چند ہندوستانی ملک ایران میں نمائش کے لیے ایک ہاتھی لے گئے۔اور اسے ایک تاریک گھر میں داخل کیا گیا۔تاکہ اسے کوئی بے چراغ نا دیکھے۔چار شوقین رات کو ہاتھی دیکھنے آئے۔انہیں کہا گیا کہ یہ دیکھنے کا وقت نہیں ہے-انہوں نے اصرار کیا کہ ہم ابھی دیکھیں گے۔اور بخدا دیکھ کر ٹلیں گے۔ہمیں چراغ کی حاجت نہیں جو مانگو لے لو۔مگر ہاتھی ابھی دکھا دو۔ چنانچہ ایک ان میں سے ہاتھی کے قریب گیا اس کا ہاتھ ہاتھی کی سونڈ(خرطوم) سے جالگا۔وہ باہر آکر کہنے لگا ہاتھی نلکے کی طرح گول ،مخروط اور لمبا ہے۔ دوسرا اندر گیا تو اس کا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگوں پر لگا وہ بولا میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے۔ہاتھی ستون کی طرح ہے۔ تیسرے کا ہاتھ ہاتھی کے کانوں پر پڑا تو کہا کہ ہاتھی تو پنکھے اور چھاج کی طرح ہے۔ہاں کچھ چوڑا اور نرم سا ہے۔ چوتھے کا ہاتھ ہاتھی کی پشت پر پڑا تو وہ کہتا کہ ہاتھی تو تخت کی مانند ہے۔اگر ان کے ہاتھ میں شمع ہوتی تو ان میں اختلاف نا ہوتا۔ دنیا داروں میں جو باہمی اختلاف ہےوہ جہالت کی تاریکی کی وجہ سے ہے۔اگر وہ نور علم سے مستفیق ہوں تو نا لڑیں نا جھگڑا کریں۔ (مولاناجلال الدین رومی کی کتاب "حکایت رومی" سے اقتباس)