1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جنگل بک منظوم

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد خلیل الرحمٰن, ‏18 اگست 2015۔

  1. محمد خلیل الرحمٰن
    آف لائن

    محمد خلیل الرحمٰن ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2015
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ملک کا جھنڈا:
    جنگل بُک
    باب اول: موگلی کے بھائی
    از محمدخلیل الرحمٰن

    کہانی اِک مزے کی آج ہم تُم کو سناتے ہیں
    جسے پڑھ کر سبھی بچّے خوشی سے جھوم جاتے ہیں

    یہ ناوِل ہے جسے رڈ یارڈ کپلنگ جی نے لکھّا ہے
    اسے منظوم کرنے کا خیال اب جی میں آیا ہے

    کہیں جنگل میں ننھے بھیڑیوں کو ماں سُلاتی تھی
    تھپکتی تھی اُنھیں اور پیار سے لوری سناتی تھی

    کہیں سے ایک گیدڑ ہڈیوں کو سونگھتا آیا
    طباقی نام تھا جس کا بہت ہی لالچی وہ تھا

    اُسے یوں تھوتھنی اپنی اُٹھاکر سونگھتے پایا
    تو پاپا بھیڑیئے نے بھی اُسے ہڈی پہ ٹرخایا

    اُسے ہڈی ملی، فوراً شرارت کا خیال آیا
    بڑی معصوم سی صورت بناکر اُس نے فرمایا

    سُنا ہے دور جنگل میں کہیں اِک شیر رہتا ہے
    اُسے کھانے کو کچھ بھی مِل نہ پایا اور وہ بھوکا ہے

    کہیں ایسا نہ ہو وہ اپنے جنگل میں بھی آدھمکے
    یہاں پر آکے وہ بس جائے اور محصول لے ہم سے

    یہیں پر ایک بستی ہے جہاں انسان رہتے ہیں
    یہ حضراتِ گرامی شیر سے زیادہ ہی ڈرتے ہیں

    کہیں ایسا نہ ہو یہ شیر اُن کے جانور کھالے
    جواباً آدمی بھی شیر سے کچھ اپنا بدلا لے

    ابھی باتیں یہ جاری تھیں کہ پاپا بھیڑیا بولا
    ’’ابھی یہ کون چیخا تھا، ابھی کِس نے ہے منہ کھولا‘‘

    جب اُس نے غور سے دیکھا، پہاڑی پر نظر آیا
    وہ بچہ نام جس نے بھیڑیوں سے موگلی پایا
    (جاری ہے)​
     
    زنیرہ عقیل اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. محمد خلیل الرحمٰن
    آف لائن

    محمد خلیل الرحمٰن ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2015
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ملک کا جھنڈا:
    باب دوم: شیر خان

    طباقی نے اُسے دیکھا تو فوراً زہر یوں اُگلا
    کہ اِس بچے کو اب تو شیر خان آکر ہی کھائے گا

    اِسے ماما نے جوں دیکھا وہ اِس کی سِمت یوں بھاگی
    اِسے بس دیکھتے ہی اُس کے اندر مامتا جاگی

    کہا کہ ناس جائے شیر کا، وہ کیوں اِسے کھائے
    یہ ایسا کیوٹ بچہ ہے، میں واری ہوگئی ، ھائے

    اُدھر پیچھے سے بچوں کی صدا یوں کان میں آئی
    ’’ہمارا موگلی بھائی، ہمارا موگلی بھائی‘‘

    اچانک غار کے منہ پر اندھیرا چھا گیا یکدم
    بھیانک رات اور جنگل میں چھایا ہُو کا تھا عالم

    دھاڑا شیرباہر غار سے یوں لے کے انگڑائی
    کہا اس غار سے ہے آج آدم بُو مجھے آئی

    کہا پاپا نے یہ سچ ہے، یہ بچہ آدمی کا ہے
    ہمارے غار میں یہ آج ہی بس آکے ٹھہرا ہے

    کہا ماما نے بس یہ آج سے میرا ہی بیٹا ہے
    مزے سے دودھ پی کر یہ مرے بچوں میں لیٹا ہے

    یہ منظر دیکھ کر یوں شیر خانی اپنی بھولا وہ
    بہت بوڑھا ہوا تھا بس جوانی اپنی بھولا وہ

    دبائی دُم ہوا پھر اس جگہ سے وہ رفُو چکر
    طباقی بھی اسی کے ساتھ بھاگا، ہاں وہی گیدڑ

    وہی گیدڑ جو پاپا بھیڑئیے کے غار تک آیا
    جونہی بچے کو دیکھا شیر کو وہ ساتھ ہی لایا

    مگر ماما کا غصہ دیکھتے ہی ساتھ بھاگے وہ
    کبھی تھا شیر آگے اور کبھی ہوتا تھا آگے وہ​
     
    زنیرہ عقیل، شکیل احمد خان اور چھٹا انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. محمد خلیل الرحمٰن
    آف لائن

    محمد خلیل الرحمٰن ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2015
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ملک کا جھنڈا:
    باب سوم : اکیلا

    وہ دونوں بھاگ نکلے جب تو پاپا بھیڑیا بولا
    ابھی یہ موگلی کے راستے کا پہلا پتھر تھا

    ابھی تو جھُنڈ میں اپنے، ہمیں پیشی بھی دینی ہے
    پھر اپنے فیصلے کی اُن سے منظوری بھی لینی ہے

    نہ جھگڑا مول لیں وہ شیر سے تو رام کرنا ہے
    ہمیں تو چُپ چُپاتے بس یہی اِک کام کرنا ہے

    مگر پہلے مجھے تُم یہ بتادو اے مِری بیوی!
    یہ انسانوں کا بچہ ہے اِسے تُم کیسے پالو گی؟

    یہ بولی بھیڑیوں کی ماں اُٹھا کر سر رعُونت سے
    یہ میرا موگلی ہے ، یہ مِرا ننھا سا مینڈک ہے

    اِسے میں پال لوں گی اور پھر اِک دِن وہ آئے گا
    بڑا ہوکر یہ اپنے جھُنڈ کی عزت بڑھائے گا

    یہ لنگڑا شیر جو بزدِل ہے اور گایوں کو کھاتا ہے
    اسی کی سرزنش کو پھر یہاں انسان آتا ہے

    یہ میرا موگلی اِک دِن زمانے کو دِکھائے گا
    بہادُر ہے یہ لنگڑے شیر کو اِک دِن بھگائے گا

    کہا پاپا نے یہ سب ٹھیک ہے لیکن بتاؤتو!
    ذرا مجھ کو کوئی ترکیب اِس گُر کی سِکھاؤ تو!

    ’اکیلا‘ چودھویں کی شب ہمیں جب خود بُلائے گا
    تو اِس انسان کے بچے کو کون اُس سے چھُپائے گا

    کہ جنگل کا یہی قانون ہے ، بچے بڑے ہوکر
    سلامی سربراہِ جھُنڈ کو دیں گے کھڑے ہوکر​
     
    زنیرہ عقیل، شکیل احمد خان اور چھٹا انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. چھٹا انسان
    آف لائن

    چھٹا انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏13 دسمبر 2016
    پیغامات:
    1,962
    موصول پسندیدگیاں:
    744
    ملک کا جھنڈا:
    تکمیل کا شکریہ
     
  5. محمد خلیل الرحمٰن
    آف لائن

    محمد خلیل الرحمٰن ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2015
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ملک کا جھنڈا:
    باب چہارم : جنگل کا قانون

    سنو بچو! کہ اگلی چودھویں کی رات جب آئی
    تو ہر سُو چاند کی روپہلی کرنوں کی ضیا ٔ چھائی

    اکیلا نے کہیں جنگل کی اِک اُونچی پہاڑی پر
    صدا جنگل کے سارے بھیڑیوں کو دی کھڑے ہوکر

    سیَونی جھُنڈ کے سب بھیڑئیے آئے صدا سُن کر
    وہ اپنے سارے بچّوں کو بھی لائے آج چُن چُن کر

    اکیلا دیکھ کر چیخا، ’’ اے میرے بھیڑیو ! پیارو!‘‘
    ’’ذرا تُم غور سے دیکھو، او میرے ساتھیو ! یارو!‘‘

    بنا کر دائرہ بیٹھے ، درندوں کی وہ مجلس میں
    سبھی تھے خون کے پیاسے، سبھی خونخوار تھے جِس میں

    ’’مگر جنگلی درندوں کا بھی اِک قانون ہوتا ہے‘‘
    جو اِس قانون کو توڑے ہمیشہ خود ہی روتا ہے

    یہی قانون تھا اُس جھُنڈ کا، بچے وہاں لائیں
    کہ یوں پلّے یہ اُن کے، جھُنڈ میں شامِل کیے جائیں

    جب اُن کے سامنے بچّے یہ کھیلے، خوش ہوئے سب ہی
    مگر انسان کے بچّے کو دیکھا ، چونک اُٹھے سب ہی

    یہ انسانوں کا بچّہ ہے ، یہاں کیا کرنے آیا ہے؟
    یہ انسانوں کا بچّہ ہے اِسے یاں کون لایا ہے؟

    اِسی اثناٗ میں بھُوکے شیر کی آواز یوں آئی
    ’’ شکاری ہوں ، نوالہ یہ مِرا ہے، مجھ کو دو بھائی!‘‘

    تمہی جنگل کے ہو آزاد باسی یہ دِکھادو نا!
    تمہیں انسان کے بچے سے کیا مطلب بتادو نا!

    یہ سننا تھاکہ وہ چلّائے ہم آواز ہوکر سب
    ’’ہم اِس جنگل کے باسی ہیں ، ہمیں اِس شے سے کیا مطلب؟‘‘

     
    زنیرہ عقیل اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. محمد خلیل الرحمٰن
    آف لائن

    محمد خلیل الرحمٰن ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2015
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ملک کا جھنڈا:
    باب پنجم : بھالو

    خموشی چھاگئی جِس دَم اکیلا سامنے آیا
    وہیں جنگل کا اِک قانون اُس نے پھِر سے دُہرایا

    ’’اگر چاہیں کسی پلّے کو اپنے جھُنڈ میں لانا
    تو پھِر لازِم ہے اُس کے حامیوں کا سامنے آنا

    ذرا یہ غور سے سُن لیں جو ہیں سب حاضِر و ناظِر
    ہمیں درکار ہیں دو جانور اِس کام کی خاطِر‘‘

    یہ سننا تھا کہ بھالو کوُد کر یوں سامنے آیا
    اور اِک بھونچال کی مانند اُس نے سب کو چونکایا

    یہی بھالو تھا جو اِن سب کو مکتب میں پڑھاتا تھا
    سبھی قانون جنگل کے اُنہیں پڑھ کر سُناتا تھا

    اُسے حق تھا کہ اِس مجلِس میں اپنی رائے دے سکتا
    یہ بھالو تھا کُچھ ایسا ہی کہ بس دِل موہ لے سب کا

    کہا بھالو نے یہ بچہ ہے میرا اور میں اسِ کا ہوں
    میں اِس انسان کے بچے کے حق میں رائے دیتا ہوں

    ’’چلویہ طے ہوا اب ایک بھالو اِس کا حامی ہے
    مگر اب موگلی کے حق میں خالی اِک اسامی ہے

    اگر دو جانور یک رائے ہوکر اِس کا دَم بھر لیں
    تو شامل موگلی کو جھنڈ میں ہم آج ہی کرلیں‘‘

    اُدھر ماما اکیلی دانت اپنے تیز کرتی تھی
    وہ اپنے ناخنوں کو اپنے منہ سے بھی کُترتی تھی

    کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ اُس کے خلاف آئے
    تو پھر بیچارہ بچہ جان تو اپنی بچا پائے

    میں اِس بچے کی خاطِر جان بھی اپنی گنوا دوں گی
    جو اِس کو کھانے آئے گا، میں اُس کو بھی مِٹا دوں گی

     
    زنیرہ عقیل، شکیل احمد خان اور چھٹا انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. محمد خلیل الرحمٰن
    آف لائن

    محمد خلیل الرحمٰن ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2015
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ملک کا جھنڈا:
    باب ششم : سیونی جھنڈ

    اُدھر جب دیر گزری اور نہ کوئی سامنے آیا
    جو دیکھا موگلی کو، بھیڑیوں کا جی بھی للچایا

    عجب کیاتھا کہ اس بچے کو یونہی پھاڑ کھاتے وہ
    عجب کیا تھا کہ ماما بھیڑیئے کا دِل دُکھاتے وہ

    بگھیرا تیندوا اُس راہ سے گُذرا تو واں ٹھہرا
    لگا پایا جو اُس نے بھیڑیوں کا راہ میں پہرا

    تجسس غالب آیا اور وہ شامل ہوگیا اُس میں
    جو یوں وہ کام آیا موگلی کے، اس تجسس میں

    کہانی ساری سُن کر وہ بھی اس میدان میں آیا
    اور اس بچے کے حق میں اِک نئی تجویز بھی لایا

    کہا اِس جان کے بدلے تمہیں اِک جان دیتا ہوں
    ابھی بھینسا کہیں پر مار کر میں چھوڑ آیا ہوں

    یہ قانونی تقاضا اس طرح پورا کیا اُس نے
    نیا اِک بھیڑیا ا ُس جھُنڈ کو یوں دے دیا اُس نے

    خوشی سے پھول کر کُپا ہوئی ماما یہ سنتے ہی
    ہنسی رُکتی نہ تھی ، یوں کھِل گئی تھی تھوتھنی اُس کی

    یہاں پھر آؤ دیکھا اور نہ تاؤ اپنے بھالو نے
    کہ جس کو خوش کیا تھا آنے والے اِس دیالو نے

    بڑی ہی سادگی سے تیندوے کے وہ قریب آیا
    اور اس کو گود میں لے کر اک ایسا ناچ دکھلایا

    جسے دیکھا کیے بس دیر تک سب دیکھنے والے
    بگھیرا سے بہت خوش تھے ، سبھی گورے، سبھی کالے

    اکیلا نے یہ سارا ماجرا دیکھا تو یوں بولا
    بہت کچھ سوچنے کے بعد اس نے اپنا منہ کھولا

    یہ بچہ آج سے اک بھیڑیا ہے جھنڈ کا سُن لو
    یہ میرا فیصلہ ہے، حکم ہے، میرا کہا، سُن لو
    ※※※※※※​
     
    زنیرہ عقیل اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. محمد خلیل الرحمٰن
    آف لائن

    محمد خلیل الرحمٰن ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2015
    پیغامات:
    14
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ملک کا جھنڈا:
    باب ہفتم: موگلی کا بچپن


    یہ سننا تھا کہ باچھیں کھِل گئیں رنجور ماما کی
    سبھی ڈر اور سبھی فکریں ہوئیں اب دور ماما کی

    وہ اپنے سارے بچوں کو جلو میں لے چلی اپنے
    بنا جب موگلی اپنا ، ہوئے پورے سبھی سپنے

    غرض اب موگلی کی داستاں یوں آگے چلتی ہے
    اس انسانوں کے بچے کی عجب قسمت بدلتی ہے

    اسے دس سال تک ماما نے اپنے بھَٹ میں یوں پالا
    اسے جنگل کا اِک ننھا سا باسی ہی بنا ڈالا

    بچاکر موگلی کو خوش تھے بھالو اور بگھیرا بھی
    کہ اُس کی زندگانی ان کی ہی مرہونِ منت تھی

    یہی دونوں جنھوں نے موگلی کو یوں سدھایا تھا
    انہوں نے ہی اسے جنگل کا ہر رستہ دکھایا تھا

    بگھیرا نے درختوں پر اسے چڑھنا سکھایا تھا
    تو بھالو نے اسے کُشتی کا ہر اِک گُر بتایا تھا

    یونہی دس سال گزرے اور بہت تبدیلیاں آئیں
    اکیلا کو بڑھاپے میں وہ یوں کچھ کھینچ کر لائیں

    کبھی طاقت سے وہ اس جھنڈ کا سردار ہوتا تھا
    مگر اب رفتہ رفتہ اپنی وہ قوت کو کھوتا تھا

    یہی دن تھے کہ اس جنگل میں پھر سے شیر خان آیا
    اور اس کے ساتھ ہی جنگل میں اس کا خوف بھی چھایا

    وہی سب بھیڑیے جو موگلی کو بھائی کہتے تھے
    وہی بھائی مگر اب شیر سے یوں ڈرتے رہتے تھے

    کہیں سے شیر آجائے گا ، ان کو پھاڑ کھائے گا
    اور ان کی ہڈیوں سے بھوک وہ اپنی مٹائے گا
     
    زنیرہ عقیل اور شکیل احمد خان .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں