1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔
  1. محمد پاکستانی
    آف لائن

    محمد پاکستانی ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2014
    پیغامات:
    20
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    ملک کا جھنڈا:
    ...تربیت انسانی زندگی کا ایک جزولاینفک عنصرہے ۔کوئی بھی عاقل انسان اس حقیقت سے انکارنہیں کرسکتا۔تربیت کاجنبہ صرف انسانوں میں نہیں بلکہ حیوانات میں بھی رائج ہے ۔مثلاًمرغی جونہی انڈے سے چوزا باہرنکل آتاہے توفوراً اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے دانہ چکنے کاسلیقہ اورطریقہ سکھایاجاے تاکہ آہستہ آہستہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہونے اوراپنی ماں سے بے نیازہونے کی عادت پیداکرے نیزاپنے داناپانی کاانتظام خودکرکے اپنے کمال کوپالے کیونکہ اس کاکمال یہ ہے کہ جسمانی حوالے سے بڑاہواوروہ اپنے جسمانی نشوونمامیں کسی دوسرے کامحتاج نہ رہے،اسی طرح اگرچوزے کے لئے کسی شاہین یا کسی دوسرے پرندے کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہوتو اس کی ماں مخصوص آوازکے ذریعے پہلے سے ہی اسے آگاہ کردیتی ہے تاکہ اس کے بچے اس دشمن کی گزندسے محفوظ رہ سکے۔
    یہاں یہ سوال اٹھتاہے کہ جب یہ عنصردوسرے حیوانات میں بھی پایاجاتاہے تووہ بنیادی اوراساسی فرق کونساہے جس سے انسانی تربیت دوسرے تمام حیوانات کی تربیت سے منفردقرارپاتی ہے ؟
    اس کامختصرجواب یہ ہے :انسان اور دوسرے زندہ موجودات میں بنیادی فرق ہدف کے اعتبار سے ہے کیونکہ تمام حیوانات کاہدف اوران کی زندگی کا ماحصل مادی جسم کی تربیت کرنا اور اس کے تکامل کی راہ سے خطرات کودورکرناہے جبکہ انسانی زندگی کاہدف بالکل اس کابرعکس ہے ۔اس کی زندگی کا بنیادی مقصدعقل ا ور روح کی تقویت کے ذریعے کمال کے مراحل کوطے کرناہے خواہ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے اسے اپنامادی وجود کوقربان کرناہی کیوں نہ پڑے ۔
    جب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ ان دونوں کاہدف ابتداء سے ہی بالکل مختلف ہے اوریہ دونوں موجودات بالکل برعکس سمت میں حرکت کرتی ہیں ۔لہذا ان دونوں کی تربیت کاطریقہ اورسلیقہ بھی مختلف ہوناچاہیے۔اگرکسی نے حیوانوں کی ماننداپنے آپ کوصرف مادی زندگی سے مختص کیا اورصرف مادی تربیت حاصل کی توگویااس نے اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کی سطح سے گرا کر حیوانوں کی سطح تک لے آیا اور ان کے زمرے میں شامل ہوگیا۔کوئی بھی عاقل انسان ایسی زندگی کوقبول نہیں کرسکتا۔
    یہاں سے دوسراسوال یہ پیداہوتاہے کہ اگرایسا ہی ہے تواس ممتازتربیت کے حصول کے لیے کن کی طرف رجوع کرناچاہیے ؟ اورحقیقی مربی کون لوگ ہیں جن سے تربیت لے کرانسان اپنے کمال کوپاسکتاہے ؟
    اس کاجواب یہ ہے کہ انسان اپنے طورپراوراپنے خودساختہ طریقے پرعمل کرکے اس بلندہدف کونہیں پاسکتاکیونکہ وہ جتنابھی عقلمند ہی کیوں نہ ہو آخرکار وہ ناقص العقل ہی ہوتا ہے ۔ناقص کسی کو کامل نہیں بناسکتا بلکہ اسے کسی ایسے منبع اورمربی سے اپنا ناطہ جوڑناچاہیے جس میں نقص کاشائبہ تک نہ ہو۔وہ عظیم منبع خدا کی کتاب یعنی قرآن مجیدہے اوروہ عظیم مربی پیغمبر اکرم ﷺاوران کی پاک اولادہیں ۔ لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت میں انہی ہستیوں کو نمونہ عمل قرار دیں۔ تاکہ ہماری دنیا بھی سنور جائے اورآخرت میں بھی ہم سرخرو ہوں...
     
    عبدالرحمن حاجی خانی زمان اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ جناب ۔بہت زبردست شئیرنگ کا بہت شکریہ
     
  3. محمد پاکستانی
    آف لائن

    محمد پاکستانی ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2014
    پیغامات:
    20
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    ملک کا جھنڈا:
    اردو اور مسلمانوں کی مظلومیت:
    ہر ملک، ہر مکتب اور ہر قوم و قبیلے کے خاص تشخصات ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے انہیں پہچانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی بھولی، اپنے مکتب اور اپنی ملت کو سب کے پاس مشہور اور نمایاں کرئے۔ اس مقصد کے لیے ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے تحت کوشش بھی کرتا ہے۔ آج کل کے دور میں اس مقابلے میں کافی شدت آئی ہے۔ چند صدیاں پہلے مسلمان پوری دنیا پر حاکم تھے۔ ان کی بولی کو یعنی عربی کو بین الاقوامی بولی کی حیثیت حاصل تھی۔ مسلمان ایک دوسرے سےجدا ہوتے گئے درنتیجہ ان کی بولی بھی آہستہ آہستہ سرد خانے میں چلی گئی۔ غیر مسلموں نے موقع غنیمت جان کر اپنی مردہ بولی انگریزی اور بعض دوسری زبانوں کو عربی کی جگہ قرار دی۔اسی قرن کے وسط میں قائد اعظم محمد علی جناح نے صرف ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی ایک خاطر ایک جداگانہ زبان کے فروغ کی خاطر اسے تقسیم ہند پاک میں مسلمانوں کی زبان قرار دیا۔ گویا ہندوں کے مقابلے میں ہمیں اردو زبان ترکے میں ملی ہے۔ اﹸس وقت اعظم نے کہاتھا کہ نہ ہندوں اور ہمارا مذہب ایک ہے اور نا ہی ان کی بولی اور ہماری بولی۔ پس ہمیں ایک الگ مملکت چاہیے جس میں مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنی بولی کو بھی فروغ دے سکیں۔
    اردو زبان وہ زبان ہے جس کے باعث ہم پاکستانیوں کو ایک تشخص حاصل ہے۔
    لیکن مختصر مدت کے بعد ہم نے اپنی بولی بولنے کو اپنی شخصیت کشی کے مترادف قرار دینا شروع کیا۔اپنی مادری زبان کی جگہ انگریزی اور دوسری زبانوں کو ترجیح دینا شروع کردیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب اردو زبان بولنا اپنے لیے ننگ و عار سمجھتا ہے جبکہ اس کی جگہ انگریزی بولنے کو اپنے لیے باعث شرف قرار دیتا ہے۔ جو بھی قوم اپنے ملکی اقدار کی اہمیت کو کھودیتا ہے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اب نا ہمارے سرکاری دفاتر میں یہ بولی رائج ہے اور نہ ہی گھروں اور بازاروں میں۔ درنتیجہ اردو زبان دن بہ دن زوال کا شکار ہورہی ہے۔ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نا سنبھالیں تو ہمارا قائد بھی ہمیں نہیں بخشے گا اور نہ ہی ہماری یہ زبان۔ لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ اپنی اس زبان کو ترجیح دیں۔ اسی زبان میں پی ایچ ڈی کریں، مضامین لکھیں اور دنیا والوں پر اس کے سیکھنے کی اہمیت کو واضح کریں۔
    ایک طرف اردو زبان فریاد کررہی ہے تو دوسری طرف ہمارا مکتب اسلام بھی فریاد کررہا ہے۔ اسلام ہم سے پوچھ رہا ہے کہ اے برصغیر کے مسلمانو!تمہارے قائدنے تو اسلامی اقدار پر اچھی طرح عمل پیرا ہونے کےلیے اس مملکت خداداد پاکستان کو حاصل کیا تھا۔ لیکن اب تم یہاں آکر پھر سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسےہوگئے ہو؟ تمہارے قائد نے کیا پاکستان کو اسی لیے حاصل کیا تھا تاکہ مسلمان ایک دوسرے پر کفرکے فتوے لگانا شروع کرئے اور ایک دوسرے کے خون بہانے کو باعث نجات سمجھے؟ کیا تمہارے قائد کی روح تم سے خوش ہوگی اگر کسی ننھے مسلمان کو یتیم بنائے؟کیا تمہارے قائد تم سے یہی تقاضا کرتے ہوں گے کہ گھر کے سربراہ کو قتل کرکے ان کے گھرو الوں کو کو بے سرپرست بنا کر گداگری پر مجبور کرئے؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ پس ہماری ذمہ داری ہے کہ امن سے جئیں اور دوسروں کو سے بھی زندگی کا حق سلب نہ کریں۔ علاوہ ازیں بے گناہ شہریوں کا خون بہانے والوں کے خلاف ہر فورم سے مخالفت کریں اور ان کو سرکوب کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ ہمارا خدا بھی ہم سے راضی ہو۔ ہمارا قائد بھی ہم سے خوشنود ہوں اور ہم بھی ایک بہترین شہری اور کامل مسلمان ہونے کا ثبوت دیں۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ بہت ہی عمدہ بھاٰی جی
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں