1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علمِ جفر

'علوم مخفی و عملیات وظائف' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏9 دسمبر 2011۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    خالد صاحب آپ اپنے حصے کا قطرہ ڈالیں تاکہ دریا کہ ابتدا ہوسکے
     
    الکرم نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. خالد حسین ق
    آف لائن

    خالد حسین ق ممبر

    شمولیت:
    ‏13 ستمبر 2018
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم کافی انتظار کیا آپ نے مجھے یاد نہیں تھا کہ میں یہاں ممبر ہوں آج اچانک یہ پیج سامنے آیا ۔ تو دیکھا کہ خالد حسین کے نام سے اکائونٹ موجود ہے جفر سے متعلق ایک صاحب کی تحریر شیئر کر رہا ہوں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    علم جفر کے بنیادی رموز و نکات اور علم نجوم کی اہمیت

    وقت کی تاثیرات سے فائدہ اٹھانے کا نام ہی علمِ جفر ہے جو علم نجوم کے بغیر ممکن نہیں

    ہم بارہا اپنے قارئین کو یہ تاکید کرتے رہتے ہیں کہ جو لوگ جفری اعمال کا شوق رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ بنیادی اصول و قواعد سے واقفیت حاصل کریں اور اس کے لیے حضرت کاش البرنیؒ کی کتابوں ”قواعد عملیات“ اور ”عامل کامل“ حصہ اول و دوم اور ”رموز الجفر“ وغیرہ کا مطالعہ کریں، ان کتابوں میں علم جفر کے بنیادی اصول و قواعد بیان کیے گئے ہیں جو مستند ہیں، ہم نے بھی اپنی ابتدائی زندگی میں انہی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، یہ درست ہے کہ بہت سی باتیں یا بہت سے رموز و نکات ایسے بھی ہوں گے جو ان کتابوں میں نہ مل سکیں یا جن کا تعلق ہمارے ذاتی تجربے سے ہو لیکن بہر حال برنی صاحب کی علمی کاوشوں سے انکار ممکن نہیں ہے،کم از کم پاکستان میں علم جفر اور دیگر اعمال و وظائف کے فروغ میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

    علم جفر میں چلّہ کشی یا طویل وظائف کی ضرورت نہیں ہوتی، کسی خاص مقصد کے تحت کوئی عمل حکمت و تدبیر کا آئینہ دار ہوتا ہے جسے وقت کی موزونیت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی سب سے اہم نکتہ ہے،ہمارے اکثر عاملین و کاملین، پیر فقیر اسی نکتے کو نظر انداز کرتے ہیں،ایک موزوں وقت سے واقفیت ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ اکثریت علم نجوم کے رموز و نکات سے بے خبر ہوتی ہے،جب کہ صرف علم نجوم ہی ایسا علم ہے جو وقت کی سعادت یا نحوست سے باخبر کرسکتا ہے،لوگ کتابوں اور رسالوں میں بڑے بڑے زبردست عمل و نقوش پیش کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے لیے موزوں وقت کا انتخاب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، چناں چہ ان کے بہترین عمل یا نقش مو ¿ثر ثابت نہیں ہوتے،ہم ذاتی طور پر پاکستان بھر کے ماہرین جفر اور عاملین و کاملین کے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اکثریت علم نجوم کی ضروری استعداد نہیں رکھتی،نتیجے کے طور پر ان کے پیش کردہ اعمال و نقوش جب غیر مو ¿ثر ثابت ہوتے ہیں تو لوگوں کا اعتماد مجروح ہوتاہے اور اس علم کے حوالے سے بھی ان کے ذہنوں میں شک و وہم پیدا ہوتا ہے۔
    علم جفر درحقیقت علم الحروف ہے،حروف تہجی کے تمام حروف اپنی اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے کائنات میں کوئی شے بے مقصد اور بے اثر پیدا نہیں کی،ہر شے اپنا ایک مقصد رکھتی ہے اور اس کے ظاہری اور باطنی اثر سے بھی انکار ممکن نہیں ہے،بالکل اسی طرح حرف اور اعداد بھی دنیا میں بے مقصد نہیں ہیں اور بے اثر بھی نہیں ہیں، حروف کی تاثیر ان کے دنیاوی استعمال سے بھی ظاہر ہے، مختلف حروف کی آمیزش سے جو لفظ تشکیل پاتے ہیں، وہ اپنے اندر اچھے یا برے مختلف اثرات رکھتے ہیں اور جب ہم انہیں استعمال کرتے ہیں تو یہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں،اسی لیے رسول اکرم نے فرمایا کہ اپنے بچوں کے نام اچھے معنوں والے الفاظ میں رکھو۔
    علم الاخبار و آثار
    علم جفر دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک حصے کو علم الاخبار کہا گیا ہے اور دوسرے کو علم الآثار، اخبار سے مراد خبر ہے یعنی کسی مسئلے یا معاملے میں خبر حاصل کرنا جب کہ آثار سے مراد اثر ہے یعنی حروف کے اثر سے واقف ہونا اور فائدہ اٹھانا، اس حوالے سے مسلمان صوفیا نے بہت تحقیقی کام کیا، اگرچہ ان کے درمیان بعض موضوعات پر اختلافات بھی رہے مثلاً بعض صوفیا کا خیال تھا کہ حروف اپنی عنصری خصوصیت کے ذریعے اثر انداز ہوتے ہیں اور بعض کا خیال تھا کہ وہ اپنی عددی قوت کے ذریعے اثر کرتے ہیں، بہر حال دونوں ہی صورتوں میں اثر پذیری ظاہر ہے۔
    علم جفر کے حصہ ءآثار کے ذریعے جو نقش و طلسمات مرتب ہوتے ہیں،ان کی اثر پذیری کو سمجھنے کے مسائل آسان نہیں ہیں، عام ذہن کی رسائی اکثر وہاں تک نہیں ہوتی، شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی اور شمس المعارف کے مصنف امام بونی لکھتے ہیں کہ علم الحروف کا سمجھنا، مشاہدے اور توفیق الٰہی پر منحصر ہے،اس نازک مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہم حضرت کاش البرنیؒ کی تحریر سے ایک اقتباس نقل کر رہے ہیں،اس اقتباس کو سمجھنا بھی توفیق الٰہی پر منحصر ہے۔
    ”حروف کی قوت ، فلکی اثرات، اعدادی نسبت اور طلسم کی روحانیت کو کھینچے والے بخورات کے ذریعے معمول پر جو عمل کیا جاتا ہے،وہ گویا طبائع علوی کو طبائع سفلی میں آمیز کیا جاتا ہے،یہ ایک بے معنی طریقہ نہیں ہوتا بلکہ حیرت انگیز حسابی تبدیلیاں اپنے اندر رکھتا ہے،ایسی تبدیلیاں جن کی وجہ سے تاثیر کا قائل ہوئے بغیر چارہ نہیں ہوتا، نقش یا لوح یا طلسم ایک ایسا خمیر ہوتا ہے جو طبائع اربعہ کے مرکب سے تیار کیا ہوا ہوتا ہے اور دوسری طبع میں مل کر ان کی حالت کو بدل دیتا ہے،اس لیے ارباب عمل کا یہ کام ہوتا ہے کہ افلاک کی روحانیت کو اتار کر اور صور جسمانیہ سے ربط دے کر یا نسبت عددیہ سے ملا جلا کر ایک خاص مزاج پیدا کرے جس کا اظہار طبیعت کے بدلنے کے لیے خمیر کا کام دے،وہی خمیر جو اجزائے معدنیہ میں کیمیا کرتا ہے،جب تک اس امر کے لیے ریاضتیں نہ کی جائیں، صبرواستقلال سے کام نہ لیا جائے، حروف و اعداد کی قوتوں اور نسبتوں کو نہ سمجھا جائے، افلاک کے مظاہر کواکب کو نہ جانا جائے، ان علوم سے کام نہیں لیا جاسکتا،چوں کہ قدرت نے ہر چیز میں ایک اثر پیدا کیا ہے اس لیے ان تاثیروں سے فائدہ اٹھانا انسان کا فرض ہے، بالکل اسی طرح جس طرح امراض کو دور کرنے کے لیے جڑی بوٹیوں کی تاثیروں سے واقف ہونا ضروری ہے“۔
    ہمارا خیال ہے کہ یہ اقتباس جفری اعمال کو سمجھنے اور اثر پذیری کے فلسفے یا تھیوری کو جاننے کے لیے بہت اہم ہے،اس میں وہ راز پوشیدہ ہے جس کی توفیق صاحب عمل کو اللہ ہی سے ملتی ہے،بہ صورت دیگر ہزاروں لوگ عمر بھر اس بھول بھلیّاں میں بھٹکتے رہتے ہیں لیکن انہیں صحیح راستہ نہیں ملتا۔
    علم جفر آثار
    جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ علم جفر درحقیقت علم الحروف ہے اور اس کی بنیاد عربی زبان کے 28 حروف تہجی پر ہے،اردو زبان میں زیادہ حروف ہےں لیکن قدیم عرب ماہرین جفر نے 28 حروف کے لیے جو اصول و قواعد مرتب کیے تھے، ان میں کوئی ترمیم آج تک نہیں ہوسکی، اردو زبان کے اضافی حروف صوتی مناسبت سے 28 حروف کے ساتھ جوڑ دیے گئے ہیں، مثلاً پ عربی زبان میں نہیں ہے،اسے ب کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے یا ڑ اور ٹ بھی عربی میں نہیں ہے، انہیں ر اور ت کے ساتھ رکھا گیا ہے، اس طرح علم جفر کی بنیادی اساس 28 حروف پر ہی قائم رہتی ہے،ان 28 حروف سے سات چھوٹے چھوٹے چار حرفی لفظ بنائے گئے ہیں جو ہفتے کے سات دنوں اور سات سیاروں سے نسبت رکھتے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔
    ابجد۔ھوزا۔طیکل۔منسع۔ فسقر۔ شتثخ۔ ذضظغ۔
    ان حروف کو سات دنوں ، سات سیاروں پر تقسیم کردیا گیا اور ہر حرف کی ایک عددی قیمت بھی مقرر کردی گئی جس کا تفصیلی نقشہ درج ذیل ہے، اس نقشے میں تمام حروف تہجی کی عددی ، سیاروی اور عنصری نسبت واضح کردی گئی ہے اور ہفتے کے سات دنوں سے متعلق نسبت بھی واضح ہے،اس طرح ایک نظر میں معلوم ہوسکتا ہے کون سا حرف آتشی، بادی، آبی یا خاکی ہے اور کس سیارے یا دن سے منسوب ہے،اس کی عددی قوت کیا ہے، امید ہے کہ اس نقشے کو شائقین اپنے پاس محفوظ رکھیں گے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. خالد حسین ق
    آف لائن

    خالد حسین ق ممبر

    شمولیت:
    ‏13 ستمبر 2018
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. خالد حسین ق
    آف لائن

    خالد حسین ق ممبر

    شمولیت:
    ‏13 ستمبر 2018
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    یہ مضمون ایک ویب سائیٹ سے کاپی کیا گیا ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    علم الجفر تاریخ کے آئینہ میں
    علم الجفر کی افادیت پر ، حصہ آثار و اخبار پر اس سے قبل کئی مضامین پیش کئے جا چکے ، گو کہ علم الجفر کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں تاریخ میں اس کے واضح شواہد ملتے ہیں لیکن ہمارے مفتی صاحبان کا کیا کریں؟ کہ جب کسی بات تک ان کی پہنچ نہ ہو پائے تو وہ علم حرام قرار دے دیا جاتا ہے، یہ سلسلہ مفتی صاحبان تک محدود نہیں رہتا بلکہ ہمارے معاشرہ کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ حرام و کفر کے لیبل تھوک کے حساب سے لئے گھومتے ہیں بلاتحقیق جس پر جب دل چاہا چسپاں کردیا جائے قرآن سے مطلوبہ آیت کی اپنے مفاد میں تشریح کرتے ہوئے حرام کے فتوے داغ دئیے جائیں بحث برائے بحث فائدہ مند نہیں ہوتی۔
    یہاں چند تاریخ کے اوراق سے کچھ حوالہ جات دئیے جا رہے ہیں جو اس علم کی صداقت کے لئے کافی ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم حوالہ جات پیش کریں مناسب سمجھتے ہیں کہ ان علماء کے نام اور کتب کے نام بھی تحریر کر دیں جنہوں نے علم الجفر پر کافی ریسرچ کی واضح رہے کہ یہ علماء مسلمانوں کے ہر دو مسلک سے تعلق رکھتے ہیں
    یعنی ان علماؤں میں اہل سنت اور اہل تشیع ہر دو مسالک کے مشاہیر ، علماء و محققین شامل ہیں۔

    علم جفر پر تحقیق کرنے والے چند مشہور نام
    رسالہ فی الجفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام احمد رضا بریلوی
    سرالاسرار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔منصور ابن حلاج بغدادی
    بحرالوقوف علم الحروف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منصور ابن عربی
    نصوص الانوارحرفیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو الخیر رابع(رح)۔
    فصوص الحروف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبداللہ قرطبی(رح)۔
    قوانین تکوین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محی الدین ابن عربی (رح)۔
    اسرار جفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیر الدین طوسی (رح)۔
    زائرجات و اشرف المربعات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام غزالی(رح)۔
    کشف الاخبار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام خمینی
    سر الاخبار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طوخی الفلکی
    کشف المکنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکرم علی معظم
    قرص الشمس فی بیان الحروف۔۔۔۔۔۔ حضرت عمر بن الفارس الحوی(رح)۔
    منتہی الکمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدالعزیز پرہاروی(رح)۔
    مخزن الحروف۔ ۔۔۔۔۔۔۔ نصیر الدین سیوطی( رح)۔
    حقائق الیقین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بایزیز بسطامی
    مدارج البروج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ زرقافی(رح)۔
    معانی الاعداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمشید بصری(رح)۔
    یقین من الحروف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد بن انطاکی (رح)۔۔۔۔

    یہ چند کتب اور ان کے مصنفین کے نام تحریر کئے گئے ہیں جو کہ علم الجفر پر تحریر کی گئی ہیں اگر یہاں نام گنوانے شروع کر دئیے تو بات بہت طویل ہوجائے گی ۔
    مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اگر یہ علم حرام تھا تو پھر اتنے جید علماؤں نے اس پر اپنا وقت ضائع کیوں کیا؟؟؟
    ان میں امام غزالی(رح) جیسی شخصیت شامل ہے ۔
    زین الدین ابو حامد محمد بن محمد بن احمد الطوسی الغزالی جن کی وفات ۵۰۵ ہجری میں ہوئی ان کے جو اوصاف کتب میں ملتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں
    علامہ یافعی نے ان کے حالات کتاب “مراۃ الجنان”جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۷۷میں تحریر کئے ہیں جن کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ سواد اعظم میں ان کی عظمت شان و جلالت کس قدر رفیع تھی ان کا لقظ “حجۃ الاسلام” عام ہے ۔
    امام یافعی لکھتے ہیں کہ “امام غزالی وہ علوم کے سمندر ہیں جن کے اوپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عیسٰی(ع)و موسیٰ(ع) سے فخر و مباہات کیا تھا”۔

    اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی نے کتاب التنبیہ بمن یبت اللہ علی راس کل مآۃ میں کہا ہے کہ محمد بن عبدالباقی الزرقانی نے شرح مواہب لدینہ جلد ۱ ص۳۶میں ان کی بڑی توصیف و تعریف کی ہے نیز ملاحظہ ہو شہاب الدین دولت آبادی کی کتاب ہدایت السعداء ۔
    اگر علم الجفر حرام تھا تو مفتی صاحب سے یقیناً زیادہ علم امام غزالی (رح) رکھتے تھے انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے تھی ۔

    اب آئیے ذرا تاریخ کی جانب۔۔۔۔۔۔
    علم جفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربی زبان میں جفر یا جفرہ بکری کے اس بچے کو کہا جاتا ہے جو چار ماہ کا ہو اور دودھ پینا چھوڑ کر گھاس چرنا اور جگالی کرنا شروع کر چکا ہو

    ملاحظہ ہو علامہ کمال الدین دمیری کی حیٰوۃ الحیوان جلد اول صفحہ ۱۹۷ مطبوعہ مصر۔
    اگر چہ یہ علم آنحضرت (ص)کی تشریف آوری سے قبل کسی نہ کسی صورت میں موجود تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ان الواح سے ماخوذ تھا جن کا ذکر قرآن کریم کی سورہ اعراف آیت نمبر ۱۴۵ تا ۱۵۰ میں آیا ہے ۔ جیسا کہ علامہ عباس قمی محدث نے سفینۃ البحار جلد اول میں فرمایا ہے مگر چونکہ سب سے پہلے آنحضرت (ص) نے خود اس علم کو بکری کی کھال پر املاء کرایا اسی وجہ سے یہ علم الجفر کے نام سے مشہور ہوا۔

    حضرت امام موسی بن جعفر الکاظم (ع) نے ارشاد فرمایا کہ حضور(ص) اپنے آخری ایام حیات ظاہری میں حضرت علی(ع) کو ساتھ لے کر کوہ احد پر تشریف لے گئے اور مطابق حکم وحی پہاڑی بکریوں کو صدا دی جو آنحضرت (ص)کی صدا پر لبیک کرتے ہوئے وہاں جمع ہوئیں ۔ حضرت علی (ع) نے ان میں سے ایک چار ماہ کی بکری کے بچے کو پکڑا اور بحکم نبی(ص) ذبح کرکے اس کی کھال کو صاف کرکے تیار کیا اور جبرائیل(ع) امین قلم دوات اور ایسی سیاہی لائے جو کہ زمین کی بنی ہوئی نہ تھی اور فرمایا:۔
    بکری کی اس کھال اور سیاہی کی تحریر کو زمین کی مٹی کبھی پرانا نہ کر سکے گی نہ حروف کو مٹا سکے گی۔ سیاہی کا رنگ سبز تھا آنحضرت (ص) پر جبرائیل (ع) وحی لاتے تھے اور آنحضرت (ص) حضرت علی (ع) کو لکھواتے جاتے تھے یہ مخصوص وحی قیامت کے آنے والے تمام حالات و واقعات ظاہری و باطنی تغیرات اور اولیاء اللہ ، سادات، وغیرہ کے ساتھ پیش آنے والے حوادث اور آنے والی حکومتوں کے بارے میں تھی ۔

    حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ کتاب الجفر کے مضامین حروف ابجد کی صورت میں تھے اور حضرت امام حسن مجتبی(ع) نے اس میں سے حروف الف با سین لام تا آخر پڑھ کر سنوائے اور فرمایا ہر ہر حرف میں سے ایک ایک حرف کا استخراج ہوتا ہے اور علم جفر میں سے جو حصہ لوگوں تک پہنچا وہ صرف ان دو حرفوں کے متعلق ہے جو اس کتاب میں ہے (کتاب الاختصاص)۔
    نیز امام نے فرمایا پورے علم جفر پر عبور نبی(ص) یا وصی نبی(ص)کے علاوہ کسی عام فرد کو حاصل نہیں ہو سکتا۔
    امام مذکور نے مزید فرمایا کتاب الجفر اگرچہ شرح و بسط کے لحاظ سے اس قدر تفصیلی ہے کہ اس میں ہر شخص کی موت و حیات، مصائب اور ابتلا کا ذکر ہے مگر حجم کے لحاظ سے یہ ایک مختصر سا صحیفہ تھا جس کو جناب امیر المومنین (ع) اپنی تلوار ذوالفقار کے دستہ سے باندھے رہتے تھے ۔

    کتاب الجفر مذکور جو کہ جناب امیر المومنین علی (ع) کے دست مبارت سے نوشتہ تھی بعد میں امام جعفر صادق (ع) نے بھی اس کو بصورت کتاب اپنے دست مبارک سے نقل فرمایا اس کی صحت و حقانیت کو اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے مشاہیر ، علماء و محققین نے تسلیم کیا ہے کہ یہ کتاب پشت بہ پشت ، نسل در نسل سادات عظام میں منتقل ہوتی رہی ہے ۔

    ابن خلدون اندلسی مغربی نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ کتاب الجفر کو ہارون بن سعید عجلی نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کیا ہے اس میں عموماً اہل بیت کے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حوادت کا تفصیلی حال مذکور تھا “۔
    تاریخ عصر جعفری صفحہ ۷۴ میں ہے کہ کتاب الجفر مغرب اقصٰی کے خاندان بنی عبدالمومن کے پاس اب تک محفوظ ہے ادھر ترکی کے سلطان سلیم عثمانی اول کا دعویٰ تھا کہ اصل کتاب الجفر امام جعفر صادق (ع) کا نسخہ انہوں نے مصر سے تلاش کروالیا اور اپنے کتب خانہ میں محفوظ کرلیا تھا ۔ جبکہ روایات آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے مطابق
    کتاب الجفر امام زمانہ (ع) کے پاس محفوظ ہے ۔

    ابن خلکان نے تاریخ دخیاط الاعیان میں لکھا ہے کہ امام جعفر صادق (ع) کے ایک شاگرد ابو موسیٰ جابر بن حیّان نے ایک کتاب الجفر الاسود لکھی جو کہ امام علیہ السلام کے علم جفر کے بارے میں بتلائے ہوئے اسباق و تقاریر کا مجموعہ ہے یہ کتاب ایک ہزار اوراق پر مشتمل ہے ۔
    دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں امام نے جابر بن حیان کو علم الحروف میں کیمیا گری کے اصول و ضوابط املاء کرانے اور الجفر الاسود سے یہی مراد ہے جبکہ جفر ابیض اور جفر احمر کے نام سے امام کی دیگر کتب کا تذکرہ علیحدہ ہے جابر بن حیان علم کیمیا میں بڑے زبردست مشتاق تھے ۔

    علم الجفر کی صداقت و وثاقت
    اگر جفار غلطی نہ کرے اور کسی مصلحت کے پیش نظر نتیجہ پر کوئی گرہ نہ لگائے تو علم الجفر سے بالکل صحیح اور صاف و شفاف جواب آتا ہے ۔ علامہ عبداللہ الجزائری فرماتے ہیں کہ علم جفر صحیح نتیجہ دینے میں علم نجوم اور علم رمل سے زیادہ قابل اعتماد و اشرف ہے بلکہ قرآن کریم کی حقانیت کا ایک زندہ معجزہ ہے
    علامہ سید جعفر بحر العلوم نجفی فرماتے ہیں کہ اگر تم علم جفر کا سوال قرآنی آیت سوالیہ کے مطابق باندھو تو جواب میں وہی آیت آتی ہے جو اس سوالیہ آیت کے جواب میں پہلے سے قرآن میں موجود ہے ۔
    مثلاً اگر ہم سورہ یسین کی آیت “بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا” کو سوال بنا دیں تو جواب میں یہی آیت آتی ہے کہ “ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان ہڈیوں کو پہلے سے خلق کیا “۔
    زندگی رہی تو انشاء اللہ چند نادر قواعد پیش کرنے کی کوشش کروں گا
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں