1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شیخ عبدالقادر جیلانی کی دعوت ایک جائزہ-12:(حضرت شیخ کی تعلیمات: نیت، اخلاص، قرآن و حدیث، بدعت)

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏2 مارچ 2017۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    نیت
    اسلام میں نیت کا مسئلہ بنیادی ہے۔ ہر عمل سے پہلے اس کی نیت کرنا شرط ہے۔انسان کی نیت ہی اس کے عمل کا نتیجہ متعین کرتی ہے۔ حسن نیت معمولی عمل کے درجے کو بڑھا دیتی ہے اور نیت میں کھوٹ بڑے سے بڑے عمل کو ضائع کردیتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے:
    تمام اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔(صحیح بخاری)
    نیت کی اہمیت حضرت شیخ نے اس طرح واضح کی ہے:
    جو عمل سے پہلے نیت کو مقدم نہ کرے اس کا کوئی عمل نہیں۔ ( الفتح الربانی مجلس 26)
    فتوح الغیب وعظ نمبر 36 میں ارشاد ہے:
    نیت کی حیثیت عبادت کی روح کی طرح ہے بلکہ نیت عین عبادت ہے اور حقیقت عبادت ہے۔
    اخلاص
    قرآن و حدیث میں اخلاص پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اخلاص یہ ہے کہ انسان کا ہر عمل صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے ہو۔ اخلاص کے ساتھ کیا گیا چھوٹا عمل بھی اللہ کے یہاں قبول ہوجاتا ہے اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل قبول نہیں ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے:
    اللہ تعالیٰ اعمال میں سے صرف وہی عمل قبول کرتے ہیں جو صرف اس کی ذات کے لیے کیا گیا ہو اور اس سے اسی کی رضا مقصود ہو۔ ( ابوداود، نسائی)
    حضرت شیخ کی تعلیمات میں بھی اخلاص پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حضرت شیخ نے اخلاص کی تعریف یوں فرمائی ہے:
    پورا اخلاص اللہ کے سوا سب سے خالص کرنے کا نام ہے۔ (الفتح الربانی مجلس 17)
    ایک اور جگہ اس طرح فرمایا ہے:
    خلوص یہ ہے کہ ہر وقت اور ہر حال میں خالق کو دیکھے۔ (فتوح الغیب وعظ 76)
    الفتح الربانی مجلس 24 میں ارشاد ہے:
    ہر وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو وہ محض چھلکا ہے، جس میں گری نہیں، یا لکڑی ہے جس کو کھینچ کر لایا گیا ہے۔ جسم ہے بلا روح کا اور صورت ہے بلا معنی کی اور یہ منافقوں کا عمل ہے۔
    الفتح الربانی مجلس 47 میں مخلص ہونے کی علامت یہ بتائی ہے:
    تیرے اخلاص کی علامت یہ ہے کہ نہ تو لوگوں کی تعریف کی طرف توجہ کرے اور نہ ان کی مذمت کی طرف اور نہ اس مال و دولت کی طرف جو ان کے ہاتھ میں ہے۔
    غنیۃ الطالبین، باب ارکان طریقت میں ارشاد ہوتا ہے:
    طاعت ہو یا گناہ سے بچنا دونوں میں اخلاص کا حکم دیا گیا ہے (اور وہ یہ ہے کہ) عمل کے وقت اس کے دل میں اللہ کے سوا کسی کی رضا طلبی اور دکھاوے کا خیال میں نہ ہو۔
    قرآن و حدیث
    حدیث شریف میں آتا ہے:
    اللہ اس کتاب (قرآن) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو بلند کرتا ہے اور اس کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو پست کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)
    حضرت شیخ نے بھی اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے:
    جب بنی اسرائیل نے توریت پر عمل نہ کیا تو حق تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مسخ کردیا اور اپنے دروازے سے انہیں دھکا دے دیا۔اسی طرح اے امت محمدیہ! اگر تم قرآن پر عمل نہ کروگے اور اس کے احکام کو مضبوط نہ تھامو گے تو اللہ تمہارے دلوں کو بھی مسخ کردے گا اور ان (دلوں) کو اس کے دروازے سے دور کردیا جائے گا۔ (الفتح الربانی مجلس 61)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
    بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھا طریقہ وہ جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا۔ (صحیح مسلم )
    چنانچہ ہر معاملے میں قرآن و حدیث ہی ہمارے رہبر ہیں۔ حضرت شیخ کا ارشاد ہے:
    قرآن و حدیث کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں مضبوط تھام کیونکہ جس نے قرآن و حدیث کو چھوڑا وہ مرتد ہو کر حد اسلام سے خارج ہوگیا کہ آخرت میں اس کا انجام دوزخ اور عذا ب ہوگا اور دنیا میں غضب الہی۔ (الفتح الربانی مجلس 62)
    جلاء الخواطر مجلس 42 میں ارشاد ہوتا ہے:
    اپنے تمام کاموں میں قرآن و حدیث سے فتوی لو۔ جب تمہیں اپنے دین کے معاملے میں کوئی مشکل پیش آئے تو تم کہو اے قرآن تم کیا کہتے ہو؟ اے حدیث تم کیا کہتی ہو؟ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیا فرماتے ہیں؟ جب تم نے ایسا کیا تو تمہاری مشکل حل ہوجائے گی۔ جب تمہیں کسی چیز میں مشکل پیش آئے تو اس کے بارے میں ظاہر شریعت والوں (یعنی مفتیوں) سے پوچھو۔
    بدعت
    دین صرف اور صرف اتباع کا نام ہے۔ یہاں وہی عمل قابل قبول ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہو۔ اپنی طرف سے نہ کسی عمل میں کمی کی اجازت ہے نہ زیادتی کی۔ ہر وہ کام جس کی کوئی دلیل قرآن و حدیث سے نہ ملتی ہو لیکن اس کو دین کا حصہ سمجھ کر کیا جائے یا چھوڑا جائے بدعت ہے۔ اسی طرح کسی عمل کو اس کے درجے سے آگے بڑھا دینا بھی بدعت ہے۔
    صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
    جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
    حضرت شیخ نے اپنے مواعظ میں بار بار بدعت سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔الفتح الربانی مجلس 47 میں فرماتے ہیں:
    اتباع کرو بدعتی مت بنو، موافقت کرو مخالف نہ بنو۔ اطاعت کرو نافرمان نہ بنو۔
    فتوح الغیب کے وعظ نمبر 36 میں ارشاد ہے:
    جو کوئی ایسا عمل کرے گا جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں تو وہ عمل مردود (ٹھکرایا ہوا) و باطل ہے۔آپ کے اس ارشاد میں اعمال، اقوال اور رزق سب شامل ہیں۔

    بدعت میں کوئی خیر نہیں چاہے ظاہر میں یہ کتنی ہی اچھی لگے لیکن اللہ کے دربار میں قابل قبول نہیں ہے۔ اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے حضرت شیخ فرماتے ہیں:

    بدبختی تمہاری تم اپنے اسلام کا دعوی کرتے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہو۔اپنی نفسانی خواہش کے مطابق جو نئی چیز دین میں چاہتے ہو نکال لیتے ہو۔ اپنے اسلام میں جھوٹے ہو۔ تم اتباع کرنے والے نہیں ہو بلکہ دین میں نئی چیزیں نکالنے والے ہو۔تم موافق نہیں ہو بلکہ مخالف ہو۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح فرمایا اتباع کرو اور نئی چیز نہ نکالو۔ سو تمہاری کفایت ہوتی۔تم دعوی اس (اتباع) کا کرتے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مختلف کرتے ہو۔تمہارے لیے بزرگی نہیں۔(جلاء الخواطر مجلس 40)
     
    سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں