1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شیخ عبدالقادر جیلانی کی دعوت ایک جائزہ-11:(حضرت شیخ کی تعلیمات: عبادت، دعا)

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏27 فروری 2017۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    عبادت

    اعمال میں سب سے پہلے عبادات ہیں۔جب خالق و مالک نے انسان کو پیدا فرمایا تو اس کی پیدائش کا مقصد بھی طے کردیا۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

    و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون() (الذریت: 54)

    ترجمہ:اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

    جب وہ اسی میں راضی ہے کہ انسان اس کی عبادت کرے اور اسی کی بندگی اختیار کرے تو انسان کو بھی چاہیے کہ اسی کی عبادت میں اپنے کو کھپائے تاکہ اپنی تخلیق کے مقصد کو پاسکے۔ حضرت شیخ نے اس کی وضاحت یوں فرمائی:

    اس نے تجھ کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، پس کھیلو مت اور اس نے تجھ کو اپنی مصاحبت کے لیے چاہا ہے پس اس کے غیر کے ساتھ مشغول مت ہو۔ اس کی محبت میں شریک بنا کر اس کے ساتھ کسی کو بھی محبوب مت سمجھ۔ (الفتح الربانی مجلس 37)

    عبادت کس کو کہتے ہیں؟ عبادت دراصل بندگی کا نام ہے، یعنی بندہ ہونا۔ کسی کا بندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر وقت ہر چیز میں اس کا محتاج ہو اور اس کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہ ہو۔ ایسی ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہے۔ جلاء الخواطر مجلس 37 میں حضرت شیخ کا ارشاد گرامی ہے:

    کھوٹ مت ملاؤ، دہوکہ مت دو، دکھاوا مت کرو، چونکہ وہ چھپی چیزوں کو جانتا ہے، آنکھوں کی چوری اور سینوں کی چھپی چیزوں کو جانتاہے۔ اس بادشاہ روزی دینے والے کی خدمت کرو اور یہی انعام دینے والا ہے، یہی ہے جس نے تمہارے لیے سورج کو روشنی اور چاند کو چاندنی اور رات کو چین بنا دیا ہے۔ تمہیں نعمتوں سے خبردار کردیا ہے اور ان کو شمار کردیا ہے تاکہ تم ان پر شکر کرو۔ان کو شمار کرنے کے بعد فرما دیا(( اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے۔)) جس نے حقیقتا اللہ کی نعمتوں کو دیکھا شکر سے عاجز رہا۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کو پہچانتے تو اس کے سامنے تمہاری زبانیں گنگ ہوجاتیں۔ اور تمہارے دل اور ہاتھ پاؤں سب حالات باادب ہوجاتے۔

    بقول شاعر مشرق:

    میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

    حضرت شیخ کے نزدیک صنم پرستی اور صنم آشنائی دونوں ہی عبادت ہیں۔ فرماتے ہیں:

    تو جھوٹ بولتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی نمازوں میں بھی۔ اس لیے کہ تو زبان سے کہتا ہے اللہ اکبر اور جھوٹ کہتا ہے اس لیے کہ تیرے قلب میں اللہ کے سوا دوسرے معبود موجود ہیں۔ ہر وہ چیز جس پر تو اعتماد کرتا ہے تیرا معبود ہے اور ہر و ہ شے جس سے تو خوف کرے یا امید لگائے وہ تیرا معبود ہے۔ (الفتح الربانی مجلس 22)

    الفتح الربانی کی مجلس 23 میں ارشاد ہوتا ہے:

    ہر وہ شخص جو نفع نقصان کو غیر اللہ کی طرف سے سمجھے وہ اللہ عز و جل کا بندہ نہیں ہے۔ وہ اسی کا بندہ ہے جس کی طرف سے نفع نقصان سمجھا۔

    عبادات میں سب سے پہلا عمل نماز ہے۔ نماز دین اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

    قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر بندہ اس میں پورا اترا تو باقی اعمال میں بھی کامیاب ہوگا۔ اور اگر اس میں پورا نہ اترا تو باقی سارے اعمال بھی خراب ہو جائیں گے۔ (طبرانی)

    حضرت شیخ فرماتے ہیں:

    مومن کے نزدیک سب سے پیاری چیز عبادت ہے۔ اس کو سب سے زیادہ محبوب نماز کی طرف اٹھ کر جانا ہے کہ بیٹھا ہوا ہے اپنے گھر میں اور اس کا دل منتظر ہے مؤذن کا کہ مؤذن اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا ہے۔اس نے اذان سنی اور اس کے قلب میں ایک سرور آیا اور مسجد کی طرف لپک جاتا ہے۔ (الفتح الربانی مجلس 62)

    حضرت شیخ فرماتے ہیں:

    تم پہلی صف کی پابندی کرو چونکہ وہ بہادروں کی صف ہے اور آخری صف کو چھوڑ دو وہ بزدلوں کی صف ہے۔ (الفتح الربانی مجلس 63)

    ایک اور جگہ نماز اور صدقہ کی اہمیت کو اس طرح واضح فرمایا:

    نماز تجھ کو آدھا راستہ طے کرائے گی اور روزہ دورازے پر لا کھڑا کرے گا اور صدقہ تجھ کو مکان کے اندر داخل کر دے گا۔ بعض مشائخ نے اسی طرح فرمایا اور تم اللہ کا راستہ طے کرنے میں صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ (ملفوظات شیخ)

    روزہ کے متعلق الفتح الربانی مجلس 18 میں فرمایا:

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت جب تک ماہ رمضان کی عظمت کرتی رہے گی رسوا نہ ہوگی۔ اس کی عظمت یہ ہے کہ اس میں تقوی (اختیار) کرنا، اور اس میں شریعت کی حدود کی حفاظت کے ساتھ روزہ خالص اللہ کے واسطے رکھنا۔

    زکوٰۃ کے متعلق حضرت شیخ فرماتے ہیں:

    زکوٰۃ دو اور اپنی زکوٰۃ میں اخلاص اختیار کرو۔ (جلاء الخواطر مجلس 30)

    حج کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

    حج کرو اوراپنے حج میں اخلاص اختیار کرو۔ (جلاء الخواطر مجلس 30)

    دعا

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی بہت اہمیت بتائی ہے اور اس کو عبادت شمار کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

    دعا عبادت ہے۔ (ترمذی)

    ایک اور موقع پر فرمایا:

    دعا عبادت کا حاصل ہے۔ (ترمذی)

    اس لیے جس طرح تمام دوسری عبادتیں اللہ تعالیٰ کا حق ہیں اسی طرح دعا بھی اسی کا حق ہے۔حضرت شیخ بھی دعا کو عبادت ہی کا درجہ دیتے ہیں جلاءالخواطر مجلس 14 میں ارشاد ہوتا ہے:

    اے اللہ کے بندو! عقل سیکھو۔ اپنے معبود کو اپنی موت سے پہلے پہچاننے کی کوشش کرو۔اپنی حاجات مانگو۔ تمہارا دن رات اس سے مانگنا اس کی عبادت ہے۔

    ان کے نزدیک اللہ سے مانگنا اس کی توحید کا اظہار ہے۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں:

    اللہ تعالیٰ کے موحد (ایک ماننے والا) بنو اس کے دروازے سے ٹلو مت اسی سے مانگو اور کسی سے نہ مانگو اسی سے مدد چاہو اور غیر سے مدد نہ چاہو اسی پر بھروسہ کرو اور کسی دوسرے پر بھروسہ مت کرو۔ (الفتح الربانی مجلس 14، 33،47،50)

    حدیث شریف میں آتا ہے:

    اور جب مانگو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنا۔ ( ترمذی)

    الفتح الربانی مجلس نمبر62 میں حضرت شیخ نے اس کو اس طرح سمجھایا ہے:

    ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے لہذا دوسروں سے کچھ نہ مانگ۔ کیا تو نے اللہ کہ یہ فرمان نہیں سنا کہ (کوئی چیز بھی ہو ہمارے پاس ہی اس کے خزانے ہیں لیکن ہم اس کو مقررہ مقدار میں اتارتے رہتے ہیں، الحجر- 21)) اس آیت کے بعد بحث کی گنجائش نہیں رہتی۔

    حدیث شریف میں آتا ہے:

    تم میں سے ہر شخص اپنی ضرورت کے لیے اللہ سے سوال کرے یہاں تک کہ نمک کی ڈلی بھی اسی سے مانگے اور جب جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے مانگے۔ (ترمذی)

    حضرت شیخ اس حدیث شریف کی اس طرح وضاحت فرماتے ہیں:

    تمام چیزیں جو تو چاہتا ہے جن میں تیرے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی ہو سب اللہ سے مانگ بشرطیکہ ان میں کوئی حرام چیز نہ ہو۔سوال اس لیے کہ اللہ نے سوال کرنے کا حکم دیا اور بندوں کو ترغیب دی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ ادعونی استجب لکم (المؤمن- 60)یعنی مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔ اور فرمایا ہے کہ واسئلوا اللٰہ من فضلہٖ (النساء- 32) ا ور اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ (فتوح الغیب وعظ 66)

    دعا کے ذیل میں حضرت شیخ ایک آیت کی تفسیر فرماتے ہیں:

    تمہارے عالم جاہل ہیں اور تمہارے جاہل دھوکے باز۔ تمہارے زاہد دنیا پر حریص ہیں۔ تو دین کے بدلے دنیا نہ کما دین سے تو آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ آپ (یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی) نے ((ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ انہٗ لا یحب المعتدین)) (الاعراف -55) یعنی تم اپنے رب سے دعا کرو گڑگڑاتے اور آہستہ بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں رکھتا ہے۔)) کے ظاہر پر عمل کر کے تفسیر فرمائی کہ حد سے بڑھنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے سوا دوسرے سے مانگے اور غیر اللہ سے سوال کرے۔ (ملفوظات شیخ)
     
    سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں