ابوحدرد اسلمی کو صحابی قرار دیا ہے اور ابن ابی الحدرد اسلمی کو ان سے راوی بتایا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!

    رسول اللہﷺ کا آخری عمل
    سیدنا عبداللہ بن عباسؓ بیان فرماتے ہیں :
    ''خرج رسول اﷲ ! وعلیه مِلحَفَةٌ متعطفا بھا علی منکبیه وعلیه عصابة دَسماء۔۔۔'' 25
    ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چادر اپنے مونڈھوں سے لپیٹ کر باہر تشریف لائے اور آپ اپنے سر پر ایک چکنے کپڑے کی پٹی باندھے ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ پس آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی پھر فرمایا: اما بعد! لوگو، دوسری قومیں بڑھتی جارہی ہیں اور اَنصار کم ہورہے ہیں اور کم ہوتے ہوئے آٹے میں نمک کے برابر رہ جائیں گے۔ پھر تم میں سے جس شخص کو ایسی حکومت ملے جو کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکے تو وہ اَنصار کے اچھے آدمی کی قدر کرے اور بُرے کے قصور سے درگزر کرے۔ ''

    ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں :

    وکان آخر مجلس جلسه 26
    ''اور یہ آپ کی آخری مجلس تھی جس میں آپ تشریف فرما ہوئے۔''

    ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں :

    خرج رسول اﷲ في مرضه الذي مات فیه بملحفة قد عصب بعصابة دسماء حتی جلس علی المنبر 27
    رسول اﷲ! اپنی اس بیماری میں جس میں آپ نے وفات پائی تھی، تشریف لائے۔ آپ نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی اور ایک چکنے کپڑے کو آپ نے اپنے سر پر لپیٹ رکھا تھا ...

    اس حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ فکان ذلك اٰخر مجلس فیه النبي!
    ''پس یہ آخری مجلس تھی کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔''

    سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں :
    ''سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عباس ؓ انصار کی ایک مجلس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں ۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ تو جواب ملا کہ ہمیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس یاد آرہی ہیں ۔ پس وہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کو اس بات کی اطلاع دی۔
    قال: فخرج النبي ! وقد عصب علی رأسه حاشیة برد قال فصعد المنبر ولم یصعدہ بعد ذلك الیوم۔۔۔ ''پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں نکلے کہ آپ اپنے سر پر چادر کا حاشیہ باندھے ہوئے تھے۔ پس آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اس دن کے بعد آپ دوبارہ منبر پر تشریف فرما نہ ہوئے (یعنی یہ آپ کا آخری خطبہ تھا)۔ پس آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی، پھر فرمایا: لوگو !میں تم کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں پس وہ میری جان و جگر ہیں ان پر جو (میرا حق) تھا، وہ انصار ادا کرچکے ہیں اب ان کا حق باقی ہے۔ ان میں جو نیک ہو تو اس کی قدر کرنا اور جو بُرا ہو اس کے قصور سے درگزر کرنا۔ '' 28

    قد عصب بعصابة دسماء کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پر ایک چکنا کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔ عَصْبٌ کے معنی لپیٹنا، باندھنا، گرد پھیرنا کے ہیں اور اسی سے عصبة کا لفظ بناہے جس کا مطلب پٹی، (بڑا) رومال ، عمامہ کے ہیں ۔ 29

    اور دوسری روایت میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
    وقد عصبت علی رأسه حاشیة برد
    اور آپ اپنے سر پر چادر کا حاشیہ باندھے ہوئے تھے

    الغرض آپ نے اپنے سر پر کپڑا باندھ کھا تھا یا آگے سر پر عمامہ تھا، بات ایک ہی بنتی ہے۔

    اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ آپ کا آخری عمل سر کو ڈھکے ہوئے ہی تھااور سر کو ڈھکنے کی یہ بھی زبردست دلیل ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر جو خطبہ دیا تھا، اس وقت بھی آپؐ کے سر پر عمامہ تھا اور اس آخری خطبہ میں بھی عمامہ آپ کے سر پر موجود تھا۔ کیونکہ جو کپڑا سر پر لپیٹا جائے، وہ عمامہ کہلاتا ہے اور اس حدیث سے ننگے سر رہنے کی تردید ہوتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سنت سے محبت رکھنے والوں کو ننگے سر ہونے سے بچنا چاہئے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں