1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احمد فرازؔ کی غزلوں سے مرصع ایک گلدستۂ غزل

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏25 اگست 2013۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    ہردلعزیز شاعر احمد فرازؔ کی برسی کے موقع پر ان کی غزلوں سے مرصع ایک گلدستۂ غزل سب دوستوں کی نذر

    سلسلے توڑ گیا ، وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے ، کہ آتے جاتے
    شکوۂ ظلمتِ شب سے ، تو کہیں‌ بہتر تھا
    اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
    کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
    پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے
    جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ، ورنہ ہم بھی
    پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے
    اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
    تم فرازؔ! اپنی طرف سے تو ، نبھاتے جاتے

    لگتا ہے کہ اب چاہتیں آساں ہیں زیادہ
    عشاق ہیں کم ، چاک گریباں ہیں زیادہ
    اک آدھ کوئی صاحب دل بھی ہے فروکش
    اب کوچۂ دلدار میں درباں ہیں زیادہ
    مدت سے کوئی جانبِ مقتل نہیں آیا
    قاتل بھی توقع سے پشیماں ہیں زیادہ
    جس تاج کو دیکھوں وہی کشکول نما ہے
    اب کے تو فقیروں سے بھی سلطاں ہیں زیادہ
    ہر ایک کو دعویٰ ہے یہاں چارہ گری کا
    اب دل کے اجڑ جانے کے امکاں ہیں زیادہ
    کیاکیا نہ غزل اس کی جدائی میں کہی
    ہم پر شبِ ہجراں ترے احساں ہیں زیادہ
    لوگوں نے تو جو زخم دئیے تھے سو دئیے تھے
    کچھ تیرے کرم ہم پہ مری جاں ہیں زیادہ
    مشاطۂ دنیا سے کہے کون فرازؔ اب
    ہم یار کی زلفوں سے پریشان ہیں زیادہ

    کرتے بھی کیا جانا پڑا پھر سے اسی قاتل کے پاس
    ہم بارہا ہو آئے ہیں چارہ گرانِ دل کے پاس
    کچھ بے گہر کی سیپیاں کچھ بے مسافر کشتیاں
    دریا نے رخ بدلہ تو کیا باقی رہا ساحل کے پاس
    جن جن کو تھا زعمِ وفا، پندارِ جاں، دعوائے دل
    محفل سجی تو جمع تھے سب صاحبِ محفل کے پاس
    اس عشق و ترک میں ناصح کہاں سے آگیا
    یہ اختیار آنکھوں ہے یہ فیصل ہے دل کے پاس
    کیا خضر اور کیا راہبر حیران ہیں اس بات پر
    کیوں خوش نشیں ہے قافلہ اک راندۂ منزل کے پاس

    یہ جان کر بھی کہ دونوں کے راستے تھے الگ
    عجیب حال تھا جب اس سے ہو رہے تھے الگ
    یہ حرف و لفظ ہیں دنیا سے گفتگو کے لئے
    کسی سے ہم سخنی کے مکالمے تھے الگ
    خیال ان کا بھی آیا کبھی تمہیں جاناں
    جو تم سے دور ، بہت دور جی رہے تھے الگ
    ہمی نہیں ہیں ، ہماری طرح کے اور بھی لوگ
    عذاب میں تھے جو اوروں سے سوچتے تھے الگ
    اکیلے پن کی اذیت کا اب گلہ کیسا
    فرازؔ خود ہی تو اپنوں سے ہو گئے تھے الگ

    کل پُرسشِ احوال جو کی یار نے میرے
    کس رشک سے دیکھا مجھے غمخوار نے میرے
    بس ایک ترا نام چھپانے کی غرض سے
    کس کس کو پکارا دلِ بیمار نے میرے
    یا گرمئ بازار تھی یا خوف زباں تھا
    پھر بیچ دیا مجھ کو خریدار نے میرے
    ویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوں
    شرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرے
    جب شاعری پردہ ہے فراز ؔاپنے جنوں کا
    پھر کیوں مجھے رُسوا کیا اشعار نے میرے

    ہر کوئی طرۂ پیچاک پہن کر نکلا
    ایک میں پیرہن خاک پہن کر نکلا
    اور پھر سب نے یہ دیکھا کہ اسی مقتل سے
    میرا قاتل ،میری پوشاک پہن کر نکلا
    ایک بندہ تھا کہ اوڑھے تھا خدائی ساری
    اک ستارہ تھا کہ افلاک پہن کر نکلا
    ایسی نفرت تھی کی اس شہر کو جب آگ لگی
    ہر بگولہ خس و خاشاک پہن کر نکلا
    ترکش و دام عبث لے کے چلا ہے صیاد
    جو بھی نخچیر ہے فتراک پہن کر نکلا
    اس کے قامت سے اسے جان کئے لوگ فرازؔ
    جو لبادہ بھی وہ چالاک پہن کر نکلا

    خود کو تیرے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
    جو چھوڑ گیا، اُس کو پلٹ کر نہیں دیکھا
    میری طرح، تُو نے شبِ ہجراں نہیں کاٹی
    میری طرح، اس تیغ پہ کٹ کر نہیں دیکھا
    تُو دشنۂ نفرت ہی کو لہراتا رہا ہے
    تُو نے کبھی دشمن سے لپٹ کر نہیں دیکھا
    تھے کوچۂ جاناں سے پرے بھی کئی منظر
    دل نے کبھی اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا
    اب یاد نہیں مجھ کو فراز ؔاپنا بھی پیکر
    جس روز سےبکھرا ہوں سِمٹ کر نہیں دیکھا

    نئے سفر میں ابھی ایک نقص باقی ہے
    جو شخص ساتھ نہیں اُس کا عکس باقی ہے
    اُٹھا کے لے گئے دزدانِ شب چراغ تلک
    سو، کور چشم پتنگوں کا رقص باقی ہے
    گھٹا اُٹھی ہے مگر ٹوٹ کر نہیں برسی
    ہوا چلی ہے مگر پھر بھی حبس باقی ہے
    اُلٹ پلٹ گئی دنیا وہ زلزلے آئے
    مگر خرابہِ دل میں وہ شخص باقی ہے
    فرازؔ آئے ہو تم اب رفیقِ شب کو لیے
    کہ دور جام نہ ہنگامِ رقص باقی ہے

    منزلیں ایک سی، آوارگیاں ایک سی ہیں
    مختلف ہو کے بھی سب زندگیاں ایک سی ہیں
    کوئی قاصد ہو کہ ناصح ، کوئی عاشق کہ عدو
    سب کی اس شوخ سے وابستگیاں ایک سی ہیں
    دشتِ مجنوں نہ سہی ،تیشۂ فرہاد سہی
    سفرِ ِعشق میں واماندگیاں ایک سی ہیں
    یہ الگ بات کہ احساس جدا ہوں، ورنہ
    راحتیں ایک سی ، افسردگیاں ایک سی ہیں
    صوفی و رند کے مسلک میں سہی لاکھ تضاد
    مستیاں ایک سی، وارفتگیاں ایک سی ہیں
    وصل ہو ، ہجر ہو ، قربت ہو کہ دوری ہو فرازؔ
    ساری کیفیتیں ، سب تشنگیاں ایک سی ہیں

    کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی
    کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی
    آدابِ خرابات کا کیا ذکر یہاں تو
    رندوں کو بہکنے کی ادا تک نہیں آئی
    تجھ ایسے مسیحا کے تغافل کا گلہ کیا
    ہم جیسوں کی پرسش کو قضا تک نہیں آئی
    جلتے رہے بیغ صرفہ ، چراغوں کی طرح ہم
    تو کیا، ترے کوچے کی ہوا تک نہیں آئی
    کس جادہ سے گزرا ہے مگر قافلۂ عمر
    آوازِ سگاں ، بانگِ درا تک نہیں آئی
    اس در پہ یہ عالم ہوا دل کا کہ لبوں پر
    کیا حرفِ تمنا کہ دعا تک نہیں آئی
    دعوائے وفا پر بھی طلب دادِ وفا کی
    اے کشتۂ غم تجھ کو حیا تک نہیں آئی
    جو کچھ ہو فرازؔ اپنے تئیں ، یار کے آگے
    اس سے تو کوئی بات بنا تک نہیں ہوئی​
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    یہ بے دلی ہے تو کشتی سے یار کیا اتریں
    ادھر بھی کون ہے دریا کے پار کیا اتریں
    تمام دولتِ جاں ہار دی محبت میں
    جو زندگی سے لیے تھے ادھار کیا اتریں
    ہزار جام سے ٹکرا کے جام خالی ہوں
    جو آ گئے ہیں دلوں میں غبار کیا اتریں
    نہ عطر و عود نہ جام و سبو نہ ساز و سرور
    فقیرِ شہر کے گھر شہریار کیا اتریں
    ہمیں مجال نہیں ہے کہ بام تک پہنچیں
    انہیں یہ عار سرِ رہگزار کیا اتریں
    جو زخم داغ بنے ہیں وہ بھر گئے تھے فرازؔ
    جو داغ زخم بنے ہیں وہ یار کیا اتریں
    احمد فراز​
     
  3. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    میں تو لب کھول کے پابندِ سلاسل ٹھہرا
    تیری بات اور ہے تُو صاحبِ محفل ٹھہرا
    کیا کہوں کس نے قبیلہ میرا تقسیم کیا؟
    آج یوں ہے کوئی بسمل کوئی قاتل ٹھہرا
    خوابِ آوارہ! کسی آنکھ کی تقدیر تو بن
    کسی منزل پہ کبھی قافلۂ دل ٹھہرا
    مجھ کو بھی تیری اداسی دلِ ویراں سی لگی
    تُو بھی اے شہرِ جدائی! مرے مقابل ٹھہرا
    کیا گِلہ تجھ سے کہ آشوبِ جہاں ایسا ہے
    میں بھی اے یار! تری یاد سے غافل ٹھہرا
    خوشنوایانِ چمن سب ہیں اسیرانِ قفس
    اب کے زِنداں بھی تو گلزارِ عنادل ٹھہرا
    کتنے ہی سخت مقام آئے مگر جانِ فرازؔ
    نہ ترا درد ہی ٹھہرا،۔ نہ مرا دل ٹھہرا
    احمد فراز​
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں