1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسٹولا جزیرے پر گمنام مزار کس کا ہے؟

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏28 دسمبر 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    اسٹولا جزیرے پر گمنام مزار کس کا ہے؟

    [​IMG]
    غالب امکان یہی ہے کہ اسٹولا پر گمنام قبر سوریا بادشاہ پیر پگاڑا سید صبغت اللہ شاہ شہید ہی کی ہے۔

    سندھی صوفیا کے سلسلہ راشدی کی ایک شاخ کے بانی پیر پگاڑا ہیں۔ اس شاخ کے پہلے پیر سید صبغت اللہ اول اپنے والد پیر محمد راشد بن سید محمد بقا کی وفات کے بعد مسند آرائے رشد و ہدایت ہوئے اور پیر پگاڑا ’’صاحب دستار‘‘ کہلائے۔ ان کے دوسرے بھائی ’’پیر جھنڈا‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ اس وقت تک سکھوں کی یلغار سندھ کی حدود تک وسیع ہو گئی تھی اور انگریزوں کے بھی اسی اسلامی سلطنت پر دانت تھے۔ پیر پگاڑا نے سندھ کو دشمنوں سے بچانے کے لیے سرفروشوں کی ایک جماعت تیار کی اور انہیں ’’حُر‘‘ کا نام دیا۔ اس وقت سے پیرانِ پگاڑا کے مرید حر کہلاتے ہیں۔ حروں نے انگریزوں کے خلاف متعدد مرتبہ علم جہاد بلند کیا اور سندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھی خاصے عرصے تک چین سے نہ بیٹھنے دیا۔

    سید صبغت اللہ شاہ راشدی 1909ء میں پیدا ہوئے، 12 برس کی عمر میں آپ گدی نشین ہوئے اور حروں کے چھٹے پیر پگاڑا منتخب ہوئے۔ انگریز سامراج سے شدید نفرت آپ کو ورثے میں ملی تھی۔ سید صبغت اللہ شاہ پیر صاحب پگاڑا (المعروف سوریا بادشاہ) حُر مجاہدین کو تحریک حریت کے لیے صف آراء کرنے میں مصروف تھے جو برطانوی سامراج کی نظر میں کھٹک رہا تھا۔ برصغیر میں برطانوی راج سے چھٹکارے کے لیے سوریا بادشاہ نے حر تحریک شروع کی۔


    [​IMG]

    سکھر شہر میں دریائے سندھ پر بنے ”بیراج“ کو بائیں طرف کے پل سے عبور کریں تو خوبصورت نہر کے کنارے ایک بہت بڑی سڑک پیر جو گوٹھ جاتی ہے جو پیر صاحب آف پگاڑا کا آبائی علاقہ ہے۔ پیر جو گوٹھ میں پیر پگاڑا کے گھوڑوں کا بہت بڑا فارم موجود ہے۔ اسی علاقے میں پیر صاحب کا بے شمار کمروں پر مشتمل ایک عالیشان محل بھی موجود ہے جس کی چھت پر لگا ڈش انٹینا یہ گواہی دیتا ہے کہ پاکستا ن میں سب سے پہلے وہ پیر صاحب آف پگاڑا کی چھت کی زینت بنا۔

    • سندھ سے انگریزوں کو نکالنے کی جدوجہد میں جن خاندانوں نے قربانیاں دیں اُن میں پیر صاحب پگاڑا کا خاندان سرِفہرست ہے۔ سندھ کے علاقہ سانگھڑ کے ”مکھی جنگل“ سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے ”حُر تحریک“ کی بنیاد رکھی گئی۔
    • اس تحریک کو برطانوی حکومت نے بغاوت کا نام دے کر آپ کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کر لیا۔
    • اس مقدمے میں آپ کی پیروی قائداعظمؒ نے کی،
    • مگر انگریزوں نے آپ کو 10 سال قید کی سزا سنا دی۔
    • آپ کو 26 مارچ 1930ء کو گرفتار کیا گیا،
    • بعد ازاں 15 ستمبر 1930ء کو آپ کے خلاف مزید جھوٹے مقدمات رجسٹر کر کے گڑبنگلو سے گرفتار کر کے بمبئی پریزیڈینسی سے ملحق رتناگری جیل منتقل کردیا گیا۔
    • اس کے باوجود بھی حکومت کے خدشات قائم رہے تو مختصر عرصے بعد جیلیں تبدیل ہوتی رہیں۔
    • رتناگری سے راج شاہی جیل مدناپور منتقل کیا گیا،
    • وہاں سے علی پور ڈھاکہ رکھا گیا۔
    حضرت پیر صاحب پگاڑا مختلف جیلوں میں رہ کر ان علاقوں کے حریت رہنماﺅں سے رابطے میں آچکے تھے۔ ان کے ولولے اور منصوبے مزید قوی و وسیع ہوتے چلے گئے۔

    رہائی کے بعد انہوں نے سانگھڑ کے قریب گڑنگ کے مقام پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ انگریز حکومت نے 1936ء میں آپ کو ناگپور جیل سے رہا کیا۔ آپ جیسلمیر کے راستے سکھر پہنچے تو پورا سندھ آپ کے استقبال کو اُمڈ آیا جو اپنے محبوب مرشد کی زیارت کے لیے بے قرار و بے چین تھا اور آپ کے ایک اشارے پر سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار تھا۔

    حضرت پیر صاحب نے پیر جوگوٹھ پہنچتے ہی مجاہدین کی عام لام بندی کا اعلان کر دیا اور ’’کفن یا وطن‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میدان میں اتر آئے۔ اب انگریز کےلیے پیر صاحب کو آزاد چھوڑنا مشکل ہی نہیں محال ہو چکا تھا۔ ایسے میں سرکارِ برطانیہ ایک بار پھر حرکت میں آئی اور حضرت پیر صاحب پگاڑا کو کراچی سے 24 اکتوبر 1941ء کو گرفتار کرکے سیونی میں ایک بار پھر پابند سلاسل کر دیا گیا۔

    حضرت سید صبغت اللہ شاہ پیر صاحب پگارو کی گرفتاری کے باوجود انگریز کا سندھ میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ انگریز افسر شاہی اور مخبروں کا جینا حرام ہو گیا۔ حُر مجاہدین اپنے عظیم مرشد کی گرفتاری پر بپھرے ہوئے شیر کی مانند ہر سمت تباہی پھیلاتے نظر آرہے تھے۔ انگریز نے ان کے خلاف ظلم و ستم کی انتہا کردی۔ سندھ میں مارشل لاء لگا کر ’’حُر ایکٹ‘‘ نافذ کردیا، بستیوں کی بستیاں جلا ڈالیں اور تمام حر قوم کو حراستی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔ انگریز مزاحمت ترک کرنے پر سکھر سے نوابشاہ تک کی ریاست دینے کی پیشکش کر چکا تھا مگر حضرت سوریا بادشاہ فرماتے ہیں: ’’جب (انگریز) مجھ سے سودے بازی کی بات کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مجھ میں سے حسینیت خارج ہو رہی ہے۔‘‘ لہٰذا آپ نے انگریز کی تمام پیشکشیں مسترد کر کے تختہ دار پر چڑھنا اعزاز تصور کیا۔

    آپ کو 20 مارچ 1943ء کو حیدرآباد جیل میں سولی پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا اور کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دیا جبکہ آپ کے دونوں فرزندان سید سکندر شاہ اور سید نادر شاہ کو علی گڑھ منتقل کر دیا۔ آپ کے ارادت مند وہاں بھی پہنچ گئے تو انگریز تنگ آ کر دونوں شہزادوں کو برطانیہ لے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کی گدی بحال ہوئی۔ شہید سوریا بادشاہ کے فرزند اکبر سید سکندر شاہ المعروف شاہ مردان شاہ ثانی نے 4 فروری 1952 کو مسند نشین ہو کر دستار پگاڑا حاصل کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد برطانوی حکام تمام ریکارڈ پاکستانی حکومت کے سپرد کر کے چلے گئے۔ چند روز قبل یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوریا بادشاہ کی پھانسی کا ریکارڈ جیل انتظامیہ کے پاس موجود نہیں۔ جیل میں سوریا بادشاہ کی پھانسی کی تیاریوں کا ریکارڈ تو ہے لیکن پھانسی کا ریکارڈ موجود نہیں۔

    یہاں سے اسٹولا جزیرے کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ پسنی سے تقریباً 39 کلومیٹر جنوب مشرق میں گہرے سمندر میں اسٹولا نام کا جزیرہ واقع ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ بھی ہے۔ مقامی زبان میں اسے ہفت تلار کہا جاتا ہے جس کے معنی سات پہاڑ یا سات ٹیلے ہیں۔ اسٹولا کا رقبہ تقریباً 7 مربع کلومیٹر ہے جو زیادہ سے زیادہ 2.3 کلومیٹر میں عرض سے طول کی طرف پھیلا ہوا ہے۔ اس کا بلند ترین مقام سطح سمندر سے 250 فٹ بلند ہے۔ کچی مٹی اور کمزور پتھروں پر شامل ہونے کی وجہ سے اسٹولا کا ایک حصہ سمندر برد ہوتا جا رہا ہے اور جزیرے کی چوٹی پر بڑی بڑی دراڑیں بن چکی ہیں جو سمندر کی طوفانی لہروں سے گرتی رہتی ہیں۔


    اسٹولا کی تاریخ کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں۔ اولین تاریخ دان ہیروڈوٹس، سکندراعظم یا ایرانی و عرب، سب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسٹولا پر آئے تھے۔

    [​IMG]

    پسنی سے اسٹولا کا سفر تین سے چار گھنٹے کا ہے۔ مقامی مچھیرے تو اکثر یہاں جاتے رہتے ہیں جبکہ سیاح حضرات، جو نہ ہونے کے برابر ہیں، پسنی میں پولیس و کوسٹ گارڈ کی اجازت سے کشتی کرائے پر لے کر جا سکتے ہیں۔ جزیرے پر کسی قسم کی سہولت دستیاب نہیں اس لیے کھانے پینے اور قیام کا تمام سامان ساتھ لے کر جانا ہوتا ہے۔ اس جزیرے کی کُل متاع ایک چھوٹی سی بنجر پہاڑی اور ایک گمنام قبر ہے جس پر مزار بنا ہوا ہے اور ساتھ میں ایک مسجد بھی ہے۔ قبر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں حضرت خضر علیہ السلام ہیں، اور کچھ کے بقول یہاں کوئی بہت بڑے بزرگ دفن ہیں۔

    چند سال پہلے میں بھی ڈولفن اور سبز کچھوے کے سمندری سروے کےلیے اسٹولا گیا۔ جستجویانہ طبیعت کے ناتے حضرت خضرؑ والی کہانی مجھے ہضم نہ ہوئی، مگر کوئی اور سرا بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ پچھلے سال ہی حکومتِ برطانیہ برصغیر سے متعلق اپنی چند پرانی رپورٹ منظر عام پر لائی ہے جن میں سے ایک سوریا بادشاہ کے متعلق بھی تھی کہ انہیں حیدرآباد جیل میں پھانسی دینے کے بعد اسٹولا جزیرہ میں دفن کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ اسٹولا پر گمنام قبر سوریا بادشاہ پیر پگاڑا سید صبغت اللہ شاہ شہید ہی کی ہے۔

    [​IMG]

    حکومت سے التماس ہے اور ان کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ تحریک پاکستان کے اس عظیم شہید مجاہد کے اس راز پر تحقیق کرے۔

    تحریر: محمد عبدہ
    بدھ 27 دسمبر 2017
     
    Last edited: ‏29 دسمبر 2017
    نعیم, زنیرہ عقیل, پاکستانی55 اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    اسٹولا جزیرہ میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے جو پیر خواجہ خضر کے نام سے منسوب ہے، مذھبی روایات کے مطابق پیر حضرت خواجہ خضر بھٹکے ہوئے مسافروں کی اور حضرت الیاس آبی مسافروں کی رہنمائی کرتے تھے خیال ہے کہ یہ پیر خواجہ حضر کا مزار ہے،

    حضرت مردان شاہ کی رخلت کے وقت یہ کہانی منظر عام پر آئی کہ حضرت پیر صبغت اللہ شاہ کو انگریزوں نے بغاوت کے جرم میں پھانسی دی اور نعش اپنے ساتھ لے گئے اور سمندر برد کر دی، دوسری روایت یہ ہے کہ ان کو ایک غیر آباد جزیے میں دفن کیا اور ماہی گیروں نے وہاں ان کی قبر بنا دی اور یہ جزیرہ اسٹولا ہے

    معلوماتی، مگر یہ خاندان اختلافات کی وجہ سے ایک مدت سے دو گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہوئے ہیں، ایک یہ "پیر پگاڑا"
    دوسرا گروپ "پیر جھنڈا" راشدی خاندان کے نام سے جو اہلحدیث ہیں اور ان کا ایک چشم و چراغ، 1979 میں خانہ کعبہ پر ہونے والے حملہ میں شامل تھا جس کا سرغنہ جهيمان بن محمد بن سيف العتيبي تھا۔ بعد میں سب کو پھانسی ہوئی مگر اسے بچا لیا گیا اس کی جان بخشی کی سفارش گرینڈ مفتی عبدالعزیز بن باز نے کی جس پر رہائی ممکن ہوئی۔
     
    نعیم، پاکستانی55 اور زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کنعان بھائی۔ بہت معلوماتی مضمون ہے۔ اور قرینِ قیاس بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے
    ایک اور حیران کن بات تو آپ نے آخری پیرا میں بیان کی
    دوسرا گروپ "پیر جھنڈا" راشدی خاندان کے نام سے جو اہلحدیث ہیں اور ان کا ایک چشم و چراغ، 1979 میں خانہ کعبہ پر ہونے والے حملہ میں شامل تھا جس کا سرغنہ جهيمان بن محمد بن سيف العتيبي تھا۔ بعد میں سب کو پھانسی ہوئی مگر اسے بچا لیا گیا اس کی جان بخشی کی سفارش گرینڈ مفتی عبدالعزیز بن باز نے کی جس پر رہائی ممکن ہوئی۔
    آج تک سعودی میڈیا کے ذریعے عوام کو یہی بتایا گیا ہے کہ 1979 میں خانہ کعبہ پر قبضہ یا حملہ ایرانی شیعوں نے کیا تھا جو کہ پاکستانی کمانڈوز کی کاوشوں سے ناکام ہوا۔
    لیکن اس اطلاع کے مطابق اس میں شیعوں کی بجائے یہ "اہلحدیث" صاحب بھی شامل تھے ؟ :cfd:
    ھارون رشید پاکستانی55 ملک بلال واصف حسین
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں