1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مطالعہ تقلید-4: (شرعی احکامات کی قسمیں اور اجتہاد کے مواقع)

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏24 اپریل 2015۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    منصوص احکام کی قسمیں اور اجتہاد کے مواقع
    منصوص احکام یعنی جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں حکم موجود ہے کی بھی دو قسمیں ہیں:
    أ‌) متعارض
    ب‌) غیر متعارض
    ا) متعارض: اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسئلے میں ایک سے زیادہ حکم موجو ہیں ۔ ایسی صورت میں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ان حکموں کی تاریخی ترتیب کیاہے۔ بعض اوقات احادیث ہی سے اس بات کا پتہ چل جاتا ہے مثلا آپ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ پہلے میں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا اب اجازت دیتا ہوں (صحیح مسلم)۔ چنانچہ وہ احادیث جن میں زیارت قبور کا منع فرمانا آیا ہے وہ اس حدیث سے منسوخ ہوگئیں (حاشیہ: [1])۔اس مسئلے میں ہمیں معلوم ہے کہ کون سی حدیث پہلے کی ہے اور کون سی بعد کی۔ اس علم کی وجہ سے اس مسئلے میں ایک حکم متعین کرنا ممکن ہوتا ہے (حاشیہ: [2])۔لیکن بعض اور احادیث کے سلسلے میں اس طرح کی وضاحت نہیں ملتی۔ اس میں یہ طے کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ کون سی حدیث پہلے کی ہے اور کون سی بعد کی۔ اس موقع پر اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے (حاشیہ: [3])۔اس کی مثال رکوع و سجود کے وقت رفع یدین کا مسئلہ ہے۔صحیح بخاری، سنن نسائی ، مسند احمد وغیرہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین فرماتے تھے۔ جب کہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن سمرۃؓ سے فرمایا:
    ’’کیا ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ مست گھوڑوں کے دم ہیں، نماز میں سکون پکڑو ۔‘‘
    عبداللہ ابن مسعود ؓ کی حدیث ہے کہ انہوں نے کہا:
    ’’کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟‘‘ پھر آپؓ نے نماز پڑھی اور ایک مرتبہ کے علاوہ رفع یدین نہیں کیا۔‘‘ (مسند احمد، صحیح، سنن ابوداؤد، صحیح ، سنن النسائی، صحیح)
    اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کون سا حکم پہلے کا ہے اور کون سا بعد کا۔ ایسے موقع پر اجتہاد (غور فکر) اور دیگر نصوص پر توجہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔اور مجتہد کسی ایک عمل کو راجح (ترجیح دینا) قرار دے کر اس پر عمل کو اختیار کرتا ہے اور دوسرے کو مرجوح (ترجیح نہ دینا) قرار دے کر اس پر عمل ترک کرتا ہے۔ ایسا ہونا شریعت کے خلاف بھی نہیں۔ یہ چیز صحابہ کرامؓ کے درمیان بھی موجود تھی۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ احادیث جن کی تاریخی ترتیب ہمیں نہیں معلوم ہے اس وقت تمام حدیثوں پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔ نماز میں رفع یدین کا مسئلہ بھی اسی طرح کا ہے۔ ظاہر ہے جو رفع یدین کا قائل ہوگا وہ رفع یدین نہ کرنے والی حدیثوں کو ترک کر رہا ہوگا۔ اسی طرح جو رفع یدین نہ کرنے کا قائل ہوگا وہ رفع یدین کرنے والی حدیثوں پر عمل نہیں کرسکے گا۔
    حدیث 1: حضرت ہذیل بن شرحیبل کی روایت ہے کہ حضرت ابوموسی اشعریؓ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا۔ پھر وہی مسئلہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے بھی پوچھا گیا اور حضرت موسی اشعریؓ کے فتوی کے بارے میں ان کو بتادیا گیا تو عبداللہ ابن مسعودؓ نے کچھ اور فتوی دیا۔ ان کے فتوے کی خبر حضرت موسی اشعریؓ کو دی گئی تو انہوں نے فرمایا:
    لا تسئلونی عن شيءماكان هذاالحبربين اظهركم (صحیح البخاری، کتاب الرضاعۃ)
    جب تک اتنے بڑے عالم تم لوگوں میں موجود ہیں تو تم مجھ سے مت پوچھا کرو۔
    فائدہ
    : اس روایت سے چند فائدے حاصل ہوئے:
    صحابہ کرام فتوی دیا کرتے تھے۔
    ایک ہی مسئلہ میں صحابہ کرامؓ کے فتووں میں فرق ہوجاتاتھا۔
    حضرت موسی اشعریؓ نے فتوی لینے کے لیے حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کو متعین کردیا جس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ایک متعین عالم سے فتوی لینے کو شریعت کے خلاف نہیں سمجھتے تھے۔ بعد میں اس کو اصطلاحًا تقلید شخصی کہا جانے لگا۔
    أ‌) غیرمتعارض: جن مسائل میں نصوص آپس میں متعارض نہیں ہوتیں۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
    محکم
    : اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے اس کا کوئی دوسرا مطلب ممکن نہیں۔ ان مسائل میں جو منصوص ہیں (یعنی قرآن و حدیث میں ان کا ذکر ہے) اور جو کسی دوسری نص (آیت یا حدیث )سے متعارض نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے معنی میں اختلاف ہے۔ ایسے مسائل دائرہ اجتہاد سے خارج ہیں بلکہ ایسا کرنا جائز ہی نہیں۔ اس کی مثال تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین (نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر کہہ کر ہاتھوں کا اٹھانا) ہے جس پر تمام ائمہ مجتہدین کا اتفاق ہے۔ یا بکری کے حلال ہونے اور خنزیر کے حرام ہونے میں بھی کوئی اختلاف نہیں (حاشیہ: [1])۔
    محتمل
    : یہ احتمال سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے ایک سے زیادہ معانی ممکن ہوسکتے ہیں۔ وہ مسائل جن میں نص تو موجود ہے لیکن اس میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال )امکان (ہے (حاشیہ: [2])۔اس طرح کا ایک مسئلہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث جو صحیح بخاری میں ہے:
    لا صلاة لمن لم يقرا فيها بفاتحة الكتاب۔ (صحیح البخاری، کتاب ا لصلاۃ)
    اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی۔
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔
    جب کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آتا ہے:
    و اذا قرا فانصتوا۔
    جب وہ (امام) قرات کرے تو تم خاموش رہو۔
    اور مسند امام احمد میں صحیح حدیث ہے:
    عن ابي هريرة ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : انما جعل الامام ليؤتم به ، فاذا كبر فكبروا ، واذا قرا فانصتوا۔
    ابوہریرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ــ’’امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، پس جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، اور جب وہ قرات کرے تو تم خاموش رہو۔‘‘
    عن ابي نعيم وهب بن كيسان انه سمع جابر بن عبد الله يقول من صلى ركعة لم يقرا فيها بام القرآن فلم يصل الا ان يكون وراء الامام۔(سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، حسن صحيح)
    ابو نعیم وھب بن کیسان بتاتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبداللہؓ کو فرماتے سنا کہ جو کوئی ایک رکعت بھی ایسی پڑھے جس میں الحمد نہ پڑھی ہو تو اس کی نماز نہیں ہوئی بجز اس صورت کے کہ اس نے امام کے پیچھے (نماز) پڑھی ہو۔
    اور قرآن پاک کی آیت ہے:
    و اذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون (الاعراف: 204)
    آیت اور حدیثوں سے معلوم ہوا کہ امام کی قرات کے وقت مقتدی کو خاموش رہنا ہے۔ یعنی امام کی قرات مقتدی کے لیے کافی ہے۔
    یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں لیکن ان سے فاتحہ خلف الامام پر ایک رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔
    اس کی ایک اور مثال بنی قریظہ والی حدیث ہے۔
    عن عبد الله قال نادى فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم انصرف عن الاحزاب ان لا يصلين احد الظهر الا في بني قريظة فتخوف ناس فوت الوقت فصلوا دون بني قريظة وقال آخرون لا نصلي الا حيث امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وان فاتنا الوقت قال فما عنف واحدا من الفريقين۔ (صحيح مسلم، كتاب الجهاد والسير)
    عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جنگ خندق کے دن میں صحابہؓ سے فرمایا کہ عصر کی نما بنی قریظہ (کی بستی) میں پہنچنے سے پہلے کوئی نہ پڑھے۔ لیکن صحابہ( کو تاخیر ہوگئی اور) عصر کا وقت ختم ہونے کا اندیشہ ہوگیا اس پر بعض صحابہ ؓ نے بنی قریظہ پہنچے سے پہلے ہی نماز پڑھ ڈالی اور بعض دوسروں نے کہا کہ نے کہا ہم نماز نہیں پڑھیں گے جب تک رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق (بنی قریظہ) نہ پہنچ جائیں چاہے وقت ختم ہوجائے، (پھر یہ بات رسول اللہ صلی اللہ کے سامنے پیش ہوئی تو) آپ ﷺ نے کسی پر بھی ملامت نہیں کی۔
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض حدیثوں کا مفہوم ایک سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے اور مجتہد اپنے علم کی بنیاد پر کسی ایک مفہوم کو ترجیح دیتا ہے۔
    غیر منصوص مسائل
    : یعنی وہ مسائل جس میں کوئی نص سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی ان میں اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلا دودھ میں مکھی گرجائے تو اس کو غوطہ دے کر دودھ کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ اس بارے میں حدیث موجود ہے۔ اب اگر دودھ میں چیونٹی گرجائے تو کیا کیا جائے گا؟ اس پر کوئی نص (آیت یا صحیح حدیث ) نہیں یعنی کسی حدیث میں اس بارے میں کوئی حکم نہیں ملتا ہے۔ اب اگر دین کامل ہے تو یقینا اس کا حکم بھی ہوگا۔ یا گائے کے دودھ اور گوشت کے متعلق تو روایات موجود ہیں لیکن بھینس کا دودھ اور گوشت استعمال کرنے کے متعلق کوئی ہدایت موجود نہیں ہے ۔ حالت جنابت میں غسل کے لیے اگر پانی نہ ملے تو تیمم کا حکم حدیث میں موجود ہے لیکن حائضہ کو اگر پانی نہ ملے تو کیا وہ تیمم کرسکتی ہے اس پر قرآن و حدیث میں کوئی حکم نہیں۔ ایسے تمام مسائل کا فیصلہ اجتہاد کے ذریعے کیا جائے گا جس کے لیے قیاس کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ اجتہاد اہل علم پر لاز م ہے۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    واذا جاءهم امر من الامن او الخوف اذاعوا به ولو ردوه الى الرسول والى اولي الامر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم۔ (النساء:83)
    اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر یا اولی الامر (حکام یا علما) کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے ۔
    یعنی اولی الامر کی ذمہ داری ہے کہ جدید مسائل میں عام مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔ اس کو استنباط کہا گیا ہے۔ اسی استنباط کو قفہ میں قیاس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ وہ مسلمان جو اس کی اہلیت نہیں رکھتے ان کے ذمہ اپنے مسائل کو اولی الامر سے پوچھ کر اس پر عمل کرنا ہے۔ اسی کو تقلید کہا جاتا ہے۔
    فائدہ:

    وہ مسلمان جو اہل اجتہاد (استنباط) میں سے نہیں ہیں ان کے لیے اجتہادی احکام جاننے کا راستہ یہی ہے کہ وہ کسی اہل علم کا اتباع یا تقلید کریں۔
    اس تمام تفصیل کی بنیاد پر شرعی احکام کی تقسیم کچھ یوں ہوگی:
    أ‌) منصوص غیرمتعارض معلوم التقدیم والتاخیر: ان مسائل میں اجتہاد نہیں ہوتا۔
    ب‌) منصوص متعارض غیرمعلوم التقدیم والتاخیر: اس طرح کے مسائل میں اجتہاد کیا جاتا ہے۔
    ت‌) منصوص غیرمتعارض محتمل وجوہ مختلفہ: اس طرح کے مسائل میں اجتہاد کیا جاتا ہے۔
    ث‌) غیرمنصوص: اس طرح کے مسائل میں اجتہاد کیا جاتا ہے۔
    اس بحث سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اجتہاد صرف ان مسائل ہی میں نہیں ہوتا جن کے بارے میں شریعت میں براہ راست کوئی حکم نہیں ہے جیسا کہ عام خیال ہے بلکہ اجتہاد ان مسائل میں بھی ہوتا ہے جن میں کسی شرعی حکم کی ایک جہت متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح جن نصوص کی مراد (مفہوم) میں اختلاف ہے ان میں بھی اجتہاد کے ذریعے ایک مراد متعین کی جاتی ہے۔
    (جاری ہے)​
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں