1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امریکی میزائلوں کی سمجھداری

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نوائے ملت, ‏8 اپریل 2017۔

  1. نوائے ملت
    آف لائن

    نوائے ملت ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اپریل 2014
    پیغامات:
    59
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    ملک کا جھنڈا:
    تحریر: نذر حافی
    nazarhaffi@gmail.com
    گزشتہ روز علی الصبح کا واقعہ ہے، سات اپریل 2017ء کو، جمعۃ المبارک کے دن، مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے، شام پر کروز میزائلوں سے حملہ کیا، شام کے مقامی وقت کے مطابق جمعے کی صبح 4 بجکر 40 منٹ پر یہ حملہ کیا گیا۔ شام پر امریکی کارروائی کے بعد روس نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے، روسی دفاعی کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ شام میں امریکی فضائی حملہ دہشت گردی کے خلاف مقابلے کی کوششوں کو کمزور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے شام میں امریکی فضائی کارروائی پر مکمل حمایت کا اظہار کیا ہے اور اسی طرح اسرائیل نے بھی شام پر امریکہ کے حملے کی حمایت کی ہے۔ امریکہ کا شام پر حملہ کرنا اور سعودی عرب و اسرائیل کا حمایت کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ اتحادی نہیں ہیں بلکہ ان تینوں ممالک میں سعودی عرب کی حیثیت فقط ایک قربانی کے بکرے کی سی ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی بین الاقوامی حیثیت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اب سعودی عرب جو کام بھی کرتا ہے، وہ دراصل امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہی ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس نہ ہی تو کوئی اپنا ایجنڈا ہے اور نہ ہی وہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کندھا ملانے کے بعد اپنے کسی ایجنڈے کا اعلان کر سکے۔

    دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب نے جو اسلامی ممالک کا اتحاد بنایا ہے، اس میں بھی صرف وہی ممالک شامل نہیں ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل کے ناپسندیدہ ہیں، اسی طرح اس اتحاد کا ایجنڈا اگر اسلامی ممالک کی حفاظت ہے تو یہ اتحاد عالم اسلام کے دیرینہ مسائل مثلاً کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بھی لاتعلق کیوں ہے!؟ باقی رہا جنرل راحیل شریف کی طرف سے اس اتحاد کی قیادت کرنے کا ایشو، اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ عالمی اسلامی فوج کی قیادت کرے۔ یہ اعزاز سر آنکھوں پر، البتہ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اعزاز ہمیں تبھی حاصل ہوسکتا ہے کہ جب یہ اتحاد واقعتاً اسلامی اتحاد ہو اور دنیائے اسلام کے دفاع کے لئے کام کرے۔ لیکن اگر یہ اتحاد امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے تو ہمیں اعزاز نصیب ہونے کے بجائے مزید ذلت، رسوائی اور عالمی سطح پر تنہائی نصیب ہوگی۔

    سعودی حکام کے لئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر یہ اتحاد اسلامی اتحاد ہے تو پھر اس اتحاد کے داعی سعودی عرب کو فوری طور پر چند قدم اٹھانے چاہیے:
    1۔ سعودی عرب کو اپنے برادر اسلامی ملک یمن کے خلاف فوج کشی کو فوراً روکنا چاہیے ۔
    2۔ بحرین کے مسلمانوں سے جذبہ خیر سگالی کے اظہار کے طور پر شیخ عیسٰی قاسم کو عزت و احترام کے ساتھ تمام مقدمات سے بری کروایا جانا چاہیے۔
    3۔ قطیف میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کو ختم کیا جائے اور ان سے قید و بند کی صعوبتوں کو ہٹایا جائے۔
    4۔ عالم اسلام کے قلب یعنی مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ میں کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لئے بین الاقوامی اسلامی کانفرنس بلائی جائے ۔
    5۔ سعودی عرب اپنے تمام ہم فکر جہادی گروہوں کو آفیشل طور پر فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کا حکم صادر کرے۔
    6۔ سعودی عرب میں موجود تمام صحابہ کرام ؓ اور اہلبیت اطہار ؑکے مزارات کو از سر نو تعمیر کرکے امت مسلمہ کے درمیان وحدت و مواخات کی فضا قائم کی جائے۔
    7۔ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ رول ادا کرنے والے مسلم ممالک خصوصاً، شام، عراق اور ایران کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے ان سے خصوصی مدد لی جائے ۔
    8۔ سعودی عرب اس حقیقت کو ہمیشہ مدنظر رکھے کہ امریکہ اور اسرائیل کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور ان کا کوئی بھی مستقل دوست نہیں ہے۔ لہذا اگر سعودی عرب حقیقی معنوں میں اسلامی تحاد قائم کرنے کی کوشش کرے تو یہ خود سعودی عرب کی بقا کے لئے بھی ضروری ہے۔

    امریکہ کی تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ نے طالبان سے فائدہ اٹھایا اور پھر خود ہی ان کا کام تمام کر دیا، صدام سے استفادہ کیا ہے اور پھر خود ہی اسے تختہ دار پر لٹکا دیا، قذافی کو امیرالمومنین بنایا اور پھر خود ہی اسے نشانِ عبرت بنا دیا، حسنِ مبارک کو پٹھو بنایا اور پھر اسے وقت کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اگر سعودی عرب نے امریکہ اور اسرائیل سے دوری اختیار نہیں کی تو پھر یہ ٹھیک ہے کہ آج 2017ء میں، سات اپریل کو، جمعۃ المبارک کی صبح مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے، شام پر کروز میزائلوں سے حملہ کیا، لیکن جب امریکہ نے اپنے مفادات، شام، روس، عراق اور ایران کو خوش کرنے میں دیکھے گا تو پھر طالبان اور صدام کی طرح امریکی میزائلوں کا رخ سعودی عرب کی طرف بھی مڑ سکتا ہے، شاہ فیصل کی طرح، مزید سعودی حکمران بھی قتل ہوسکتے ہیں اور سعودی شہزادے ہی سعودی بادشاہت کو خاک و خون میں غلطاں کر سکتے ہیں۔

    یہ سعودی عرب کے لئے انتہائی سنہرا موقع ہے کہ سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے “اسلامی اتحاد” کا نام استعمال کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں اسلامی اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اپنے ہمسایہ ممالک سے کشیدگی ختم کرے، یمن اور بحرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو ترک کرے، کشمیر و فلسطین کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور امریکہ اور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کرے، اسی میں سعودی عرب کی عزت اور مسلمانوں کی بھلائی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکی میزائل اپنے دوست اور دشمن کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں