1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حاتم طائی: سخاوت میں ضرب المثل انسان

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏25 نومبر 2017۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    عبدالمعین انصاری

    حاتم بن عبداللہ بن سعدطائی کا والد بچپن میں ہی فوت ہوگیا تھا۔ اس کی ماں نے اس کی پرورش کی۔ وہ بڑی دولتمند خاتون تھی اور نہایت فیاض تھی۔ اپنی تمام ملکیتی چیزیں سخاوت کردیتی تھی۔ ایک دفعہ اس کے بھائیوں نے اس کا تمام مال روک لیا اور اسے ایک سال تک قید رکھا۔ انہوں نے سوچا کہ اسے فاقہ کا مزا چکھائیں اور مال و دولت کی قدر و قیمت بتائیں اور جب اسے چھوڑا تو اس کے مال میں سے تھوڑا سا حصہ دیا۔ اتنے میں بنو ہوازن کی ایک تنگ دست خاتون اس کے پاس فریاد لے کر آئی تو اس نے وہ سارا مال اسے دے دیا اور کہنے لگی جب میں نے بھوکا رہ کر اس کی تکلیف دیکھی ، اس وقت سے میں نے قسم کھالی کہ کسی سائل سے کوئی چیز نہ چھپاؤں گی۔ اس سخی ماں نے حاتم کی تربیت کی اور اس عادت کا اسے وارث بنایا۔ وہ جوان ہو کر بڑا سخی بنا۔ وہ سخاوت سے ہی دل بہلاتا اور اس میں اس قدر مبالغہ کرنے لگا کہ جنون کی حد تک پہنچ گیا۔ یہ اپنے دادا کے پاس رہتا تھا ، چھوٹی سی عمر تھی ، اپنا کھانا لے کر باہر نکل جاتا ، اگر کوئی کھانے والا ساتھ مل جاتا تو ساتھ مل کر کھالیتا ، ورنہ اپنا کھانا پھینک آتا۔ حاتم کا دادا ایسی سخاوت کو ناپسند کرتا۔ چنانچہ دادا نے اسے اونٹوں کی نگرانی پر لگا دیا۔ ایک دن عبید بن الا برص ، بشیر بن ابی حازم اور نابغہ ذبیانی نعمان کے پاس جاتے ہوئے اس کے پاس سے گزرے اور اس سے مہمانی کا مطالبہ کیا۔ اس نے ہر ایک کے لئے ایک ایک اونٹ ذبح کیا ، حالانکہ وہ انہیں جانتا بھی نہیں تھا۔ جب انہوں نے اپنے نام بتائے تو سارے اونٹ ان میں تقسیم کر دیئے ، وہ تقریباً تین سو تھے اور خوشی خوشی گھر آیا دادا کو مبارک باد دی کہنے لگا میں نے دائمی عزت و مجد کا ہار آپ کے گلے میں ڈال دیا ہے ، پھر جو کچھ ہوا پورا قصہ سنایا۔ دادا نے یہ معاملہ سن کر کہا ’’اب تو میرے ساتھ نہیں رہ سکتا‘‘ حاتم نے کہا مجھے اس کی کوئی پروا نہیں پھر یہ اشعار کہے۔ میں تنگ دستی و ناداری میں لوگوں سے اجتناب کرتا ہوں اور مالداری کی حالت میں ان کے ساتھ مل جل کر رہ سکتا ہوں اور اپنے سے غیر آہنگ شکل ترک کردیتا ہوں۔ میں اپنے مال کو اپنی عزت و آبرو کے لئے ڈھال بنالیتا ہوں اور جو بچ رہتا ہے مجھے اس کی پروا نہیں۔ مجھے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا کہ سعد (دادا) اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا گیا اور مجھے گھر تنہا چھوڑ دیا کہ میرے ساتھ میرے گھر والے نہیں ہیں۔ حاتم کی سخاوت کے چرچے گھر گھر عام ہوگئے اور اس کی سخاوت و فیاضی کی داستانیں ضرب المثل بن گئیں اور اس ضمن میں بڑے بڑے عجیب و غریب قصے بیان کئے جاتے ہیں۔ جن میں اکثر صرف زیب داستان کے لئے بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں۔ بن اعرابی کے مطابق حاتم ہر میدان میں کامیاب ہوتا ہے ، جب جنگ کرتا تو وہ غالب آجاتا ہے ، جب وہ مقابلہ کرتا ہے تو سبقت لے جاتا ہے ۔ حاتم ہر روز دس اونٹ ذبح کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا اور لوگ اس کے پاس جمع ہوجاتے تھے۔ حاتم اس طرح لوگوں کو کھانا کھلاتا رہا اور مال لٹاتا رہا اور وہ 578 عیسوی میں اس دار فانی سے رخصت ہوگیا۔ حاتم نے نوار نامی عورت سے شادی کی پھر یمن کے بادشاہ کی بیٹی ماویہ بنت عفرز سے نکاح کیا۔ ان دونوں بیویوں سے اس کے تین بچے عبداللہ ، سفانہ اور عدی پیدا ہوئے۔ آخری دونوں نے اسلام کا زمانہ پایا اور اسلام سے فیض یاب ہوئے۔ اخلاق و عادات:حاتم ایسے اعلیٰ اخلاق کا مالک تھا ، جس کی نظیر زمانہ جاہلیت میں نہیں ملتی ہے ، وہ نہایت خاموش طبع ، نرم دل اور حد درجہ بامروت تھا۔ حاتم کی بیٹی سفانہ جب قیدیوں میں قید ہو کر آئی تو رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑی ہو کر رہائی کی درخواست کرتے ہوئے کہنے لگی ’’میرا باپ قیدیوں کو آزاد کراتا تھا ، حقوق کی حفاظت کرتا تھا ، مہمان نواز تھا اور مصیبت زدہ کی پریشانیوں کو دور کرتا تھا ، کھانا کھلاتا تھا ، اس نے ضرورت مند کو کبھی خالی نہ لوٹایا‘‘ تو رسول اللہ نے فرمایا یہ صفات مومن کی ہیں ’’تیرا باپ اگر مسلمان ہوتا تو ہم ضرور اس پر رحمت بھیجتے‘‘ اور فرمایا اس کو چھوڑ دو کیوں کہ اس کا باپ مکارم اخلاق کو پسند کرتا تھا۔
     
    Last edited: ‏25 نومبر 2017
    ناصر إقبال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں