1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جو عرش کو ہلا دے

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏22 اپریل 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    جو عرش کو ہلا دے
    24۔04۔2017
    جب کسی جوڑے کی اولاد نہ ہو رہی ہو تو وہ فوری طور پر ڈاکٹرز سے رجوع کرتا ہے جو دونوں کے میڈیکل ٹیسٹ کر کے دیکھتے ہیں کہ یہ طبی لحاظ سے بچہ پیدا کرنے کی اہلیت رکھتے بھی ہیں کہ نہیں۔

    بعض کیسز میں یہ سامنے آ جاتا ہے کہ بچہ پیدا کرنے کی بنیادی اہلیت تو رکھتے ہیں مگر اس کی راہ میں کچھ عارضی رکاوٹیں حائل ہیں۔ چنانچہ وہ علاج کے ذریعے ان رکاوٹوں کو دور کر دیتے ہیں اور یوں اس جوڑے کے ہاں بچے کی ولادت ہو جاتی ہے۔

    بعض کیسز میں رپورٹس یہ بتا دیتی ہیں کہ بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت بالکل ہی نہیں ہے، اور ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس صلاحیت کے نہ ہونے کے سبب اس جوڑے کی فی الحال اولاد نہیں ہو سکتی۔ اس طرح کے کیسز میں میڈیکل سائنس بالکل درست کہتی ہے لیکن جو اگلی گزارش کرنے جا رہا ہوں، اس پر آپ دوستوں سے غور کی درخواست ہے۔

    اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ
    جسے ہم چاہتے ہیں، صاحب اولاد بنا دیتے ہیں، اور جسے چاہتے ہیں بانجھ پیدا کر دیتے ہیں۔

    اب جوں ہی آپ پر میڈیکل سائنس انکشاف کرتی ہے کہ آپ تو بانجھ ہیں تو آپ کچھ دن کا سوگ منا کر بےاولادی قبول کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ اس بات پر غور ہی نہیں کرتے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں کچھ اور بھی بیان فرما رکھا ہے۔ مثلا پیدائش کے باب میں فطری قاعدہ یہی ہے کہ اولاد ماں اور باپ کے ملاپ سے وجود میں آتی ہے لیکن اسی پیدائش والے باب میں ہم قدرت کے چار مظاہر دیکھتے ہیں۔

    1. پہلا یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وجود میں باپ کا کوئی کردار ہے اور نہ ہی ماں کا، وہ کسی کی اولاد نہیں ہیں۔
    2. حضرت حوا کی تخلیق میں مرد یعنی حضرت آدم کا کردار تو ہے لیکن عورت کا کوئی کردار نہیں۔
    3. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بغیر باپ کے پیدا فرمایا یعنی ان کی تخلیق میں عورت کا کردار تو ہے لیکن باپ کا کوئی کردار نہیں۔ انسان کے وجود میں آنے کے یہ تینوں عظیم الشان نمونے خاص ہیں جو ان تین مواقع کے علاوہ کہیں نظر آئے ہیں اور نہ ہی نظر آ سکیں گے
    4. لیکن انسان کی پیدائش کے معاملے میں سورہ مریم کا آغاز ہی ایک چوتھی طرح کا معاملہ پیش کرتا ہے جو اس لحاظ سے تو خاص ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام بڑھاپے کی انتہاء میں اللہ سے اولاد مانگتے نظر آ رہے ہیں اور جواب میں بشارت بھی حضرت یحیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مل رہی ہے لیکن اس لحاظ سے عام ہے کہ آج بھی بہت سے افراد کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ بڑھاپے میں اولاد سے نواز دیتے ہیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے واقعے میں قابل غور بات یہ ہے کہ بڑھاپے میں اللہ سے اولاد مانگنے کا خیال انھیں حضرت مریم علیہ السلام کے پاس بےموسم پھل دیکھ کر آیا اور انھوں نے سوچا کہ جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ حضرت مریم کو بےموسم پھل دے رہے ہیں، ویسے ہی مجھے بڑھاپے والے خشک سالی موسم میں اولاد بھی تو دے سکتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، انہوں نے اپنے رب کے آگے دعاء پیش کر دی اور دعاء بھی یوں کہ کوئی اور سن نہ سکے۔
    كھيعص (1) ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَہ زَكَرِيَّا (2) إِذْ نَادَىٰ رَبَّہ نِدَاءً خَفِيًّا (3) قَالَ رَبِّ انِّي وَھنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّاسُ شَيْبًا وَلَمْ اكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا (4) وَانِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَاتِي عَاقِرًا فَھبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا (5) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْہ رَبِّ رَضِيًّا (6) يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُہ يَحْيَىٰ لَمْ نَجْعَل لَّہ مِن قَبْلُ سَمِيًّا (7) قَالَ رَبِّ انَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَاتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا ( 8 ) قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ ھوَ عَلَيَّ ھيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا (9)

    اس پس منظر کے ساتھ گزارش یہ ہے کہ میڈیکل رپورٹس دیکھ کر ہمت مت ہارا کیجیے بلکہ حضرت زکریا علیہ السلام کی طرح سوچ کر اللہ سے مانگنے کا اہتمام فرمایا کیجیے۔ یہ تو ایمان کا کیس ہے اور سوال بس یہ ہے کہ آپ کا اللہ پر ایمان و یقین کتنا پختہ ہے۔ یہ جن حضرات کے ہاں پندرہ اور بیس سال بعد پہلی اولاد ہوتی ہے یہ پختہ ایمان والے کیسز ہی تو ہیں۔

    صلوۃ الحاجت بہت کام کی چیز ہے لیکن اس میں تھوڑا سا اہتمام کر لیا جائے تو اس کی قوت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اہتمام یہ ہے کہ آپ رات کے پچھلے پہر غسل فرما کر تازہ کپڑے پہنیے، اچھی سی خوشبو لگائیے اور چار رکعت صلوۃ الحاجت پڑھیے،
    پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد آیت الکرسی اور
    دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھیے۔
    سلام پھیر کر دو رکعت مزید پڑھیے جس کی رکعتوں میں آخری دونوں قل پڑھیے۔
    سلام پھر کر عصر اور فجر والی تسبیح پڑھ لیں اور دس مرتبہ درود شریف پڑھ لیجیے۔
    اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر اپنے رب سے اس طرح مانگیے جس طرح آپ بچپن میں ماں سے چمٹ کر کوئی چیز مانگا کرتے تھے اور تب تک نہیں چھوڑتے تھے جب تک لے نہ لیتے تھے۔
    اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق پیش آتا ہوں تو دوستو اپنے رب سے اچھا گمان قائم رکھا کیجیے اور مایوس نہ ہوا کیجیے۔

    اگر آپ کی رپورٹس نیگٹو آجاتی ہیں تو اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ میڈیکل سائنس اس کیس میں فی الحال آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتی، آپ کا کیس خالصتا اللہ کے دربار کا کیس ہے۔ آپ میڈیکل رپورٹس پر اللہ کے دربار کو بھی چھوڑ دیتے ہیں، کیوں ؟ سائنس اللہ کی قدرت کی نفی تو نہیں۔ ایک بار مانگ کر تو دیکھیے وہ دعاء جو عرش کو ہلا دے !


    تحریر: رعایت اللہ فاروقی

     

اس صفحے کو مشتہر کریں