1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عدیم ہاشمی کی شاعری

Discussion in 'اردو شاعری' started by خرم مراد, Jan 14, 2015.

  1. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    اسلام علیکم !
    اس موضوع میں عدیم ہاشمی صاحب کی شاعری پوسٹ کی جائے گی۔ تمام چاہنے والوں کو خوش آمدید۔
     
    ملک بلال likes this.
  2. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    میں اپنی اس پسندیدہ نظم سے اس موضوع کا آغاز کر رہا ہوں امید ہے آپ کو بھی پسند آئے گی۔

    کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یوں ہوا کہ مر گئے
    تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے

    تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
    تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے

    وقت ہی کچھ جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
    دل میں تیرے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے

    ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
    صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے

    وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
    وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

    کوئی کنارِ آب جو بیٹھا ہوا ہے سر نگوں
    کشتی کد ھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے

    آج بھی انتظار کا و قت حنوط ہو گیا
    ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے

    بارشِ وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
    وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے

    آبِ محیطِ عشق کا بحر عجیب بحر ہے
    تَیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے

    اتنے قریب ہو گئے اتنے رقیب ہو گئے
    وہ بھی عدیم ڈر گیا ہم بھی عدیم ڈر گئے

    اس کے سلوک پر عدیم اپنی حیات و موت ہے
    وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے
     
    Last edited: Jan 16, 2015
  3. ملک بلال
    Offline

    ملک بلال منتظم اعلیٰ Staff Member

    وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
    وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے

    واہ
    کیا خوبصورت کلام ہے۔
    شیئرنگ کا شکریہ خرم مراد جی
    مزید کا انتظار رہے گا۔
     
    پاکستانی55 likes this.
  4. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    مشکور ہوں جناب :)
     
    ملک بلال likes this.
  5. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    یہ لفاظی مجھے عدیم ہاشمی صاحب کا فین بنا گئی تھی۔
    اتنے قریب ہو گئے اتنے رقیب ہو گئے
    وہ بھی عدیم ڈر گیا ہم بھی عدیم ڈر گئے
     
    ملک بلال likes this.
  6. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    محترم ملک بلال صاحب!
    ہمیں کوئی شعر تبھی اچھا لگتا ہے جب اس میں ہمیں اپنا عکس نظر آئے ۔ عدیم ہاشمی صاحب کی یہ غزل بھی مجھے میری داستان لگتی ہے سویہ میری پسندیدہ غزل ہے ۔
     
    ملک بلال likes this.
  7. ملک بلال
    Offline

    ملک بلال منتظم اعلیٰ Staff Member

    عدیم ہاشمی کے بارے میں کچھ معلومات بھی شیئر فرمائیے۔
     
  8. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    [​IMG]
    اسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ !
    عدیم ہاشمی صاحب کے بارے میں مجھے انٹر نیٹ سے کچھ معلومات ملی ہیں جو پیش خدمت ہیں۔

    عدیم ہاشمی صاحب کو عدیم فصیح الدین ہاشمی (اصل نام فصیح الدین) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عدیم ہاشمی صاحب یکم اگست 1946 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ انکی زندگی فیصل آباد اور امریکہ میں گزری۔ اور انکی وفات بھی امریکہ میں 5 نومبرمیں ہوئی۔
    وہ اپنی بے باک شاعری کی وجہ سے 70 اوہ 90 کی دہائی میں ایک متناز عہ شاعر رہے جیسا کہ ہر انقلابی شاعر کے ساتھ ہوتا ہے۔ 60 کی دہائی کے آخر میں انکو انکی شہرہ افاق نظموں "کٹ ہی گئی جدائی بھی" اور "فاصلے ایسے بھی ہوں گے"سے شہرت ملی۔ انہوں نے روائیت سے ہٹ کر شاعری کی اور وہی کچھ لکھا جسکو انہوں نے محسوس کیا۔ جب اس زمانے کے شعرا کرم رومانس اور فطرت کے گرد گھوم رہے تھےعدیم ہاشمی صاحب نے باغیانہ اقدار کو اپنایا اور حقیقت سے قریب تر رہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے لئے بہت سے مشہور ڈرامے بھی لکھے جن میں سے ایک ڈرامہ "گیسٹ ہاؤس"اسلام آباد سنٹر سے نشر ہوا ۔ہم میں سے ہر ایک اس ڈرامے کو جانتا ہے ۔ اس ڈرامے کو پی ٹی وی پر سب سے زیادہ دیر تک نشر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انکا لکھا ایک گیت "دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں" بھی عالمگیر کی آواز میں زبان زد عام ہو ا۔ یہ گیت غالباً پاکستان کی تاریخ کے مشہور ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔
    عدیم ہاشمی صاحب نے اپنی آخری کتاب " بہت نزدیک آتے جا رہے ہو" علالت کے دوران لکھی۔ عدیم ہاشمی صاحب کا انتقال 5 نومبر م2001 کوشکاگو امریکہ میں ہوا۔
     
    Last edited: Jan 26, 2015
  9. ملک بلال
    Offline

    ملک بلال منتظم اعلیٰ Staff Member

    شکریہ خرم مراد جی ۔ دونوں غزلیں بہت مشہور ہیں ان کے بارے میں تو پتا تھا کہ عدیم کی ہیں۔ لیکن گیسٹ ہاؤس کا ذہن میں نہیں تھا اور عالمگیر کا گانا تو ٹرینڈ سیٹر بنا تھا ۔
    عدیم ہاشمی جی کی کوئی تصویر اور مزید شاعری کا انتظار رہے گا۔
    آپ کا شکریہ
    خوش رہیں
    بہت جئیں :)
     
  10. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا


    وہ کہ خُوشبو کی طرح‌پھیلا تھا میرے چار سُو
    میں اُسے محسوس کر سکتا تھا، چُھو سکتا نہ تھا

    رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
    جھانک کر دیکھا گلی میں، کوئی بھی آیا نہ تھا

    یہ سبھی ویرانیاں اُس کے جُدا ہونے سے تھیں
    آنکھ دُھندلائی ہوئی تھی، شہر دُھندلایا نہ تھا

    عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
    آئینہ تو تھا مگر اُس میں تیرا چہرا نہ تھا

    میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پِھرا
    ساری دُنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا

    خُود چڑھا رکھے تھے تن پر اَجنبیت کے غُلاف
    ورنہ کب اِک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

    سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیرِ لب
    ایک پتھر خامشی کا تھا ، جو ہٹتا نہ تھا

    محفلِ اہلِ وفا میں‌ہر طرح کے لوگ تھے
    یا ترے جیسا نہیں تھا یا مرے جیسا نہ تھا

    آج اُس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
    آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا

    یاد کرکے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
    بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا

    مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیم
    ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
     
  11. ملک بلال
    Offline

    ملک بلال منتظم اعلیٰ Staff Member

    واہ
    خوب غزل ہے اور غلام علی نے اسے گایا بھی خوب ہے
    شکریہ خرم مراد جی
     
    پاکستانی55 likes this.
  12. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    شکریہ قبول فرمایں ۔۔۔
     
  13. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
    میں چلتا ہوں مجھے چہرہ تمہارا یاد رہتا ہے

    تمہارا ظرف ہے تم کو محبت بھول جا تی ہے
    ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے

    محبت اور نفرت اور تلخی اور شیرینی
    کسی نے کس طرح کا پھول مارا یاد رہتا ہے

    محبت میں جو ڈوبا ہوا سے ساحل سے کیا لینا
    کسے اس بحر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے

    بہت لہروں کو پکڑ ا ڈوبنے والے کے ہاتھوں نے
    یہی بس ایک دریا کا نظارہ یاد رہتا ہے

    صدائیں ایک سی، یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
    ذرا سا مختلف جس نے پکارا یا د رہتا ہے

    میں کس تیزی سے زندہ ہوں ،میں یہ تو بھول جاتا ہوں
    نہیں آنا ہے دنیا میں دوبارہ یاد رہتا ہے

    عدیم ہاشمی
     
    Last edited: Jan 18, 2015
  14. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    ایسے تری لکھی ہوئی تحریر کھو گئی
    جیسے جبیں کی لوح سے تقدیر کھو گئی

    پلکوں پہ آنسوؤں کے دئیے ڈھونڈتے رہے
    آنکھوں سے پھر بھی خواب کی تعبیر کھو گئی

    کیا تھا شکوۂ قصر پتہ ہی نہ چل سکا
    ملبے کے ڈھیر میں کہیں تعمیر کھو گئی

    دن رات کی تہوں میں خد و خال دب گئے
    اوراق وقت میں تیری تصویر کھو گئی

    زندان تعلقات کا قائم نہ رہ سکا
    قیدی ملا تو پاؤں کی زنجیر کھو گئی

    یہ غم نہیں جبین شکن در شکن ہے کیوں
    شکنوں کے بیچ میں میری تقدیر کھو گئی

    حالانکہ یہ دعا تھی مگر مانگتے ہوئے
    ایسے لگا کے ہاتھ کی توقیر کھو گئی

    بندھن بندھے ہوئے تھے سبھی کھل گئے عدیمؔ
    مجھ سے تعلقات کی زنجیر کھو گئی
     
    ملک بلال likes this.
  15. خرم مراد
    Offline

    خرم مراد ممبر

    ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
    تم بھی اک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے

    عکس پانی میں محبت کے اتارے ہوتے
    ہم جو بیٹھے ہوئے دریا کے کنارے ہوتے

    جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
    وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے

    کیا ابھی بیچ میں دیوار کوئی باقی ہے
    کونسا غم ہے بھلا تم کو ہمارے ہوتے

    آپ تو آپ ہیں، خالق بھی ہمارا ہوتا
    ہم ضرورت میں کسی کو نہ پکارے ہوتے

    ساتھ احباب کے حاسد بھی ضروری ہیں عدیم
    ہم سخن اپنا سناتے جہاں سارے ہوتے
     
    ملک بلال likes this.

Share This Page