1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رمضان کی تیاریاں

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از UrduLover, ‏25 مئی 2015۔

  1. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم۔رمضان کریم کی آمد آمد عنقریب ہے۔اور ماہِ صیام کی برکت بھری ساعتیں آپ سبکو میسر آیئں اور اللہ باری تعالی آپ سبکی دعاوں کو قبولیت کا مقام عطا فرمائے۔اگر مکمل صحت یاب ہوا تو رمضان میں تمام احباب کیساتھ
    ثواب سمیٹنے کی کوشش کروں گا۔اگر جلد افاقہ نہ ہو تو یہ ایک چھوٹا سا نذرانہ آپ سبکی نذر کرتا ہوں۔اور سبھی سے امید کرتا ہوں اس دھاگے میں اپنی بہتر سے بہتر پوسٹ کو اس دھاگے کی رونق بنایئں گے تاکہ مجھ جیسے گناہ گار میں بھی کچھ ثواب اپنے کاسےمیں اکٹھا کر سکے۔آپ سبکی دعاوں کا طالب زاھد حسین​
    [​IMG]
     
    سعدیہ، سید شہزاد ناصر، ھارون رشید اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کو بھی رمضان مبارک ہو
     
    ھارون رشید اور دُعا .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. دُعا
    آف لائن

    دُعا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مارچ 2015
    پیغامات:
    5,102
    موصول پسندیدگیاں:
    4,604
    ملک کا جھنڈا:
  4. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    1.gif
    10.gif kher mubarak.gif 8.gif mub full.gif
    flower020.gif 12.gif
     
    UrduLover نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    رمضان المبارک سے متعلقہ مضامین جنہیں توجہ سے پڑھا جانا چاہیے
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے ہماری زندگیاں گذرتے گذرتے ایک دفعہ پھر اللہ کی خاص رحمتوں والے خاص مہینے رمضان المبارک کے قریب پہنچ گئی ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، ہمارے عزیزو اقارب کو اُس کی رضا کے ساتھ اس مہینے کی ساری رحمتوں اور برکتوں میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ پانے کی ہمت دے ۔
    رمضان سے متعلقہ بہت سے مضامین پہلے ہی کئی اور فورم پر موجود ہیں ، جو یقینا بہت سے قارئین نے پڑھے ہوں گے ، لیکن چونکہ ہم سب ہی تجدید معلومات کے ضرورت مند رہتے ہیں ، کہ یہ تجدید ایمان کی تقویت کے اسباب میں سے ہوتی ہے ، لہذا اس دھاگے میں اُن سب مضامین کے روابط جمع کر رہا ہوں ، تا کہ قارئین کرام کو آسانی رہے ، اور اللہ پاک ان مضامین کو میرے لیے اور سب قارئین کرام کے لیے خیر کا سبب قبول فرمائے ،
    ان مضامین کو ہم اور اس دھاگے کی زینت بناتے ہیں۔دیگر احباب بھی اس کارِخیر میں ہاتھ بٹاکر رمضان کے مہینے میں ثواب حاصل کریں۔شکریہ

    :::::: آیے رمضان کی تیاری کریں :::::::

    ماہ رمضان اور ہم 1::: ماہ رمضان کے فائدے ( فضیلتں) 1 تا 5 :::

    ماہ رمضان اور ہم ::: 6::: قیام اللیل :::

    ::: ماہ رمضان اور ہم ::: 7::: شب قدر ::: فضیلت اور پہچان :::

    ::::::: ماہ ء رمضان المبارک سے ملنے والے سبق :::::::

    ::::::: رمضان میں عملی مُسلمان بنیے :::::::

    :::::: رمضان اچھی عادات اپنانے کا سنہری موقع ہوتا ہے :::::::

    ::::: قران کے سایے میں ::: روزے کا حقیقی سبب:::::

    ::::::: بغیر اجر و ثواب کے روزہ = فاقہ کشی :::::::

    :::::::آپ روزے کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟ :::::::

    اس مذکورہ بالا مضمون کو رمضان کے مضامین میں اس لیے شامل کیا ہے کہ اس میں جس مسئلے کا بیان ہے وہ عام طور پر رمضان میں ہی ظاہر ہوتا ہے یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سب سے زیادہ رمضان میں ظاہر ہوتا ہے ،
    اس کے علاوہ درج ذیل مضمون گو کہ خصوصی طور پر رمضان کریم سے متعلق نہیں بلکہ ہر مہینے کے آغاز سے متعلق ہے لیکن اس کا ربط بھی رمضان سے متعلقہ مضامین میں اس لیئے شامل کر رہا ہوں کہ رمضان مبارک کا نیا چاند دیکھتے ہوٕٕئے اس میں درج دعا کی جإٕئے اور کروإئی جإئے اور اس کے علاوہ دیگر غیر اسلامی مشغولیات سے دور رہا جإئے ،

    :::::: نئے مہینے کا چاند دیکھنے کی دُعا :::::::
    طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تو فرمایاکرتے ((((( اللَّھُمَّ اھِلَّہُ عَلَینَا بِالیُمنِ وَالِایمَانِِ وَالسَّلَامۃِ وَالِاسلَامِ ، رَبَّی وَرَبُّکَ اللَّٰہ ::: اے اللہ ہم پر یہ چاند امن، اِیمان، سلامتی اور سلام کے ساتھ طلوع فرما ( اے چاند ) میرا اور تُمہارا رب اللہ ہے ))))) سلسہ الاحادیث الصحیحہ ١٨٣٤۔
    سب بھائیوں اور بہنوں سے خصوصی گذارش ہے کہ رمضان کریم کی خشوع و خضوع بھری دعاوں میں اپنے عادل بھائی اور اس کے لواحقین کے لیے اللہ کی بخشش اور رحمت کی دعا ضرور کیجیے گا ،
    ان شاء اللہ ، رمضان کے آخری ایام ،شوال سے متعلقہ مضامین کے روابط بھی اسی طرح ایک تھریڈ میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا ۔ والسلام علیکم۔

     
    Last edited: ‏9 جون 2015
    سید شہزاد ناصر اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    چند شفقت بھری باتیں پیش خدمت ہیں ، ان شاء اللہ آپ اپنے دِل میں ان کی جگہ پائیں گے ، اور اپنے سینے میں اس کی قبولیت محسوس کریں گے ،
    ::::::: پہلی بات :::::::
    اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اللہ نے ایک دفعہ پھر آپ کو اپنی رحمتوں کے خاص مہینے رمضان کے قریب کر دیا ہے ، ذرا اپنے اِرد گِرد دیکھیے تو یاد آ جائے گاکہ کتنے ایسے تھے جو پچھلے رمضان میں آپ کے پاس ، آپکے ساتھ تھے ، اور اب وہ منوں مٹی تلے دب چکے ہیں ،
    ایک دفعہ پھر اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اُس نے آپ کو ایک اور رمضان کے قریب کر کے ایک اور احسان فرمایا ہے اور اس کی عملی شکر گذاری کرتے ہوئے اُس کی رحمتوں اور مغفرت والے مہینے کا بھر پور فائدہ اُٹھانے کی تیاری کیجیے،
    اُس کی اطاعت کرتے ہوئے ، اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اپنی زندگی میں موجود غلطیوں ، کوتاہیوں ، اور گناہوں کو ہمیشہ کے لیے ترک کرتے ہوئے ، اللہ کے اس برزگی والے مہینے میں نازل ہونے والی بے حد و حساب رحمت اورمغفرت اورجہنم سے نجات کے حصول کی تیاری کیجیے ۔
    ::::::: دوسری بات :::::::
    جی ، رمضان ہم سب کے لیے گناہوں اور کوتاہیوں سے دور ہونے کے لیے اللہ کی طرف سے مہیا کردہ ایک بہترین تربیت گاہ ہے ، اور اُنہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کے لیے بہترین اور مضبوط ترین قوت مہیا کرتا ہے ، پس تیار ہو جایے کہ اس رمضان میں ہم کھلے عام علیٰ الاعلان اپنے گناہوں اور برائیوں کو ترک کر دیں گے ، اس سے بھی کہیں زیادہ شوق اور جرأت کے ساتھ کہ جس کے ساتھ ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں ، اور ابلیس اور اُس کے ساتھیوں کے سامنے پوری قوت کے ساتھ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کا عملی ثبوت مہیا کرنے کے لیے تیار ہو جایے ،
    یقین رکھیے اگر ہم صدق دِل سے یہ تیاری کر لیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ہماری برائیوں اور گناہوں میں نہ چھوڑے گا ۔
    ::::::: تیسری بات :::::::
    رمضان ، قران کا مہینہ ہے ،پس اس نسبت کو اپنی زندگیوں میں لانے کی بھر پور کوشش کی تیاری کیجیے ، کہ قران پڑھا جائے ، لیکن ، صرف الفاظ پڑھ کر نیکیاں کمانے کے لیے ہی نہ پڑھا جائے بلکہ مکمل سمجھ داری اور اُس میں غور و فکر کے ساتھ پڑھا جائے ،
    ::::::: چوتھی بات :::::::
    ہوشیار رہیے کہ ہم اُن میں سے نہ ہو جائیں جو دِن بھر بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے ایسے کاموں میں بھی مشغول رہتے جو گناہ کے زمرے میں آتے ہیں ،
    ہوشیار ہیے کہ ہم اُن میں سے نہ ہو جائیں جو دِن بھر بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں اورخود کو گناہوں سے بچانے کی کوشش بھی کرتے ہٰں لیکن روزہ کھلتے ہی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانیاں شروع کر دیتے ہیں ، مثلا کتنے روزہ دار افطار کے فوراً بعد سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں اور نماز کی کوئی فکر نہیں ہوتی ، افطار سے لے کر رات گئے مختلف برقی منظر نُماؤں(ڈسپلےز) میں ایسی چیزوں کا نظارہ کرتے رہتے ہیں جو گناہ ہے ، اور کسی نماز کے لیے نہیں اُٹھتے ، اسی یا اسی قسم کی لغو مشغولیت میں دیر تک جاگتے ہیں اور پھر ایک ہی دفعہ کھا پی کر سو جاتے ہیں ، مغرب ، عِشاء ، فجر کوئی نماز نہیں پڑھی جاتی اور دن چڑھے اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہو جاتے ہیں،
    ::::::: پانچویں بات :::::::
    میں اپنے آپ کو آپ سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کی رحمت اور مغفرت والے اس خاص مہینے میں زیادہ سے زیادہ جتنا بھی ہو سکے اللہ کی راہ میں خرچ کیجیے ، اگر ہم لوگ کھانے پینے کی طرح طرح کی چیزوں کی بجائے اپنے معمول کے کھانے پر ہی اکتفاء کریں اور اضافی تکلفات پر خرچ کرنے والی رقم اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو ان شاء اللہ رنگ برنگی افطاری سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہو گا، ہمارے جسموں کے لیے بھی اور ہماری روحوں کے لیے بھی ، ہماری دُنیا کے لیےبھی اور ہماری آخرت کے لیے بھی ،
    اپنے اِرد گِرد اپنے غریب مسلمان بھائی بہنوں کو مت بھولیے ، جن کا اللہ کے بعد آپ کے علاوہ کوئی مددگار نہیں ، جوپوری طرح سے سادہ روٹی بھی حاصل نہیں کر پاتے، اور ہم اپنے دستر خوان ضرورت سے کہیں زیادہ اور محض زُبان کے مزےپورے کرنے کے لیے اور پیٹ کی شھوت بھجانے کے لیے سجائے ہوتے ہیں ،
    کوشش کیجیے کہ ایسے بھائی بہنوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور آپ کے دستر خوان پر یا آپ کے مہیا کردہ مواد سے افطاری کرے ،
    ::::::: چَھٹی بات :::::::
    خیال رکھیے کہ افطار ی حلال اور پاکیزہ رزق سے ہو اور ایسی حالت اور ایسی جگہ میں ہو جس اللہ کی ناراضگی کا کوئی سبب نہ ہو ، اس بات کو چوتھی بات کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے ان شاء اللہ
    ::::::: ساتویں بات :::::::
    روزے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ ، اللہ کا ذکر کرتے رہیے ، اور دُعا کرتے رہیے ، اپنے لیے ، اپنے والدین ، بھائیوں بہنوں ، اور تمام مسلمانوں کے لیے ، جو دُنیا کے مختلف حصوں میں طرح طرح کے مظالم کا شکار ہو رہے ہیں ، اورخود ہمارے اپنے ہی وطن میں بھی ،
    یاد رکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ((((( ان لِلَّهِ عُتَقَاءَ في كل يَومٍ وَلَيلَةٍ لِكلِّ عَبدٍ منهم دَعوَةٌ مُستَجَابَةٌ :::بے شک اللہ تعالیٰ ہر رات میں اور ہر دِن میں (یعنی رمضان کی راتوں اور دِنوں میں) لوگوں کو (جہنم کی آگ سے ) آزاد فرماتے ہیں اور ان آزاد ہونے والوں میں سے ہر ایک کے ایک قبول شدہ دُعا ہوتی ہے ))))) مسند أحمد ، صحیح الجامع الصغیر ،
    کیا پتہ اللہ کی رحمت سے ہم بھی ان میں ہو جائیں اور ہماری دُعا قبول ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہمارےساتھ ساتھ ہمارے ان گنت مسلمان بھائیوں بہنوں کی مشکلیں آسان فرمادے ،
    ::::::: آٹھویں بات :::::::
    جس کے لیے ممکن ہو وہ یہ ارداہ بھی رکھے کہ اللہ کے گھر کعبہ کی زیارت کرے ، اور عمرہ ادا کرے کہ اس مبارک مہینہ میں عُمرہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کے برابر اجر و ثواب رکھتا ہے ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے ((( (( فَاِذا جَاءَ رَمضَانُ فَاعتَمرِی فَاِنّ عُمرۃً فِیہِ تَعدِلُ حَجَۃً و فی روایۃ حَجَۃً مَعِيَ ::: جب رمضان آئے تو اُس میں عُمرہ کر لینا ، رمضان میں عُمرہ حج کے برابر ہے ))))) صحیح مسلم ، سُنن النسائی
    ::::::: نویں بات :::::::
    ایک دفعہ پھر یاد کرتے ہیں ، ابھی ابھی بیان کردہ حدیث پاک ، ((((( ان لِلَّهِ عُتَقَاءَ في كل يَومٍ وَلَيلَةٍ لِكلِّ عَبدٍ منهم دَعوَةٌ مُستَجَابَةٌ :::بے شک اللہ تعالیٰ ہر رات میں اور ہر دِن میں (یعنی رمضان کی راتوں اور دِنوں میں) لوگوں کو (جہنم کی آگ سے ) آزاد فرماتے ہیں اور ان آزاد ہونے والوں میں سے ہر ایک کے ایک قبول شدہ دُعا ہوتی ہے )))))مسند أحمد ، صحیح الجامع الصغیر ،
    اس کو یاد رکھتے ہوئے یہ ارادہ کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ اس رمضان میں ہم بھر پور کوشش کریں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم عطاء کو حاصل کر سکیں اور اُن میں سے ہو سکیں جِن کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ سے آزاد فرما دیتا ہے ،
    ::::::: دسویں بات :::::::
    رمضان الکریم میں اللہ کی خصوصی رحمت اور مغفرت کے حصول کے لیے ہم سب یہ کوشش بھی کریں اور خوب کریں کہ ہم اللہ کے کلام کو زیادہ سے زیادہ پڑھتے رہیں ، سنتے رہیں ، سمجھتے رہیں اور جو کوئی اس کی قدرت نہ رکھتا ہو وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کے گھروں میں اللہ کا ذکر کرتے ہوئے گذارے خواہ تسبیح ، تحمید اور تکبیر ہی کہتا رہے ، اور شیطان ملعون کی اور اس کے پیروکاروں کی محفلوں اور ان کی جاری کردہ مشغولیات سے دور رہیں ،
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمارے والدین بھائیوں بہنوں ، اور تمام اھل خانہ اور اھل خاندان اور اھل اسلام کو اپنی خاص رحمت اور مغفرت والے اس بزرگ اور عِزت مآب مہینے کی زیادہ سے زیادہ برکتیں حاصل کرنے کی ہمت اور توفیق عطاء فرمائے۔
    طلبگارِ دُعاء
     
    سید شہزاد ناصر اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    اہِ رمضان اور ہم 2
    روزہ ، کیوں ،کیا اور دیگر مسائل
    : روزے کی اصل اور حقیقی حِکمت '
    ( یآ اَیّھا الَّذین اَمَنُوا کُتِبَ عَلِیکُم الصَّیامَ کَما کُتِبَ عَلیٰ الذیِنَ مِن قَبلِکُم لعلَّکُم تَتَّقُونَ) ( اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو ، تُم پر روزے لکھ
    دیے(یعنی فرض کر دیے) گئے ہیں ، جیسا کہ تُم سے پہلے والوں پر لکھے گئے ، تاکہ تُم تقویٰ اِختیار کرو)البقرہ ، آیت ١٨٣
    اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان میں روزوں کی فرضیت کے حُکم کے ساتھ ساتھ اِس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ روزے کے ذریعے اپنے نفس کی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ترک کرنامطلوب ہے ،

    یہاں یہ بات بہت ہی اچھی طرح سے سمجھ کر یاد رکھنے کی ہے کہ صِرف بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ نہیں ، اور نہ ہی یہ مطلوب ہے کہ اللہ کی رضا مندی کے عِلاوہ کِسی اور مقصد کےلیے خود کو کھانے پینے سے روک لیا جائے، اگر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کے احکامات کی پابندی نہ کی جائے تو اللہ کو کِسی کے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ہے ، رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام کا فرمان ہے :::
    ( مَن لَم یَدعَ قولَ الزُورِ و العَملَ بِہِ فَلیس للّہِ حاجۃٌ اَن یَدَع طعامَہُ و شرابَہُ ) ( جِس نے جھوٹ بولنا اور اُس پر عمل نہیں چھوڑا اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں )صحیح البخُاری ، حدیث ١٩٠٣
    حافظ ابنِ حجر نے فتح الباری میں اِمام ابن بطال کا یہ قول نقل کیا '' اِس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ روزہ رکھنا چھوڑ دیا جائے ، بلکہ یقینا اِس کا معنیٰ جھوٹ بولنے اور اُس پر عمل کرنے سے روکنا ہے '' اور اِمام البیضاوی کا یہ قول نقل کیا '' اللہ کو اُسکی ضرورت نہیں'' سے مُراد اللہ کی طرف سے غیر مقبول ہونا ہے ''
    ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ علیہ الصّلاۃُ و السّلام نے فرمایا( لَیسَ الصَّیامُ مِنَ الاکلِ و الشُّربِ ، اِنَّمَا الصَّیامُ مِنَ اللَّغُوِ والرَّفثِ ، فَاِن سَابَّکَ اَحَدٌ اَو جَھِلَ عَلِیکَ فَقُل اِني صائمٌ ) ( روزہ صِرف کھانے پینے کا نہیں ، بلکہ بلا شک روزہ فحش کلامی کرنے سے ہے ، اور اگر کوئی تُمہیں گالی دے یا تُمہارے ساتھ بدتمیزی کرے تو تُم کہو میں روزے میں ہوں ) مُستدرک الحاکم حدیث ، ١٥٧٠ ، اِمام الذہبی نے التلخیص میں اِمام الالبانی نے صحیح الجامع الصغیر ( ٥٣٧٦ ) میں اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ۔
    ** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جِن کے روزہ رکھنے کی وجہ صِرف یہ نہیں ہوتی کہ اللہ کی طرف سے فرض ہے بلکہاُن کا مطمع نیت صحت کی بہتری ، کچھ دبلا ہونا وغیرہ بھی ہوتا ہے ؟
    کیا آپ اُن روزہ داروں میں سے تو نہیں جو اپنے پیٹ کی خواہشات کو تو روک لیتے ہیں مگر نفس کی خواہشات پرکوئی روکاوٹ نہیں لگاتے ؟
    ** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں جو روزے کی وجہ سے اپنی زُبان کو کھانے پینے کے ذائقے سے تو باز رکھتے ہیں مگر،،،،جھوٹ ،غیبت ، چُغلی ، گالی گلوچ اور گندی واہیات باتوں سے باز نہیں رکھتے ؟
    ** روزہ لگ رہا ہے ، ذرا وقت گزاری اور دہیان بدلنے کے لیے کوئی فلم یا ڈرامہ دیکھ لیا جائے ، جِسم کا تو روزہ ہے روح کو ہی خوارک مہیا کی جائے، کوئی موسیقی گانا وغیرہ سُنا جائے ، اگر دین اور اِسلام کا خیال آ گیا تو موسیقی کی تال پر گائی ہوئی نعتیں ، قوالیاں ، کوئی عارفانہ کلام ، سُن لیا جائے **** کیا آپ اُن میں سے تو نہیں ہیں جو روزے کی شدت کو دور کرنے کے لیے آنکھوں اور کانوں کا زنا کرتے ہیں ؟ ( موسیقی کو روح کی خوراک کہہ کر شیطان نے بنی آدم کو اِس راہ پر لگا رکھاہے ، موسیقی والے درس میں اِس کا ذِکر تفصیل سے کیاگیا تھا ، اور وہ اب کتابی شکل میں بھی موجود ہے )
    ** اگر آپ اِن میں سے ہیں تو آپ کی بھوک پیاس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ، اور اگر آپ اِن میں سے نہیں توپھر آپکی بھوک پیاس اِنشاء اللہ آپ کے لئیے فائدہ مند ہو گی ۔
    ** ابوہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا دخَلَ شھرُ رمضانُ فُتِحت اَبوابُ السَّماءِ وغُلِّقت اَبوابُ جھنَّمَ و سُلسِلَت الشیٰطین )( جب رمضان داخل ہوتا ہے تو شیطانوں کو زنجیریں پہنا دی جاتی ہیںاور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ) صحیح البُخاری حدیث ، ١٨٩٩ ، اور صحیح مُسلم کی ایک روایت میں جنت کے دروازے کُھلنے اور آگ کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے اور دوسری روایتمیں رحمت کے دروازے کُھلنے اور جہنم کے دروازے بند ہونے کا ذِکر ہے ، ( حدیث ، ١٠٧٩ )
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور کوئی کام جو صحیح سند کے ساتھ ہم تک پُہنچا ہو اُس فرمان یا کا م کا انکار کرنا بِلا شک کُفرہے ، اور مذکورہ بالا حدیث بِلا شک صحیح ہے ، اب ذرا اِس صحیح حدیث کی روشنی میں غور فرمائیے کہ :::
    ** رمضان میں شیاطین تو باندھ دیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی مُسلمان گناہوں میں ملوث نظر آتے ہیں اور بڑی کثرت سے نظر آتے ہیں !!!
    ** رحمت اور جنّت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر بھی اِن کُھلے دروازوں پر داخلے کے خواہش مند کم کم ہی دِکھائی دیتے ہیں!!!
    ** آگ اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں پھر بھی اُن پر جم غفیر نظر آتا ہے !!!
    ** کون ہے جو اُنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے ؟؟؟؟؟
    ** کیا اُنکے دِلوں میں اِیمان اِنتہائی کمزور نہیں ہو چُکا ؟
    ** کون ہے جو اُنہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے ؟؟؟؟؟
    ** کیا اُنکے دِلوں میں اِیمان اِنتہائی کمزور نہیں ہو چُکا ؟
    ** کیا وہ اِس وسوسے کا شکار نہیں کہ فجر سے مغرب تک بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ ہے ، باقی سب کُچھ حسبِ معمول جاری رہے تو کوئی حرج نہیں ؟
    ** کیا اُنکے دِل و دماغ شیطان کے اتنے تابع فرمان نہیں ہو چکے کہ خود بخود ہی اُسکی راہ پر چلتے جا رہے ہیں ؟
    ** کہیں آپ بھی تو اُن میں سے نہیں ؟ اللہ نہ کرے کہ اِس کا جواب ''' جی ہاں ''' ہو اور اگر ایسا ہے تو پھر رمضان توبہ کر کے اللہ کی مغفرت حاصل کرنے کا سُنہری موقع(Golden Chance )ہے ،اِس موقع سے فائدہ اُٹھائیے ۔
    ( وَسَارِعُوا اِلَی مَغفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُم وَجَنَّۃٍ عَرضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالاَرضُ اُعِدَّتْ لِلمُتَّقِینَ ) ( اور جلدی بھاگو اللہ کی طرف سے مغفرت کی طرف اور جنّت (کی طرف ) جِس کی چوڑائی (تمام ) آسمانوں اور زمین کے برابر ہے (اور) جو تقویٰ والوں کے لیے تیار کی گئی ہے) آل عمران /آیت ١٣٣
     
  9. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    :::::: روزے کے فائدے ::::::
    ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( الصِّیَامُ جُنَّۃٌ فلا یَرفُث ولا یَجہَل وَاِن امرُؤٌ قَاتَلَہُ اَو شَاتَمَہُ فَلیَقُل اِنی صَائِمٌ مَرَّتَینِ وَالَّذِی نَفسِی بیدہ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطیَبُ عِندَ اللَّہِ تَعَالَی من رِیحِ المِسکِ یَترُکُ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ وَشَہوَتَہُ مِن اَجلِی الصِّیَامُ لی واَنا اَجزِی بِہِ وَالحَسَنَۃُ بِعَشرِ اَمثَالِہَا )((١)روزہ (جہنم کے عذاب کے سامنے)ڈھال ہے ، لہذا روزہ دار نہ تو ہمبستری کرے اور نہ ہی جہالت (والا کوئی کام جیسا کہ ) اور اگر کوئی اُسکے ساتھ لڑائی کرے یا گالی دے تو روزہ دار دو دفعہ کہے میں تو روزے میں ہوں ، اور اُسکی قسم جِس کے ہاتھ میں میری جان ہے (٢)روزہ دار کے مُنہ کی بو اللہ کے
    ہاں مِسک کی خُوشبُو سے زیادہ پاکیزہ (یعنی محبُوب ) ہے (٣۔اللہ کہتا ہے ) روزہ دار میرے لیے اپنا کھانا ، پینا ، اور خواہشات
    چھوڑتا ہے ، روزہ میری خاطر ہے (تو ) میں ہی اُسکا ثواب دوں گا اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ہے ) صحیح البُخاری،حدیث ١٧٩٥ /کتاب الصوم/باب٢ ، صحیح مُسلم ، حدیث ١١٥١ /کتاب الصیام /باب ٣٠
    **** روزہ دار یعنی روزہ رکھنے والے کی عِزت ****
    سھل بن سعد رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِنَّ فی الجَنَّۃِ بَابًا یُقَالُ لہ الرَّیَّانُ یَدخُلُ منہ الصَّائِمُونَ یوم القِیَامَۃِ لَا یَدخُلُ منہ اَحَدٌ غَیرُہُم یُقَالُ اَینَ الصَّائِمُونَ فَیَقُومُونَ لَا یَدخُلُ منہ اَحَدٌ غَیرُہُم فاِذا دَخَلُوا اَُغلِقَ فلم یَدخُل منہ اَحَدٌ ) (بے شک جنّت میں ایک دروازہ ہے جِس کا نام الرّیّان ہے ، اُس میں سے روزہ دار داخل ہوں گے اور اُن کے عِلاوہ کوئی بھی اور داخل نہیں ہو(سکے)گا ، ( اللہ کی طرف ) کہا جائے گا ، کہاں ہیں روزہ دار ؟، تو روزہ دار اُٹھ کھڑے ہوں گے ، اُس دروازے میں سے اُن روزہ داروں کے عِلاوہ کوئی بھی اور داخل نہیں ہوگا اور جب وہ روزہ دارداخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور (پھر ) کوئی اُس میں سے داخل نہیں ہو (سکے ) گا)صحیح البخاری ، حدیث ١٧٩٧/ کتاب الصوم /باب٤، صحیح مُسلم ، حدیث١١٥٣/ کتاب الصیام / باب ٣١ ۔ ۔۔۔۔۔ نفلی روزہ ہو یا فرض ، روزے کے فائدے اور عِزت و اِکرام ہر روزہ دار کے لیے ہے ،ہر اُس روزہ دار کے لیے جِس کا روزہ صِرف اللہ کی رضا کے لیے ہو اور جِس روزہ میں کوئی نافرمانی نہ ہو۔
    **** بغیر جائز سبب کے روزہ خوری کرنے والے کا انجام ****
    ابی امامہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بَینا اَنا نَائمٌ اِذ اَتاَنی رَجُلان فاَخَذَا بضبُعَی َّ فاَتَیا بی جَبَلًا وَعْراً فَقالَا لی: اصعَدْ، فَقُلْتُ اِنی لَا اَطِیْقُہُ فَقَالاَ اِناَّ سَنَسْہِلُہُ لَکَ فَصْعدت حَتٰی اِذا کُنْتُ فی سَواء الْجبل اِذا اَنَا باَصواتٍ شَّدیدۃٍ فقُلتُ ما ہذہِ الاَصوات قالوا ہذا عُواءٍ اَہلِ النَّارِ ثُّمَ انطَلقَ بِیَّ فَاِذا اَنَا بِقومٍ مُعلِقِینَ بِعِراقِیبِہِم مُشَقَّقۃً اَشدَاقُہُم تَسِیلُ اَشدَاقُہُم دَماً قال قُلتُ مَن ہَؤلاءِ قال ہَؤُلاءِ الَّذِینَ یُفطِرُونَ قَبلَ تَحِلَّۃِ صَومِہِم) ( میں سو رہا تھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور مجھے بازوں سے تھام کر ایک مشکل چڑھائی والے پہاڑ کے پاس لے گئے اور کہا ::: اِس پر چڑھیے ::: میں نے کہا ::: میں نہیں چڑھ سکتا ::: اُنہوں نے کہا ::: ہم آپکے لیے سہولت مہیا کریں گے ::: لہذا میں چڑھ گیا ، جب چوٹی پر پہنچا تو شدید (چیخ و پکار کی ) آوازیں سنِیں ، میں نے پوچھا ::: یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ ::: اُنہوں نے کہا ::: یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے ::: پھر وہ مجھے لیکر چلے، تو میں ایسے لوگوں میں پہنچا جو اپنی ایڑیوں کے اوپر والے پٹھوں کے ذریعے اُلٹے لٹکے ہوئے تھے ( جیسے بکرے یا گائے وغیرہ کو ذبح کرنے کے بعد لٹکایا جاتا ہے ) اور اُن کے منہ پہلوں سے کٹے ہوئے تھے ، اور وہاں سے خُون بہہ رہا تھا ، میں نے پوچھا ::: یہ کون ہیں؟ ::: اُن دونوں نے جواب دِیا ::: یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ حلال ہونے سے پہلے ہی کھا پی لیتے تھے) المُستدرک الحاکم ، حدیث ١٥٦٨، تعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان ، آخری حدیث ، صحیح ابن خُزیمہ ، حدیث ١٩٨٦
    وہ لوگ جو افطار کے وقت سے پہلے خواہ ایک آدھ منٹ پہلے بغیر کسی جائز سبب کے روزہ کھول لیتے ہیں ، اور وہ جو بغیر کسی جائز سبب کے روزہ رکھتے ہی نہیں اُن کی سزا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ، اِس صحیح حدیث میں کچھ اور کاموں کا انجام بھی بتایا گیا ہے لیکن طوالت کے ڈر سے اور رواں موضوع تک محدود رہنے کے لیے اِس کو پورا نقل نہیں کر رہا ہوں ،
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    **** رمضان کا روزہ چھوڑنے کا مسئلہ ****
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ اَُنزِلَ فِیہِ القُرآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الہُدَی وَالفُرقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہرَ فَلیَصُمہُ وَمَن
    کَانَ مَرِیضاً اَو عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّن اَیَّامٍ اَُخَرَ یُرِیدُ اللّہُ بِکُمُ الیُسرَ وَلاَ یُرِیدُ بِکُمُ العُسرَ وَلِتُکمِلُوا العِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُم وَلَعَلَّکُم
    تَشکُرُون) ( رمضان کا مہینہ (وہ ہے ) جِس میں قُران نازل کیا گیا (قُران )جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جِس میں ہدایت کی
    اورحق و باطل میں فرق کرنے والی واضح نشانیاں ہیں ، لہذا تم میں سے جو کوئی اِس مہینے کو پائے تو اِسکے روزے رکھے اور
    جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ (صحت یاب ہونے یا سفر ختم ہونے کے بعد ، چھوڑے ہوئے روزوں کے بدلے ) اور دِنوں
    میں روزے رکھے ، اللہ تُم لوگوں کے لیے نرمی چاہتا ہے اور تُم لوگوں کے لیے سختی نہیں چاہتا اور (یہ)اِس لیے کہ تُم لوگ (رمضان کے روزے رکھنے میںاُن کی) گنتی پوری کر لو اور اللہ کی عطا فرمائی ہوئی ہدایت پر اُس کی بڑائی بیان کرو اور تا کہ تُم اللہ کا شُکر ادا کرو ) سورت البقرہ / آیت ١٨٥
    کِسی بیماری کی وجہ سے یا سفر پر ہونے کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑنے کی اجازت ہے ، یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں (١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ( عَلَی سَفَر )یعنی جب تک سفر پر ہو سواری پر نہیں ، سفر صِرف سواری پر ہونے یا چلنے پھرنے کی حالت نہیں ، ایسی حالت کو فی سفرٍ کہا جاتا ہے ، پس اگر کوئی پورا مہینہ بھی سفر پر ہو تو وہ رمضان کے روزے چھوڑ سکتا ہے اور (٢) سفر ختم ہونے کے بعد جتنے روزے چھوڑے رکھنا فرض ہے، اور اُن کا کوئی کُفارہ نہیں۔
    سفر کتنی مسافت کے بعد شروع ہوتا ہے یا کتنی مسافت طے ہونے کے بعد سفر کا حُکم ہو گا اِس معاملے میں بہت باتیں کی گئی
    ہیں لیکن سُنّتِ مُبارک میں ایسی کوئی کسوٹی نہیں ملتی جو مسافت یا فاصلے کو طے کرتی ہو بلکہ معاملہ نیّت پر منحصر ہے ، اِس موضوع پر بات پھر کبھی اِنشا اللہ تعالیٰ۔
    **** مسافر رمضان کا روزہ چھوڑے یا رکھے ، چھوڑنے کی صُورت میں کوئی کُفارہ نہیں ****
    اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ حَمزہ بن عَمروْ الاسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ::: کیا میں سفر میں روزہ رکھوں ؟ ::: اور حمزہ بہت روزے رکھا کرتے تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِن شِئتَ فَصُم و اِن شِئتَ فَاَفطِر ) ( اگر چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو افطار کرو ) صحیح البخاری ، حدیث ١٨٤١ /کتاب الصوم / باب ٣٣ ، صحیح مسلم ، حدیث ١١٢١/ کتاب الصیام / باب ١٧
    ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ ( ہم سولہ ١٦ رمضان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جِہاد کے سفر پر نکلے اور ہم میں سے روزہ دار بھی تھے اور بغیر روزے کے بھی ، لیکن نہ کِسی روزدار نے کِسی بغیر روزے والے پر اعتراض کیا اور نہ بغیر روزے والے نہ روزہ دار پر ) صحیح مُسلم ، حدیث ١١١٦ /کتاب الصیام / باب ١٥ ۔
    **** حیض (ماہواری ) نفاس اور دودھ پلانے کی صورت میں روزے کا حُکم **** ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اَلَیسَ اِذا حَاضَت لم تُصَلِّ ولم تَصُم فَذَلِکَ نُقصَانُ دِینِہَا ) ( کیا ایسا نہیں ہے ( یعنی ایسا ہی تو ہے ) کہ عورت جب حیض (ماہواری) میں ہوتی ہے تو نہ ہی نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہے ، اور اِس طرح یہ عورت کے دِین میں کمی ہے ) صحیح البخاری ، کتاب الصوم / باب ٤٠ ،
    اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا ( کَان یُصِیبُنَا ذلک فَنُؤمَرُ بِقَضَاء ِ الصَّومِ ولا نُؤمَرُ بِقَضَاء ِ الصَّلَاۃِ ) ( (رسول اللہ کے ساتھ ) ہم میں سے کِسی کو یہ موقع پیش آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضاء کاحُکم تو دِیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضاء کا نہیں ) صحیح مُسلم ، حدیث ٣٣٥ /کتاب الحیض / باب ١٥ ،
    انس ابن مالک الکعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِنَّ اللَّہَ عز وجل وَضَعَ عَن المُسَافِرِ شَطرَ الصَّلَاۃِ وَعَن المُسَافِرِ وَالحَامِلِ وَالمُرضِعِ الصَّومَ ) ( اللہ عز و جل نے مسافر کے لیے روزہ (سفر کے بعد ) رکھنے اور (دوران سفر ) نماز آدھی کرنے کی اجازت دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو (خطرے کی صورت میں) روزےنہ رکھنے کی چھوٹ دی ہے ) صحیح سنن الترمذی ، حدیث٥٧٥ ،
    حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت اگر اپنی یادودھ پینے والے بچے کی جان کے خطرے کے باعث روزہ چھوڑتی تو اُس پر قضاء نہیں ہے جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ( اگر حاملہ عورتروزے کی وجہ سے اپنی جان پر خطرہ محسوس کرتی ہے اور دُدوھ پلانے والی اپنے بچے کے لیے خطرہ محسوس کرتی ہے تو روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے کِسی غریب کو کھانا کِھلائے اور اِن دونوں عورتوں پر کوئی قضاء نہیں ) امام الابانی نے کہا ـ''' یہ حدیث طبرانی نے روایت کی ہے اور اِس کی سند امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے ''' ، الاِرواءُ الغلیل، جلد ٤ ، صفحہ ١٩ ۔
    **** ہو سکتا ہے کِسی ذہن میں خیال آئے کہ حیض اور نفاس میں روزے کی قضاء کیوں اورنماز کی قضا ء کیوں نہیں ، گو کہ اِس قسم کی باتوں کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن اُمت کے اماموں نے بہت اچھی نصحیت کی ہے کہ منطق و فلسفہ کا جواب منطق و فلسفہ سے دینے کی بجائے قران اور صحیح حدیث سے دِیا جائے اور کوئی مانے یا نہ مانے ہم اِس کے ذمہ دار نہیں ،
    دِین کے احکامات قُبُول کرنے عقل و فلسفہ و منطق کی کسوٹی پر نہیں پرکھے جاتے بلکہ قُبُول کرنا فرض ہوتا ہے ، جی ہاں سمجھنے کے لیے اُنہیں کِسی بھی زاویے سے دیکھا جائے لیکن اِس شرط پر کہ اگر اپنی ناقص سمجھ میں نہ آ پائیں تو اُن کو غلط نہ جانا جائے بلکہ اپنی اصلاح کی جائے ، پس دِین کے احکامات عقل کے مُطابق قُبول نہیں کیے جاتے بلکہ قُران و صحیح سُنّت سے ثابت ہونے کی بنا پر قبول کیے جاتے ہیں اور اپنی عقل کو اُن کا تابع بنانا ہوتا ہے ، گو کہ یہ بات چلتے چلتے آ گئی لیکن جب آ ہی گئی تو ایک دو دلائل بھی ملاحظہ فرما بھی ہے کہ حیض والی عورت روزوں کی قضاء ادا کرے گی اور نماز کی نہیں''' ابو الزناد، عبداللہ بن ذکوان فقیہ مدینہ ، تابعی ہیں۔ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،
    تمام پڑھنے والوں سے گذارش ہے کہ ابھی کوئی جواب یا ملاحظہ نہ ارسال کریں کیونکہ کچھ او اہم مسائل ارسال کرنا ہیں انشا اللہ دو چار دِن میں ارسال کر دوں گا اور بہت ہی مناسب ہو گا کہ ایک موضوع کے تمام مسائل ایک تسلسل میں دِکھائی دیں ، موضوع کے اختتام کے بعد ہر کوئی بھی پڑھنے والا اپنا مراسلہ ارسال کرے ۔
    ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    :: بوڑھوں اور مریضوں کے روزوں کا حُکم :::
    عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ( رُخِّصَ لِلشَّیخِ الکَبِیرِ اِن یُفِطرَ ویُطعِمَ عَن کُلِّ یَومٍ مَسکِینًا وَلا قَضَاءَ عَلِیہِ ) ( بوڑھے آدمی کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن ( اِس صُورت میں کہ ) وہ ہر روزے کے بدلے میں کِسی غریب کو کھانا کِھلائے (اُسکے لیے اتنا ہی کافی ہے ) اور اُس پر کوئی قضاء نہیں ) المُستدرک الحاکم ، حدیث ١٦٠٧/کتاب الصوم ، اِمام الذہبی نے '' التلخیص '''کہا ، حدیث حسن ہے ،
    اللہ تعالیٰ کے فرمان ( وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدیَۃٌ طَعَامُ مِسکِینٍ) سورت البقرہ / آیت ١٨٤کی تفسیر میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ( لَا یُرَخَّصُ فی ہذا اِلا لِلَّذِی لَا یُطِیق ُ الصِّیَامَ اَو مَرِیضٍ لَا یُشفَی ) ( اِس معاملے میں (یعنی روزے رکھنے کی بجائے فدیہ دینا ) صِرف اُن کو اجازت دی جائے گی جو روزہ رکھنے کی (جسمانی ) طاقت نہ رکھتے ہوں یا ایسا مریض جِس کی بیماری ختم ہونے کی اُمید بھی نہ ہو) سُنن النسائی المجتبیٰ ، حدیث ٢٣١٦ / کتاب الصیام / باب ٦٣، اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے ، الاِرواءُ الغلیل، حدیث ٩١٢ کی تخریج و شرح ۔
    ::: روزے کی حالت میں ہم بستری کا حُکم :::
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ( اُحِلَّ لَکُم لَیلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِِلَی نِسَآئِکُم ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُم وَاَنتُم لِبَاسٌ لَّہُنَّ ) ( رمضان کی راتوں میں تم لوگوں کے لیے اپنی عورتوں سے ہم بستری حلال کر دی گئی ہے وہ تمہارا لباس ہیں اور تُم اُنکا لباس ہو ) سورت البقرہ آیت ١٨٧
    اللہ تعالیٰ نے اِس فرمان میں رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں (بیویوں ، باندیوں ، باندی یا لونڈی کا مطلب خادمہ یا نوکرانی نہیں ، بلکہ زر خرید عورت ہے یا جو کافر عورت میدانِ جِہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ لگی ہو اور خلیفہ کی طرف سے کِسی کو دی گئی ہو) سے ہم بستری کرنے کی اجازت فرمائی ،
    ::: اِس آیت میں ایک اور معاملے کی بہت کھلی وضاحت ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے مکمل طور پر بے لباس ہو سکتے ہیں ، بہر حال یہ موضوع پھر کبھی انشا اللہ ، تو ، رمضان کی راتوں میں ہم بستری کرنا جائز ہے لیکن دِن میں یعنی روزے کی حالت میں ایسا کرنا گُناہ ہے اور اِ س سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے ،
    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے ، بَینَمَا نَحنُ جُلُوسٌ عِندَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم اِِذ جَاء َہُ رَجُلٌ فقال یا رَسُولَ اللَّہِ ہَلَکتُ قال (ما لک )قال وَقَعتُ علی امرَاَتِی واَنا صَائِمٌ فقال رسول اللَّہِ صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم (ہل تَجِدُ رَقَبَۃً تُعتِقُہَا )قال لَا قال (فَہَل تَستَطِیعُ اَن تَصُومَ شَہرَینِ مُتَتَابِعَینِ) قال لَا فقال( فَہَل تَجِدُ اِِطعَامَ سِتِّینَ مِسکِینًا )قال لَا قال فَمَکَثَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم فَبَینَا نَحنُ علی ذلک اُتِیَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم بِعَرَقٍ فیہ تَمرٌ وَالعَرَقُ المِکتَلُ قال (اَینَ السَّائِلُ )فقال اَنا قال (خُذ ہذا فَتَصَدَّق بِہِ) فقال الرَّجُلُ اَعَلَی اَفقَرَ مِنِّی یا رَسُولَ اللَّہِ فَوَاللَّہِ ما بین لَابَتَیہَا یُرِیدُ الحَرَّتَینِ اَہلُ بَیتٍ اَفقَرُ من اَہلِ بَیتِی فَضَحِکَ النبی صلی اللَّہ عَلیہ وسلَّم حتی بَدَت اَنیَابُہُ ثُمَّ قال( اَطعِمہُ اَہلَکَ ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہا ::: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں مارا گیا ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ( کیا ہوا )اُس نے کہا ::: میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ( کیا تُم ایک غلام آزاد کر سکتے ہو ؟ ) اُس نے کہا :: نہیں :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ( کیا دو ماہ مسلسل روزے رکھ سکتے ہو ؟ ) اُس نے کہا :: نہیں :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ( کیا ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلا سکتے ہو ؟ ) اُس نے کہا ::: نہیں :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تشریف فرما رہے ، کچھ دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ( وہ سوال کرنے والا کہاں ہے ؟ ) اُس نے کہا ::: جی میں حاضر ہوں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( یہ کھجوریں لے جاؤ اور صدقہ کر دو ) اُس نے کہا ::: اے اللہ کے رسول کیا صدقہ اپنے سے زیادہ محتاجوں کو دوں ، اللہ کی قسم مدینہ میں کوئی گھر میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے یہاں تک کہ اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑہیں مُبارک نظر آنے لگِیں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اچھا چلو اپنے گھر والوں کو ہی کِھلا دو ) صحیح البخاری ، حدیث ١٨٣٤ / کتاب الصوم /باب ٣٠ ،
    ::: اپنی جنسی خواہش پر قابو رکھ سکنے والا بیوی کا بوسہ لے سکتا ہے اور بغلگیر ہو سکتا ہے :::
    اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ( کان النَّبیُّ صَلی اللَّہُ عَلِیہ وَسلَّم یُقَبِّلُ وَیُبَاشِرُ وہو صَائِمٌ وکان اَملَکَکُم لِاِِربِہِ ) ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے (یعنی چومتے) اور بغلگیر ہوتے (یعنی گلے ملتے ) لیکن وہ سب سے زیادہ اپنی شہوت پر قابو پانے والے تھے ) صحیح البخاری ، حدیث ١٨٢٦ /کتاب الصوم/باب ٢٣۔
    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ( کِسی آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کی حالت میں (بیوی یا لونڈی) سے بغلگیر ہونے کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اجازت دِی ، پھر ایک اور نے پوچھا تو اُسے منع فرما دِیا ، جِسے اجازت دِی تھی وہ بوڑھا آدمی تھا اور جِسے منع فرمایا تھا وہ جوان تھا )حدیث حسن، صحیح سنن ابو داؤد ، حدیث ٢٠٩٠۔
    یعنی جو اپنی شہوت پر قابو نہیں رکھ سکتا اُسکے لیے روزے کی حالت میں بیوی یا لونڈی سے بغلگیر ہونا یا بوسہ لینا جائز نہیں۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    :: اِن کاموں یا چیزوں سے روزہ کی درستگی پر کوئٰ فرق نہیں پرتا :::
    (١) ::: بھول چوک سے کھا پی لینا ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذَاَ نَسِیْ فَاَکَلَ وَشَرِبَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہ' فَاِنَّمَا اَطْعَمَہُ اللّٰہُ وَسَقَاہُ ) ( اگر کوئی بھول کر کھا پی لے تو اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا پلایا ہے ) صحیح البخاری حدیث ١٨٣١ ، / کتاب الصوم / باب ٢٦ ، یعنی ایسا ہو جانے کی صورت میں روزہ خراب نہیں ہوتا۔
    (٢) :::روزے میں مسواک کرنا :::عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے (رَاَیْتَ النَبِّی صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَاکَ وَھُوَ صَائِمْ مَا لَا اُحْصِیْ اَوْ اَعُدُ) (میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کی حالت میں اتنی دفعہ مسواک کرتے دیکھا ہے کہ گن نہیں سکتا ) صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٧ کے عنوان میں ۔
    (٣)::: سر میں تیل لگانا ، کنگھی کرنا::: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :'' جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو اسے تیل کنگھی کر نا چاہیے ۔'' صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٥
    (٤) ::: ناک میں دوائی وغیرہ ڈالنا اور سُرمہ لگانا ::: حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں '' روزہ دار کے لیے ناک میں دوا ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں بشر طیکہ حلق تک نہ پہنچے ،نیز روزہ دار سرمہ بھی لگا سکتا ہے ۔'' صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٨
    (٥) ::: ہنڈیا یا کوئی چیز چکھنا ::: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا فرمان ہے '' روزہ دار ہنڈیا یا کسی دوسری چیز کا ذائقہ چکھ لے تو کوئی حرج نہیں '' صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٥
    (٦) ::: اپنا تھوک نگلنا :::عطاء رحمۃ اللہ علیہ ، ( تابعی ہیں ) کا کہنا ہے ''روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے '' صحیح البخاری / کتاب الصوم / باب ٢٥
    (٧)::: روزہ دار کے اِرادے کے بغیر کِسی چیز کا حلق میں داخل ہو نا::: عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے ''اگر روزہ دار (وضو کرتے ہوئے ) ناک میں پانی داخل کرے اور کچھ پانی بغیر اُس کے اِرادے کے حلق میں چلا جائے تو کوئی حرج نہیں''، حسن رضی اللہ عنہ کہنا '' اگر مکھی روزے دار کے حلق میں چلی جائے تو کوئی حرج نہیں '' صحیح البخاری / کتاب الصوم /باب ٢٦ ،
    یہ معاملہ بغیر اِرادے کے چیز داخل ہونے کا ہے لہذا روزہ دار کو وضو کرتے ہوئے پانی ناک یا منہُ میں بہت احتیاط کے ساتھ داخل اور خارج کرنا چاہیئے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ::: لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے وضو کے بارے میں بتائیے ، تو اُنہوں نے فرمایا ( اَسبِغ الوُضُوء َ وَخَلِّل بین الاَصَابِعِ وَبَالِغ فی الِاستِنشَاقِ اِلا اَن تَکُونَ صَائِمًا ) ( وضو کو رنگ چڑھانے کی طرح کرو اور اپنی انگلیوں کے درمیان خلال کیا کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی چڑھایا کرو ، لیکن اگر روزے کی حالت میں ہو تو پھر ایسا نہیں کرو ) سنن ابو داؤد ، حدیث ١٢٤ /باب ٥٥ ، حدیث صحیح ، الاِرواءُ الغلیل ، حدیث ٩٣٥۔
    ایسی دوائیاں جو ٹیکوں (انجکشنز) یا قطروں (ڈارپس) یا سونگھائی (ان ہیلنگ ) کے ذریعے استعمال کی جاتی ہیں ، یا منہُ کے اند ، دانت یا مسوڑھے یا زُبان وغیرہ پر لگائی جاتی ہیں اور جو حلق تک نہ پہنچتی ہوں اور نہ ہی پیٹ میں داخل ہوتی ہوں ، اور نہ ہی اُن کے داخلے کی وجہ سے جِسم کو غذائیت یا طاقت و توانائی پہنچتی ہو یا پیاس وغیرہ کو سہارا ملتا ہو ، کا حُکم بھی یہی ہے کہ اِن کے اِستعمال سے روزہ خراب نہیں ہوتا۔( بلا ضرورت ٹوتھ پیسٹ سے گریز کرنا بہتر ہے ، کیونکہ اِس سے روزہ دار کے منہُ کی بُو جو اللہ کو مسک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے جاتی رہتی ہے ، رہا مسواک کرنا تو وہ اللہ کی رضا کا سبب ہے )۔
    (٨)::: گرمی کی شدت کی وجہ سے یا پیاس یا کسی اور سبب سے سر میں پانی ڈالنا ::: ابو بکر بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اُنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک صحابی نے کہا ( لقد رَاَیْتُ النَبِی صلی اللَّہ عَلِیہ وسلم بِالعَرْجِ یَصُبٌ عَلَی رَاسِہِ المَاءَ وَھُوَ صَائِمٌمِنَ العَطَشْ اَوْ مِنَ الحَرِ) (میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے میں گرمی یا پیاس کی وجہ سے سر پر پانی بہا رہے تھے)سنن ابو داؤد ، حدیث٢٣٦٥/کتاب الصوم / باب ٢٧ ، صحیح ، المشکاۃ المصابیح ٢٠١١۔
    (٩)::: بلا اِرادہ (احتلام یا کِسی اور سبب سے )منی یا مذی خارج ہونا ::: عبداللہ بن عباس اور ، عکرمہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا کہنا ہے'' روزہ کسی چیز کے جسم میں داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے جسم سے خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا ۔'' منی وہ سفید گاڑھا لیس دار مادہ ہے جو شہوت کی حالت میں قوت کے ساتھ شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے ، اور مذی سفید پتلا ہلکی لیس والا مادہ ہے جوپیشاب سے پہلے یا بعد میں شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے ۔
    (١٠):::قے (اُلٹی) آنا ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مَن ذَرَعَہُ قَیء ٌ وہو صَائِمٌ فَلَیسَ علیہ قَضَاء ٌ وَاِِن استَقَاء َ فَلیَقضِ ) ( جِس روزہ دار کو خود قے ہو جائے تو اُس پر کوئی قضاء نہیں ، لیکن اگر وہ جان بوجھ کر قے کرے تو اُس روزے کی قضاء (ادا) کرے ) یعنی جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا اور اُس کو قضاء کرنا پڑے گا یعنی پھر دوبارہ رکھنا ہوگا ۔صحیح ابو داؤد ، حدیث ٢٣٨٠۔
    میں نے یہاںصرف اُن مسائل کو بیان کرنے پر اکتفاء کیا ہے جو عام طور پر پوچھے جاتے ہیں اور اکثر محض رائے کی بنیاد پر اُن کا جواب دیا جاتا ہے ۔
    ماہ رمضان اور ہم 2 ::: روزہ کیوں ؟ کیا اور دیگر اہم مسائل ::: کا اختتام ہوا آگے انشاء اللہ ، سحری کے بارے میں بات ہو گی ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    اہ رمضان اور ہم ::: 3 ::: رمضان یا کوئی نیا مہینہ شروع کرنا :::
    ::: رمضان ( یا کِسی بھی اور اسلامی مہینے )کا آغاز کرنے کے لیے چاند کا دیکھا جانا ضروری ہے :::
    عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لَا تَصُو مُوا حَتَّی تَرَوُا الھِلاَلَ وَلَا تُفطِرُوا حَتَی تَرَوہُ فَاِن غُمَّ عَلَیکُم فَاقدُروُلَہُ )( چاند دیکھے بغیر روزے شروع نہ کرو اور چاند دیکھے بغیر رمضان ختم نہ کرو اگرموسم صاف نہ ہو تو مہینے کے تیس دن پورے کر لو) صحیح البخاری ، حدیث ١٨٠٧ / کتاب الصوم / باب ١١ ، صحیح مُسلم ، حدیث ١٠٨٠ / کتاب الصیام / باب ٢ ،
    ::: اسلامی مہینے کے دِن ٢٨ سے کم اور 30 سے زیادہ نہیں ہو سکتے :::
    ( الشَّہرُ تِسعٌ وَعِشرُونَ لَیلَۃً فلا تَصُومُوا حتی تَرَوہُ فَاِن غُمَّ عَلَیکُم فَاکمِلُوا العِدَّۃَ ثَلَاثِینَ )( مہینہ ٢٩ رات کا ہوتا ہے ، لہذا جب تک تُم لوگ (چاند ) نہ دکھ لو روزہ مت رکھو اور اگر تُم لوگوں کو صاف نظر نہ آ سکے تو تیس (دِن ) کی گنتی پورے کرو ) صحیح البخاری ، حدیث ١٨٠٨ / کتاب الصوم / باب ١١ ،
    ::: صِرف ایک ایک مسلمان کی گواہی سے روزے شروع کیے جاسکتے ہیں :::
    َ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ( تَرَآی اِنَّاسُ الھِلاَلَ فَاَخَبَرتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم انِیّ رَاَیتُہ ُ فَصَامَ وَامَرَ النَّاسَ بِصِیَامِہِ ) ( لوگوں نے چاند دیکھا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے بھی چاند دیکھاہے چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ) صحیح ابو داؤد ، حدیث ٢٠٥٢۔
    ::: چاند کے چھوٹا یا بڑا ہونے سے شک میں نہیں پڑنا چاہیے :::
    عَن اَبِی البُختَرِیَّ رَضِیَ اللّٰہ ُ عَنہُ قَالَ خَرَجنَا لِلعُمرَہ ِ فَلَمَّا نَزَلنََا بِبَطنِ نَخلَتَہ تَرَاءَ ینَا الھِلَالَ فَقَالَ بَعضُ القَومِ ھُوَ ابنُ ثَلَاثِِِِِ وَقَالَ بَعضُ القَومِ ھُوَ ابنُ لَیلَتَینِ فَقَال َ فَلَقِینَا ابنَ عَبَاسِِ رَضِِیَ اللّٰہُ عَنھُمَا فَقُلنَا اِنَّا رَاَینَا الھِلاَلَ فَقَالَ بَعضُ الَقومِ ھُوَ ابنَ ثَلَاثِِ وَقَالَ بَعضُ القَوم ھُوَ ابنُ لَیلَتَینِ فَقَالَ اَیَّ لَیلَتہِِ رَاَیتُمُوہُ ؟ قَالَ قُلنَا لَیلَتہَ کَذَا کَذَا فَقَالَ ابنِ عَبَّاسِِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہُ اِنَّ رَسُول َاللّٰہِ صلی اللَّہ علیہ وسلم قَالَ ( انَّ الٰلّٰہُ مَدَّہُ لَلرُّویَتہِ فَھُرَ لِلَیلۃٍ رَاَیتُمُوہُ )
    ابو البختری (الطائی) رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ::: ہم عمرہ کے لیے روانہ ہوئے جب نخلہ کے مقام پر پہنچے تو سب نے( نیا) چاند دیکھا ،کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ تو تیسری رات کا چاند لگتا ہے ( کیونکہ وہ بڑا نظر آ رہا تھا )کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ دوسری رات کا چاند لگتا ہے ،ہماری ملاقات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہوئی تو ہم نے ان سے کہا کہ ہم نے چاند دیکھا ہے کچھ لوگوں نے اسے تیسری رات کا کہا ہے اور کچھ نے دوسری رات کا ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا تم نے کون سی رات کا چاند دیکھا تھا ؟ ہم نے بتایا کہ فلاں فلاں رات دیکھا تھا تو کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے ( اللہ تعالی اس کو تمہارے دیکھنے کے لیے بڑا کر دیتا ہے) یعنی وہ اُسی رات کا چاند تھا جس رات تم نے اسے دیکھا ، کِسی اور رات کا گمان مت رکھو اور اُسی رات کو پہلی رات جان کر گنتی کرو ۔ صحیح مسلم ، حدیث١٠٨٨ / کتاب الصیام / باب٦ ۔
    ::: نیا چاند دیکھنے کی دُعا :::
    طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تو فرمایاکرتے ( اللَّھُمَّ اھِلَّہُ عَلَینَا بِالیُمنِ وَالِایمَانِِ وَالسَّلَامۃِ وَالِاسلَامِ ، رَبَّی وَرَبُّکَ اللَّٰہ) ( اے اللہ ہم پر یہ چاند امن، اِیمان، سلامتی اور اِسلام کے ساتھ طلوع فرما ( اے چاند ) میرا اور تُمہارا رب اللہ ہے ) سلسہ الاحادیث الصحیحہ ١٨٣٤۔

    اللہ تعالیٰ رمضان کا چاند ساری اُمت کے لیے امن ، اِیمان ، سلامتی اور اِسلام والا طلوع فرمائے ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    ماہِ رمضان اور ہم ::: 4 :::
    سحری ::: فضیلت اور اہم مسائل
    :::: سحری کیوں کرنا چاہیئے ؟ ::::
    یُوں تو اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ روزہ رکھنا ہو تو سحری کے وقت کھانا بہتر ہے ، ذرا دِین داری کا خیال ہو تو کہا جاتا ہے کہ سُنّت ہے کہ سحر کے وقت کھایا جائے ، اور اگر پہلے کھا کر سو لیا جائے تو بھی کوئی خاص مُضائقہ نہیں ، آئیے ذرا اِن باتوں کا سُنّت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے :::
    :::::: انس بن مالک رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( تَسَحَّروا فَاِنَّ فی السَّحُورِ بَرکَۃٌ )( سحر ی کیا کرو ، کیونکہ سحری کرنے میں یقینا برکت ہے ) صحیح البُخاری/حدیث ١٩٢٣ /کتاب الصوم/باب٢٠، صحیح مُسلم حدیث ١٠٩٥ / کتاب الصیام/باب٩ ۔
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری میں برکت ہونے کی خبر دِی ہے اور اِسکو نہ چھوڑنے کی ترغیب دی ہے ، اِس لئیے یہ معاملہ مُضائقے یا غیر مُضائقے کا نہیں ، بلکہ اِس سے بڑھ کر ہے ،،،
    ::: کہیں آپ اُن میں سے تو نہیں جو اپنے آپ کو سحری کی برکت سے محرُوم رکھتے ہیں ؟
    ::: عَمر بن العاص رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فَصلُ مَا بَینَ صَیِامنا و صَیِام اَھلِ الکِتابِ ؛ اَکلَۃ السَّحَرِ )( ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے )
    صحیح مُسلم ، حدیث ، ١٠٩٦ ۔
    ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کے بارے میں فرمایا ( اِنَّھَا بَرکَۃٌ اَعطَاکُم اللَّہ ُ اِیَّاھَا ، فَلا تَدعُوہُ ) ( بے شک یہ برکت جو اللہ نے تُم لوگوں کو عطا کی ہے لہذا اسے چھوڑو نہیں ) سُنن النسائی/کتاب الصیام/باب ٢٤
    ::: عبداللہ ابن عَمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ( تَسحَرُوا و لَو بِجُرعَۃِ مَاءٍ ) ( سحری ضرور کرو خواہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کرو) صحیح ابن حبان/کتاب الصوم/باب السحور ،
    ::: عبداللہ ابن عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اِنَّ اللَّہ َ و الملائِکتہ ُ یَصَّلُونَ عَلیَ المُتسَحَرِینَ ) ( بے شک سحری کرنے والوں پر اللہ رحمت کرتا ہے اور اللہ کے فرشتے دُعا کرتے ہیں) صحیح ابن حبان/ کتاب الصوم/باب السحور ،سحری کا کھانا چھوڑنے والا نہ صرف اِن فائدوں سے محروم ہو جاتا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی ، اور کافروں کی نقالی کا مُرتکب بھی ہو جاتاہے ۔
    *** ذرا غور فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے مُطابق مسلمانوں اور اہلِ کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوںکے روزوں میں سحری کا کھانا ہی فرق کرنے والی چیز ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کھانے کے بارے میں کتنی تاکید فرمائی ہے اور کتنی خوش خبریاں دی ہیں ،
    ****** کہیں آپ اُن میں سے تو نہیں جو رات گئے کھانا کھا کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں تا کہ سحری کرنے میں نیند خراب نہ ہو ؟؟؟سحری کی برکت بھی گئی ؛ کافر اور مسلمان کے روزے کا فرق بھی نہ رہا ؛ فجرکی نماز بھی گئی ؛ صِرف بھوکا پیاسا رہنا ہی تو روزہ نہیں !!!
    ::: سحری کا وقت کب تک ہے ؟
    *** اللہ کا فرمان ہے ( وَکُلُوا وَ اشرَبُوا حَتَی یَتَبَیَّنَ لَکُم خَیطُ الابیضُ مِن الخَیطِ الاسودِ مِنَ الفَجرِ) (اور کھاؤ اور پیؤ یہاں تک کہ فجر کے وقت میں سے تمہارے لئیے سفید دھاگہ کالے دھاگے میں سے واضح ہو جائے ) سُورت البقرہ /آیت ١٨٧ ۔
    *** عدی بن حاتم رضی اللہ عنہُ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ::: یا رسول اللَّہ اِنی اجعَلُ تحت َ وسادَتی عِقالین ،عِقالاًابیض َ و عِقالاًاسودَاعرفُ اللیلَ مِن النَّھارِ فقال لہُ رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم ( اِنَّ وَسادَتَکَ لَعَرِیضٌ، اِنَّمَا ھُوَ سَوَادُ اللَّیلِ و بَیَاضُ النَّھارِ) ::: اے اللہ کے رسول میں اپنے تکیے کے نیچے دو دھاگے رکھتا ہوں ، سفید دھاگہ اور کالا دھاگہ ، تا کہ دِن میں سے رات کو جان سکوں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے کہا ( تمہارا تکیہ بہت کُشادہ ہے ، وہ تو رات کا کالا پن اور دِن کی سُفیدی ہے ) ]] یعنی آیت سے مُراد کالے اور سفید دھاگے کا الگ الگ نظر آنا نہیں بلکہ رات اور دِن کا الگ الگ ہونا ہے ۔ صحیح مُسلم ، حدیث ١٠٩٠ ۔
    *** زید بن ثابت رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے ( تَسَحَّرنَا مَع رسول ِاللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وسلم ، ثُمَّ قُمنَا اِلیٰ الصَّلاۃِ ؛ قِیلَ ؛ کَم کان بینَھُمَا ؛ قال ؛ قدرُ خَمسِینَ آیَۃً ) ( ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی اور پھر نماز کے لئیے اُٹھے ، ( زید بن ثابت رضی اللہ عنہُ سے ) پوچھا گیا ؛ نماز اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا ؛ اُنہوں نے جواب دِیا ؛ پچاس آیات کے برابر ) ( یعنی جتنا وقت پچاس آیات پڑہنے میںلگتا ہے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ١٩٢١ ، صحیح مُسلم ، حدیث ، ١٠٩٧
    *** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذا سَمِعَ احدُکُم النِّدَاءَ وَالاِنِاءُ عَلیٰ یَدِہِ فَلا یَضَعہ ُ حَتَّی یَقضِی حاجَتَہ ُ مَنہ ُ ) ( جب تُم میں سے کوئی اذان سُنے اور کھانے کا برتن اُسکے ہاتھ میں ہو تو وہ برتن رکھے نہیں جب تک اُس میں سے اپنی ضرورت پُوری نہ کر لے ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٠ ، یعنی اگر سحری
    کھاتے کھاتے اذان شروع ہو گئی اور ابھی کھانے کی حاجت ہے تو جو کھانے کی چیز ہاتھ میں ہے اُسے چھوڑنے کی بجائے کھا لیا جائے ،لیکن اِسکا یہ مطلب ہر گِز نہیں کہ اذان سے کُچھ لمحات پہلے ہاتھوں میں چیزیں تھام لی جائیں تا کہ دیر تک کھایا جاسکے ۔
    *** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( نِعمَ سَحُورُ المؤمِن التمرُ ) ( اِیمان والے کے لئیے بہترین سحری کھجور ہے ) صحیح ابنِ حبان ، حدیث ، ٨٨٣ ، سلسلہ احادیث الصحیحہ ، حدیث ، ٥٦٢ ،سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٤٢ ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    روزہ کی نیت کب اور کیسے ؟؟؟
    ****** اِیمان والوں کی والدہ محترمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ، امیر المؤمنین خلیفہ دوئم بلا فصل عُمر رضی اللہ عنہُ کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ( مَن لَم یَجمَع الصَّیامَ قَبلَ الفَجرِ فَلا صیامَ لہُ ) ( جس نے فجر سے پہلے روزہ کی نیّت نہیں کی اُسکا روزہ نہیں ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٤٥٤ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں ( مَن لَم یُبَیِّتِ الصَّیامَ مِن اللَّیلِ فَلا صَیامَ لہُ) ( جس نے روزہ کی نیّت کے ساتھ رات نہیں گُزاری اُس کا روزہ نہیں ) سُنن الدارمی حدیث ١٦٩٨ ، سُنن النسائی ، احادیث ٢٣٣٠ تا ٢٣٣٩ ، اِمام الالبانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ، الاِرواء ُ الغلیل حدیث ، ٩١٤ ۔
    عِلامہ شمس الحق عظیم آبادی نے '' عون المعبود '' میں اِس حدیث کی شرح میں اِمام الخطابی کا یہ قول نقل کیا [[ اِس حدیث میں اِس بات کی وضاحت ہے کہ جو پہلے وقت میں ہی روزے کی نیّت نہیں کرے گا اُس کا روزہ دُرست نہیں ہو گا ]]
    اِمام محمد بن اسماعیل الصنعانی رحمہُ اللہ نے '' سُبُلُ السَّلام '' میں اِس حدیث کی شرح میں لکھا [[ یہ حدیث اِس بات کی دلیل ہے کہ روزہ کی نیّت کے بغیر رات گُزارنے والے کا روزہ دُرست نہیں ہوتا ، اِس کا مطلب یہ ہے کہ رات کے کِسی بھی پہر میں آنے والے دِن کے روزے کی نیّت کرنا ضروری ہے ، نیّت کا پہلا وقت غرُوب کا ہے ، ،،،]]
    *********یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نیّت کی جگہ دِل ہے ، کِسی بھی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اِرادہ نیّت کہلاتا ہے ، وہ کام دینی ہو یا دُنیاوی ، اِنسان کے ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی اِرادہ ہوتا ہے ، وہ اِرادہ اُس کے شعور میں ہو یا لا شعور میں ، ہوتا ضرور ہے ، عِبادت کےلئیے بھی اِسی طرح اِرادہ یا نیّت ہوتی ہے ، اِس کو الفاظ کی شکل میں ادا کرنا کِسی بھی عِبادت کے لئیے سُنّت سے ثابت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف ہے ، لہذا یہ مت بُھولئیے کہ نہ تو روزہ رکھنے یا کھولنے کی کوئی ایسی نیّت ہے جو کہ پڑہی یا بولی جائے اور نہ ہی کِسی بھی اور عِبادت کی ، حج اور عُمرہ کا تلبیہ ایک اور چیز ہے اورنیّت اور چیز ، تلبیہ کو لفظی نیّت کہنا یا سمجھنا غلط فہمی ہے ، نیّت کرنے سے مُراد اپنے اِرادے کو حاضر کرنا اور پُختہ کرنا ہے ، اگر نیّت کرنے سے مُراد کوئی الفاظ ادا کرنا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے ہمیں نیّت کرنے کا بتایا اور اُس
    کرنے کا بتایااور اُس کی اہمیت کا عِلم دِیا ، ضرور الفاظ بھی سکھاتے جِن کے ذریعے نیّت کی جاتی ، مگر ہمیں سُنّت اور حدیث کے خزانوں میں صحابہ رضی اللہ عنہُم کے آثار میں ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ کی تعلیمات میں کہیں بھی کے الفاظ نہیں ملتے ، ابھی ذِکر کی گئی دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اِس بات کی واضح دلیل ہیں کہ نیّت کہنے کی نہیں کرنے کی چیز ہے کہیں اشارۃً بھی کِسی عِبادت کی کوئی نیّت کہنے کا ذِکر نہیں ، یہ طرح طرح کی نیّتں بہت بعد میں بنائی گئی ہیں ،لہذا یقینا دین کا حصہ نہیں ہے اور اللہ کے ہاں غیر مقبُول ہے براہِ مہربانی ایسے کاموں سے اپنے آپکو اور اپنے مُسلمان بھائی بہنوں کو بچائیے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کو جاننے اور اُس پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی پر چلتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے ۔
    عام طور پر ایک روزے کی نیّت کے نام پر چند اِلفاظ ہمارے ہاں مشہور ہیں ، اور عجیب دُکھ کی بات ہے کہ حدیث کے طور پر مشہور ہیں ، '''' و بصومِ غَدٍ نویت مِن شھرِ َرمضان '''' جب کہ کہیں کِسی صحیح تو کیا کمزور حدیث میں بھی یہ ، یا کوئی بھی اور الفاظ نیّت کے لیے نہیں ملتے ، ہمارے جو بھائی اِن الفاظ کی تشہیر کرتے ہیں ، اُن پر شرعاً واجب ہیں کہ وہ نیّت کو الفاظ میں ادا کرنے اور پھر خاص خاص کاموں کے لیے خاص خاص نیّت کے اِلفاظ کی دلیل بھی پیش کریں ، اور اگر اُنکے پاس اِس کی کوئی
    دلیل نہیں اور یقینا نہیں ، تو پھر ایسی باتیں نشر کر کے اپنی اور دوسروں کی آخرت کی تباہی کا سبب بننے سے بچیں۔
    اور اسی طرح افطار کی ''' دُعا ''' کے طور پر مشہور ہونے والے اِلفاظ کا بھی معاملہ کچھ عجیب ہی ہے ، اُس کا ذِکر اِنشاء اللہ تعالیٰ افطار کے موضوع میں کیا جائے گا ۔
    ::::: نفلی روزے کے لیے پہلے سے نیّت کرنا ضروری نہیں ، اور نفلی روزہ کِسی بھی وقت توڑا جا سکتا ہے :::::
    اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور پوچھا (ہَل عِندَکُم شَئٍی؟)( کیا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ )ہم نے کہا ''نہیں '' نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فَاِنِی اِذَن صَائِم)( اچھا تو پھر میرا روزہ ہے)پھرکِسی اور دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے میں نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تحفے کے طور پر حیس (کاحلوہ) آیا ہے '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اَرِینِیہِ فَلَقَد اَصبَحتُ صَائِماً ) ( تو لاؤ میں صبح سے روزے میں تھا ) اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حلوہ کھا لیا ۔ صحیح مُسلم، حدیث ١١٥٤ ، کتاب الصیام / باب ٣٢
    ::::: سحری کرنے کے لیے پاکیزگی کی حالت میں ہونا ضروری نہیں ؟؟؟ '
    ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں اور میرے والد عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا کہ (اَشھَدُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہ صَلی اللَّہ عَلِیہ وسلَّم اِن کانَ لَیُصبِحُ جُنَباً مِن جِمَاعٍ غَیرِ اِحتَلَام ثُمَّ یَصُومُہُ) ( میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے اور غسل کیے بغیر روزہ رکھتے)پھر ہم دونوں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور انہوں نے بھی یہی
    بات کی۔ صحیح البخاری ، حدیث ١٨٣٠ / کتاب الصوم / باب ٢٥۔
    عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لیتے تھے اور یقینی بات ہے کہ نمازِ فجر سے پہلے غُسل فرما لیتے تھے ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    رمضان سے متعلقہ موضوعات میں دی گئی معلومات صرف چند اہم مسائل کے بارے میں ہیں ، کسی بھی قاری ( پڑھنے والے مرد و خاتون ) کے ذہن میں اگر کوئی سوال ہو تو بلا جھجک کرے ، انشا اللہ قران و ثابت شدہ سُنـت کے مطابق جواب دیا جائے گا ،
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ((( فاِنما شفاء العی السوال ::: بے شک جہالت کی شفاء سوال کرنا ہے ))) صحیح الجامع الصغیر ، 4362
    اور امام مجاہد کا فرمان ہے ’’’ لا یتعلم العلم المستحی و لا المکتبر ::: حیا کرنے والا اور تکبر کرنے والا علم سیکھ نہیں سکتا )))
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    ماہِ رمضان اور ہم ::: 5 :::
    اِفطار ، کیوں ، کب ، اور دیگر مسائل
    ::::: افطاری کب کی جانی چاہئیے ؟؟؟ :::::
    ***اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَ کُلُوا وَ اشرَبُوا حَتَی یَتَبَیَّنَ لَکُم خَیطُ الابیضُ مِن الخَیطِ الاسودِ مِنَ الفَجرِ ؛ ثُمّ اَتّمُوا الصَّیامَ اِلیٰ اللَیلِ ،،،،) ( اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر میں سے تمہارے لیے سفید دھاگہ کالے دھاگے میں سے واضح ہو جائے ؛ پھر رات تک روزہ مُکمل کرو ،،،،،،) سُورت البقرہ ، آیت ، ١٨٧ ۔
    *** عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اِذَا اَقبَلَ اللَیلُ مِن ھٰھُنَا وَ اَدبَرَ النَّھَارُ مِن ھٰھُنَا وَ غَرَبَت الشَّمسُ فَاَفطَرَ الصَّائِمُ ) (جب رات وہاں ( یعنی سورج نکلنے والی جگہ ) سے آجائے اور دِن وہاں ( یعنی سورج غرُوب ہونے والی جگہ ) سے چلا جائے اور سورج غرُوب ہو جائے تو روزہ دار روزہ کھول لے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ١٩٥٤ ، صحیح مُسلم ، حدیث ، ١١٠٠،
    ***سہل بن سعد رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَا یُزالُوا النَّاسُ بِخَیرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطرَ) (جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے خیر سے رہیں گے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ١٦ ١٩ ، صحیح مُسلم ، حدیث ، ١٠٩٨ ۔
    ******جو لوگ افطار میں جلدی کرنے کی بجائے دیر کرتے ہیں اور تمام مُسلمانوں کی مخالفت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کی روشنی میں اُن لوگوں کے بارے میں کم از کم یہ بات تو یقینی ہو جاتی ہے کہ وہ ہر گِز خیر پر نہیں ہیں ، اور یہاں بھی معاملہ فقہ کے اِختلاف کا نہیں بلکہ عقیدہ کے فساد کا ہے ، لہذا اِس سے بڑھ کر کہنے کی بھی اجازت ہے کیونکہ ، ***** ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَا یَزالُ الدِّینُ ظَاہِراً مَا عَجَّلُ النَّاسُ الفِطرَ لِانَّ الیَھُودُ وَ النَّصَارَی یُؤَخِّرُونَ ) ( جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے دِین واضح اور غالب رہے گا ،کیونکہ یہودی اور عیسائی افطار میں دیر کرتے ہیں ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٠ /کتاب الصیام /
    باب ٢٠ ، حدیث صحیح ہے ۔
    ***** اور اس حدیث کی وضاحت کے مُطابق پتہ چل جاتا ہے کہ افطار دیر سے کرنا کِن کی عادت ہے اور اب مُسلمانوں میں وہ کون لوگ ہیں جو اپنے روحانی بڑوں کی عادات کو پورا کر رہے ہیں مگر اُن کا نام لینے کی جُرات نہیں ہے اِس لئیے اپنی مُنافقت چُھپانے کے لئیے اور انجان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیئے کہیں باطنی شریعت کا نام لیتے ہیں ، کہیں کِسی خاص فقہ کا ، کہیں کِسی خاص طریق کا پردہ کیا جاتا ہے ، مگر حقیقت یہی ہے کہ اِفطار میں تاخیر کرنا یہودیوں اور عیسائیوں کی عادت تھی اور ہے ، جو اِس عادت کو اپنائے ہوئے ہیں وہ اُنکے روحانی پیروکار ہیں خواہ اپنے آپ کو کُچھ بھی سمجھتے یا کہتے رہیں ، خود بھی دھوکے کا شکار ہو رہے ہیں اور لوگوں کے سامنے اپنے لیے طرح طرح کے نام اور القاب بنا بنا کر دھوکہ دے رہے ہیں ۔
    یہ معاملہ کِسی ایک شخص کا نہیں بلکہ اَن گنت اشخاص کا ہے اور یہ عِبادت مُسلمانوں میں سے کوئی چند ایک نہیں بلکہ بہت بڑی تعداد کر رہی ہے ، اور یہ ایسی حقیقت ہے جِس کا انکار ممکن نہیں ، گو کہ عام طور انسان کا ازلی دشمن ایسی باتوں سے توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ واریت کا نام دے اِس قِسم کی منافقت کو چھپانے کی کوشش کرواتا ہے ، لیکن ہمیں ہر ایسی چیز ،ایسے عقائد اور عِبادات جو قُران اور ثابت شدہ سُنّت کے مُطابق نہیں ، اُن کا واضح طور پر اظہار کرنا ہوتا ہے تا کہ ہمارا جو مسلمان بھائی یا بہن ایسی چیزوں کا شکار ہے تو اللہ تعالیٰ ہماری بات کو اُس کی ہدایت کا ذریعہ بنا دے اور وہ مسلمان اپنی جو صلاحیات ایسی بلا دلیل یا بغیر صحیح دلیل کی باتون پر عمل کرنے اور اُن کو نشر کرنے میں خرچ کر رہا ہے وہ اللہ کے سچے دِین کی خدمت میں خرچ ہوں ، ایسی چیزوں ( کاموں ، باتوں ، عقائد ) کے اظہار کے لیے بسا اوقات ضروری ہو جاتا ہے کہ نام بنام نشاندہی کی جائے ، اور اِس کا مقصد لوگوں کو حق و ناحق کی پہچان کروانا ہوتا ہے ،اور یہ کہ ، اگر اللہ چاہے تو ،سننے پڑھنے والوں کی غلط فہمیاں دُور ہوں اور وہ جان سکیں کہ جِسے وہ دِین سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں ، اور جِسے وہ دِین سمجھ کر اُس کی خدمت کر رہے اور اُس کی نشر و اشاعت و تبلیغ کرتے ہیں وہ دِین ہے بھی کہ نہیں؟
    ::::: اِفطار کروانے کا اجر ؛؛؛ :::::
    *** زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مَن فَطَّرَ صائِماً کانَ لہُ مَثلُ اَجرِہِ غَیرَ اَنَّہُ لا یَنقُصُ مِن اَجرِ الصائِم شَیئًا ) ( جو روزہ دار کو افطار کرواتا ہے اُسکے لئیے روزہ دار کے اجر کے برابر اجر ہے اور روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی ) سُنن الترمذی حدیث ٨٠٧ ، سُنن ابن ماجہ حد یث ، ١٧٤٦ ۔
    ***اگر کِسی کے پاس اِفطار کیا جائے یا کھانا کھایاجائے تو ، سُنّت کے مُطابق ، اُسکے لیے دُعا کے الفاظ یہ ہیں :::
    انس رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ جب صلی اللہ علیہ وسلم کِسی کے پاس اِفطار کرتے تو کہتے ( اَفطَرَ عِندَکُم الصَّائِمُونََ وَ اَکَلَ طَعَامَکُم الاَبرارُ و صَلَّت عَلِیکُم الملائِکَۃُ ) ( روزے دار تمہارے پاس افطار کریں اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں ، اور فرشتے تمہارے ہاں اُترتے رہیں ) سُنن ابو داود ، حدیث ، ٣٨٤٨ ، سُنن ابن ماجہ ، حدیث ١٧٤٧ ۔
    اِمام ا لالبانی نے '' آداب الزفاف / ص١٧١ '' کے حاشیے میں لکھا کہ '' یہ دُعا روزہ دار کے افطار کے لئیے خاص نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ ( افطر عندکم الصائمون ) خبر ہے بلکہ یہ کھانا کِھلانے والے کے لئیے دُعا ہے کہ اُس کے پاس روزہ دار افطار کریں تا کہ وہ اُن کا اجر حاصل کر سکے ''
    یہ بات تقریباً عربی کے ہر دُعائیہ فقرے میں اسی طرح ہوتی ہے ، کہ لغوی اعتبار سے ظاہری معنیٰ تو ماضی یعنی گذرے ہوئے زمانے کی خبر ہوتا ہے ، لیکن اُس کا مفہوم مستقبل یعنی آنے والے زمانے میں خواہش ہوتا ہے ، اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے اُسے ، دُعا ، بد دُعا یا محض خواہش کہا جاتا ہے ، مثلاً ، عام طور پر مر چکے مسلمانوں کے لیے'''رحمۃ اللہ علیہ'''::: لغوی معنیٰ :::اُس پر اللہ کی رحمت ہوئی ::: اور ''' رحمہُ اللہ ''' ::: لغوی معنیٰ ::: اللہ نے اُس پر رحم کِیا ::: اور ''' مرحوم، یعنی جِس پر رحمت کی گئی ''' یا ''' مغفور ، یعنی جِس کی بخشش کی گئی''' وغیرہ کہا جاتا ہے ، یہ تمام فقرے بظاہر ایسے کاموں کی خبر ہیں جو واقع ہو چکے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ، کیونکہ کِس کی مغفرت ہوئی اور کِس پر رحمت ہوئی یہ اللہ ہی جانتا ہے ،
    اگر اللہ کی طرف سے کِسی کے بارے میں کوئی خبر آئی ہو تو اُس کو صِرف اُسی کے لیے خبر ماننا ہو گا جِس کے لیے ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دِی کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے اللہ پر صلاۃ کرتے ہیں ، (صلاۃ کی تشریح ایک دوسرے مضمون ''' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام ''' میں کی جا چکی ہے ) اور صبر کرنے والے اِیمان والوں پر اللہ تعالیٰ کی ''صلاۃ '' ہونے کی اللہ نے خبر دی ، اور صحابہ کے بارے میں خبر دی ہے کہ اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں ، لہذا اگر اب کسی مسلمان کو ''' صلی اللہ علیہ ''' یا ''' رضی اللہ عنہُ '''کہا جائے گا تو ایسا کہنا اُس کے لیے دُعا ہو گی ، نہ کہ ایسا ہو جانے کی خبر ، عرب ہمیشہ سے فعل ماضی کے ایسے فقرے دُعا کے طور پر اِستعمال کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اِسلام میں بھی اِس اِستعمال کو برقرار رکھا گیا ہے ، کیونکہ مشرکین عرب اپنے تمام تر شرک کے باوجود اپنی لغت کو جانتے تھے اور ایسی غلط فہمیوں کا شکار نہیں تھے جِن کا شکار غیر عرب ہو تے ہیں ، لیکن ،،،، ہم ماضی کے فعل میں صادر ہونے والے فقروں کو خبر سمجھ کر اپنے مرنے والوں کے بارے میں بڑے عجیب عقیدے بنا لیتے ہیں ، اور اُنہیں کچھ کا کچھ بنا کر کہیں سے کہیں جا پہنچتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور ہماری اِصلاح فرمائے ،
    ::::: افطار کس چیز سے کرنا چاہئیے ؟؟؟ :::::
    *** انس رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے ( کان رسولُ اللَّہُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُفطِرُ عَلَی رُطَباتٍ قبل ان یُصّلِّیَ فَاِن لَم تَکُن رُطَباتٍ فَعَلیَ تَمَرَاتٍ فَاِن لَم تَکُن حَسا حَسَوَاتٍ مِن مَاءٍ ) ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے تازہ پکی رسیلی ھجوروں سے افطار کیا کرتے تھے ، اگر یہ کھجوریں مُیسر نہ ہوتِیں تو کِسی بھی کھجور سے ، اور اگر وہ بھی مُیسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ٢٣٥٣ ،کتاب الصوم /باب ٢١ ، سُنن الترمذی ، حدیث ، ٦٩٦ ، سلسلہ الصحیحہ ، حدیث ٢٨٤٠۔
    ***** اِس کے عِلاوہ کِسی اور چیز سے افطار کرنا اپنی ذاتی پسند یا عادت تو ہو سکتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت نہیں جیسا کہ کُچھ لوگ نمک سے افطار کرنے کے بارے میں اِس غلط فہمی کا شِکار ہیں کہ یہ سُنّت ہے تفصیل پھر کبھی انشاء اللہ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    :::ماہِ رمضان اور ہم ::: 6 :::
    قیام اللیل::: فضیلت اور اہم مسائل :::

    قیام اللیل یعنی رات کی نماز رمضان میں ہو یا کِسی اور ماہ میں ، شبِ قدر کے حصول کے لئیے ہو یا اِسکے عِلاوہ بِلا شک و شبہہ اللہ کی عِبادت ہے اور عِبادت کی قبولیت کی اُمید کےلئیے عِبادت کو دو شرطیں کے مُطابق کیا جانا ضروری ہے ، عِبادت اِن دو شرطوں کے بغیر ہو تو مقبول ہونے کا یقین تو دُور ٹھہرا ، اِس کی اُمید بھی نہیں رکھنی چاہئیے کیونکہ یہ دو شرطیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے لگائی گئی ہیں ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَ مَن کَانَ یَرجْو لَقاءَ رَبِّہِ فَلیَعمَل عَمَلاًصَالحاً وَ لایْشرِک بِعِبَادَۃِ رَبِہِ اَحَداً ) ( اور جو اللہ سے مِلنے کا یقین رکھتا ہے اْسے چاہیے کہ وہ صالح ( نیک ) عمل کرے اور اپنے رب کی عِبادت میں کِسی کو شریک نہ کرے ) سْورت الکھف ، آیت / ١١٠،
    اِمام ابنِ کثیر رحمہْ اللہ نے اِس آیت کی تفسیر میں کہا کہ عملِ صالح وہ ہے جو کہ شریعت کے موافق ہو ،پس اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں کِسی کام کی قبولیت کی اْمید کے لئیے بھی اِن دو شرطوں کا ہونا ضْروری ہے ، ایک یہ کہ وہ کام صِرف اور صِرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصْول کےلیئے کیا جائے اور دوسری یہ کہ وہ کام نبی علیہ الصلاۃْ و السلام کے طریقے کے مْطابق ہو ، اگر یہ دونوں شرطیں یا اِن دونوں میں سے کوئی ایک شرط کِسی کام میں مْوجْود نہیں تو اْس کام کے قبول ہونے کی اْمید بھی نہیں کی جا سکتی اْس کام کے دْھتکارے جانے کا یقین رکھنا چاہئیے کیونکہ اْس کے دْھتکارے جانے ، اْسکے مردْود ہونے کی خبر ہمیں اْس ہستی نے کی ہے جِسکے بارے میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دی ہے کہ ( وَ مَا یَنطِق ُ عَنِ الھَوا O اِن ھْوَ اِلَّا وَحِيٌ یْوحیٰ )( اوروہ ( ہمارا رَسْول) اپنی مرضی سے نہیں بولتا O ( اِسکا بولنا ) سِوائے وحی کے اور کْچھ نہیں) سْورت النجم ، آیت / ٣،٤
    *** رَسْول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا فیصلہ ہے کہ( مَن عَمِلَ عَملاً لیسَ علِیہِ اَمرْنَا فَھْوَ رَدٌ ) ( ہر وہ کام مردود ہے ، جو کام ہمارے معاملے کے مْطابق نہیں ہے ) صحیح مْسلم ، حدیث ١٧١٨ ( یعنی
    جِس کام کو کرنے کا ہماری طرف سے کوئی ثبوت نہیں ہے وہ کام مقبول نہیں بلکہ کرنے والے کی طرف پلٹا یا ہوا ہے )
    رَسْولْ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہٹ کر کئیے گئے کاموں کو رَسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت قرار دیا اور ہر بِدعت کو گْمراہی ، اور ہر گْمراہی کا انجام آگ ( جہنم ) قرار دیا ہے ۔ کِسی بدعتِ حسنۃ یعنی اَچھی بدعت یا بدعتِ سیئیہ یعنی بری بدعت کی تقسیم نہیں فرمائی ،لہذا اگر میں یہ کہوں کہ یہ تقسیم بذاتءِ خود ایک بدعت ہے ، تو ایسا کہنا غلط نہ ہوگا۔
    آئیے دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عِبادت کیا تھی ؟ کتنی تھی ؟ کیسی تھی ؟ رمضان اور رمضان کے عِلاوہ اِس عبادت میں کیا فرق تھا ؟

    :::::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عِبادت کیا اور کتنی تھی ؟ :::::
    ***اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ( مَا کان رسولُ اللَّہ صلی اللَّہ عَلیہ وَسلم یَزیدُ فی رمضان و لا فی غیرہِ علیٰ اَحدی عَشرۃ رَکعۃ، یُصلّی اَربعاً فلا تسئَل عَن حُسنِہنَّ و طُولِہنَّ ، ثُمَّ یُصلّی اَربعاً فلا تسئَل عَن حُسنِہن َ و طُولِہنَّ ، ثُمَّ یُصلّی ثلاثا ً ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا رمضان کے عِلاوہ کبھی بھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑہتے تھے ، چار رکعت پڑہتے اُن چار رکعتوں کی لمبائی اور حُسن کے بارے میں مت پوچھو ، پھر چار رکعت پڑہتے ، اُن چار رکعتوں کی لمبائی اور حُسن کے بارے میں مت پوچھو ، پھر تین رکعت پڑہتے ) صحیح البُخاری ، حدیث ١١٤٧، صحیح مُسلم حدیث ، ٧٣٨ ۔
    ::: اِس حدیث سے بڑی وضاحت اور صراحت سے اِس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ::: *** رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی رات کی عِبادت نماز تھی کوئی اور چلّہ کشی یا تسبیحاں پھیرنا نہیں۔
    *** رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز ، جِسے قیام اللیل ، تہجد ، یا رمضان میں تراویح کہا جاتا ہے اِس نماز کی رکعتوں کی تعداد گیارہ سے زیادہ کبھی نہیں ہوئی ، اِس سے زیادہ رکعت ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مُخالفت ہے ، بیس رکعت تراویح کے بارے میں بہت کُچھ کہا اور سُنا جاتا ہے مگر تحقیقی مواد کے ساتھ اور حق کے اَظہار سے اکثر یت کی بات خالی ہوتی ہے ، تسلی بخش تفصیلات کے خواہش مند اِمام الاَلبانی کی کتاب '' صلاۃُ التراویح '' کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔ اُردُو میں ، میں نے اِس کتاب کا اَختصار ''' قیامِ رمضان ''' نامی کتابچہ میں تیار کیا ہے ۔
    :::::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عِبادت کیسی تھی ؟ :::::
    ***اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ( کان النبيُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذا دخل العِشرُ شدَّ مِئزرَہُ ، واَحیاءَ لیلہُ ، واَیقظَ اہلَہُ ) ( جب آخری عشرہ ( یعنی رمضان کے آخری دس دِن اور راتیں ) داخل ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کمر بستہ ہو جاتے اور اپنی رات کو زندہ کرتے ، اور اپنے گھر والوں کو جگاتے ) صحیح البُخاری/حدیث ٢٠٢٤ / کتاب الصلاۃ التراویح / باب ٦ ۔
    یعنی اللہ تعالیٰ کی عِبادت کے لیے اپنے آپ کو خوب تیار کرتے ، اور اپنے معمول سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ کی عِبادت کر کے اپنی رات گُذارتے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کو عِبادت کے لیے جگاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی عِبادت یعنی قیام اللیل کِس طرح کیا کرتے تھے مُلاحظہ
    فرمائیے ،
    اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ( کان رسولُ اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم اِذا صلَّی قام حَتیٰ تَفطر رجلیہ ، قالت عائشہ : یا رسول اللَّہ ! اَ تَصنَعُ ھذا و قد غُفِرَ لکَ ما تقدَّمَ مِن ذِنبِکَ و ما تاَخَّرَ ؟ فقال صَلی اللَّہ عَلِیہ وَسلم ( یا عائشۃُ ! اَفلا اَکون ُ عَبداً شکُوراً ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑہتے تو اتنی دیر کھڑے رہتے کہ اُن کے پاؤں مُبارک سُوج جاتے ، عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) نے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا اے اللہ کے رسول ، آپ یہ ( یعنی اتنی زیادہ مُشقت ) کرتے ہیں جبکہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گُناہ معاف کئیے جا چُکے ہیں ( یعنی آپ کے ذمے تو کوئی بھی گُناہ نہیں پھر بھی آپ اتنی مُشقت کیوں کرتے ہیں ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    نے فرمایا ( اے عائشہ کیا میں شُکر گُزار بندہ نہ بنوں )صحیح البُخاری /حدیث ٤٨٣٧/کتاب التفسیر /سورت الفتح٤٨/باب ٢ ، صحیح مُسلم /حدیث ٢٨٢٠ /کتاب الصفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار ۔
    ***** یہ کیفیت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ، جبکہ اُنکے ذمے کوئی گُناہ نہیں اور ہم اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بعد سب سے بُلند رُتبے والی ہستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کوئی اور نہیں ، دیکھئیے ، یہ رُتبہ اور یہ محنت ، اِ س لیئے کہ اللہ کا شُکر ادا کیا جائے ، یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا ، جو اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ اور سب سے مُکمل ترین عِبادت کرنے والے تھے ، نہ کوئی پہلے ویسا ہوا اور نہ کوئی بعد میں ہو سکتا ہے ، تو پھر یہ کون ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر من گھڑت یا جھوٹی اور کمزور حدیثوں اور قصے کہانیوں کو بُنیاد بنا کر عِبادات کرتے ہیں ؟
    *** کیا اِنکی نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عِبادت ناقص تھی ؟ یا غیر معیاری تھی جو یہ اپنے الگ طریقوں سے عِبادات کرتے ہیں ؟
    *** ذرا سُنت کی مُخالفت والے طریقے پر تراویح پڑھنے اور پڑھانے والوں کو کِسی دِن کہیے کہ حضرت آج ذرا سُنت کے مُطابق قیام اللیل کیجئیے اور رات کے تین حصے نماز پڑہائیے ، عِشق و
    محبت کی گہرائی و سچائی کا اندازہ ہو جائے گا۔
    *** کبھی عِشق و محبت کے دعویٰ دار سے کہیے کہ اِس رمضان میں اتنی دیر قیام کیجیئے کہ آپ کے پاؤں پر بھی سُوجن ہو جائے ، تا کہ آپ کے عِشق کا پتہ چلے ،
    *** کبھی اِن سے پوچھئیے تو کہ عِبادات کی تعداد زیادہ ہونا سُنت ہے یا اُن کا معیار بُلند ہونا ؟
    *** جلد بازی کے ہزار سجدے اچھے ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی ہدایت سُنت کے مُطابق کیا گیا ایک سجدہ ؟
    *** کبھی اِن سے پوچھیے کہ اِلفاط کی غلط ادائیگی کے ساتھ زیادہ قُرآن پڑہنا بہتر ہے یا ترتیل کے ساتھ تھوڑا پڑہنا ؟
    *** کبھی اِن سے معلوم کیجیئے کہ دِل و دِماغ کی غیر حاضری کے ساتھ ہزار رکعت پڑہنا فائدہ مند ہے یا دِل و یا دِماغ کی حاضری کے ساتھ دو رکعت ؟ شاید ایسے ہی سجدہ ریزوں اور نمازیوں کے بارے میں اقبال نے کہا تھا :::
    میں جو ہوا سر بسجود کبھی تو زمیں سے آنے لگی یہ صدا
    تیرا دِل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
    اور بھی کتنے ہی ایسے سوال ہیں جِن کا جواب اِن کے اعمال اور عِبادات کو غلط قرار دیتا ہے ، مگر ایسے سوال کوئی اِن سے نہیں کرتا لہذا جیسا اِن کا نفس چاہتا ہے ویسی عِبادات یہ کرتے اور کرواتے چلے آ رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں حق اور سچ کو جاننے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے ارشادات میں سے چند ارشادات مُلاحظہ فرمائیے (وَ مَا اتاکُم الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَا نَھا کُم عَنہ ُ فَانتَھُوا ) ( جو کُچھ (حُکم) ر سول تُمہیں دیتا ہے وہ لے لو اور جِس( کام ) سے منع کرتا ہے اُس سے باز آ جاؤ ) سورت الحشر /آیت ٧،
    ( یٰۤاَ اَیّْھَا الذَّینَ اَمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ لَا تُبطِلُوا اَعمَالَکُم )( اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو ، اللہ کی تابع فرمانی کرو اور رسول کی تابع فرمانی کرو اور اپنے اعمال تباہ نہ کرو )یعنی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے کا نتیجہ اعمال کی تباہی ہے ۔ سورت محمد / آیت٣٣،
    ( فَلیَحذَر الَّذِینَ یُخالِفُونَ عَن اَمرِہِ اَن تُصِیبَھُم فَتنَۃٌ اَو یُصِیبَھُم عَذَابٌ اَلِیم ) ( وہ جو اُس ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حُکم کی مُخالفت کرتے ہیں ، اِس بات سے ڈریں کہ کہیں اُنہیں کوئی مُصیبت یا شدید عذاب نہ آن پکڑے ) سورت النْور / آیت ٦٣ ۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے ( کل اْمتی یَدخُلُ الجَنَّۃ اِلَّا مَن اَبیٰ ) ( میرا ہر اُمتی جنت میں داخل ہو گا سوائے انکار کرنے والوں کے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا :: کون انکار کرے گا اے اللہ کے رسول ، تو اُنہوں نے فرمایا ( من اَطاعنی دخل الجنۃ و من عصانی فقد اَبیٰ ) ( جو میری تابع فرمانی کرے گا جنت میں داخل ہو گا اور جو نا فرمانی گا یقیناً وہ انکار کرنے والا ہے ) صحیح البُخاری ، حدیث ، ٨٠
    اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن فرامین کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم بھی سُنیے( صَلُّوا کما راَیتموُنی اَّصلَّی) ( جِس طرح مُجھے نماز پڑہتے دیکھا ہے اُسطرح نماز پڑہو ) صحیح البُخاری ، ٧٢٤٧
    گو کہ مندرجہ بالا مواد موضوع کی اہمیت کے مُطابق کافی نہیں ہے لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے اِسی پر اِکتفاء کر رہا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ میں سے کِسی کےلئیے یہ فیصلہ کرنا اِنشاءَ اللہ مُشکل نہ ہوگا کہ قیام اللیل کیسے کرنا چاہئیے ، اگر کِسی کے ذہن میں کوئی سوال کوئی شک کوئی شبہہ ہو تو بلا تکلف اُسکو سامنے لائے ، اِمام بُخاری نے اپنی صحیح میں اِمام مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ[[ دو قِسم کے آدمی سیکھ نہیں سکتے ہیں شرم کرنے والا اور تکبر کرنے والا ]] لہذا جو کوئی بھی واقعتا حق بات کو جاننا اور سیکھنا چاہتا ہے اُسے چاہئیے کہ اِن دو صفات سے اپنے آپ کو صاف رکھے ، اللہ تعالیٰ ہماری غلطیاں اور کوتاہیاں معاف فرمائے ، ہمارے دِلوں سے مُسلمانوں کے لیے غُصہ اور تعصب دور کرے ، اور ہمیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق
    عطاء فرمائے اور اِسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ۔
    السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ
    اللہ کے حُکم سے میری والدہ فوت ہو گئی ہیں ، سب سے دُعائے مغفرت کی درخواست ہے ، جزاکم اللہ خیرا ۔
     
  18. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    :::ماہِ رمضان اور ہم ::: 7 :::
    شب قدر ::: فضیلت اور پہچان :::



    ::::: شب قدر جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے :::::
    اَعُوذُ باللِّہِ السَّمِیعُ العِلِیمُ مِن الشیطنِ الرَّجِیم و مِن ھمزہِ و نفخہِ و نفثہِ :::: بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
    ( اِنَّا اََنزَلنَاہُ فِی لَیلَۃِ القَدرِ O وَمَا اََدرئکَ مَا لَیلَۃُ القَدرِ O لَیلَۃُ القَدرِ خَیرٌ مِّن اََلفِ شَہرٍ O تَنَزَّلُ المَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِاِذنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ اََمرٍ O سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطلَعِ الفَجرِ ) ( ہم نے قُرآن کو قدر کی رات میں اُتارا O اور تُم نہیں جانتے کہ قدر کی رات کیا ہے O قدر کی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے O اِس رات میں ہر کام کے لیے فرشتے اور رُوح ( جبرئیل علیہ السَّلام ) اپنے رب کے حُکم سے اُترتے ہیں O وہ رات فجر تک سلامتی ہے ) سُورت القدر۔
    *** انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اَنَّ ھذا الشَّھرَ قَد حَضرَکُم و فِیہِ لَیلَۃٌ خیرٌ مَن اَلفِ شَھرٍ مَن حَرمَھَا فَقَد حُرِمَ الخَیرَ کُلَّہُ وَ لَا یُحرَمُ اِلَّا کُلُّ مَحرُومً ) ( یہ مہینہ تمہارے پاس آ گیا ہے جِس میں قدر کی رات ہے ، جو کہ ہزار مہینوں سے زیادہ خیر والی ہے ، جو اِس سے محروم رہا وہ یقیناً ہر خیر سے محروم رہا ، اور قدر کی رات سے سوائے بد نصیب کے کوئی اور محروم نہیں ہوتا ) سُنن ابن ماجہ ، حدیث ، ١٦٤٤۔ اِمام الالبانی نے اِسے صحیح قرار دِیا ۔
    *** رمضان کی راتوں میں سب سے بہترین اور افضل قدر کی رات ہے ، ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مَن قَام لَیلۃ القَدر اِیماناً و اِحتساباً غُفِرَ لہُ ما تقدَّم مِن ذنبہِ ) ( جِس نے قدر کی رات اِیمان اور نیک نیتی کے ساتھ قیام کیا اُس کے سابقہ گُناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ) صحیح مُسلم، حدیث ، ٧٥٩ صحیح البُخاری ، حدیث ، ٢٠٠٩ ۔ اِمام النووی نے صحیح مسلم کی شرح میں اِس حدیث کی تشریح میں لِکھا کہ ''' اِیمان کے ساتھ کا معنیٰ ہے کہ قیام کرنے والا اِس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اِس قیام کی فضلیت حق ہے اور اِحتساب کا معنیٰ ہے کہ قیام کرنے والا قیام صِرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کےلئیے کرے نہ تو لوگوں کو دِکھانے کےلئیے کرے اور نہ ہی کِسی اور مقصد سے '''
    ::::: شبِ قدر کی نشانیاں :::::
    *** عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَیلَۃُ القدرِ، سمحۃٌ ، طلَقۃٌ ،لاحارۃ ٌ ولا بارِدَۃ ٌ ،تَصبحُ الشَّمسُ صَبِیحَتَھا ضَعیفَۃٌ حَمرا ءَ )( قدر کی رات نرمی والی معتدل ہے ، نہ گرم نہ ٹھنڈی ، اُس رات کی صُبح سورج کی روشنی کمزور اور سُرخی مائل ہوتی ہے ) صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ ، حدیث ، ٥٤٧٥ ۔
    *** زر بن حُبیش سے روایت ہے کہ اُنہوں نے اُبي بن کعب رضی اللہ عنہُ کو سُنا کہ جب اُنہیں کہا گیا کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں '' جو پورا سال قیام کرے گا وہ قدر کی رات پا لے گا '' تو اُبي بن کعب رضی اللہ عنہُ نے کہا '' اللہ کی قسم جِس کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، بے شک قدر کی رات رمضان میں ہے ، اور اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کون سی رات ہے ؟جِس رات میں قیام کے لئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دِیا وہ ستائیسویں رات ہے ، اور اُس کی نشانی یہ ہے کہ اُس کی صبح میں جب سورج طلوع ہو تا ہے تو وہ سفید ہوتا ہے اور اُس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی '' صحیح مُسلم ، حدیث ، ٧٦٢ ۔
    ::::: کون سی رات قدر کی رات ہے ؟ :::::
    *** عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( التَمسُوھا فی العِشرِ الاَوخرِ مِن رمضانِ ، لَیلَۃُ القدرِ فی تَاسعۃٍ تبقیٰ ، فی سابعۃٍ تبقیٰ ، فی خامسۃٍ تبقیٰ ) ( شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے ( یعنی آخری دس دِن اور راتوں میں ) طلب کرو ، شبِ قدر نویں میں باقی رہے گی ، ساتویں میں باقی رہے گی پانچویں میں باقی رہے گی ) صحیح البُخاری / حدیث ٢٠٢١ /کتاب فضل لیلۃ القدر / باب ٣ ۔
    *** عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتانے کے لیے آئے ، تو مُسلمانوں میں سے دو آدمیوں نے جھگڑا کیا ( یعنی شبِ قدر کے معاملے میں جھگڑا کیا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( خَرجتُ لِاَخبرَکُم بِلیلۃِ القدرِ ، فَتَلاحیٰ فُلانٌ و فُلانٌ فَرُفِعت ، و عسٰی اَن یکوُن خیراً لکُم ، فِالتِمِسُوھا فی التاسعۃِ و السابعۃِ و الخامسِۃِ ) ( میں اِس لئیے باہر آیا تھا کہ تُم لوگوں کو شبِ قدر کے بارے میں بتاؤں لیکن فُلان اور فُلان نے جھگڑا کیا تو شبِ قدر کو اُٹھا لیا گیا ، اور اُمید ہے کہ اِس کا اُٹھا لیا جانا تُمہارے لئیے خیر ہو گا ،
    پس تُم شبِ قدر کو نویں ، ساتویں اور پانچویں میں طلب کرو ) یعنی آخری عشرے کی اِن راتوں میں شبِ قدر کو ڈھو نڈو ۔ صحیح البُخاری /حدیث ٢٠٢٣ /کتاب فضل لیلۃ القدر / باب ٣ ۔
    *** ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( لَیلَۃُ القدرِ لَیلَۃُ سابعۃٍ اَو تاسعۃٍ و عَشرینَ ، اِنَّ الملائکَۃِ تلکِ الیلۃَ فی الاَرضِ اَکثرُ مِن عددِ الحَصی) ( شبِ قدر ستائیسویں یا اُنتسویں رات ہے ، بے شک اِس رات میں فرشتے زمین پر کنکریوں سے بھی زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں ) حدیث حسن ہے ، صحیح الجامع الصغیر /حدیث ٥٤٧٣ ، سلسلہ احادیث الصحیحہ/حدیث ، ٢٢٠٥۔
    *** معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہُما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( لَیلَۃُ القدرِ لَیلَۃُ سبعٍ و عَشرینَ ) ( شبِ قدر ستائیسویں رات ہے ) سُنن ابو داؤد ، حدیث ، ١٣٨٣ ، حدیث صحیح، صحیح الجامع الصغیر حدیث ٥٤٧٤
    ::::: اوپر بیان کی گئی احادیث میں ہمیں شبِ قدر کے بارے میں یہ خبریں ملتی ہیں :::::
    *** ( ١ ) شبِ قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے ۔
    *** ( ٢ ) شبِ قدر اُنتسویں ، ستائیسویں ، یا پچیسیوں رات ہے ۔
    *** ( ٣ ) شبِ قدر اُنتسویں یا ستائیسویں رات ہے .
    *** ( ٤ ) شبِ قدر ستائیسویں رات ہے ۔

    شبِ قدر کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں اِمام ابن حجر العسقلانی نے فتح الباری میں عُلماء کے چھیالیس اقوال نقل کئیے ہیں ، لیکن جو بات سب سے زیادہ دُرست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ستائیسویں کی رات ہی شبِ قدر ہے ، کیونکہ اُوپر ذِکر کی گئی احادیث میں سے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی بیان کردہ حدیث میں صراحت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ قدر کو واضح فرما دِیا ہے اِسکے عِلاوہ مندرجہ ذیل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل بیان کیا گیا ہے وہ اِس خیال کو زیادہ یقین اور پُختگی دیتا ہے کہ شبِ قدر ستائیویں کی رات ہے ،
    *** ابی ذرٍّ ر ضی ا للہ عنہُ کہتے ہیں ( صُمنا مع رسول اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان، فلم یُقیم بنا شیاَاً مِن الشھر حتی بقی سبعٌ فقام بنا حتی ذھب ثُلث اللیل فلما کانت السادسۃُ لم یُقم بِنا ، فلما کانت الخامسۃُ فقام بِنا حتی ذھب شطرُ الیل ، فقلتُ یا رسول اللَّہ ! لو نفَّلتنا قیامَ ھذہ اللیلۃ ، فقال( ان الرَّجل اَذا صلَّی مع الامام حتی یَنصَرِفُ حُسِبَ لہُ قیامُ لیلۃ) فلما کانت الرابعۃُ لم یَقُم ، فلما کانت الثالثۃُ جمع اھلہُ و نسائَہُ و الناسَ فقام بِنا حتی خشینا اَن یفوتنا الفلاح قال:قلتُ : ما الفلاح؟ قال السَّحُور ،ثُمّ لم یقم بِنا بقیَّۃَ الشھر ) ( رمضان میں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا مہینہ ہمارے ساتھ کوئی قیام نہیں کیا ، جب سات دِن رہ گئے ( یعنی تیئسویں رات ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رات کے تیسرے حصے تک نماز پڑہائی ، جب چھ دِن رہ گئے ( یعنی چوبیسویں رات ) تو اُنہوں نے کوئی نماز نہیں پڑہائی ، جب پانچ دِن رہ گئے ( یعنی پچیسویں رات ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آدھی رات تک نماز پڑہائی ، تو میں نے کہا :: اے اللہ کے رسول آپ اِس رات کا قیام ہمارے لیئے پورا کر دیں تو اُنہوں نے فرمایا ( اگر کوئی اِمام کے ساتھ ، اِمام کے نماز پڑہنے تک نماز پڑہتا ہے تو اُس کے لیے پوری رات کے قیام کا اجر لِکھا جاتا ہے ) پھر جب چار دِن رہ گئے ( یعنی چھبیسویں رات ) تو اُنہوں نے کوئی نماز نہیں پڑہائی ، پھر جب تین دِن رہ گئے ( یعنی ستائیسویں رات ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں ، اپنی بیگمات اور لوگوں کو اکھٹا کیا اور ہمیں نماز پڑہائی ، یہاں تک کہ ہمیں یہ خوف ہونے لگا کہ ہم الفلاح حاصل نہ کر سکیں گے ، ( روای کہتے ہیں کہ میں نے ابی ذرٍّ سے پوچھا : الفلاح کیا ہے تو اُنہوں نے کہا سحری کا کھانا ) اور اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کے باقی دِن ہمیں رات میں اور کوئی نماز نہیں پڑہائی ) اِمام البانی نے '' قیام رمضان '' کے صفحہ ٢٠ کے حاشیے میں کہا '''حدیث صحیح ہے ، سنن لکھنے والوں نے اپنی کتابوں میں روایت کی ہے ، اسکی تخریج ، '' صلاۃ التراویح '' صفحہ ١٥ '' صحیح ابی داؤد '' حدیث ١٢٤٥ ، اور '' الاِروا الغلیل '' حدیث ٤٤٧ ، میں موجود ہے ۔
    اُوپر بیان کی گئی احادیث سے ہمیں یہ وضاحت حاصل ہوتی ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں کی رات ہے ، اِس رات میں خاص طور پر اور دیگر راتوں میں عام طور پر ہماری عِبادت کیا اور کیسی ہونی چاہیئے ــ'' قیام اللیل '' میں صحیح اَحادیث کی روشنی میں اِس بات کو مُختصراً بیان کیا جا چکا ہے و للہ الحمد ۔
    ا للہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کی برکتوں میں سے وافر حصہ عطاء فرمائے ، اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق عبادت کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر خِلافءِ سُنّت کام سے بچائے آمین ۔
    طلبگارِ دُعا آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
    مشیت ایزدی سے نہیں ، اللہ کی مشیت سے ، مشیتَ الہی سے ، میری والدہ فوت ہو گئی ہیں ، سب سے دعائے مغفرت کی درخواست ہے ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    :::::: ماہ ء رمضان المبارک سے ملنے والے سبق :::::::
    بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
    اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ:::بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
    :::::: پہلا سبق ::::::
    رمضان اللہ کی طرف سے عطاء کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، عین ممکن ہے کہ اس رمضان کے بعد اللہ تعالیٰ کئی اور رمضان ہمیں عطاء فرمائے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ رمضان ہماری زندگیوں کا آخری رمضان ہو ،
    یہ رمضان بھی پہلے والے کئی رمضانوں کی طرح گذر تو گیا ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے یہ رمضان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت میں گذاریا ؟؟؟
    اور اس سے بڑھ کر سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ رمضان میں اگر ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت اختیار کیے رکھی تھی تو اب رمضان کے بعد کیا ہم اُس اطاعت پر قائم ہیں ؟؟؟
    اگر ہاں تو الحمد للہ بہت اچھی بات ہے ، اور اگر نہیں تو یقینا بہت خطرے اور نقصان والی بات ہے ،
    میری آج کی گفتگو کا موضوع یہ سوال ہے کہ رمضان میں سے ہمیں کیا سبق ملتے ہیں ؟
    کسی نیکی کے قبول ہونے کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نیکی پر عمل مستقل ہو جائے اور اس کے بعد مزید نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہے ،
    اپنی ذات کے لیے خیر کا طلبگار مسلمان اگر کوئی رمضان اس طرح پاتا ہے کہ اُس میں اللہ نے اُس پر اپنی ظاہری اور باطنی رحمتوں کا نزول رکھا ہو ، اور اُس کا نفس اللہ کی اطاعت پر راضی ہو گیا ہو ، اور اس کا دِل آخرت کی فِکر میں مشغول ہو جائے کہ جہاں اپنے کیے کام کے علاوہ کچھ کام آنے والا نہیں ، جہاں وہی کچھ ملے گا جو کچھ اپنے ہی ہاتھوں وہاں کے لیے بھیجا ہو گا ، جہاں نہ اولاد کام آئے گی نہ کوئی مال ، نہ کوئی حشمت و جاہ ، نہ کوئی دوستی نہ کوئی رشتہ داری ، نہ کوئی مرشد اور نہ کوئی اور ،
    اگر کسی مسلمان کو کوئی رمضان ایسا مل جاتا ہے جس میں اس کے نفس کی یہ مذکورہ بالا کیفیت ہو جاتی ہے اور اُس رمضان میں وہ مسلمان اپنے اللہ اور اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت میں مشغول رہا ہو ، اپنی تخلیق کے اصل مقصد اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا ہو ، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے مشغول رہا ہو ،
    جی ، اگر رمضان البارک میں کسی ملسمان کا نفس اللہ سے اجر و ثواب کی رغبت کے ساتھ اور اللہ کے عذاب سے بچاؤ کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی وہ اُسی اطاعت پر قائم رہے ، اور ممنوع کاموں سے باز رہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اُن کی موت تک اللہ کی عبادت کا حُکم دیا ہے ((((( وَاعبُد رَبَّكَ حَتَّى يَأتِيَكَ اليَقِينُ :::اور اپنے رب کی عبادت کئے جاؤ یہاں تک کہ تمہاری موت(کا وقت) آجائے ))))) سورت الحجر /آیت 99،
    اور فرمایا ہے ((((( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُسلِمُونَ::: اے اِیمان لانے والو ، اللہ (کی ناراضگی اور عذاب)سے بچو جیسا کہ اس سے بچنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا ))))) سورت آل عمران / آیت 202،
    پس مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی موت تک اللہ کی عبادت میں مشغول رہے ، اور ایک سچے عملی مسلمان کی موت مرے ،
    کسی سچے اِیمان والے کے شانء شایان نہیں کہ وہ ایک دفعہ اللہ کی اطاعت و عبادات کی خوشبودار مٹھاس چھکنے کے بعد اُس مٹھاس کو گناہوں اور اللہ کی نافرمانی کی بدبودار کڑواہٹ سے بدل لے ،
    نہ ہی ایسے کسی سچے اِیمان والے پر رمضان کے بعد کسی بھی وقت اُس کے ازلی دُشمن ابلیس کا کوئی داؤ چلتا ہے کہ وہ رمضان کے بعد اللہ کی اطاعات کو خوشی منانے ، فرحت و سرور ، اطمینان و سکون وغیرہ حاصل کرنے وغیرہ کے چکموں وغیرہ میں آکر اللہ کی نافرمانی پر اتر آئے ،
    نہ ہی کسی سچے اِیمان والے کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ رمضان کے علاوہ دیگر اوقات میں خیر والے کاموں سے رُک جائے اور اچھائی کو برائی سے بدل لے ،
    ہر ایک سچے اِیمان والے کو یہ یاد رہتا ہے اور خوب یاد رہتا ہے کہ رمضان کے عِلاوہ بھی صِرف وہی ایک حقیقی اور سچا معبود ہی اکیلا و تنہا معبود ہوتا ہے جس کی وہ رمضان میں عبادت کرتا ہے ، جو ہمیشہ زندہ رہنےو الا اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے ، اُس کی طرف ہر ایک دِن اور ہر ایک رات کے اعمال اُٹھائے جاتےہیں ، اور جو کسی پر ایک ذرہ برابر بھی ظُلم کرنے والا نہیں ، اور جو ایک ایک نیکی کا أجرو ثواب بڑھا بڑھا کر دینے والا ہے (((((إِنَّ اللَّهَ لَا يَظلِمُ مِثقَالَ ذَرَّةٍ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفهَا وَيُؤتِ مِن لَدُنهُ أَجرًا عَظِيمًا :::اللہ کسی کی پر ذرہ برابر بھی ظُلم نہیں کرتا اور اگر(کسی کی کوئی )نیکی ہوگی تو اُس (نیکی )کو دوگنا کردے گا اور اپنے ہاں سے اجرعظیم عطاء فرمائے گا)))))سورت النساء /آیت 40،
    اور جو نیکی کرنے والوں کا أجر ضائع کرنے والا نہیں ، خواہ وہ نیکی رمضان میں ہو یا رمضان کے عِلاوہ کسی اور وقت میں (((((فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجرَ المُحسِنِينَ ::: کہ بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا أجر ضائع نہیں فرماتا )))))سورت یوسف /آیت 3،
    تو رمضان المبارک سے ملنے والا پہلا سبق یہ ہوا کہ ایک سچا اِیمان والا اس میں اللہ کی اطاعت اختیار کرنے کے بعد پھر اس اطاعت سے پِھرتا نہیں ،
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    ::::::: دوسرا سبق :::::::
    روزہ بندے اور اُسکےحقیقی ، سچے اور تنہا معبود اور رب اللہ کے درمیان ایک راز اور ایک خاص تعلق والا عمل ہے جسکی حقیقت کا عِلم صِرف اور صِرف اور صِرف اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہی ہے اسی لیے معروف حدیث قُدسی میں اللہ کا یہ فرمان ہے کہ (((((کُلُّ عَملَ ابن آدمَ لُہُ الحَسنَۃُ بِعَشرِ أمثَالِھَا اِلیٰ سبعمائۃَ ضَعف ، یَقُولُ اللّہ ُ عزَّ و جَلَّ ، اِلَّا الصَّیام فَاِنَّہُ ليَّ و أنا أجزِي بِہِ ، تَرَکَ شَھوُتَہُ و طَعامَہُ و شرابہُ مِن أجلي :::آدم کی اولاد کے (نیکی کے)ہر کام پر اُسکے لیے اُس نیکی جیسی دس سے سات سو تک نیکیاں ہیں ، اللہ عزّ و جلّ کہتا ہے ؛؛؛ روزے کے عِلاوہ ( یعنی نیکیوں میں اضافے کی یہ نسبت روزے کے عِلاوہ ہے )چونکہ میرے بندے نے میرے لیے اپنی بھوک پیاس اور خواہشات کو چھوڑا ،(لہذا )وہ(یعنی روزہ )میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا أجر دوں گا (یعنی جتنا چاہے دوں ) ؛؛؛ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت کی خوشی ، اور دوسری جب وہ اپنے رب سے ملے گا اُس وقت کی خوشی ، اور روزہ دار کے مُنہ کی بُو اللہ کے ہاں یقینامِسک کی خوشبو سے بھی اچھی ہے)))))صحیح مُسلم ،حدیث1151 ،
    روزے کا صِرف اللہ کے لیے ہی رکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو اگر کوئی چاہے تو انتہائی آسانی سے محض دِکھاوے والا بنا سکتا ہے ، کیونکہ محض لوگوں کی شرم سے روزہ رکھنے کی کوئی زبردستی نہیں کہ جب چاہے کہیں چُھپ کر کھا پی لے اور لوگوں کے سامنے خود کو روزہ دار ظاہر کرتا رہے ، اور سوائے اللہ کے اُسکی بات کی حقیقت کوئی نہیں جانتا کہ وہ واقعتا روزہ دار ہے یا صِرف ظاہر کر رہا ہے ، اور جب وہ ایسا نہیں کرتا تو اُس کا عمل یقیناً اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتا ہے ،
    اس میں سبق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے مراقبے اور عِلم کےبارے میں یقین اور اللہ کے خوف سے واقعتا روزہ رکھتا ہے تو اسے یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ہر وقت اُس کے ہرقول و عمل کا مراقبہ کرنے والا ہے اوریقینی عِلم رکھنے والا ہے ، اورجِس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اُس کے اِس عمل میں کوتاہی یاریا کاری کا عِلم رکھتا ہے تو اسی طرح اُس کے ہرقول و عمل میں واقع کوتاہی اور ریا کاری کا عِلم بھی رکھتا ہے ، لہذا وہ اپنے تمام تر اعمال کی اصلاح کرے اور انہیں خالصتاً اللہ عَز ّ و جلّ کی رضا کے لیے بنائے ، اور اپنے ظاہر و باطن کو یکساں پاکیزہ رکھے ،
    اور یہ یاد رکھے کہ جس اللہ نے اُس پر روزہ فرض کیا اسی اللہ نے اُس پر نماز ، زکوۃ ، حج، جِہاد اور دیگر کئی اعمال فرض کیے ہیں اوریاد رکھے کہ اللہ کی واحدانیت اور اس کے ہی اکیلے ،سچے اور حقیقی معبود ہونے ، اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اُس کے بندے اور آخری رسول ہونے کی گواہی دینے کے بعد سب سے زیادہ اہم ترین عمل وقت پر نماز پڑھنا ہے ،
    دُکھ کی بات ہے کہ ہمارے کئی مسلمان بھائی رمضان میں تو روزے رکھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، لیکن رمضان کے بعد نماز کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ، انہیں اپنے اعمال کے بارے میں اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا مراقبہ اورعِلم یاد نہیں رہتا ، جب کہ مسلمان پر واجب ہے کہ جِس طرح وہ روزہ رکھنے میں اخلاص سے عمل پیرا ہوتا ہےاُس سے کہیں زیادہ نماز پڑھنے پر اخلاص سے عمل پیرا رہے ، کہ روزہ تو سال میں ایک مہینے کے لیے فرض کیا گیا ہے اور نماز ساری ہی زندگی ہر روز پانچ دفعہ پڑھنی فرض کی گئی ہے ،
    پس ماہء رمضان سے ملنے والے اسباق میں سے ایک سبق یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے ہر عمل کو اسی طرح اخلاص اور اپنے اعمال کے بارے میں اللہ کے مراقبے اور یقینی عِلم کے شعور کے ساتھ ادا کرنا چاہیے جس طرح ہم روزہ رکھتے ہیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مضمون جاری ہے ،،،،،
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    :::::: تیسرا سبق :::::::
    رمضان مبارک میں ایک منظر ایسا دکھائی دیتا ہے جو روح تک کو سُرور مہیا کرتاہے اور وہ ہے مساجد کا نمازیوں سے بھر جانا
    کیا ہی بھلا ہو کہ ہم اللہ کے گھروں کو ہمیشہ ہی اسی طرح آباد رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اُن لوگوں میں سے ہو جائیں جنہیں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ روزء قیامت اپنے عرش کے سایے میں جگہ عطاء فرمائے گا (((((سَبعَةٌ يُظِلُّهُم الله في ظِلِّهِ يوم لَا ظِلَّ إلا ظِلُّهُ الإِمَامُ العَادِلُ وَشَابٌّ نَشَأَ في عِبَادَةِ رَبِّهِ وَرَجُلٌ قَلبُهُ مُعَلَّقٌ في المَسَاجِدِ وَرَجُلَانِ تَحَابَّا في اللَّهِ اجتَمَعَا عليه وَتَفَرَّقَا عليه وَرَجُلٌ طَلَبَتهُ امرَأَةٌ ذَاتُ مَنصِبٍ وَجَمَالٍ فقال إني أَخَافُ اللَّهَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخفَى حتى لَا تَعلَمَ شِمَالُهُ ما تُنفِقُ يَمِينُهُ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَت عَينَاهُ:::سات لوگ( ایسے ہیں) جنہیں اُس دِن اللہ تعالیٰ اپنے سایے میں جگہ دے گا جِس دِن اللہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا ، انصاف کرنے والا حاکم ، اور وہ جوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوان ہوا ہو ، اور وہ شخص جِس کا دِل مساجد سے جُڑا ہو ، اور وہ دو شخص جو اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں اِسی محبت پر ایک دوسرے سے ملیں اور اسی محبت میں ایک دوسرے سے الگ ہوں، اور وہ شخص جِسے کوئی رتبے والی حُسین عورت (برائی کی) دعوت دے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، اور وہ شخص جو صدقہ کرے تو اس طرح چُھپا کر کرے کہ اُس کا بائیں ہاتھ بھی یہ نہ جان سکے کہ اُس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ، اور وہ شخص جِو تنہائی میں بھی اللہ کو یاد کرے تو اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جائیں)))))متفقٌ علیہ ،صحیح البخاری /حدیث629 /کتاب الجماعۃ و الامامۃ / باب8، صحیح مُسلم /حدیث 1031 /کتاب الزکاۃ/باب30۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    ::::::: چوتھا سبق :::::::
    رمضان میں روزے کی حالت میں تو حرام چیزوں، کاموں اور باتوں کے ساتھ کھانے پینے کی حلال چیزوں اور کئی دیگر حلال کاموں اور چیزوں سے بھی خود کو روکنا ہوتا ہے ، اور روزہ رکھنے والے ایسا کرتے ہیں ، اور روزے کے علاوہ بھی پورے رمضان میں وہ اس بات کی کافی کوشش کرتے ہیں کہ حرام چیزوں ، کاموں اور باتوں سے گریز ہی کرتے رہیں،
    اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ جو چیزیں،کام اور باتیں اللہ نے یا اللہ کی وحی سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حرام قرار دیے ہیں وہ رمضان اور غیر رمضان سب ہی اوقات میں حرام ہیں ، تو جِس طرح ہم رمضان میں نہ صِرف ان حرام چیزوں اور کاموں اور باتوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ایک مقرر وقت تک ایسی حلال چیزوں،کاموں اور باتوں سے بھی بچتے ہیں جو اُس وقت میں حرام ہو جاتی ہیں ، تو یقیناً ہمیں اپنی ساری ہی زندگی اُن تمام حرام چیزوں ، کاموں اور باتوں سے بچنا چاہیے جو مستقل طور پر حرام قرار دے دی گئی ہیں ،
    مثلا ً ،نماز ترک کرنا ، زکوۃ ادا نہ کرنا ، صاحبء حیثیت ہوتے ہوئے بھی حج نہ کرنا ، اپنی استطاعت کے مطابق جِہاد میں حصہ نہ لینا ، جھوٹ بولنا ، نامحرم کی طرف جان بوجھ کر نظر کرنا ، حق تلفی کرنا ،ایسی آوازیں اور باتیں سننا جن کو سننا اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہو،
    غرضیکہ مسلمان کومرنے تک اپنے ظاہر و باطن کے ہر عمل کو صرف اور صرف حلال اعمال تک محدود رکھنا ہی چاہیے ، اپنے ہاتھ ، کان ، آنکھ ، پاؤں ، ز ُبان ، دِل و دماغ ، اور نفس کو ہر حرام سے روکے رکھنا ہی چاہیے ،کہ یہ صِرف رمضان تک کے لیے یا صِرف روزے کی حالت تک کے لیے ہی محدود نہیں ۔
    صیام کا لغوی معنی ٰ کسی چیز سے خود کو روکے رکھنا ہے اور صیام کا شرعی معنی ٰ ایک محدود وقت میں خود کو کھانے پینے اور ایسی حلال چیزوں اور کاموں سے روکے رکھنا ہے جن کو استعمال کرنے سے یا جن پر عمل کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ،
    اس طرح اگر دیکھا جائے تو جن چیزوں ، کاموں اور باتوں وغیرہ کو اللہ یا اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کی بنا پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حرام قرار دیا اُن سے مسلمان کا روزہ ساری ہی زندگی جاری رہتا ہے ،
    خواہ وہ چیزیں مطلقاً حرام ہوں یا کسی حد تک اُن کا استعمال جائز ہو ،
    غور فرمایے :::
    اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ساتھ اپنے بندوں پر ہر و ہ نعمت حلال کر رکھی ہے جِن کے بغیر اُن کا گذارہ نہیں اور جو اُن کی تسلی وتشفی اور سکون کے لیے ضروری ہیں ، وہ نعمتیں انسان کے اپنے جسم کے اعضاء ہوں یا خارج از جسم کوئی اور چیزیں ہوں ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ أرحم الراحمین نے اپنی رحمت اور شفقت کے ساتھ اپنے بندوں کی بھلائی کے لیے اُن چیزوں کے استعمال میں حدود مقرر فرما دیں ، اور اس طرح مقرر فرما دیں جِس طرح وہ راضی ہے، پس اُن حدود کے مطابق اللہ کی حرام کردہ چیزوں ، کاموں باتوں وغیرہ سے خود کو روکے رکھنا اللہ کی رضا کے حصول کا سبب ہے اور نہ روکنا اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے ،
    اللہ کی اس رحمت اور شفقت کا سب سے بہترین شکر یہ ہے کہ ہم اللہ کی عطاء کردہ نعمتوں کو اسی طرح استعمال کریں جس میں اللہ راضی ہوتا ہے اور اس طرح استعمال کرنے سے خود کو روکے رکھیں جس طرح استعمال کرنے سے اللہ ناراض ہوتا ہے ،
    ::::::: اللہ تعالیٰ نے آنکھ کا استعمال جائز قرار دیا لیکن صِرف اُن چیزوں کو دیکھنے کے لیے جنہیں دیکھنا اللہ نے حلال قرار دیا ، پس آنکھ کو ایسی چیزوں کے دیکھنے سے روکنا جنہیں دیکھنا اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو ، آنکھ کا روزہ ہے ، ایسا روزہ جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
    ::::::: کان کا استعمال ایسی آوازیں سننے کے لیے جائز قرار دیا گیا جنہیں سننا حلال رکھا گیا اور ایسی آوازیں سننے میں اُس کا استعمال ناجائز ہوا جن آوازوں کو سننا حلال قرار نہیں دیا گیا ، پس ایسی حرام آوازوں کے سننے سے کان کو روکے رکھنا کان کا ایسا صیام یعنی روزہ ہے جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
    ::::::: ز ُبان کا استعمال شرعی اعتبار سے ہر اچھی بات کہنے کےلیے جائز قرار دیا گیا ، اور شرعاً منکر بات کہنے میں استعمال کو ناجائز قرار دیا گیا ، لہذا ایسی منکر باتوں سے ز ُبان کو روکے رکھنا ز ُبان کاایسا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ، (ز ُبان کے استعمال اور اس فوائد اور نُقصانات کے بارے میں دو مضامین پہلے شائع کیے جا چکے ہیں)۔
    ::::::: ہاتھ کا استعمال ایسے کاموں میں جائز قرار دیا گیا جنہیں کرنا جائز ہے اور ایسے کاموں میں اُس کا استعمال ناجائز قرار پایا جنہیں کرنا ناجائز ہے ، پس ایسے کاموں سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھنا ہاتھوں کا ایسا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
    ::::::: پاؤں کا استعمال ہر ایسے کام کی طرف جانے کے لیے جائز ہے جو شرعاً خیر والا ہو ، اور ہر ایسے کام کی طرف جانے کے لیے ناجائز ہے جو شرعاً شر والا ہو ، پس اپنے پیروں کو شر کی طرف جانے سے روکے رکھنا پیروں کا ایسا روزہ ہے جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
    ::::::: جنسی لذت کے لیے شرمگاہ کا استعمال حلال رشتے میں جائز قرار دیا گیا اور اس کے عِلاوہ اس کا استعمال حرام قرار دیا گیا ، اس طرح حلال رشتے کے عِلاوہ شرمگاہ کو استعمال ہونے سے روکے رکھنا شرمگاہ کا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
    ::::::: دِل میں شرک و کفر پر مبنی عقائد ،شرعاً غیر ثابت شدہ عقائد ، اورشرعی طور پر ناجائز خیالات کے لیے جگہ بنانے کو ناجائز قرار دیا گیا لہذا دِل کو ایسے کسی بھی خیال یا عقیدے کے داخلے سے روکے رکھنا دِل کا روزہ ہوا جس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے ،
    اللہ کے جو بندے اللہ کی عطاء کردہ اِن نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال کرتے ہیں اُن کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے انعام و اِکرام کا وعدہ فرمایا ہے ، اور جو ایسا نہیں کرتے اور اللہ کی عطاء کردہ اِن نعمتوں کو اللہ کی نارضگی والے کاموں میں استعمال کر کے اللہ کو ناراض اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اللہ پر اِیمان والے مخلص بندوں کے دُشمن ابلیس شیطان کو راضی کرتے ہیں اُن کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عذاب کا وعدہ فرمایا ہے ،
    ان تمام نعمتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سوال فرمائے گا اور سب کے استعمال کا حساب دینا ہی ہوگا (((((وَلا تَقفُ مَا لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ إِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ وَالفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنهُ مَسؤُولاً:::اور(اے بندے)تُمہیں جِس چیز کا عِلم نہیں اُس کے پیچھے مت پڑو ،(یاد رکھو) کہ سماعت اور بینائی اور دِل اِن سب ( ہی أعضاء)کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی )))))سورت الاِسراء(بنی اِسرائیل)/آیت 36،
    اللہ کی عطاء کردہ یہ سب نعمتیں قیامت والے دِن خود گواہی دیں گی کہ اللہ نے جس جس کو یہ نعمتیں دی تِھیں انہوں نے انہیں کس کس طرح استعمال کیا ، اللہ مالک الیوم الدین کا فرمان ہے کہ(((((ٱليَومَ نَختِمُ عَلَىٰٓ أَفوَ‌ٰهِهِم وَتُكَلِّمُنَا أَيدِيهِم وَتَشهَدُ أَرجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكسِبُونَ ::: آج (قیامت والے دِن)ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سےبیان کردیں گے اور ان کے پاؤں (ان کے کیے ہوئے کاموں )گواہی دیں گے)))))سورت یٰس /آیت 65،
    اور فرمایا (((((وَيَومَ يُحشَرُ أَعدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُم يُوزَعُونَ:::اور اُس (قیامت والے) دِن اللہ کے دُشمنوں کو گروہ گروہ کر کے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا oحَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيهِم سَمعُهُم وَأَبصَارُهُم وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا يَعمَلُونَ:::یہاں تک کہ جب وہ لوگ جہنم کے پاس پہنچ جائیں گے تو انکے کان اور آنکھیں اور جِلد (یعنی دوسرے أعضاء)انکے خلاف ان کے( اپنے ہی کیے ہوئے) کاموں کے بارے میں گواہی دیں گےoوَقَالُوا لِجُلُودِهِم لِمَ شَهِدتُم عَلَينَا قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيءٍ وَهُوَ خَلَقَكُم أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيهِ تُرجَعُونَ:::اور وہ اپنی جِلدوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ (یعنی جِلدیں ، أٔعضاء)کہیں گے کہ جس اللہ نے سب چیزوں کو بولنے کی قدرت عطاء فرمائی اُسی اللہ نے ہمیں بھی قوتء گویائی عطاء فرمائی اور اُسی نے تم کو پہلی باربنایا تھا اور اُسی کی طرف تمہیں اپس کیا جائے گا ))))) سورت فُصلت /آیات 19تا 21،
    تو حاصلء کلام یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے بندوں پر یہ فرض کیا ہے کہ وہ اپنی ز ُبان ، ہاتھ ، پاؤں ، کان ، آنکھ ، شرمگاہ غرضیکہ تمام تر أعضاء کو ، اپنے ظاہر و باطن کو اپنے جسد و قلب کو حرام میں مبتلا ہونے سے روکے رکھیں ، یہ روکنا لغوی اعتبار سے "صیام ، یعنی ، روزہ " ہے ، اور یہ روزہ کسی خاص وقت کے لیے مخصوص یا محدود نہیں ، بلکہ اس کا حُکم دائمی اور مُستمر ہے پس مسلمان کو اس روزے کی حالت میں ہی جینا ہے اور اسی کی حالت میں مرنا ہے تا کہ اپنے رب کی رضا حاصل کر سکے اور اس کی ناراضگی اور عذاب سے بچ سکے ،
     
  23. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    چوتھا سبق حصہ 2

    جب کوئی مسلمان خو کو رمضان المبارک میں پاتا ہے تو خود کو وقتی طور پر ، رمضان کے دِنوں میں ، روزے کے أوقات میں اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے بھی روکے رکھتا ہے کیونکہ اسے اللہ نے ایسا کرنے کا حُکم دِیا ہوا ہے ، لہذا اللہ کےأجر و ثواب کے حصول کےلیے اور اس کے عذاب سے بچنے کے لیے وہ اپنے ظاہری اور باطنی أعضاء کو اللہ کی نافرمانی سے بچائے رکھتا ہے ،
    اس میں یہ سبق ہے کہ یہ جان لیا جائےکہ اللہ نے اُس کی پوری زندگی کے لیے جو کچھ حرام کیا ہوا ہے اُس حرام سے بالکل اِسی طرح دُور رہنا چاہیے جِس طرح کہ وہ رمضان کے دِنوں میں حلال چیزوں سے بھی دُور ہو جاتا ہے ، کہ اللہ کا وہ عذاب جو اللہ نے اُس کی اور اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کرنے والوں، اُس کے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حرام کردہ اقوال و افعال پر عمل کرنے والوں کےلیے تیار کر رکھا ہے، اُس عذاب کے مستحق رمضان میں یہ کام کرنے والے بھی ہوں اور رمضان کے علاوہ کسی اور وقت میں کرنے والے بھی ،
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی روایت کردہ یہ حدیث قُدسی ابھی ابھی بیان کی گئی ہے کہ ((((( کُلُّ عَملَ ابن آدمَ لُہُ الحَسنَۃُ بِعَشرِ أمثَالِھَا اِلیٰ سبعمائۃَ ضَعف ، یَقُولُ اللّہ ُ عزَّ و جَلَّ ، اِلَّا الصَّیام فَاِنَّہُ ليَّ و أنا أجزِي بِہِ ، تَرَکَ شَھوُتَہُ و طَعامَہُ و شرابہُ مِن أجلي ::: آدم کی اولاد کے (نیکی کے)ہر کام پر اُس کے لیے اُس نیکی جیسی دس سے سات سو تک نیکیاں ہیں ، اللہ عزّ و جلّ کہتا ہے ؛؛؛ روزے کے عِلاوہ ( یعنی نیکیوں میں اضافے کی یہ نسبت روزے کے عِلاوہ ہے )چونکہ میرے بندے نے میرے لیے اپنی بھوک پیاس اور خواہشات کو چھوڑا ، ( لہذا )وہ ( یعنی روزہ ) میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کا أجر دوں گا ( یعنی جتنا چاہے دوں ) ؛؛؛ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت کی خوشی ، اور دوسری جب وہ اپنے رب سے ملے گا اُس وقت کی خوشی ، اور روزہ دار کے مُنہ کی بُو اللہ کے ہاں یقینامِسک کی خوشبو سے بھی اچھی ہے )))))صحیح مُسلم ،حدیث1151 ،
    اس حدیث مبارک پر غور فرمایے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس میں اپنے روزے رکھنے والے بندوں کو دو خوشیاں عطاء فرمانے کی خوشخبری دی ہے ، ایک خوشی اُس کو افطار کے وقت ملتی ہے کہ اپنے نفس و جسم کو اس نے جن حلال چیزوں سے روک رکھا ہوتا ہے وہ ان کااستعمال اُس کے لیے پھر جائز ہوجاتا ہے ،
    اور دوسری خوشی اُسے اُس وقت ملے گی جب وہ اپنے رب سے ملے گا ، اور یہ خوشی پہلی والی خوشی سے کہیں زیادہ عظیم ہےکہ اُس کا رب اللہ جلّ جلالہُ اُس دِن اسے اپنی شانء رحیمی کے مطابق اُس کے روزے کا أجر عطاء فرمائے گا جو اُس نے اللہ کی رضا کے لیے رکھا ،
    پس جِس نے اپنی ز ُبان کو فحش کلامی ، جھوٹ اور ایسی باتوں سے روکے رکھا جِن سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہو ،
    اور جِس نے اپنی شرمگاہ کو حرام سے روکا ہو ،
    اور جِس نے اپنے ہاتھوں کو حرام میں استعمال سے روکا ہو ،
    اور جِس نے اپنے کانوں کو ایسی آوازیں سننے سے روکے رکھا ہو جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سننے سے منع کی ہوں ،
    اور جِس نے اپنی آنکھوں کو ایسی چیزیں دیکھنے سے روکے رکھا ہوجنہیں دیکھنے سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دیکھنے سے منع کیا ہو ،
    اور اُس نے اپنے یہ أعضاء اللہ کی یہ نعمتیں اور دیگر نعمتیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں استعمال کی ہوں اور اُن کی نافرمانی میں استعمال کرنے سے روکے رکھا ہو اوراپنی ساری زندگی اسی روزے میں رہتے ہوئے اپنے رب سے جا ملے تو وہ ان چیزوں پر افطار کرے گا جو اللہ نے اپنے نیک صالح بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں ، اور یہ اُس کے لیے وہ عظیم خوشی ہو گی جِسے ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے ، کیونکہ جو کچھ اللہ نے اپنے پاس اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے اُس کی کیفیت کے بارے میں جاننا کسی کے بس میں ہی نہیں پس ان کے ملنے کی خوشی کا بیان بھی کسی کے بس میں نہیں ہو سکتا (((((فَلَا تَعلَمُ نَفسٌ مَا أُخفِيَ لَهُم مِن قُرَّةِ أَعيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعمَلُونَ::: کوئی جان ایسی نہیں جو یہ جانتی ہو کہ(اللہ نے) اُن کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چُھپا رکھی ہے ، یہ اُن کے اعمال کا صلہ ہے جو وہ کیا کرتے تھے)))))سورت السجدۃ /آیت 17،
    اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کے اس فرمان کی تفیسر اللہ سے ہی روایت فرمائی کہ (((((قال الله تعالى أَعدَدتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ ما لَا عَينٌ رَأَت ولا أُذُنٌ سَمِعَت ولا خَطَرَ على قَلبِ بَشَرٍ فاقرؤوا إن شِئتُم فلا تَعلَمُ نَفسٌ ما أُخفِيَ لهم مِن قُرَّةِ أَعيُنٍ ::: اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سُنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دِل پر اُس شائبہ تک گذرا ، اگر تُم چاہو تو یہ (آیت ) پڑھ لو"""کوئی جان ایسی نہیں جو یہ جانتی ہو کہ(اللہ نے) اُن کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چُھپا رکھی ہے""" )))))صحیح البُخاری / حدیث3072 /کتاب بدء الخلق /باب8،
    اور اگر کوئی شخص پیٹ کا روزہ تو رکھنے والا ہو لیکن اپنے ظاہری اور باطنی أعضاء کے روزے سے بے نیاز رہتا ہو تو وہ اپنے پیٹ کے روزے کے باوجود اللہ کے عذاب اور جہنم کا مُستحق ہو گا ،
    ابو یُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((أَتَدرُونَ ما المُفلِسُ ::: کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ مُفلس (کنگال)کون ہے؟)))))
    صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا """المُفلِسُ فِينَا من لَا دِرهَمَ له ولا مَتَاعَ :::ہم میں کنگال وہ ہے جس کے پاس نہ کوئی پیسہ ہو اور نہ کوئی سامان """
    تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا (((((إِنَّ المُفلِسَ مِن أُمَّتِي يَأتِي يَوم القِيَامَةِ بِصَلَاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأتِي قد شَتَمَ هذا وَقَذَفَ هذا وَأَكَلَ مَالَ هذا وَسَفَكَ دَمَ هذا وَضَرَبَ هذا فَيُعطَى هذا مِن حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِن حَسَنَاتِهِ فَإِن فَنِيَت حَسَنَاتُهُ قبل أَن يُقضَى مَا عليه أُخِذَ مِن خَطَايَاهُم فَطُرِحَت عَليه ثُمَّ طُرِحَ في النَّارِ :::میری اُمت میں سے کنگال وہ ہے جو قیامت والے دِن (اپنے أعمال میں )نماز اور روزہ اور زکوۃ لے کر آئے گا اور(یہ بھی ) لے کر آئے گا کہ اُس نے کسی کو بُرا کہا ہو گا ،کسی کے کردار پر الزام لگایا ہوگا،کسی کا مال کھایا ہوگا ، کسی کو مارا ہو گا ، تو ان میں سے ہر کسی کو اِس شخص کی نیکیوں میں سے نیکیاں دے دی جائیں گی ، اور اگر اِس شخص کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو اُن لوگوں کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی اور اس شخص کو جہنم میں دھکلیل دیا جائے گا )))))صحیح مُسلم/حدیث2581 /کتاب البر و الصلۃ والآداب /باب 15،
    پس ہمیں رمضان مبارک سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنی ساری ہی زندگی اُن چیزوں سے روزے میں رہنا ہے جن سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے ، اس مستقل روزے کے ذریعے ہم نے اپنی آخرت میں عظیم خوشی حاصل کرنے کی تیاری کرنی ہے ،
    اسی تیاری کی فِکردِلوں اور روحوں کے مُربی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِن الفاظ میں دی ، جب اُن سے کسی نے قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں سوال کیا تو اِرشاد فرمایا ((((((وَمَاذَاأَعدَدتَ لہَا ؟:::تُم نے قیامت کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے ؟)))))رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہاں یہ بیان فرمایا کہ انسان اپنی دُنیاوی زندگی میں یہ قدرت رکھتا ہے کہ اپنی آخرت کی دائمی زندگی کے لیے تیاری کرلے ،
    اللہ کرے کہ ہم اُس کی برکتوں والے مہینے رمضان سے ملنے والے اِن اَسباق کو سمجھ لیں اور ان کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کر کے اللہ سے ملیں اور اُس کی تیار کردہ عظیم خوشیوں کو حاصل کرنے والوں میں سے ہو جائیں ۔
    و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    ۰۰۰رمضان میں عملی مُسلمان بنیے۰۰۰
    ::::: بہت خوش دِلی اور اِیمانی جذبے کی توانائی کے ساتھ اللہ کی رحمتوں کے اس مہینے کا استقبال کیجیے ، یقین رکھیے کہ دُنیا بھر کے مہمانوں سے بڑھ کر بزرگی اور فوائد والا ہے ، لہذا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل غیر مشروط تابع فرمانی کے ذریعے اس کی خوب خاطر مدارت کیجیے،
    یاد رکھیے کہ اللہ کے نافرمان اور کمزور اِیمان والوں کو اس مہینے کی آمد اِیمانی طور پر پریشان کرتی ہے ، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس مہینے میں اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کی بجائے انہیں دنیاوی تجارت کے فوائد حاصل کرنے میں لگ جاتے ہیں ، آپ خود کو ان کی صفوں میں شامل ہونے سے بچایے اور اس مہینے میں کیے جانے والے اعمال کو دنیا کی کمائی کا بٹہ مت لگنے دیجیے ،
    :::::رمضان کے پہلے ہی لمحے سے کسی تردد ، پریشانی اور کمزوری کے بغیر یہ نیت پکی کر لیجیے کہ آپ نے اس برکتوں والے مہینے کے ہر ایک لحظہ سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے ،
    :::::اپنے اِرد گِرد کے ماحول کو اللہ کی عبادات کے لیے تیار کیجیے ، اور ہمیشہ اس ماحول کو برقرار رکھیے ،
    :::::اللہ کی کتاب کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کیجیے کہ وہ اللہ کی طرف مکمل ہدایت پر مشتمل تحفہ ہے ، آگے بڑھ کر اس تحفے کو عملی طور پر اپنایے ، عملی طور پر اس کی حفاظت کیجیے اسے اپنی زندگیوں پر مسلط کر لیجیے اور کبھی خود سے دُور مت ہونے دیجیے ،
    :::::اپنے رشتہ داروں سے تعلق داری مضبوط کیجیے ، جہاں کہیں کوئی کمزوری تو اسے دُور کیجیے،کوئی دڑاڑ ہے تو اسے نیکی سے بھر دیجیے ،
    :::::خود کو ، اپنے اہل خانہ و خاندان کو اور اپنے ارد گِرد والوں کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر مائل رکھیے ،
    :::::اپنی معاشرتی اور معاشی ذمہ داریوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے پورا کرتے رہیے ، روزے کی آڑ میں اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل میں کمی مت کیجیے ،
    ان چند باتوں پر عمل کرتے ہوئے آپ نہ صرف اپنی ، اپنے اہل خانہ و خاندان کی بلکہ ساری ہی اُمت کی خیر کے اسباب میں سے ہو جائیں گے ۔ و السلام علیکم۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    :::::: رمضان اچھی عادات اپنانے کا سنہری موقع ہوتا ہے ::::::: 
    اللہ کے حُکم سے رمضان ہمارے اندر عزیمت ، ارادے اور دفاع کو مضبوط اور طاقتور بنانے کے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے ، ہمیں چاہیے کہ اللہ کے اس مبارک مہینے میں پائے جانے والے ان مواقع کا بھر پور فائدہ اٹھائیں ، اور اس مہینے میں اپنی بری عادات وقتی طور پر ترک کرنے کی بجائے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کردیں ،اور اچھی اعمال کو وقتی طور پر ادا کرنے کے بجائے مستقل طور پر اپنا لیں گویا کہ وہ ہماری عادات میں شامل ہو جائیں ،
    یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی انسان کو اچھا یا بُرا بنانے کے لیے بہت زیادہ اچھی یا بُری عادات کا ہونا لازم نہیں ہوتا بلکہ چند ہی اچھی یا بُری عادات کی موجودگی اُس کی شخصیت اور کردار کے اچھے یا بُرے ہونے کا فیصلہ ہو جانے کے لیے کافی ہوتی ہیں ،
    اگر ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی عادات کا جائزہ لے وہ بری عادات جنہیں ہم رمضان میں اور وہ بری عادات جنہیں ہم روزے کی حالت میں ترک کرتے ہیں ، شاید دونوں ہاتھوں کی پوروں کی گنتی سے بھی کم ہوں گی ،
    اگر ہم کچھ غور کریں تو جان لیں گے کہ جن عادات کو ہم رمضان میں ایک مہینے کے لیے اللہ پر توکل کر کے چھوڑ دیتے ہیں ، اللہ کی رضا کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور اللہ ہمیں ان کے چھوڑنے پر صبر بھی دیتا ہے تو ان عادات کو اِسی نیک نیتی سے ہم ہمیشہ کے لیے بھی چھوڑ سکتے ہیں ،
    اور یوں ہم برےمسلمانوں کی صفوں میں سے نکل کر اچھےایمان والوں کی صفوں میں شامل ہو سکتے ہیں کمزور ارادے والے لوگ اگر اپنی ساری ہی بری عادات کو ایک ہی دفعہ ختم نہ کر پائیں تو وہ ہر رمضان میں کچھ عادات کو چھوڑتے چلیں تو اِن شاء اللہ چند ہی رمضان میں وہ اپنی بری عادات سے چُھٹکارا حاصل کر لیں گے ۔
    و السلام علیکم۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    ::::: قران کے سایے میں ::: روزے کا حقیقی سبب:::::
    ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَىالَّذِينَمِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ::: اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو ، تُم پر روزے لکھ دیے(یعنی فرض کر دیے) گئے ہیں ، جیسا کہ تُم سے پہلے والوں پر لکھے گئے ، تاکہ تُم تقویٰ اِختیار کرو ﴾ سورت البقرۃ / آیت 183،
    یقیناً اللہ تعالی بہت اچھی طرح سے جانتا ہے کہ کسی انسان کو اگر کوئی کام کرنے کا پابند کیا جائے تو اسے وہ پابندی قبول کرنے لیے اندرونی و بیرونی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ، جب تک ایسی کوئی مدد میسر نہ ہوا انسان کوئی پابندی قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا خواہ اُس پابندی میں کتنا ہی فائدہ کیوں نہ ہو ،
    پس اسی مددگاری کے لیے ہی مذکورہ بالا آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اس کے ایمان والوں بندوں کے لیے صدا لگائی گئی ہے اور انہیں یہ یاد کروایا گیا ہے کہ روزہ رکھنا صرف تُم ہی لوگوں کے لیے فرض نہیں بلکہ پہلے والی امتوں میں بھی اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تھا ، اور اس فرض کی تکمیل میں سب سے پہلا بڑا مقصد یہ ہے کہ تُم لوگوں کے دل تقویٰ کے لیے تیار ہوں جائیں ، اور وہ شرک کی آلودگیوں سے شفاف ہو جائیں ، اللہ کے خوف سے لبریز ہو جائیں ، اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر مکمل اور مطلوب درجہ کے مطابق ایمان سے بھر جائیں ، اور تُم لوگ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مکمل تابع فرمان بن جاؤ ،
    اس طرح اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے روزے رکھنے کا سب سے بڑا اور اہم مقصد ظاہر فرمایا کہ وہ “““ تقویٰ ””” ہے ، اور اس کا اظہار ہی وہ مددہے جو روزے رکھنے کی پابندی کو قبول کرنے کے لیے اللہ کی طرف سے کی گئی کہ تقویٰ اور اس کے فوائد کا حصول کے لیے ایمان والے یہ پابندی خوش دلی سے قبول کرتے ہیں اور جو صرف کلمہ گو مسلمان ہیں وہ اس مددگاری کی حقیقت سے اُسی طرح غافل رہتے ہیں جس طرح اِیمان اور دین کے دیگر بہت سے حقائق سےغافل ہوتے ہیں ،
    پس اللہ کی طرف سے روزہ رکھنے کی پابندی قبول کرنے کے لیے تقویٰ حاصل ہونے کی خوشخبری سنا کر اللہ نے اپنے ایمان والے بندوں کے سامنے ایک بہت ہی واضح اور بہت ہی عظیم فائدے والا ھدف رکھ دیا اور یہ مدد عطاء فرمائی کہ وہ اللہ کا فرض پورا کریں تو کراہت یا مجبوری سے نہیں بلکہ اللہ کی محبت میں ، اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ، اور اللہ کی وہ عظیم نعمت حاصل کرنے کے لیے جو ایمان والوں کے دِلوں ، جانوں اور اجساد سب کی ہی طہارت کا بڑا سبب ہے ، اور اللہ کی رضا اور اس کی عظیم رحمتوں کے حصول کے اسباب میں سے ایک عظیم سب ہے اور وہ ہے “““ تقویٰ ”””،
    قران میں ، اس آیت مبارکہ میں اللہ نے جن لوگوں سے خطاب فرمایا ہے وہ ہیں اِیمان والے ، اور اِیمان والے جانتے ہیں کہ اللہ کے ہاں تقویٰ کا کیا مُقام ہے اور میزان میں اس کا کیا وزن ہے ، لہذا اُن کےدل ، اُن کی روحیں اس کو پانے کی تمنا میں ہر پابندی قبول کرتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ،
    یاد رکھیے کہ روزہ ایمان والے بندوں کا اُن کے اعمال کا خوب اچھی طرح جائزہ لینے اور اپنے رب سے، اس کی اطاعت اور اس کے احکام کے نفاذ کی صورت میں براہ راست تعلق بنانے کا بہترین ذریعہ ہے ،
    اسی طرح روزہ اپنے جسم کی ضروریات کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک قوی تربیتی عمل بھی ہے ، جو آخرت کے فوائد سے پہلے دُنیا کے فوائد میں سے ایک ہے ، لیکن ایمان والوں کا ہدف اور نیت جسمانی فوائد کا حصول نہیں ہوتا بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے ، جو کہ روزے میں ملنے والے تقویٰ کے لازمی نتائج میں سے ہے ۔
    و السلام علیکم۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    ::::::: بغیر اجر و ثواب کے روزہ = فاقہ کشی :::::::

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون ہے جو کسی اجر و ثواب کے بغیر ہی روزہ رکھتا ہے ؟
    جو دن بھر اپنا کھانا پینا چھوڑے رکھتا ہے اور دن بھر کی اس بھوک پیاس کے نتیجے میں کوئی نیکی حاصل نہیں کر پاتا؟
    یہ وہ شخص ہے جو ز ُبان کی لذتیں تو چھوڑ دیتا ہے لیکن ز ُبان کے استعمال پر پابندی نہیں لگاتا ،جھوٹ ، بد ز ُبانی ، گالی گلوچ ، بے حیائی والی باتیں ، لڑائی فساد والی باتوں اور غیبت وغیرہ سے باز نہیں آتا ،
    یہ وہ شخص ہے جوروزے کی حالت میں بھی آنکھ استعمال پر روک ٹوک نہیں رکھتا ،اور جن چیزوں کی طرف نگاہ کرنے سے اسے باز رہنا چاہیے ، باز نہیں رہتا ،
    یہ وہ شخص ہے جوروزے کی حالت میں بھی کانوں کے استعمال پر کچھ پابندی نہیں لاگو نہیں کرتا ،اور وہ کچھ سنتا رہتا ہے جو اسے بغیر روزے کے بھی نہیں سننا چاہیے ، مثلاً موسیقی ، گانے ، بے حیائی والی باتیں ، جھوٹ وغیرہ،
    یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس فرمان کا مصداق ہوتا ہے کہ ((((( مَن لَم یَدعَ قولَ الزُورِ و العَملَ بِہِ فَلیس للّہِ حاجۃٌ أن یَدَع طعامَہُ و شرابَہُ :::جِس نے جھوٹ بولنا اوراُس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں )))))صحیح البخُاری/حدیث ١٩٠٣،
    یہ روزہ دار کس قدر بد نصیب ہے کہ بھوک پیاس کاٹنے کے باوجود بھی اس کا یہ عمل اللہ کے ہاں قبول نہ ہوگا اور اسے کوئی اجر و ثواب نہ ملے گا ،
    اس بات کو مزید واضح الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یوں اِرشاد فرمایا کہ ((((( رُبَّ صَائِم ٍ لَيس َلَه ُ مِن صِيَامِهِ إلا الْجُوعُ وَرُبَّ قَائِم ٍ لَيس َلَه ُ مِن قِيَامِهِ إلا السَّهَرُ :::ایسا بھی ہوتا ہے کہ روزدار کے لیے اُس کے روزے میں سے سوائے بھوک کے کچھ نہیں ہوتا اور ایسا بھی ہوتا کہ قیام اللیل کرنے والے کے لیے اُس کے قیام اللیل میں سوائے جاگنے کے اور کچھ نہیں ہوتا ))))) سنن ابن ماجہ/حدیث 1690/کتاب الصیام/باب21،
    رمضان کے فوائد کے معاملے میں ایسے لوگوں سے بڑھ کر خسارے والےاور کون ہوں گے جو اپنے جسم کو تو بھوک پیاس کی تکلیف دیے رکھیں لیکن اپنے نفس پر کوئی پابندی نہ لگائیں اور یوں ان کا روزہ صرف بھوک پیاس ہی ہو ۔ اللہ ہم سب کو ایسی بے ثمر روزہ داری سے محفوظ رہنے کی توفیق دے اور وہ روزے رکھنے کی ہمت دے جو اسے قبول ہوں اور جن کا وہ اجر ملے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    ::::::: آپ روزے کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟ :::::::
    روزہ اسلام کے ارکان میں سے ایک رُکن ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے ﴿ بُنِىَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ، وَالْحَجِّ ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ::: اسلام پانچ (چیزوں) پر تعمیر کیا گیا ہے (۱)یہ گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور (۲) نماز قائم کرنا ، اور(۳)زکوۃ ادا کرنا ، اور (۴)حج کرنا(رکھنا) اور ، (۵)رمضان کا روزہ ﴾ صحیح البخاری /کتاب الایمان/باب2 ، صحیح مُسلم /کتاب الایمان/باب7 ،سُنن الترمذی / سنن النسائی ، وغیرھا ، مذکوہ الفاظ صحیح البخاری کے ہیں ،
    اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے ہاں روزے کا رتبہ بہت بلند ہے کہ اللہ نے روزہ داروں کے اجر کی کوئی حد مقرر فرمائے بغیر وہ اجر عطاء فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے ، اور ہر روزے پر اجر و ثواب کی مقدار مقرر فرمانے کا حکم اپنی ذات مبارک تک راز رکھ لیا ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں روایت فرمایا ہے کہ ﴿يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الصَّوْمُ لِى وَأَنَا أَجْزِى بِهِ:::اللہ عزّ و جلّ فرماتا ہے ، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر عطاء کروں گا﴾صحیح البخاری /کتاب التوحید/باب35 ، صحیح مُسلم /کتاب الصیام/باب30،
    دینی اور اُخروی اجر و ثواب کے علاوہ روزے کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے روزہ دار بندوں کو دنیاوی فوائد میں سے بھی بہت کچھ عطاء فرماتا ہے ، مثلاً :::
    روزہ مُسلمان کے ایمان ، اس کی قوت اِرادہ اور عزیمت میں اضافے اور پختگی کا سبب بنتا ہے ، جس کے نتیجے میں وہ مُسلمان اپنے رب کے لیے اپنے کھانے پینے کی ضروریات تک کو ترک کیے رکھتا ہے اور دیگر کئی خواہشات کی تکمیل پر قدرت رکھنے کے باوجود خود کو ان سے دُور رکھتا ہے ،
    جس کے دُنیاوی
    روزہ مالداوں کے دِلوں میں غریبوں اور تنگ دست لوگوں کے احوال کا احساس پیدا کرنے کا سبب ہوتا ہے ، کہ وہ ان کی تنگی ، بھوک اور ضروریات کو محسوس کرتے ہیں اور جن کی خیر اللہ کے ہاں منظور ہو اللہ تبارک و تعالیٰ ان مالدار لوگوں کو اُس کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطاء فرماتا ہے ، جو امیروں اور غریبوں کے درمیان پائی جانے والی معاشرتی تفریق کے خاتمہ کا سبب بنتی ہے اور اسلامی بھائی چارے کو تقویت ملتی ہے ،جس کے دُنیاوی فوائد اُخروی فوائد سے پہلے ہی ساری اُمت کے لیے میسر ہوتے ہیں ،
    روزے کے نتیجے میں ملنے والے جسمانی فوائد اور صحت کی بہتری سے متعلق فوائد کے بارے میں ہر دِن کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہے جو مُسلمانوں کے لیے ان کے رب کی رحمت کی وسعت کو سمجھنے کے لیے ایک مددگار ذریعہ ہے کہ اُن کا رب اپنے فرمان بردار بندوں کو آخرت کے اجر و ثواب کے ساتھ دُنیا کے فوائد بھی اضافی نعمتوں کے طور پر عطاء فرماتا ہے ، پس ہمیں اپنے اعمال دُنیاوی فوائد کو مد نظر رکھ کر نہیں کرنا چاہیں ، بلکہ اپنے اللہ کی خوشنودی حاصل کر کے اپنی آخرت کی کامیابی کے حصول کے لیے کرنا چاہیں ،
    اِیمان والے کا مطمع نظر اور اصل ھدف ہمیشہ اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے ، دُنیاوی فوائد کے مد نظر کیے گئے اعمال عبادات میں شمار نہیں ہوتے خواہ اُن کی ظاہری ہیئت اور کیفیت کسی معروف عبادت جیسی ہی ہو ، یہ اس لیے کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور ہر شخص کے لیے وہی نتیجہ ہے جس کی اُس نے نیت کی ہو ، لہذا اگر کوئی شخص دُنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لیے خواہ وہ جسمانی فوائد ہوں یا معاشرتی فوائد ، روزہ رکھتا ہے تو اسے اس کے روزے کے نتیجے میں اللہ کی رضا حاصل ہونے والی نہیں اور نہ ہی آخرت میں اس کا کوئی فائدہ ملنے والا ہے ، بلکہ نقصان کا اندیشہ ہے ،
    روزے کی فضیلت میں بیان شدہ اجر و ثواب پانے کا دارومدار بھی روزے رکھنے والے کی نیت پر ہی ہے ، پس یہ عظیم اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے یہ عمل بھی خالص اللہ کی رضا کے حصول کی نیت سے ادا کیا جانا چاہیے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ہماری نیتوں کو خالص کرنے اور خالص رکھنے کی توفیق دے ، والسلام علیکم۔
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. UrduLover
    آف لائن

    UrduLover ممبر

    شمولیت:
    ‏1 مئی 2015
    پیغامات:
    812
    موصول پسندیدگیاں:
    713
    ملک کا جھنڈا:
    ::::::: سُنّت مُبارکہ کے باغ میں سے :::::::
    ::::::: مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص اور مُقیّد کرنے کا شرعی حُکم :::::::
    رمضان کے دِنوں میں عموماً مساجد میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ اپنے لیے جگہ مخصوص کر کےمُقیّد رکھتے ہیں، خاص طور پر عِشاء کی نماز میں ، اور اس کے بعد تراویح کی نماز میں ایسا کیا جاتا ہے ، کہ کچھ لوگ پہلی یا دوسری صف میں کرسی یا مصلیٰ یعنی جائے نماز وغیرہ رکھ کر اپنے لیےجگہ مخصوص کر کے اس پر قابض ہو جاتے ہیں،اور خود نماز شروع ہونے سے چند ہی منٹ پہلے تشریف لاتے ہیں اور یوں پہلے سے آنے والوں کی حق تلفی بھی کرتے ہیں اور دیگر گناہوں کا شکار بھی ہوتے ہیں ،

    اِن لوگوں کی کاروائی کو اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں بہت تفصیل سے اس مسئلے کا شرعی حُکم ملتا ہے ، ملاحظہ فرمایے :::
    عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ﴿نَهىٰ رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عن نَقرَةِ الغُرَابِ وَافتِرَاشِ السَّبعِ وَأَن يُوَطِّنَ الرَّجُلُ المَكَانَ في المَسجِدِ كما يُوَطِّنُ البَعِيرُ :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے(ان کاموں سے)منع فرمایا کہ (نماز کے سجدے میں)کوّے کی طرح چونچیں ماری جائیں ، اور(اس سے) کہ(نماز کے سجدے میں)درندے کی طرح بازو پھیلائے جائیں ، اور (اس سے)کہ کوئی شخص مسجد میں اپنے لیے جگہ خاص کر لے جس طرح کہ اُونٹ اپنے لیے جگہ خاص کرتا ہے ﴾سنن ابو داؤد /حدیث862/کتاب الصلاۃ /باب 149،سنن ابن ماجہ /حدیث1429/ کتاب الصّلاۃ و السُنّۃ فیھا/باب 204، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث1168، مُسند احمد ، صحیح ابن خزیمہ ، صحیح ابن حبان، وغیرھا ،
    (اس حدیث مبارک میں بعض کاموں سے منع فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کاموں کی پہچان کے لیے جانوروں کے کاموں کی مثال دے کر سمجھایا ہے ، یہ ایسے لوگوں کے لیے لمحہء فکر ہے جو اس قسم کی مثالوں کو غیر مہذب سمجھتے یا کہتے ہیں، جبکہ گناہ گاروں ، مشرکوں اور کفار کے لیے اس قسم کی مثالیں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے بیان فرمائی گئی ہیں، اب اگر کوئی انہی آیات اور احادیث کو ہی بیان کرے تو "مہذب " لوگوں کی تیوریاں چڑھنے لگتی ہیں ، اور خود خواہ اُن کے کلام میں کتنی ہی بد تہذیبی اور فحاشی شامل ہو ، وہ انہیں سُجھائی نہیں دیتی، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ)
    اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی کی طرف سے مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص و مقید کرنے کا کہیں کوئی ادنی ٰ سا ثبوت بھی نہیں ملتا ، اگر اس کام میں کچھ تھوڑی سی بھی خیر ہوتی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین یقیناً یہ کام کرتے ، پس اس طرح یہ کام بدعات کے ز ُمرے میں بھی داخل ہو جاتا ہے ،
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس صحیح ثابت شدہ اور انتہائی واضح فرمان مبارک کی روشنی میں عُلماء کرام رحہم اللہ کے چند فرامین بھی ذکر کرتا چلوں ،
    مجموع الفتاویٰ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے""""" وَأَمَّا مَا يَفعَلُهُ كَثِيرٌ مِن النَّاسِ مِن تَقدِيمِ مَفَارِشَ إلَى المَسجِدِ يَومَ الجُمُعَةِ أَو غَيرِهَا قَبلَ ذَهَابِهِم إلَى المَسجِدِ فَهَذَا مَنهِيٌّ عَنهُ بِاتِّفَاقِ المُسلِمِينَ ؛ بَل مُحَرَّمٌ::: یہ جو بہت سے لوگ جمعہ والے دِن یا اُس کے عِلاوہ بھی خود نماز کے لیے جانے سے پہلے ہی اپنے بچھونے مسجدوں میں پہنچا دیتے ہیں ، یہ کام مسلمانوں کے اتفاق کے ساتھ ممنوع ہے بلکہ حرام ہے """""،
    اور پھر شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس مسئلہ سے متعلق کئی مسائل کے بارے میں کافی سیر حاصل گفتگو فرمائی ، جِس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عُلماء کرام رحمہُ اللہ میں سے کئی نےتو مسجد میں مخصوص کر کے قبضہ کی ہوئی جگہ پر نماز کے باطل ہونے اور قبول نہ ہونے کا حکم لگایا ہے ،
    ::::: مسجد میں اپنے لیے جگہ مخصوص کرنے کے نقصانات :::::
    ::: (۱) :::
    نماز کے لیے مسجد میں جلدی نہ جانا ::: جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ (((((لَو يَعلَمُ النَّاس ما في النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ ثُمَّ لم يَجِدُوا إلا أَن يَستَهِمُوا عَليهِ لَاستَهَمُوا::: اگر لوگوں کو پتہ ہو کہ اذان اور پہلی صف میں کیا (اجر و ثواب )ہے تو اگراس (میں یعنی پہلی صف شامل ہونے )کے لیےاُنہیں قُرعہ ڈالنا پڑے تو یقیناً قُرعہ ڈال لیں ))))) متفق ٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث590 /کتاب الآذان /باب9 ، صحیح مُسلم /حدیث437 /کتاب الصلاۃ/باب28 ،

    پس جو لوگ نماز کے لیے مسجد میں جلدی جانے کی بجائے پہلی صف میں اپنے لیے کوئی جگہ مخصوص کر کے اس پر قابض ہو جاتے ہیں ، وہ جلدی جانے کے اجر و ثواب سے بھی محروم ہوتے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اس مذکورہ بالا حدیث شریف میں بیان فرمائی گئی تعلیم کے خلاف کام کر کے اپنا نقصان کرتا ہے ،
    ::: (۲) ::: اپنے مسلمان بھائیوں کو تکلیف دینا :::
    اپنے لیے اگلی صفوں میں جگہ قابو کرنے والا جب وہ آخری وقت میں یا کچھ وقت گذرنے کے بعد مسجد میں آتا ہے اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا ، انہیں تکلیف دیتا ہوا اپنی قابو کی ہوئی جگہ تک پہنچتا ہے تو مزید گناہ کماتا ہے ،

    ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جمعہ کا خطبہ اِرشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور پہلے سے موجود لوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((اِجلِس فَقد آذيت َ:::بیٹھ جاؤ تم (لوگوں کو )تکلیف دے چکے ہو))))) سنن ابو داؤد /حدیث 1118، صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث 714،
    ::: (۳) ::: اپنے مسلمان بھائیوں کے دِلوں میں اپنے لیے کچھ بغض یا غصہ وغیرہ پیدا کرنے کا سبب بننا :::
    مسجد میں اپنے لیے جگہ مخصوص کر کے اس پر قبضہ کرنے والا اپنے ہی لیے اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے دل میں غصے ، بغض اور نفرت وغیرہ کا سبب بنتا ہے ، اور یہ کام بھی حرام ہے کیونکہ یہ ممنوع کاموں میں سے ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد مُبارک ہے کہ (((((لَا تَبَاغَضُوا ولا تَحَاسَدُوا ولا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخوَانًا ولا يَحِلُّ لِمُسلِمٍ أَن يَهجُرَ أَخَاهُ فَوقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ::: (آپس میں)بغض مت رکھو اور نہ ہی حسد کرو ، اور نہ ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر پیٹھ پھیرو اور (بلکہ) اللہ کے بندے(اور) ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو ، اور کسی مسلمان کے لیے یہ حلا ل نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان)بھائی سے تین رات سے زیادہ ناراض رہے )))))صحیح البخاری /حدیث5726 /کتاب الآداب /باب62 ، صحیح مُسلم /حدیث2559 /کتاب البر و الصلہ و الآداب/باب7، (یہ مذکورہ بالا الفاظ صحیح البخاری کی روایت کے ہیں)،
    ::: (۴) ::: اپنے سے پہلے آنے والے کی حق تلفی :::
    مسجد میں اپنے لیےجگہ قابو رکھنے والا اپنے سے پہلے آنے والے اپنے دوسرے نمازی بھائیوں کا حق مارتا ہے کیونکہ پہلے آنے والا کا یہ حق ہے کہ وہ اگلی صفوف میں اور جہاں چاہےاپنی نماز کے لیے جگہ چن لے ،

    کسی کی حق تلفی کرنا کے حرام ہونے میں توشاید ہی کسی مسلمان کو شک ہوگا ۔
    ::: (۵) ::: اپنی قابو کی ہوئی جگہ سے کسی کو اُٹھانا :::
    یہ بھی ایک گناہ ہے جس کا شکار کوئی ایسا شخص جو مسجد میں اپنے لیے جگہ قابو رکھتا ہے ، اُس وقت ہوتا ہے جب وہ دیر سے آتا ہے اور اپنی قابو کی ہوئی جگہ پر کسی اور کو بیٹھے دیکھتا ہے اور پھر اسے اپنی قابو کی ہوئی جگہ سے اٹھاتا ہے ، اس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کےمندرجہ ذیل حُکم کی خلاف ورزی کا گناہ کماتا ہے ،

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا حُکم مبارک ہے کہ (((((لَا يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ من مَجلِسِهِ ثُمَّ يَجلِسُ فيه::: کوئی شخص کسی کو اُس کے بیٹھنے کی جگہ سے اُٹھا کر پھر خود وہاں مت بیٹھے )))))صحیح البخاری /حدیث5914 /کتاب الاستئذان /باب 31، صحیح مُسلم /حدیث2177 /کتاب السلام /باب10،
    اس حدیث مبارک میں بہت واضح طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اُٹھا کر وہاں کسی دوسرے کا وہاں بیٹھنا گناہ ہے ،
    ::::::: ایک استثنائی صُورت :::::::
    ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إذا قَام أحدُكُم مِن مَجلِسِهِ ثُمَّ رَجَعَ إليه فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ:::اگر تُم لوگوں میں سے کوئی اپنی مجلس سے اُٹھتا ہے تو وہ اُس جگہ (پر دوبارہ بیٹھنے ) کا سب سے زیادہ حق دار ہے ))))) صحیح مُسلم /حدیث 2179/کتاب السلام /باب 27،

    امام النووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں اِرشاد فرمایا """قال أصحابنا هذا الحديث فيمَن جلس فى موضع مِن المسجد أو غيره لِصلاة مثلاثم فارقه ليعود بأن فارقه ليتوضأ أو يقضى شغلاً يسيراً ثم يعود لم يبطل اختصاصه بل إذا رجع فهو أحق به في تلك الصلاة دون غيرها ؛ فإن كان قد قعد فيه غيره فله أن يقيمه وعلى القاعد أن يفارقه لهذا الحديث وهذا هو الصحيح عند أصحابنا وأنه يجب على من قعد فيه مفارقته إذا رجع الأول ::: ہمارے اصحاب کا کہنا ہے کہ یہ حدیث ایسے شخص کے بارے میں ہے جو مسجد میں یا کسی اور جگہ نماز ادا کرنے کے لیے بیٹھا ہو اور اُس جگہ کو وقتی طور پر چھوڑ ے مثلا ً وضوء کرنے کے لیے جائے یا کوئی اور چھوٹا موٹا کام نمٹانے کے لیے جائے ، تو اس طرح جانے سے اُس جگہ پر کسی اور کی نسبت اُس کا حق زیادہ رہتا ہے لیکن صرف اِسی نماز کے لیے جس کے انتظار میں وہ بیٹھا تھا نہ کہ کسی اور نماز کے لیے بھی اُس کا اس جگہ پر حق رہے گا ،
    اگر اُس کی جگہ پر کوئی بیٹھ چکا ہو تو اِس مذکورہ بالا حدیث مبارک کی بنا پر اُس پہلے والے کو یہ حق ہے کہ وہ بعد والے کو اپنی اُس جگہ سے اٹھا دے اور بعد میں بیٹھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اُس جگہ کو چھوڑ دے ، ہمارے اصحاب کے ہاں یہی بات دُرست ہے،اور یہ کہ اگر پہلے والا واپس آجائے تو بعد والے پر یہ واجب ہے کہ اُس پہلے والےکے لیے جگہ چھوڑ دے۔"""
    جو لوگ مسجدوں میں اپنے لیے جگہ مخصوص کر کے اُس پر قابض رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اللہ سے توبہ کریں اوراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی والا راستہ اپنائیں ، ایسی عبادات اور بظاہر نیک اعمال جو سُنّت کے خلاف ہوں اللہ کے ہاں قبول ہونے والے نہیں کیونکہ اللہ کے ہاں کسی بھی نیکی کی قبولیت کے لیے دو شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے ، (۱) اخلاص للہ ، یعنی وہ کام صرف اور صرف اور خالصتاً اللہ کی رضامندی کے لیے کیا گیا ہو ،اور (۲) اتباعء سُنّت ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کے عین مطابق ہو ۔
    اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، ہر مسلمان کو یہ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
     
  30. سعدیہ
    آف لائن

    سعدیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    4,590
    موصول پسندیدگیاں:
    2,393
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ ۔ اللہ کریم جزا دے۔
    یہ مضمون عادل سہیل نامی صارف نے بھی کافی فورم پر شئیر کیا ہے
     
    UrduLover نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں