1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں گواہی کی اہمیت

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏5 مئی 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام میں گواہی کی اہمیت

    [​IMG]
    ﷲ تعالیٰ ہمیں سچی گواہی دینے والا مسلمان بنائے۔ آمین

    ﷲ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو انسان سے باہمی ربط دے کر ایک دوسرے کی ضرورت بنایا ہے، بعض دینی اور دنیاوی معاملات میں بسا اوقات ایسی صورتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ صاحبِ معاملہ کسی پر کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ میرا حق ہے لیکن تنہا اُس کے اقرار یا دعوے یا بیان کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہے بل کہ اس لیے کہ اگر محض دعوے اور بیان کی رُو سے کسی کی کسی بھی چیز پر حق، ثابت ہو جایا کرے تو دنیا سے امان اُٹھ جائے اور لوگوں کا جینا دو بھر ہو جائے۔

    حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : ’’اگر لوگوں کو محض، دعوے کی وجہ سے دے دیا جایا کرے تو کتنے ہی لوگ خون اور مال کا دعویٰ کر ڈالیں گے، ولیکن مدعی (دعوے دار) کے ذمے بَینہ (گواہ) ہے اور مُنکر پر قسم۔‘‘
    (مسلم و بیہقی)

    تو ظاہر ہوا کہ مدعی اپنے دعوے کے ثبوت، یا اپنے کسی حق کو ثابت کرنے کے لیے حاکم اسلام کی مجلس میں ایسے اشخاص کو پیش کرے جو اس کے دعوے کی تصدیق کریں۔ لفظ شہادت کے ساتھ کسی کی تصدیق کرنے یا سچی خبر دینے کو شہادت یا گواہی کہتے ہیں۔ پھر چوں کہ شہادت بھی شرعاً ایک خاص اعزاز و منصب ہے۔ اس لیے ہر کس و ناکس نہ اس شہادت کا اہل ہے اور نہ ہی کوئی ایرا غیرا گواہی کے لیے موزوں۔ اس کے اہل وہی ہیں جن کی سیرت و کردار پر معاشرے کو اطمینان ہو اور جو اپنے اخلاق و دیانت کے لحاظ سے بالعموم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں۔ جن کی بات پر اعتبار کیا جاتا ہو اور جن کی دیانت کم از کم عام طور پر مشتبہ نہ ہو۔

    قرآن کریم میں ارشاد ہوا : ’’ ایسے گواہ جن کو پسند کرو‘‘ اور ظاہر ہے کہ ایک مسلمان، ایسوں ہی کو گواہ بنانا اور اس کی گواہی کو قبول کرنا پسند کرے گا جو اُس کے نزدیک متقی، عادل اور قابل اعتبار ہوں اور جن کے صالح ہونے پر اُسے اعتماد ہو، اور جو عاقل، بالغ، آزاد اور دین دار ہوں۔


    اسلام نے مسلمان عورتوں کو بھی یہ حق دیا اور عورت کی گواہی کو مشروط قابل قبول مانا۔ شریعتِ مطہرہ کے مطابق جب مدعی گواہوں کو طلب کرے تو انہیں گواہی چھپانا جائز نہیں۔ مدعی کے طلب کرنے پر گواہی دینا لازم ہے بل کہ اگر گواہ کو اندیشہ ہو کہ اگر میں نے گواہی نہ دی تو صاحبِ حق کا حق تلف ہوجائے گا یعنی اُسے معلوم ہی نہیں ہے کہ فلاں شخص معاملے کو جانتا ہے تو اُسے گواہی کے لیے کیسے طلب کرے گا۔ اس صورت میں بغیر طلب بھی گواہی دینا لازم ہے۔

    البتہ حدود میں یعنی حدود کی گواہی میں دو پہلو ہیں ایک ازالہ مُنکر یعنی بُرائی کا ازالہ اور رفع فساد کہ معاشرہ میں فساد برپا نہ ہو اور دوسرا مسلمان کی پردہ پوشی۔ اس لیے حدود کی گواہی میں گواہ کو اظہار و اخفاء کا اختیار ہے کہ پہلی صورت اختیار کرے اور گواہی دے تاکہ مجرم اپنی سزا کو پہنچے یا پھر دوسری صورت زیادہ بہتر ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے۔ ﷲ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت میں اُس کی ستاری کرے گا۔ (اور اُس کے جرم پر پردہ ڈال دے گا)

    ہاں جس پر جُرم ثابت ہو چکا وہ بے باک و بدلحاظ ہو، حدود شرعیہ کی محافظت نہ کرتا ہو ا ور مسلمان اس کے کرتوتوں سے نالاں ہوں اور اس کی غلط روی سے دوسروں کے اخلاق و عادات اور کردار کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو پہلی صورت اختیار کرے تاکہ لوگ اس کی شرارتوں اور بد کرداریوں سے محفوظ رہیں۔ ایسے ہی چوری میں مال لینے کی شہادت دینا واجب ہے تاکہ جس کا مال چوری ہو گیا ہے اُس کا حق تلف نہ ہو۔ اتنی احتیاط کر سکتا ہے کہ چوری کا لفظ نہ کہے۔ اتنا کہنے پر اکتفاء کرے کہ اُس نے فلاں شخص کا مال لیا یہ نہ کہے کہ چوری کی۔ اس طرح احیاء حق بھی ہو جاتا ہے اور پردہ پوشی بھی۔
    ( درمختار، روالمحتار وغیرہ)

    جھوٹی گواہی کا وبال

    حدیث پاک میں ہے رسول ﷲ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : ’’جھوٹی گواہی بُت پُوجنے کے برابر کی گئی۔ جھوٹی گواہی بُت پرستی کے برابر کی گئی۔ جھوٹی گواہی، شرک کے برابر کر دی گئی۔‘‘ تین بار یہ فرما کر حضور اکرم ﷺ نے یہ آیت اُس کی سند میں پڑھی کہ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو۔ ﷲ تعالیٰ کے لیے باطل سے حق کی طرف مائل ہوجاؤ ۔ اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔‘‘
    ( ترمذی، ابن ماجہ وغیرہما)

    حدیث شریف میں ہے کہ رسول ﷲ ﷺ فرماتے ہیں : ’’جھوٹے گواہ کے پاؤں جگہ سے ہٹنے نہ پائیں گے کہ ﷲ تعالیٰ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔‘‘
    (ابن ماجہ)

    اور بیہقی حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے راوی ہیں کہ فرمایا : ’’جو شخص لوگوں کے ساتھ یہ ظاہر کرتے ہوئے چلا کہ یہ بھی گواہ ہے، حالاںکہ یہ گواہ نہیں۔ وہ بھی جھوٹے گواہ کے حکم میں ہے اور جو بغیر جانے ہوئے کسی کے مقدمے کی پیروی کرے، وہ ﷲ کی ناخوشی میں ہے۔ جب تک اُس سے جدا نہ ہو جائے۔‘‘ اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ جو گواہی کے لیے بلایا گیا اور اُس نے گواہی چھپائی یعنی ادا کرنے سے گریز کیا وہ ویسا ہی ہے جیسا جھوٹی گواہی دینے والا۔‘‘
    ( طبرانی)

    البتہ اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ مندرجہ ذیل افراد کی گواہی شرعاً مقبول و معتبر نہیں۔


    ٭ کافر کی گواہی مسلم کے خلاف اور مرتد کی گواہی اصلا مقبول نہیں۔

    ٭ دو لوگوں میں دنیاوی عداوت ہو تو ایک کی گواہی دوسرے کے خلاف۔

    ٭ جو شخص گناہ کبیرہ کا ارتکاب یا صغیرہ پر اصرار کرتا ہو کہ وہ اس کی عادت سی ہو گئی ہے۔

    ٭ بچے کی گواہی اور ایسے لوگوں کی گواہی جو دنیاوی باتوں سے بے خبر رہتے ہیں۔

    ٭ جس پر حد قذف قائم کی گئی ہے۔

    ٭ جس کا جھوٹا ہونا مشہور ہے یا جھوٹی گواہی دے چکا ہے۔

    ٭ زوج و زوجہ میں سے ایک کی گواہی دوسرے کے حق میں اور اگر ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو مقبول ہو جائے گی۔

    ٭ اولاد کی گواہی ماں باپ ، دادا دادی کے حق میں اور اُن کی گواہی اولاد کے حق میں۔

    ٭ کسی کا ریگر کے پاس کام سیکھنے اور اس کی کفالت میں رہنے والوں کی گواہی، اُستاد کے حق میں۔

    ٭ گویّے، گانے والی یا بہ طور پیشہ نوحہ کرنے والی عورت۔

    ٭ جو شخص اٹکل پَچوّ باتیں اڑاتا ہو۔

    ٭ جو کثرت سے قسم کھاتا یا اپنے بچوں کو یا دوسروں کو گالی دینے کا عادی ہو۔

    ٭ جس کا پیشہ دلالی ہو کہ کثرت سے جھوٹ بولتا ہے۔

    ٭ تھانے کچہری کا پیشہ کرنے والے جو خود جھوٹ بولتے اور دوسروں کو تلقین کرتے ہیں، کی گواہی بھی قابل قبول نہیں۔

    ٭ مرُغ بازی، کبوتر بازی اور دوسرے ایسے ہی کھیل کود میں وقت گنوانے والے۔

    ٭ جو شخص گناہ و حرام کی مجلس میں بیٹھتا ہے اگرچہ وہ خود اس حرام کا مرتکب نہیں۔

    ٭ سود خور، جواری، علی الاعلان شطرنج کھیلنے والا۔

    ٭ بغیر عذر شرعی نماز روزہ قضا کرنے والا یا جماعت ترک کرنے والا۔ جب کہ کوئی عذر شرعی نہ ہو۔

    ٭ حقیرو ذلیل افعال میں گرفتار و مشغول رہنے والا۔ مثلاً راستے میں پیشاب کرنا۔ راستے یا بازاروں میں کوئی چیز لوگوں کے سامنے کھانا، صرف پاجامہ یا تہ بند پہن کر، بغیر کرتا پہنے یا بغیر چادر اوڑھے عام گزرگاہ پر چلنا۔ لوگوں کے سامنے پاؤں دراز کرکے بیٹھنا ، ننگے سر ہوجانا جہاں اس کو خفیف الحرکتی ، بے ادبی و بد شرمی تصور کیا جاتا ہو، وغیرہا۔

    ٭ جو شخص بزرگان دین، پیشوایانِ اسلام مثلاً صحابہ و تابعین، و ائمہ اہل بیت اطہارؓ، خصوصاً امام حسینؓ شہید کرب و بلا اور ازواج مطہرات رضی ﷲ عنہم کو بُرے الفاظ سے علانیہ یاد کرتا ہو، اس کی گواہی بھی مقبول نہیں۔ ان ہی بزرگان دین سلف صالحین میں امام اعظم ابوحنیفہؒ بھی ہیں۔
    (در مختار۔ روالمحتار، عالمگیری )

    ﷲ تعالیٰ ہمیں سچی گواہی دینے والا مسلمان بنائے۔ آمین

    علامہ محمد تبسم بشیر اویسی

    05 مئی 2017
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اعلی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں