1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علامۃ الدھر مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃاللہ علیہ ۔۔۔ـ۔ــ۔۔۔۔

'منقبتِ اہل بیت و صحابہ رض و اولیائے کرام' میں موضوعات آغاز کردہ از پروفیسر انوار الہدی شمسی, ‏8 اپریل 2016۔

  1. پروفیسر انوار الہدی شمسی
    آف لائن

    پروفیسر انوار الہدی شمسی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2016
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ کی پیدائش ۲۷/ شوال ۱۲۹۲ھ بروز شنبہ اپنے ننھیال علاقہ لولاب کشمیر میں ہوئی ۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد معظم شاہؒ بڑے عالم ربانی، زاہد و عابد اور کشمیر کے نہایت مشہور خاندانی پیر و مرشد تھے-

    تقریباً چار سال کی عمر میں اپنے والد ماجد مولانا معظم شاہ صاحبؒ سے قرآن پاک شروع کیا اور چھ برس کی عمر تک قرآن پاک کے علاوہ فارسی کے متعدد رسائل بھی ختم کر لئیے۔

    پھر مولانا غلام محمد صاحبؒ سے فارسی و عربی کی تعلیم حاصل کی، ابھی آپ کی عمر محض 13یا 14 سال تھی مگر دینی علوم بالخصوص فقہ پر اچھی نظر ہوگئ تھی ۔ ۱۳۰۵ھ میں طلبِ علم کے جذبہ صادق نے لولاب کے سبزہ زاروں اور دلفریب نظاروں سے دور کر دیا اور غریب الوطنی کی علمی زندگی اختیار کر لی ، بچپن ہی سے آپ بے حد ذہین، ذکی اور فطین تھے، تین سال تک آپ ہزارہ و سرحد کے متعدد علماء وصلحاء کی خدمت میں رہ کر علوم عربیہ کی تکمیل فرماتے رہے پھر علوم و فنون کی نامٹنے والی پیاس آپ کو عالمی شہرت یافتہ ادارہ مرکز علم و عرفان دارالعلوم دیوبند کھینچ لائی، آپ ۱۳۰۷ھ یا ۱۳۰۸ھ میں ہزارہ سے دیو بند آ گئے، دیو بند میں آپ نے چار سال رہ کر وہاں کے یکتائے روزگار علماء سے فیوض علمیہ و عملیہ وباطنیہ کی تکمیل فرمائی اور بیس یا اکیس سال کی عمر میں نمایاں شہرت و عزت کے ساتھ ۱۳۱۲ھ میں سند فراغ حاصل کی۔

    دیو بند سے فراغت کے بعد قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ کی خدمت میں گنگوہ حاضر ہوئے، وہاں سند حدیث کے علاوہ، اجازت باطنی سے بھی سرفراز ہوئے- اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے اور تین چار سال تک مدرسہ امینیہ کے مدرس اول رہے۔ دہلی میں کئی سال قیام کے بعد کچھ وقت کے لیےاپنے وطن مالوف کشمیر گئے، پھر ۱۳۲۳ھ میں آپ بعض مشاہیر کشمیر کی رفاقت میں زیارت حرمین سے مشرف ہوئے، سفر حجاز میں طرابلس، بصرہ، مصر اور شام کے جلیل القدر علماء نے آپ کے کمالات علمیہ و عملیہ کا بڑے کھلے انداز میں اعتراف کیا اور آپ کی خداداد اور بے نظیر لیاقت و استعداد دیکھ کرحدیث کی سندوں سے نوازا ۔سفر حجاز سے واپس آ کر قصبہ بارہ مولیٰ (کشمیر کا ایک مخصوص مقام) میں خصوصاً خواجہ عبد الصمد ککرو رئیس اعظم کے اصرار پر آپ نے مدرسہ فیض عام کی بنیاد رکھی اور تقریباً تین سال تک آپ وہاں خلق خدا اور طالبان دین کو ظاہری و باطنی علوم سے فیض یاب فرماتے رہے اسی اثناء میں دارالعلوم دیوبند کے آپ اساتذہ و اکابرین نے آپ کی صلاحیتوں کے پیش نظر آپ کا تقرر دار العلوم میں کر لیا -آپ سنن ابو داؤد اور صحیح مسلم کا درس سالہا سال بغیر کسی تنخواہ کے دیتے رہے۔ چند سال کے بعد والدہ ماجدہ کے انتقال کی وجہ سے آپ کو پھر کشمیر جانا پڑا مگر دارالعلوم کے شدید اصرار پر بہت جلد واپس آگئے - آپ دارالعلوم سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے آخر مولانا حافظ محمد احمد قاسمیؒ مہتمم دار العلوم دیوبند نے اصرار کر کے اس بات پر راضی کیا کہ وہ ان کے ساتھ کھانا کھایا کریں اور یہ صورت چند برس تک قائم رہی، نکاح اور اولاد ہونے کے بعد احباب نے بہت کوشش کرکے حضرت شاہ صاحبؒ کو دارالعلوم سے کچھ مشاہرہ لینے پر راضی کر لیا، چنانچہ کافی اصرار کے بعد آپ راضی ہوئے۔ اسی دوران شیخ الہندؒ نے حجاز مقدس کے سفر کا قصد فرمایا تو ایک جلسہ عام میں علامہ کشمیریؒ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا - اس جلسے میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے اپنا آخری درس دیا، طلبا اور عاشقین کا ایک اژدہام تھا، اور بڑی بڑی علمی شخصیات جمع تھیں، پہلے حضرت شیخ الہند نے درس دیا پھر اپنی مسند پر مولانا کشمیری کو بیٹھنے کا حکم دیا، وہ منظر بھی عجیب تھا شاگرد کی آنکھوں میں آنسو تھے اور استاذ کے ہونٹوں پر دھیمی مسکراہٹ، شاگرد کے لئے استاذ کی جدائی کا غم ناقابل برداشت تھا اور استاذ کے لئے اپنے مایہ ناز شاگرد کی شکل میں ایک سچا جانشین ملنے کی خوشی بھی بےپناہ تھی۔ علامہ کشمیری نے صدر مدرس کی حیثیت سے بخاری شریف اور ترمذی شریف کا درس سنبھال لیا۔ شاہ صاحبؒ کے درس میں چند ایسی خصوصیات تھیں جو عام طور پر دوسرے حلقوں میں نہیں تھیں، ان خوبیوں کا ذکر کسی آئندہ مجلس میں ہوگا، انشاء اللہ۔ 1345ھ تک آپ دارالعلوم میں صدر مدرس کی حیثیت سے درس حدیث دیتے رہے اس کے بعد بعض وجوہات کی بنا پر دارالعلوم سے ڈابھیل جامعہ اسلامیہ تشریف لے گئے، ۱۳۵۱ھ تک وہاں درس حدیث دیتے رہے۔


    حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے علمی و عملی کمالات میں سے جو چیز آپ کو تمام معاصرین سےممتاز کرتی ہے وہ آپ کی جامعیت و تبحر علمی ہے، علوم عقلیہ و شرعیہ میں سے ایک بھی ایسا علم نہیں ہے جسمیں آپ کو مہارت تامہ حاصل نہ ہو۔ یہ کہنا خلاف حقیقت نہ ہوگا کہ علماء ومتقدمین میں بھی ہر حیثیت سے ایسی جامع علوم عقلیہ ونقلیہ ہستی شاذ و نادر ہی ملتی ہے ۔

    حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے حضرت کشمیریؒ کی جامع شخصیت کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا :

    ’’میرے نزدیک حقانیت اسلام کی دلیلوں میں ایک دلیل مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ کا امت مسلمہ میں وجود ہے اگر دین اسلام میں کس قسم کی بھی کجی یا خرابی ہوتی تو آپ دین اسلام سے کنارہ کش ہو جاتے‘‘۔

    شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی وفات پر جاعہ اسلامیہ ڈابھیل کے ایک جلسہ میں فرمایا:

    ’’مجھ سے اگر مصر و شام کا کوئی آدمی پوچھتا کہ کیا تم نے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ، شیخ تقی الدین ابن دقیق العیدؒ اور شیخ عزیز الدین بن عبد السلام ؒ کو دیکھا ہے تو میں یہ کہ سکتا تھا کہ ہاں دیکھا ہے کیونکہ صرف زمانہ کا تقدم و تأخر ہے ۔ ورنہ اگر علامہ کشمیریؒ بھی چھٹی یا ساتویں صدی میں ہوتے تو اسی طرح آپ کے مناقب ومحامد اوراق تاریخ کا گراں قدر سرمایہ ہوتے، میں محسوس کر رہا ہوں کہ حافظ ابن حجر، شیخ تقی الدین اور شیخ عزیز الدین کا انتقال آج ہوا ہے‘‘۔

    شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

    ’’میں نے ہندوستان، حجاز، عراق، مصر اور شام کے علماء و فضلاء سے ملاقاتیں کیں اور مسائل میں ان سے گفتگو کی لیکن تجر علمی، وسعت معلومات، جامعیت اور علوم نقلیہ و عقلیہ کے احاطہ میں شاہ صاحب کا کوئی نظیر نہیں پایا۔

    مصر کے ممتاز عالم دین علامہ سید رشید رضاؒ نے دیو بند میں ایک مرتبہ فرمایا خدا کی قسم! میں نے ان جیسا (صاحب علم) آدمی نہیں دیکھا‘‘۔

    مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے آپ کے حافظے اور عربی ذوق کے بارے میں فرمایا کہ مجموعی طور پر حضرت شاہ صاحبؒ کو کم سے کم پچاس ہزار عربی کے اشعار یاد تھے۔

    شاعر مشرق علامہ اقبالؒ فرمایا کرتے تھے:

    ’’اسلام کی گزشتہ پانچ سو سالہ تاریخ شاہ صاحبؒ کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے‘‘۔

    مولانا حبیب الرحمٰنؒ عثمانی آپ کو چلتا پھرتا کتب خانہ فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار جو کچھ آپ کی نظر کے احاطے میں آگیا وہ ہمیشہ کے لیے حافظے میں قید ہو گیا، بہرحال آپ کی شخصیت بے نظیر جامع الصفات و الکمال تھی۔ عمل بالکتاب والسنۃ اور اتباع سلف کے اہتمام میں ذرہ بھر کی کوتاہی نہیں ہوتی تھی، دیکھنے والے بہت سی سنتوں کو شاہ صاحبؒ کے عمل کو دیکھ کر معلوم کر لیا کرتے تھے، سنت نبویﷺ کے مطابق کھانا اکڑوں بیٹھ کر کھایا کرتے تھے اور کھانے میں ہمیشہ تین انگلیاں استعمال کرتے اور دونوں ہاتھ مشغول رکھتے تھے، بائیں ہاتھ میں روٹی اور داہنے ہاتھ سے اسے توڑ توڑ کر استعمال فرمایا کرتے تھے۔

    زہد و تقویٰ آپ کے کھلے اور روشن چہرے پر برستا تھا۔ ایک غیر مسلم نے کسی موقع پر آپ کا سرخ و سفید رنگ کشادہ پیشانی اور ہنس مکھ چہرہ دیکھ کر کہا تھا:’’اسلام کے حق ہونے کی ایک مستقل دلیل یہ چہرہ بھی ہے‘‘۔


    ۲ صفر ۱۳۵۲ھ کو شب کے آخری حصے میں تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں بمقام دیو بند علم و عمل کا یہ مہر درخشاں غروب ہوگیا مگر اپنے کمالات اور علمی خدمات کے نتیجے میں ان کی شخصیت آج بھی زندہ و جاوید ہے ۔
     
    عمر خیام نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں