1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مطالعہ تقلید 11: (قرآن و حدیث اور اجتہاد، مقاصد شریعت، وقت کا تقاضا)

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏18 مئی 2015۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    اجتہاد کے لیے صرف قرآن و حدیث کا علم کافی نہیں
    حدیث
    خرجنا في سفر فاصاب رجلا منا حجر فشجه في راسه فاحتلم فسال اصحابه : هل تجدون لي رخصة في التيمم قالوا : ما نجد لك رخصة وانت تقدر على الماء . فاغتسل فمات فلما قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم اخبر بذلك قال : قتلوه قتلهم الله الا سالوا اذا لم يعلموا فانما شفاء العي السؤال انما كان يكفيه ان يتيمم ويعصب على جرحه خرقة ثم يمسح عليها ويغسل سائر جسده۔ (سنن ابی داؤد حسن)
    حضرت ابن عباسؓ سے رویات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص زخمی ہوگیا اس کے بعد اس کو احتلام ہوگیا۔ اس کے ساتھیوں نے اس کو غسل کا حکم کیا اس نے غسل کیا (جس کی وجہ سے زخم خراب ہوگیا) اور وہ شخص فوت ہوگیا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان لوگوں نے اس کو قتل کر ڈالا اللہ ان کو قتل کرے کیا لاعلمی کا علاج پوچھ لینا نہیں ہے؟ اس کو تو یہ کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا پھر اس پر مسح کرلیتا اور باقی بدن کو دھو ڈالتا۔‘‘
    فائدہ
    :
    · رسول اللہ ﷺ نے نصوص پر غور کرنے کی تعلیم فرمائی یا اگر ناواقف ہے تو پوچھ لینا چاہیے۔
    · نصوص پر غور و فکر کرکے مسئلہ نکالنا ہر شخص کا کام نہیں ہے۔
    · رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کا سبب یہ تھا کہ وہ صحابہ فتوی دینے کے اہل نہیں تھے جس کے نتیجے میں ایک جان ضائع ہوگئی۔
    · یہ خطائے اجتہادی نہیں بلکہ نااہل کا فتوی دینے کا معاملہ ہے۔کیونکہ اجتہادی خطا پر اجر کی بشارت تو خود آپ ﷺ نے دی ہے۔
    · انہوں نے آیت قرآنی وان کنتم جنبا فاطھروا کو سامنے رکھتے ہوئے فتوی دیا جب کہ و ان کنتم مرضی کی اصل غایت (مفہوم) ان کی نگاہ سے اوجھل رہی۔
    · نااہل کا اجتہاد کرنا کسی حال میں جائز نہیں چاہے اس کا اجتہاد صحیح بھی ہوجائے۔
    · جو شخص خود ہی مطالعہ کرکے اپنے مسئلے کے حل ڈھونڈے وہ دراصل اجتہاد کا دعوی کررہا ہے۔
    · قرآن و حدیث کا علم ہونا اور بات ہے اجتہاد کی صلاحیت ہونا اور بات ہے۔ (دیکھیے ‏حدیث 7 ص 16)
    فتوی وقت کے تقاضے کو دیکھ کر دیا جاتا ہے
    حدیث
    عن بسر بن ارطاة قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول لا تقطع الايدي في الغزو۔ (سنن الترمذی کتاب الحدود صحیح)
    حضرت بسرؓ بتاتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا فرماتے تھے:’’جنگ (کی حالت) میں (چوروں) کے ہاتھ مت کاٹو۔
    فائدہ:
    · فتوی وقت کے تقاضے کو سامنے رکھ کر دیا جاتا ہے۔
    · سیدنا عمرؓ نے قحط سالی کے زمانے میں چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا روک دی تھی۔
    لا يقطع في عذق ولا عام السنة (مصنف عبدالرزاق)
    فتوی مقاصد شریعت کو سامنے رکھ کر دیا جاتا ہے
    حدیث
    زيد بن ثابت رضي الله عنه قال ارسل الي ابو بكر مقتل اهل اليمامة فاذا عمر بن الخطاب عنده قال ابو بكر رضي الله عنه ان عمر اتاني فقال ان القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن واني اخشى ان يستحر القتل بالقراء بالمواطن فيذهب كثير من القرآن واني ارى ان تامر بجمع القرآن قلت لعمر كيف تفعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عمر هذا والله خير فلم يزل عمر يراجعني حتى شرح الله صدري لذلك ورايت في ذلك الذي راى عمر(الحدیث)(صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن)
    حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جنگ یمامہ میں حضرت ابوبکرؓ نے مجھے بلا بھیجا وہاں جاکر دیکھتا ہوں کہ عمرؓ بھی موجود ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ یہ عمرؓ میرے پاس یہ مشورہ لے کر آئے ہیں کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ صحابی شہید ہوگئے ہیں اور مجھے (عمرؓ کو) اندیشہ ہے کہ اگر اسی طرح مختلف معرکوں میں حفاظ صحابہ شہید ہوتے رہے تو قرآن کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا اس لیے میری (عمرؓ کی) رائے یہ ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ (تحریری طور پر) جمع کرنے کا حکم فرمادیں۔ میں نے عمرؓ کو جواب دیا ہے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ میں کس طرح کروں؟ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ کی قسم اس کام (میں) خیر ہی خیر ہے اور بار بار یہی کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے دل کو بھی اسی بات پر اطمینان حاصل ہوگیا جس بات پر عمر کو اطمینان حاصل تھا۔
    فائدہ
    :
    · حضرت ابوبکرؓ کو ابتدا میں حضرت عمرؓ کے مشورے پر عمل کرنے پر تردد تھا۔ بلکہ وہ اس کام کو بدعت میں داخل سمجھ رہے تھے۔ انؓ کے الفاظ تھے:
    ’’میں نے عمرؓ کو جواب دیا ہے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا وہ میں کس طرح کروں؟‘‘
    لیکن حفاظت دین جو اولی الامر (حاکم) کا کام ہے کی ضرورت نے ان کو اس کام کے ٹھیک ہونے پر اطمینان بخشا اور یہ کہ یہ عمل بدعت نہیں ہے۔
    · مجتہد بھی اپنے اجتہاد میں مقاصد شریعت کو پیش نظر رکھتا ہے اور جو چیز ا ن کے حصول میں معاون نظر آئے گی اس کو اختیار کرنے کا حکم دے گا۔
    (جاری ہے)​
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں