1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت پیر کرم شاہ الازہری رحمۃاللہ علیہ۔ آج کے دور میں ایسے علماء کی ضرورت ہے

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏22 نومبر 2013۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت پیر کرم شاہ الازہری :ra:
    آج کے دور میں ایسے علمائے کرام کی ضرورت ہے


    از قلم۔ ڈاکٹر علی اکبر الازہری​

    گذشتہ روز لاہور کے ایک دینی ادارے میں مجھے ایک روح پرور تقریب میں شمولیت اور اظہار خیال کا موقع ملا۔ یہ تقریب تحسین ”ضیاءالامت فاﺅنڈیشن“ کی طرف سے انعقاد پذیر تھی جس میں علماءو مشائخ کی کثیر تعداد نے اس عہد کی ایک مثالی شخصیت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کی دینی وملی، علمی و تحقیقی، دعوتی و تدریسی اور تعلیمی و روحانی خدمات کے متعدد پہلوﺅں پر اظہار خیال کیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کاش اسلامی دنیا اور بالخصوص ہمارے ملک میں اگر جسٹس پیر کرم شاہ جیسے علمائ، محقق اور مدرس ہوتے تو آج ہم اہل عالم کے لئے یوں تماشا نہ بنتے۔ 10 محرم الحرام یوم عاشور کے روز تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود راولپنڈی کے گنجان آباد تجارتی مرکز میں واقع دارالقرآن میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ یہ تو بھلا ہو الیکٹرانک میڈیا کے احباب کا جنہوں نے پہلی بار شعوری بلوغت اور ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اسکی لائیو کوریج سے گریز کیا اور پورے ملک کو آگ کے شعلوں میں دھکیلنے سے بچالیا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات مذہبی ایام میں مذہبی مقامات پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟ کہنے کو تو ہم تیسرے ہاتھ کی کاروائی کہہ کر خود کو تسلی دے دیتے ہیں یا پھر اسے غیر ملکی سازش کے کھاتے میں ڈال کر اپنی بے گناہی کا جواز ڈھونڈھ لیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دشمن ہمارے گھر کی دیوار پھلانگ کر ہمارے صحن میں مورچہ بند ہوچکا ہے مگر اس نوعیت کے واقعات بلا سبب نہیں ہوتے‘ فرض کریں یہ کاروائی اگر مکار دشمن کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے تو پھر سمجھنا چاہئے کہ اس ابلیسی منصوبہ بندی کے اگلے اقدامات اس سے بھی بھیانک ہونگے۔
    کیا ہمارے اربابِ اقتدار، انتظامیہ اور علماءنے اس کے مقابلے میں جوابی حکمت عملی بھی تیار کی ہے؟ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر تفصیلی گزارشات کی ضرورت ہے لیکن اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں گذشتہ کئی عشروں سے دینی ادارے، مذہبی تحریکیں اور شخصیات جذباتی ماحول میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ اس جذباتی ماحول کی مہلک ترین چیز ”عدم برداشت“ ہے جس کا سرچشمہ بدگمانی، بداعتمادی، انا، تکبر اور علمی رعونت ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہی وہ شخصی نقائص اور نفسیاتی کمزوریاں ہیں جن کے علاج کیلئے قرآن نے بار بار ضبط نفس، تحمل، عجز و انکساری، نیک نیتی اور دوسروں سے مودت و محبت کے رویوں کی تعلیمات دی ہیں مگر عام انسان عجلت پسند اور محدود مفادات کا عادی ہے۔ صوفیاءنے عملاً اپنی شخصیات سے بڑی محنت مشقت اور ریاضت سے ان انسانی کمزوریوں کو اللہ کے فضل سے دور رکھا تب جاکر وہ معاشرے اور پوری انسانیت کیلئے رحمت و رافت اور شفقت و محبت کی علامت کہلائے۔ حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ کی شخصیت ہمارے عہد کی ایسی ہی ایک خوبصورت اور ضیاءبار شخصیات میں سے ایک تھی جن کے قول اور عمل کی صداقت آج ایک حقیقت بن کر ہمارے علماءو مشائخ کیلئے مینارہ¿ نور بن چکی ہے‘ انکے علمی دینی اور تعلیمی کارناموں کا جائزہ لیتے ہوئے معاصر حالات پر نظر ڈالی جائے تو صاف لگتا ہے کہ اللہ پاک نے انہیں پیغمبرانہ مشن کی ترویج و اشاعت کے عظیم منصب کیلئے مختص کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت نے انکے علمی اور فکری ارتقاءمیں قدم قدم پر تعلیم و تزکیہ کے روشن میناروں کو ان کی تربیت پر معمور رکھا۔
    پیر صاحبؒ چونکہ خود دونوں طرف کے شناور تھے اس لئے آپ نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے علماءکو معاشرے میں جائز مقام حاصل کرنے کے قابل بنانے کی کامیاب کوشش کی۔ یہ وہ دور تھا جب ایک طرف عالمی سطح پر کمیونزم، سوشلزم اور کیپٹلزم کا طوفان اسلامی تہذیب و ثقافت کے سرچشموں کو اپنی گرفت میں لے رہا تھا اور دوسری طرف وطن عزیز میں سرخ و سفید سامراج کے کارندے ایوان اقتدار پر قبضے کی فکر میں مذہبی اور روحانی اقدار کو مسمار کرنا چاہتے تھے۔ حالات کے اس تناظر میں دیکھا جائے تو پیر صاحب ان چند افراد میں سے ایک نظر آتے ہیں جنہوں نے اس نظریاتی محاذ پر محدود وسائل کے ساتھ اللہ کے بھروسے پر کماحقہ مقابلے کی کامیاب منصوبہ بندی کی۔ دنیا کے ہنگاموں سے الگ تھلگ ایک غیر معروف دور افتادہ قصبے میں بیٹھ کر آپ نے ایسے رجال کار تیار کرنا شروع کئے جو مضبوط ایمان غیر متزلزل ارادے ، آہنی عزم پختہ علم اور سب سے بڑھ کر عشق رسول کی قوت سے لیس تھے۔ چنانچہ آج ملک اور بیرون مک ان کا چمن آرزو انہی پر عزم مجاہد صفت علماءکے دم قدم سے پر بہار ہے۔
    وہ بظاہر ہم میں نہیں رہے لیکن انکے روشن کئے ہوئے چراغ صدیوں تک شاہراہ حیات پر روشنیاں بانٹتے رہیں گے اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ وہ اپنے عہد کے کامیاب انسان تھے انہوں نے جو چاہا اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ بھی لیا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ انہیں اللہ پاک نے یہ کامیابیاں دین کی بے لوث خدمت کے انعام میں عطا کیں۔ آج ہمیں ایسے ہی رجال کار کی ضرورت ہے جو روشنیاں بانٹنے کا کام کریں نفرتیں نہیں جو قلم اور زبان کی قینچی سے تفرقہ نہ پھیلائیں بلکہ سوئی کی طرح جسدِ امت کے چاک گریباں کو سینے کا ہنر جانتے ہوں۔

    بشکریہ نوائے وقت کالم
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ جناب
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. whs0123
    آف لائن

    whs0123 ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2016
    پیغامات:
    4
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک الله خیر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں