واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سکون حاصل کرنے کا طریقہ سکون حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان سکون حاصل کرنے کی تمنا چھوڑ کر دوسروں کو سکون پہنچانے کی کوشش کرے سکون دینے والے کو ہی سکون ملتا ہے
انسان خداوند تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ ہستی ہے۔ وہ زمین پر اس کا خلیفہ اور جانشین ہے وہ روحانی اور مادی عناصر کا مرکب خدا آشنا فطرت کا مالک آزاد اور مختار پیغام خداوندی کا امین دنیا کا اور اپنا ذمہ دار فطرت زمین اور آسمان پر مسلط اور نیکی اور بدی کو سمجھنے والا ہے۔ اس کی زندگی کا آغاز کمزوری سے ہوتا ہے اور قوت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے لیکن جب وہ حالت رشد و سن تمیز کو پہنچتا ہے تو اسے صرف اسی صورت میں سکون قلب ملتا ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو کر اس کی یاد میں مشغول ہو جائے اس کی علمی اور عملی استعداد لامحدود ہے۔ وہ ذاتی شرافت اور کرامت کا حامل ہے اس کی خواہشات پر کسی طرح کا مادی اور طبیعی رنگ نہیں چڑھتا اس کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے جائز فائدہ اٹھائے لیکن وہ اپنے خدا کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کا ذمہ دار بھی ہے۔
میری ذاتی زندگی بہت سوں سے بہت بہت ذیادہ مختلف ہے۔ میں نے جس کو کبھی بھی نہیں دیکھا ہوتا میں اس کی مدد کے لئے کمر بستہ ہونے میں کوئی تردد نہیں کرتا۔ میں ضرورت مند کے گھر جاکر اس کی مدد کرتا ہوں اور میری مدد کرنے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ سامنے والے کی عزت و توقیر پر حرف نہ آنے پائے۔ میں شروع سے ہی ا یسا واقع ہوا ہوں اس کے نتیجے میں لوگوں نے مجھے نقصان پہنچائے، میری عزت پر حرف آنے کا باعث ہوئے۔ اور میری ایسی ایسی قربانیاں جو عام انسان کی استطاعت سے باہر ہوں وہ بھی کرنے کے باوجود مجھے ڈی گریڈ کیا جاتا رہا۔ ایسی کیفیت بہت برسوں رہی اور میں ہمیشہ سوچتا رہتا کہ کتے اور بلے کو ایک بار کھانا کھلادو ہمیشہ کے لئے ممنون رہتے ہیں اور انسان میرے دشمن کیونکر بن جاتے ہیں۔ میں برسوں اسی تذبذب میں رہا کہ مجھ میں کیا خرابی ہے۔ پھر الحمد للہ ایک دن میں نے حضرت علی کا مندرجہ بالا قول سنا (ٹی وی یا ریڈیو) تو پہلے تو میں چکرا گیا مگر اس کے بعد آج تک بہت خوش ہوں اور مجھے فخر ہے کہ میں نے لوگوں کے طرز عمل کی وجہ سے بھلائی کا رستہ ترک نہیں کیا۔ اس طرح یہ ثابت ہوا کہ حضرت علی نے یہ قول بیان کرکے انسانیت پر احسان کردیا کہ بھئی یہ حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔