1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دھیما لہجہ ۔۔ میٹھا انداز ۔ اور درگزر کرنا

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ, ‏20 اگست 2016۔

  1. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    حدیثِ رسول الله ۔ راوی سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ'آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ یَّدِہٖ وَلِسَانِہٖ‘‘ (مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔)
    زبان کی حفاظت نہایت ضروری ہے کیونکہ زبان کے غلط استعمال کے نتیجے میں باہمی کدورت جنم لیتی ہے ،،کیا ہی اچھا ہو کے ہم سے اگر جان بوجھ کے یا انجانے میں کسی سے ہم نےغلط بات کہہ دی ہو ۔۔ ہم اس سے معافی مانگ لیں ۔ معافی مانگنے سے کوئی چھوٹا نہیں ہوجاتا ۔۔ بلکے اس کی عزت بڑھ جاتی ہے ۔۔اور اگر سامنے والے کی غلطی ہوتی ہے تو وہ آپ پر ظاہر کرے یا نا کرے ۔۔ مگر وہ دل ہی دل میں شرمندہ ضرور ہوگا اور آپ کی قدر اس کی نظر میں بڑھ جائے گی ۔۔
    مولانا عبدالمالک مجاہد جو کے دارالسلام انٹرنیشنل کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں ۔۔ اپنے لکچر میں اس ہی طرز عمل پر ایک واقعہ سنایا جو ان کو انکے جانے والے عالم نے ان کو سنایا ۔۔
    کچھ اس طرح ہے بیان کیا ۔۔۔ ہم چار ساتھی موٹرگاڑی میں ریاض سے قصیم کی طرف جا رہے تھے کہ سڑک پر اونٹوں کا ایک ریوڑ آگے آ گیا۔ آگے پیچھے اونٹ بڑی بے نیازی سے سڑک پار کر رہے تھے، ہم رُک گئے۔ باقی اونٹ تو یکے بعد دیگرے پار کر گئے مگر آخری اونٹ بہت ہی دھیمے دھیمے سڑک پار کرنے میں مگن رہا۔ ہم جلدی میں تھے، لہٰذا مجھے اس نامعقول اونٹ پر غصہ آ گیا اور میں نے گاڑی سے نکل کر جانے اُسے کیا کچھ کہہ دیا۔ دوسری جانب ریوڑ کا مالک موجود تھا۔ وہ لپک کر آیا اور میری زبان سے اپنے اونٹ کی توہین پر آگ بگولا ہو کر اس نے مجھ پر دشنام طرازی کی بوچھاڑ کر دی یری ماں ایسی، تیرا باپ ایسا، تیرا فلاں ایسا۔۔۔ میرے لئے یہ صورتِ حال سخت پریشان کُن تھی، تاہم میں نے ضبط و تحمل سے کام لیا اور آگے بڑھ کر اس سے معذرت کی کہ یاشیخ! مجھے افسوس ہے میں نے آپ کے اونٹ کو ڈانٹا اور اس کے بارے میں بری بری باتیں کہہ دیں، آپ مجھے معاف کر دیں۔ اس پر وہ دھیما پڑ گیا، اس نے اپنے سخت رویے پر معذرت کی اور فوراً اپنی گاڑی میں سے میں سے دسترخوان نکالا اور ریت پر بچھا کر ہمیں کھانے کی دعوت دی۔
    میں نے کہا کہ ہمیں کھانے کی حاجت نہیں، البتہ آپ ہمیں اپنی اونٹنیوں کا دودھ پلائیں۔ اس نے اپنے ملازم کو آواز دی اور اونٹنی کا دودھ دوہ کر لانے کو کہا۔ وہ تازہ دودھ دوہ کر لے آیا اور ہمیں جام بھر بھر کر پلایا۔ دودھ پی کر میں نے رخصت طلب کرتے ہوئے بدوی عرب شیخ سے پھر معافی مانگی تو اس نے کہا: ایک شرط پر تمھیں معافی مل سکتی ہے۔ پوچھا: وہ شرط کیا ہے؟
    ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: دیکھو، وہ میری چار پردہ دار بیٹیاں موجود ہیں۔ شرط یہ ہے کہ تم چاروں ایک ایک سے نکاح کر لو۔ یوں ہمیں ان سے نکاح کرتے ہی بنی اور وہ ہمارے لئے بہت نیک بخت اور اطاعت گزار ثابت ہوئیں۔‘‘ یہ فرمان نبوی کے مطابق زبان کی حفاظت کا کرشمہ تھا، ورنہ اگر وہ صاحب بھی اونٹوں کے مالک کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے تو جھگڑا ہوتا اور اس کا انجام کچھ بھی ہو سکتا تھا۔۔
    ہم مسلمان ہیں الحمد اللہ ۔۔ حضورصلى الله عليه وسلم کی سنت پر عمل کرکے دنیا اور آخرت دونوں میں سرخورو ہوسکھتے ہیں ۔۔۔ الله ہر مسلمان کو ہدایت عطا فرمائے آمین
     
    نعیم اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ خیر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں