1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاھد مؤلف نسیم حجازی

'ادبی کتب' میں موضوعات آغاز کردہ از ابوازھر, ‏26 فروری 2014۔

  1. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    فقط اپنے چند الفاظ ایک بار پھر دہراتا ہوں۔ زندگی ایک مسلسل جہاد ہے اور ایک مسلمان کی زندگی کا مبارک ترین فعل یہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا کی محبت میں اپنی جان تک پیش کردے۔ جب تک تمہارے دل اس مقدس جذبے سے سر شار رہیں گے تمہیں اپنی دنیا اور آخرت دونوں روشن نظر آئیں گی۔ تم دنیا میں سر بلند و ممتاز رہو گے اورآخرت میں بھی تمہارے لیے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ یاد رکھو، جب اس جذبے سے تم محروم ہو جاؤ گے تو دنیا میں تمہارا کوئی ٹھکانا نہ ہوگا اور آخرت بھی تمہیں تاریک نظر آئے گی۔ کمزوری تمہارا دامن اس طرح پکڑ لے گی کہ تم ہاتھ پاؤں تک نہ ہلا سکوگے، کفر کی وہ طاقتیں جو مجاہدوں کے راستے میں ذروں سے بھی زیادہ نا پائیدار ہیں۔تمہیں پتھر کی مضبوط چٹانیں دکھائی دیں گی۔دنیا کی عیار قومیں تمہیں مغلوب کرلیں گی اور تم غلام بنا دیے جاؤ گے اور استبدادی نظام کے ایک ایسے طلسم میں جکڑ دیے جاؤ گے کہ تمہارے لیے اس سے نجات پانا ناممکن ہو جائے گا۔ تم اس وقت بھی اپنے آپ کو مسلمان تصور کروگے لیکن تم اسلام سے کوسوں دور ہوگے۔ یاد رکھو، صداقت پر ایمان لانے کے باوجود اگر تم میں صداقت کے لیے قربانی کی تڑپ پیدا نہیں ہوتی تو سمجھ لینا کہ تمہارا ایمان کمزور ہے۔ ایمان کی پختگی کے لیے آگ اور خون کے دریا کو عبور کرنا ضروری ہے۔ جب تمہیںموت زندگی سے عزیز نظر آئے تو یہ سمجھنا کہ تم زندہ رہو اورجب تمہارے شوقِ شہادت پر موت کا خوف غالب آجائے تو تمہاری حالت اس مردے کی سی ہوگی جو قبر کے اندر سانس لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہاہو۔“
    ابن عامر نے تقریر کے دوران میں ایک ہاتھ سے قرآن اٹھا کر بلند کیا اور کہا:
    ”یہ امانت آقائے مدنیﷺ کو خدائے قدوس کی جانب سے عطا ہوئی اور وہ دنیا میں اپنا فرض پورا کرنے کے بعد یہ امانت ہمارے سپرد کر گئے ہیں۔ حضورﷺ نے اپنی زندگی سے ثابت کیا کہ ہم اس امانت کی حفاظت تلوار کی تیزی اور بازوکی قوت کے بغیر نہیں کر سکتے۔ جو پیغام تم تک پہنچ چکا وہے تمہارا فرض ہے کہ اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دو!“
    ابن عامر اپنی تقریرختم کرکے بیٹھ گئے اور حجاج بن یوسف نے مسلہ جہاد کو ایک فصیح و بلیغ انداز میں بیان کرنے کے بعد اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا:
    ”یہ خط مرو کے گورنر کی طرف سے آیا ہے، وہ دریائے جیحوں کو عبور کرکے ترکستان پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اس خط میں مزید فوج کا مطالبہ کیاہے۔ میں فی الحال بصرے سے چند دنوں تک دو ہزار سپاہی روانہ کر رہا ہوں۔ تم میں سے کون ہے جو اپنے آپ کو اس فوج میں شریک کرنے کے لیے پیش کرتاہے؟“
    اس پر تمام طلباءنے ہاتھ بلند کردیے۔
    حجاج نے کہا:
    ”میں تمہارے جذبہ جہاد کی قدر کرتا ہوں۔ لیکن اس وقت میں صرف فارغ التحصیل طلباءکو دعوت دوں گا۔ میں اس فوج کی قیادت اسی مدرسہ کے ایک ہونہار طالب علم کے سپرد کرنا چاہتاہوں۔ میں عبد اللہ بن عبد الرحمن کے متعلق بہت کچھ سن چکاہوں۔ اس لیے میں یہ خدمت اس کے سپرد کرتا ہوں۔ آپ سے جو نوجوان اس کا ساتھ دینا چاہیں، بیس دنوں میں اپنے گھروںسے ہو کر بصرہ پہنچ جائیں۔
     
    ھارون رشید، ملک بلال اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    وقفہ
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ جی بہت اچھی شئیرنگ کا بہت بہت شکریہ
     
    ابوازھر نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    بس جی دعاء کی ضرورت ہے
     
    ملک بلال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    میری دعا آپ کے ساتھ ہے ہمیشہ ان شاء اللہ اچھی اچھی لڑیاں بناتے جائیں
     
    ابوازھر اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ایثار

    صابرہ کا معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز سے فارغ ہو کر عذرا کو اپنے سامنے بٹھا لیتی اور اس سے قرآن سنتی۔ عذراکی آواز کی مٹھاس کبھی کبھی پڑوس کی عورتوں کو بھی صابرہ کے گھر کھینچ لاتی، اس کے بعد صابرہ گاؤں کی چند لڑکیوں کو تعلیم دینے میں مصروف ہو جاتی اور عذرا کے گھر کے کام کاج سے فرصت حاصل کرکے تیر انداز کی مشق کیا کرتی۔ ایک روز طلوع آفتاب سے پہلے عذرا حسب معمول قرآن سنا کر اٹھنے کو تھی کہ صابرہ نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا اور کچھ دیر محبت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے کے بعدکہا:
    ”عذرا، میں اکثر سوچا کرتی ہوں کہ اگر تم نہ ہوتیں تو میرے دن بڑی مشکل سے کٹتے۔ اگر تم میری بیٹی بھی ہوتیں تو بھی میں تمہارے ساتھ شاید اس سے زیادہ محبت نہ کر سکتی۔“
    عذرا نے جواب دیا: ”اگر آپ نہ ہوتیں تو میں....!“
    عذرا س سے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
    ”عذرا! صابرہ نے کہا۔
    ”ہاں امی!“
    صابرہ آگے کچھ کہنا چاہتی تھی کہ باہر کا دروازہ کھلا اور عبد اللہ گھوڑے کی بگ تھامے اندر داخل ہوا۔ صابرہ اٹھی اور چند قدم آگے بڑھی۔ عبد اللہ نے سلام کیا۔ ماں اور بیٹا ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ بیٹے سے ہٹ کر ماں کی نظر کہیں دور جا پہنچی۔ اس دن سے بیس سال پہلے عبد اللہ کاباپ ایسے ہی لباس میں اور ایسی ہی شکل صورت کے ساتھ گھرمیں داخل ہو ا کرتا تھا۔
    ”امی!“
    ”ہاں بیٹا۔“
    ”آپ پہلے سے بہت کمزور نظر آرہی ہیں۔“
    ”نہیں بیٹا۔ آج تو مجھے کمزور نظر نہیں آنا چاہیے.... لاؤ میں تمہارا گھوڑا باند ھ اؤں۔“
    صابرہ نے یہ کہہ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور پیار سے اس کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
    ”امی چھوڑیے! یہ کیسے ہو سکتاہے؟“ عبد اللہ نے ماں کے ہاتھ سے گھوڑے کی لگام چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
    صابرہ نے کہا ۔”بیٹا تمہارے باپ کا گھوڑا میں ہی باندھا کرتی تھی۔“
    ”لیکن میں آپ کو تکلیف دینا گناہ سمجھتا ہوں۔“
    ”بیٹا، ضد نہ کر۔ چھوڑو!“
    عبد اللہ نے ماں کے لہجے سے متاثر ہو کر گھوڑے کی لگام چھوڑ دی۔
    صابرہ گھوڑا لے کر اصطبل کی طرف ابھی چند ہی قدم بڑھی تھی کہ عذرا نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے گھوڑے کی لگام پکڑتے ہوئے کہا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ”امی چھوڑے۔ میں باندھ اؤں۔“
    صابرہ نے عذرا کی طرف محبت آمیز مسکراہٹ سے دیکھا اورکچھ سوچ کر گھوڑے کی لگام اس کے ہاتھ میں دے دی۔
    عبد اللہ نے رخصت کے بیس دن گھر پر گزارے۔ گھر کے حالات میں اس نے ایک زبردست تغیر محسوس کیا۔ عذرا جو پہلے بھی اس کے ساتھ کسی حد تک تکلف سے پیش آتی تھی، اب بہت زیادہ شرمانے لگی تھی۔ عبد اللہ کی رخصت کا آخری دن بھی آپہنچا۔ لاڈلے بیٹے کے لیے ماں کا بہترین تحفہ اس کے دادا کے زمانے کی خوبصورت تلوار تھی۔
    جب عبد اللہ گھوڑے پر سوار ہوا تو عذرا نے اپنے ہاتھ کا تیار کیا ہوا ایک رومال صابرہ کو لا کر دیا اور شرماتے ہوئے عبد اللہ کی طرف اشارہ کیا۔ صابرہ نے عذرا کا مطلب سمجھ کر رومال عبد اللہ کو دے دیا۔ عبد اللہ نے رومال کھول کر دیکھا، درمیان میں سرخ رنگ کے ریشمی دھاگے کے ساتھ کلام الٰہی کے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
    قَاتِلُوھُمم ھَتّٰی لَا تَکُو ±نَ فِتَنَة ان سے جنگ کرو، یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے۔
    عبد اللہ نے رومال جیب میں ڈال کر عذرا کی طرف دیکھا اور عذرا سے نظر ہٹا کر ماں کی طرف دیکھتے ہوئے اجازت چاہی۔
    صابرہ نے ماں کے نرم و نازک جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا:
    ”بیٹا! اب تمہیں میری نصیحتوں کی ضرورت نہیں۔ یہ کبھی نہ بھولنا کہ تم کس کی اولاد ہو،تمہارے آباؤ اجداد کاخون کبھی ایڑیوں پر نہیں گرا۔ میرے دودھ اور ان کے نام کی لاج رکھنا۔
    (۲)
    عبداللہ کو جہاد پر گئے ایک سال گزر چکا تھا۔ صابرہ پر وہ اپنے چند خطوط سے ظاہر کر چکا تھا کہ وہ غیور ماں کی توقع سے زیادہ ناموری حاصل کر رہاہے۔ سعید کے خطوط اور بصرہ سے بستی میں آنے جانے والے لوگوں کی زبانی اسے مکتب میں نعیم کے نام کی عزت اور شہرت کی اطلاع بھی ملتی رہتی تھی۔ نعیم کے ایک خط سے صابرہ کو معلوم ہوا کہ وہ عنقریب فارغ التحصیل ہو کر آنے والا ہے۔ ایک دن صابرہ کسی پڑوسن کے ہاں گئی ہوئی تھی۔ عذرا تیر اور کمان ہاتھ میں لیے صحن میں بیٹھی مختلف اشیا پر نشانے کی مشق کر رہی تھی ، ایک کوا اڑتا ہوا عذراکے سامنے کھجور کے درخت پر بیٹھ گیا۔ عذرا نے تاک کر تیر چلایا لیکن کوا بچ کر اڑ گیا۔ابھی کوا اڑا ہی تھا کہ دوسری طرف سے ایک اور تیر آیا اوروہ زخمی ہو کر نیچے گر پڑا۔عذرا حیران تھی ہو کر اٹھی اورکوکے جسم سے تیر نکال کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اچانک ایک خیال کے آتے ہی اس دل مسرت سے دھڑکنے لگا۔ اس نے آگے بڑھ کر پھاٹک کی طرف دیکھا۔ نعیم گھوڑے پر سوار پھاٹک سے باہر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ عذرا کے چہرے پر حیا اور مسرت کی سرخی دوڑنے لگی۔ وہ آگے بڑھی اور پھاٹک کھول کر ایک طرف کھڑ ی ہوگئی۔ نعیم گھوڑے سے اتر کر اندر داخل ہوا۔
    نعیم بصرہ سے لے کر گھر تک بہت کچھ کہنے اور بہت کچھ سننے کی تمنائیں بیدار کرتا ہوا آیا تھا لیکن انتہائی کوشش کے باوجود ”اچھی ہو عذرا؟“ کہہ کر خاموش ہوگیا۔
    عذرا نے کوئی جواب دینے کی بجائے ایک ثانیہ کے لیے اس کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں جھکا لیں۔
    نعیم نے پھر جرات کی ۔ ”عذرا کیسی ہو؟“
    ”اچھی ہوں۔“
    ”امی جان کہاں ہیں؟“
    ”وہ کسی عورت کی تیمارداری کے لیے گئی ہیں۔“
    پھر دونوں کچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔
    ”عذرا میں تمہیں ہرروز یاد کیا کرتا تھا!“
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    عذرا نے آنکھیں اوپر اٹھائیں لیکن سپاہیانہ شان میں حسن و جبروت کے مجسمے کو جی بھر کر دیکھنے کی جرات نہ ہوئی۔
    ”عذرا تم مجھ سے ناراض ہو؟“
    عذرا جواب میں کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن نعیم کی شاہانہ تمکنت نے اس کی زبان بند کردی۔”لائیے میں آپ کا گھوڑا باندھ اؤں!“ اس نے گفتگو کا موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
    ”نہیں عذرا، تمہارے ہاتھ ایسے کاموں کے لیے نہیں بنائے گئے۔“ نعیم یہ کہہ کر گھوڑے کو اصطبل کی طرف لے گیا۔
    نعیم تین ماہ گھر رہا اور جہاد پر جانے کے
    لیے والی بصرہ کے حکم کا انتظار کرتا رہا۔
    گھر پر خلاف توقع اس نے زیادہ خوشی کے دن نہ گزارے۔ شباب کے آغاز نے عذرا اور اس کے درمیان حیا کی ایک ناقابل عبور دیوار حائل کردی تھی۔بچپن کے گزرے ہوئے وہ دن جب وہ عذرا کا ننھا سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بستی کے نخلستانوں میں چکر لگایا کرتا تھا، اسے ایک خواب معلوم ہوتے تھے ۔ کم و بیش یہی حالت عذرا کی تھی۔ نعیم اس کے بچپن کا رفیق اسے پہلے سے بہت مختلف نظر آتا تھا۔ ان کے طرز عمل میں تکلف کی کم ہونے کی بجائے بڑھتا گیا۔ نعیم اپنے جسم و روح پر ایک قید اور دل پر ایک بوجھ محسوس کرنے لگا عذرا اس کے ساز دل پر بچپن ہی سے محبت کا پرسرور نغمہ بیدار کر چکی تھی۔نعیم چاہتا تھا کہ اس صحرائی حور کے سامنے اپنا دل کر رکھ دے لیکن حیا نے اسے منہ کھولنے کی اجازت ہی نہ دی۔ تاہم دونوں ایک دوسرے کے دل کی دھڑکنیں محسوس کر رہے تھے ۔
    نعیم کے گھر آنے کے چارماہ بعد عبد اللہ رخصت پر آیا اور صابرہ کے گھر کی رونق دوبالا ہوگئی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد نعیم اور عبد اللہ ماں کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ عبد اللہ اپنے فوجی کارنامے اور ترکستان کے حالات سنا رہا تھا۔ عذرا کچھ دور دیوار کا سہارا لیے کھڑی عبد اللہ کی باتیں سن رہی تھی۔ گفتگو کے اختتام پر عبد اللہ نے بتایا کہ میں بصرہ سے ہو کر آیاہوں۔
    ”ماموں سے ملے تھے؟“ صابرہ نے پوچھا۔
    ”ملا تھا، وہ آپ کو سلام کہتے تھے اور مجھے ایک خط بھی دیا ہے۔“
    ”کیسا خط؟“
    عبد اللہ نے جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا:
    ”آپ پڑھ لیں!“
    تم ہی پڑھ کر سنا دو بیٹا!“
    ”امی جان! یہ آپ کے نام ہے۔“ عبد اللہ نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔
    صابرہ نے خط لے کر نعیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا”اچھا بیٹا، تم پڑھو!“
    نعیم نے خط لے کر عذرا کی طرف دیکھا۔ وہ شمع اٹھا لائی اور نعیم کے قریب کھڑ ی ہوگئی۔ خط کی تحریر پر ایک نظر ڈالتے ہی نعیم کے دل پر ایک چرکہ سا لگا۔ اس نے ماں کو سنانا چاہا لیکن خط کی عبارت نے اس کی زبان پر مہر ثبت کردی۔ اس نے سارے خط پر جلدی جلدی نظر دوڑائی۔ خط کا مضمون نعیم کے لیے نا کردہ گناہ کی سزا کے حکمنامے سے زیادہ بھیانک تھا۔ اپنے مستقبل کے متعلق تقدیرکا ناقابل تردید فیصلہ پڑھ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں آگیا۔ ایک ناقابل برداشت بوجھ اسے زمین کے ساتھ پیوست کر رہا تھا لیکن مجاہد کی فطری ہمت بروئے کار آئی اور اس نے انتہائی کوشش کے ساتھ چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:
    ”ماموں جان نے بھائی جان کی شادی کے متعلق لکھا ہے۔ آپ پڑھ لیں!“
    یہ کہہ کہ اس نے خط والدہ کو دے دیا۔ صابرہ نے شمع کی روشنی کی طرف سرک کر پڑھنا شروع کرکیا:
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ”اچھی بہن! عذرا کے مستقبل کے متعلق میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔ میرے لیے عبد اللہ اور نعیم ایک جیسے ہیں۔ ان دونوں میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو عذرا جیسی عالی نسب لڑکی کے مستقبل کی ضامن ہو سکتی ہیں۔ عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے عبد اللہ اس امانت کا زیادہ حق دار معلوم ہوتا ہے۔ اسے دو ماہ کی رخصت ملی ہے۔ آپ کوئی مناسب دن مقرر کر کے مجھے اطلاع دیں۔ میں دو دن کے لیے آجاؤں گا۔
    آپ مجھ سے زیادہ ان بچوں کی طبیعت سے واقف ہیں۔ یہ خیال رکھیں کہ عذرا کے مستقبل کا سوال ہے۔ سعید
    (۲)
    نعیم کے پرانے خواب کی تعبیر اس کی توقع کے خلاف نکلی۔ ابھی تک اس کا یہی خیال تھا کہ وہ عذرا کے لیے ہے اور عذرا اس کے لیے لیکن ماموں کے خط سے ایک تلخ حقیقت کا انکشاف ہوا۔
    عذرا ........ اس کی معصوم عذرا، اس کی معصوم عذرا، اب اس کی بھاوج بننے والی تھی۔ اسے دنیا و مافیہا کی تمام چیزوں میں ایک نمایاں تغیر نظر آنے لگا۔ دل میں رہ رہ کر دردکی ایک ٹیس اٹھتی تھی لیکن جہاں تک ہو سکا اس نے ضبط سے کام لیا اور کسی پر اپنے دل کی دل کی بات ظاہر نہ ہونے دی۔ عذرا کی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔
    عبد اللہ اور صابرہ نے ان دونوں سے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی لیکن نعیم کو اپنے بھائی کا لحاظ تھا اور عذرا صابرہ، سعید اور عبداللہ کے احترام سے مجبور تھی۔ اس لیے دونوں کچھ نہ کہہ سکے اور دل کے انگارے دل ہی میں سلگتے رہے۔
    جوں جوں عبد اللہ کے مسرت کے دن قریب آرہے تھے ، نعیم اور عذرا کے تصورات کی دنیا تاریک ہو جاتی تھی۔ نعیم کی سکون نا آشنا طبیعت کو طبیعت کو گھر کی چار دیواری ایک قفس نظر آنے لگی۔ وہ ہر شام گھوڑے پر سوار ہو کر میرے لیے بہت دور چلا جاتا اور آدھی آدھی رات تک صحرامیں ادھر ادھر گھومتا رہتا۔
    عبد اللہ کی شادی میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ نعیم ایک شب بستی سے باہر اپنے گھوڑے پر سیر کررہا تھا۔ خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر ستارے جھلملا رہے تھے ۔ چاند کی دلفریب روشنی میں صحرا کی ریت پر چھوٹی چھوٹی لہریں چمک رہی تھیں۔ بستی میں عبد اللہ کی شادی کی خوشی میں نوجوان لڑکیاں دف بجا بجا کر گا رہی تھی۔ نعیم گھوڑا تھامے کچھ دیر رات سنتا رہا۔ اسے اپنے سوا تمام کائنات مسرور نظر آرہی تھی۔ وہ گھوڑے سے اترا اور ٹھنڈی ریت پر لیٹ گیا۔ چاند ستارے ٹھنڈی ٹھنڈی خوش گوار ہوا اور سامنے بستی کے نخلستانوں کے دلفریب مناظر نے اسے اپنی معصوم دنیا کے کھوئے ہوئے سکون کے متعلق مضطرب کردیا۔ اس نے اپنے دل میں کہا:
    ”میرے سوا کائنات کا ہر ذرہ مسرور ہے۔ میر ی سرد آہیں ان وسعتوں کے سامنے کیا حقیقت رکھتی ہیں۔ اف، بھائی اور والدہ کی خوشی، ماموں کی خوشی اور شاید عذرا کی بھی، مجھے رنجیدہ اور مغموم بنا رہی ہے۔ میں بہت خود غرض ہوں....لیکن میں خودغرض بھی تو نہیں۔ میں تو بھائی کے لیے اپنی خوشی قربان کر چکا ہوں.... لیکن یہ بھی جھوٹ ہے۔ میرے دل میں تو بھائی کے لیے اتنا ایثار بھی نہیں ہے کہ اس کی خوشی میں شریک ہو کراپنا غم بھول جاؤں۔ میرا رات دن باہر رہنا کسی سے بات نہ کرنا اور سرد آہیں بھرنا ان پر کیا ظاہر کرتا ہوگا! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ وہ کبھی میرا چہرہ مغموم نہیں دیکھیں گے ....لیکن یہ میرے بس کی بات نہیں، میں دل کی خواہشات پر قابو پا سکتا ہوں، احساسات پر نہیں۔ بہتر ہے کہ میں چند دن کے لیے باہر چلاجاؤں....ہاں مجھے ضرور جانا چاہیے....ابھی کیوں نہ چلاجاؤں....مگر نہیں، اس طرح نہیں۔ صبح والدہ سے اجازت لے کر۔“
    اس ارادے نے نعیم کے دل میں کسی حد تک تسکین پیدا کردی۔
    اگلے دن صبح کی نماز سے فارغ ہو کر والدہ سے چند دنوں کے لیے بصرہ جانے کی اجازت مانگی۔ صابرہ اس درخواست پر حیران ہوئی۔ اس نے کہا:
    ”بیٹا! تمہارے بھائی کی شادی ہے۔ تم وہاں کیا لینے جاؤگے؟“
    ”امی، میں شادی سے ایک دن پہلے آجاؤں گا۔“
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ”نہیں بیٹا، شادی تک تمہارا گھر پر ٹھہرنا ضروری ہے!“
    ”امی! مجھے اجازت دیجئے!“
    صابرہ نے ذرا غصے میں آکر کہا۔”نعیم میرا خیال تھا کہ تم صحیح معنوں میں ایک مجاہد کے بیٹے ہو لیکن میرا یہ اندازہ غلط نکلا۔ تمہیں اپنے بھائی کی خوشی میں شریک ہونا گوارا نہیں۔ نعیم تم عبد اللہ سے حسد....؟“
    ”حسد! امی آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ مجھے بھائی سے حسد کیوں ہونے لگا۔ میں تو چاہتاہوں کہ اپنی زندگی کی تمام راحتیں اس کی نذر کردوں۔“
    ”بیٹا! خدا کرے میرا یہ خیال غلط ہو۔ لیکن تمہارا اس طرح خاموش رہنا، بلا وجہ صحرانوردی کرنا اور کیاظاہرکرتا ہے؟“
    ”امی میں معافی چاہتا ہوں۔“
    صابرہ نے آگے بڑھ کر نعیم کو گلے لگا لیا اور کہا:
    ”بیٹا! مجاہدوں کے سینے فراخ ہوا کرتے ہیں۔“
    شام کے وقت نعیم سیر کے لیے نہ گیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ بسترپرلیٹے لیٹے بہت دیرتک سوچتارہا۔ اس کے دل میں خدشہ پیدا ہوا کہ اپنے طرز عمل سے جو کچھ والدہ ظاہرکرچکاہوں، شاید عبد اللہ پر بھی ظاہر ہو جائے ۔ اس خیال نے اس کے گھر سے نکلنے کے ارادے کو اور بھی مضبوط کردیا۔
    آدھی رات کے وقت وہ بستر سے اٹھا۔ کپڑے بدلو اور پھر اصطبل میں جاکر گھوڑے پر زین ڈالی۔ گھوڑالے کر باہر نکلنے کو تھا کہ دل میں کچھ خیال آیا اورگھوڑے کو وہیں چھوڑ کر صحن میں عذرا کے بستر کے قریب جا کھڑا ہوا۔
    عذرا بھی چند دنوں سے نعیم کی طرح رات بھر جاگنے کے عادی ہو چکی تھی۔ وہ بستر پر لیٹے لیٹے نعیم کی تمام حرکات دیکھ رہی تھی۔ جب نعیم قریب آیا تو اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اس نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ سو رہی ہے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔نعیم دیر تک کھڑارہا۔چاند کی روشنی عذرا کے چہرے پر پڑ رہی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آسمان کا چاند زمین کے چاند کو گھو ررہاہے۔نعیم کی نگاہیں عذرا کے چہرے پر اس طرح جذب ہو چکی تھیں کہ اسے تھوڑی دیر کے لیے گرد و پیش کا خیال نہ رہا۔ اس نے ایک لمباسانس لیتے ہوئے پرسوز الفاظ میں کہا:
    عذراتمہیں شادی مبارک ہو!“
    نعیم کا یہ جملہ سن کر عذرا کے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی اسے گڑے میں ڈال کر اوپر سے مٹی کا انبار پھینک رہا ہے۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر کسی غیر مرئی ہاتھ نے زبردستی اس کا منہ بند کر رکھا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اٹھ کر نعیم کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دے اور پوچھے کہ اس کا قصور کیا ہے؟ اس نے کیوں کہا۔ لیکن دھڑکتے ہوئے دل کی آواز دل ہی میں دبی رہی اور اس نے آنکھیں کھول کر نعیم کی طرف دیکھنے کی بھی جرات نہ کی۔
    نعیم گھوڑا لینے کی غرض سے دوبارہ اصطبل کی طرف چلا گیا ۔ عذرا بستر سے اٹھی اورمکان سے باہر نکل کر دیوار کے سایہ میں کھڑی ہوگئی۔ نعیم گھوڑا لے کر باہر نکلا۔ عذرا آگے بڑھی اور نعیم کا راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔
    ”نعیم! آپ کہاں جا رہے ہیں؟“
    ”عذرا.... تم جاگ اٹھیں؟“
    ”میں سوئی کب تھی....دیکھو نعیم....!“
    عذرا اسے سے آگے کچھ نہ کہہ سکی اور اپنا فقرہ ختم کیے بغیر آگے بڑھی اور نعیم کے ہاتھ سے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔
    ”عذرا مجھے روکنے کی کوشش نہ کرو۔ مجھے جانے دو!“
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ”کہاں جاؤ گے نعیم؟“ عذرا مدت کے بعد اسے نام سے بلا رہی تھی۔
    ”عذرا چند دن کے لیے بصرہ جا ررہاہوں۔“
    ”لیکن اس وقت کیوں؟“
    ”عذرا تم یہ پوچھتی ہو کہ میں وقت کیوں جا رہاہوں۔ تمہیں معلوم نہیں؟“
    عذرا کو معلوم تھا۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ ہونٹ کانپ رہے تھے ۔ اس نے نعیم کے گھوڑے کی باگ چھوڑ کر اشک آلود آنکھوں کو دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا۔
    نعیم نے کہا۔” عذرا شاید تمہیں معلوم نہ ہو کہ میرے دل میں آنسواؤں کی کیا قیمت ہے۔ لیکن میرایہاں رہنا مناسب نہیں۔ میں خود اداس رہ کر تمہیں بھی غمگین بناتا ہوں۔ بصرہ میں چند دن رہ کر میری طبیعت ٹھیک ہوجائے گی۔ میں تمہاری شادی سے ایک دو دن پہلے آنے کی کوشش کروں گا۔
    عذرا ! مجھے اس بات کی خوشی ہے اور تمہیں بھی خوش ہونا چاہیے کہ تمہارا ہونے والے شوہرمجھ سے بہتر خوبیوں کامالک ہے۔ کاش! تمہیں معلوم ہوتاکہ مجھے اپنے بھائی جان سے کتنی محبت ہے۔ عذرا ان آنسواؤں کو ان پر ظاہر نہ ہونے دینا!“
    ”آپ واقعی جا رہے ہیں؟“ عذرا نے پوچھا۔
    ”میں نہیں چاہتاکہ میرے ضبط کا ہر روز امتحان ہوتا رہے۔ عذرا میری طرف اس طرح نہ دیکھو۔ جاؤ!“
    عذرا بغیر کچھ کہے واپس چلی آئی۔ چند قدم چل کر ایک بار نعیم کی طرف مڑ کر دیکھا۔ وہ ابھی تک ایک پاؤںرکاب میں ڈال کر عذرا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عذرا نے منہ پھیر لیا اور تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی اپنے بستر پر منہ کے بل جا گری اور سسکیاں لینے لگی۔
    نعیم گھوڑے پرسوار ہو کر ابھی چند قدم چلا تھا کہ کسی نے پیچھے سے بھاگ کر گھوڑے کی باگ پکڑ لی۔ نعیم مبہوت سا ہو کررہ گیا۔ اس کے سامنے عبد اللہ کھڑا تھا۔
    ”بھائی!“ نعیم نے حیران ہو کرکہا ۔
    ”نیچے اترو! “ عبداللہ نے بارعب آواز میں کہا۔
    ”بھائی! میں باہر جارہاہوں۔“
    ”میں جانتاہوں۔ تم نیچے اترو!“
    نعیم گھوڑے سے اترا۔ عبد اللہ ایک ہاتھ سے گھوڑے کی باگ اور دوسرے ہاتھ سے نعیم کا بازو پکڑتے ہوئے واپس مڑا۔ مکان کے احاطے میں پہنچ کر اس نے کہا:
    ”گھوڑے کو اصطبل میں باندھ اؤ!“
    نعیم کچھ کہنا چاہتا تھا مگر عبد اللہ کچھ اس تحکمانہ انداز سے کھڑا تھا کہ اسے مجبوراً اس کا حکم ماننا پڑا۔ وہ گھوڑے کو اصطبل میں باندھ کر پھر بھائی کے قریب آکھڑا ہوا۔
    عذرا بستر پر لیٹے لیٹے یہ تمام منظر دیکھ رہی تھی۔ عبد اللہ نے پھر نعیم کا بازوپکڑ لیا اور اسے اپنے ساتھ لیے ہوئے مکان کے ایک کمرے میں چلاگیا۔
    عذرا کانپتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی اور چپکے چپکے قدم اٹھاتی ہوئی اس کمرے تک گئی اور دروازے کی آڑ میں کھڑی ہو کر عبداللہ اور نعیم کی باتیں سننے لگی۔
    ”شمع جلا!“ عبد اللہ نے کہا۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم نے شمع جلائی۔ کمرے میں اون کا ایک بڑا کپڑا بچھا ہوا تھا۔ عبد اللہ نے اس پر بیٹھتے ہوئے نعیم کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
    ”بھائی، آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
    ”کچھ نہیں، بیٹھ جاؤ!“
    ”میں کہیں جا رہا تھا۔“
    ”میں تمہیں جانے سے منع نہیں کروں گا، بیٹھ جاؤ! تم سے ایک ضروری کام ہے۔“
    نعیم پریشان سا ہو کر بیٹھ گیا۔ عبد اللہ نے ایک صندوق سے کاغذ اور قلم نکلا اور کچھ لکھنا شروع کیا۔ تحریر ختم کرنے کے بعد عبداللہ نے نعیم کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا:
    ”نعیم تم بصرے جا رہے ہو؟“
    نعیم نے جواب دیا۔ ”بھائی یہ معلوم نہ تھا کہ آپ جاسوس بھی ہیں۔“
    ”میں معافی چاہتاہوں نعیم، میں تمہارانہیں عذرا کا جاسوس تھا۔“
    ”بھائی جان! آپ عذرا کے متعلق رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کریں۔“
    عبد اللہ نے اس کے جواب میں ٹکٹکی باندھ کر نعیم کے چہرے کی طرف دیکھا ، نعیم نے قدرے مرعوب ہوکر گردن جھکا لی۔ عبد اللہ نے ایک ہاتھ بڑھا کر اس کی ٹھوڑی کو پیار سے اوپر اٹھایا اور کہا:
    ”نعیم میں تمہارے اور عذرا کے متعلق غلط انداز نہیں لگا سکتا۔ تم بصرہ جاؤ اور میرایہ خط ماموں کے پاس لیتے جاؤ۔“ یہ کہہ کر عبد اللہ نے نعیم کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا خط دے دیا۔
    ”بھائی جان! آپ نے کیا لکھا ہے؟“
    ”خود ہی پڑھ لو۔ میں نے اس خط میں تمہارے لیے ایک سزا تجویز کی ہے۔
    نعیم نے خط پڑھا:
    ”پیارے ماموں! السلام علیکم،
    چونکہ عذرا کا مستقبل آپ کی طرح مجھے بھی عزیز ہے۔ اس لیے مجھے اپنی نسبت نعیم کو اس کے مستقبل کا محافظ اور امانت دار ہوتے دیکھ کر زیادہ تسکین ہوگی۔ زیادہ کیا تحریر کروں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں نے یہ خط کیوں لکھا ہے۔امید ہے کہ آپ میری بات پر توجہ دیں گے ۔ میں یہ چاہتاہوں کہ میری رخصت ختم ہونے سے پہلے نعیم اور عذرا کی شادی کردی جائے۔ موزوں تاریخ آپ خود متعین کردیں۔“ آپ کا عبد اللہ
    خط ختم ہونے تک نعیم کی آنکھوں میں آنسو آچکے تھے ۔ اس نے کہا۔ ”بھائی میں یہ خط نہیں لے جاؤں گا۔ عذراکی شادی آپ ہی کے ساتھ ہوگی۔ بھائی مجھے معاف کردو۔“
    عبد اللہ نے کہا ۔ ”تمہارا خیال ہے کہ میں اپنی خوشی کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کی زندگی بھر کی خوشی قربان ہونے دوں گا؟“
    ”آپ مجھے زیادہ شرمسار نہ کریں۔“
    ”میں تمہارے لیے تو کچھ نہیں کررہا۔ نعیم تم سے زیادہ مجھے عذراکی خوشی کا خیال ہے۔ مجھے تمہارا جوڑی پہلے بھی بھلا معلوم ہوتا تھا۔ جو کچھ تم میرے لیے کرنا چاہتے تھے وہی کچھ میں عذرا کے لیے کررہاہوں۔ جاؤ! اب صبح ہونے والی ہے۔ کل تک ضرور واپس آجانا۔ شاید ماموں جان تمہارے ساتھ ہی آجائیں۔ چلو!“
    ”بھائی! آپ کیا کہہ رہے ہیں۔میں نہیں جاؤں گا!“
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    ”نعیم اب ضد نہ کرو۔ عذرا کو خوش رکھنے کا فرض ہم دونوں پرعاید ہوتا ہے۔“
    ”بھائی........!“
    ”چلو! “ عبد اللہ نے ذراتیور بدلتے ہوئے کہا اورنعیم کا بازو پکڑ کر کمرے سے باہرلے آیا۔
    عذرا انہیں آتے دیکھ کر وہاں سے کھسک آئی اور اپنے بستر پر جا لیٹی۔ نعیم کو متذبذب دیکھ کر عبد اللہ خود جا کر اصطبل سے نعیم کا گھوڑا لے آیا۔ دونوں بھائی مکان سے باہرنکلے۔ تھوڑی دیر بعد عذرا کو گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔
    عبد اللہ واپس آکر بارگاہ ایزدی میں شکرگزاری کے لیے کھڑا ہوگیا۔
    علی الصباح صابرہ نعیم کا بستر خالی دیکھ کر اصطبل کی طرف گئی۔ عبد اللہ وہاں اپنے گھوڑے کے آگے چارہ ڈال رہا تھا۔ صابرہ کو وہاں نعیم کا گھوڑا نظر نہ آیاتو پریشان سی ہو کر کھڑی ہوگئی۔ عبد اللہ اس کا مطلب بھانپ گیا۔ اس نے کہا:
    ”امی! آپ نعیم کو تلاش کر رہی ہیں؟“
    ”ہاں ہاں کہا ہے وہ؟“
    ”وہ ایک ضروری کام کے لیے باہر گیاہے۔“ عبد اللہ نے جواب دیا اور پھر کچھ دیرسوچنے کے بعد صابرہ سے سوال کیا۔ ”امی نعیم کی شادی کب ہوگی؟“
    ”بیٹا! تمہاری تو ہوجائے، اس کی باری بھی آجائے گی۔“
    ”امی! میں چاہتاہوں کہ اس کی شادی مجھ سے پہلے ہو!“
    ”بیٹا ! مجھے معلوم ہے کہ تم اسے بہت پیار کرتے ہو۔ میں غافل نہیں ہوں۔اس کے لیے بھی کوئی رشتہ تلاش کر رہی ہوں۔ خدا کرے کوئی عذرا جیسی لڑکی مل جائے۔“
    ”امی! عذرا اور نعیم بچپن ہی سے ایک دوسرے کے ساتھی رہے ہیں۔“
    ”ہاں بیٹا!“
    ”امی جان! میں چاہتاہوں کہ وہ ہمیشہ اکٹھے رہیں۔“
    ”تمہارا مطلب ہے کہ ....!“
    ”ہاں، میں چاہتاہوں کہ عذراکی شادی نعیم کے ساتھ کردی جائے!“
    صابرہ نے حیران ہوکر عبد اللہ کی طرف دیکھا اور پیار سے دونوں ہاتھ اس کے سرپر رکھ دیے۔
     
    برھان خلیل لون اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
  15. ابوازھر
    آف لائن

    ابوازھر ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2014
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    465
    ملک کا جھنڈا:
    دوسرا راستہ

    شہر بصرہ میں داخل ہوتے ہی نعیم کواس کا ایک ہم مکتب ملا جس کا نا م طلحہ تھا۔ اس کی زبانی نعیم کو معلوم ہواکہ شہر کی مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ابن عامرکی صدارت میں ایک زبردست جلسہ ہونے والا ہے۔ مسلمان سندھ پر حملہ کرنے والے ہیں اورافواج کی قیادت محمد بن قاسم کے سپرد کی گئی ہے۔حجاج بن یوسف بصرہ کے لوگوں کو جہاد کی طرف مائل کرنے کا فرض ابن عامرکے سپردکرکے خود کوفہ کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنے کی غرض سے روانہ ہو چکا ہے۔ بصرہ کے لوگوں کو ابن عامر کی تقریر سے نہایت امید افزا حالات پیداہوجانے کی توقع ہے لیکن شہر میں ابن صادق، ایک نام نہاد درویش آیا ہوا ہے اور اس کی شر پسند جماعت کے چند آدمی خفیہ خفیہ سندھ کے خلاف اعلان جہاد کی مخالفت کر رہے ہیں۔ بصرہ میں یہ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ یہ لوگ جلس میں شریک ہو کرکوئی خطرناک صورتحال پیدا نہ کردیں۔
    نعیم طلحہ کے ساتھ باتیں کرتا ہوا اس کے گھر تک پہنچااور گھوڑے کو وہاں چھوڑ کر دونوں مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ مسجد میں اس دن معمول سے زیادہ رونق تھی۔
    نماز کے بعد ابن عامر تقریر کے لیے ممبر پر کھڑا ہوگیا۔ابھی وہ کچھ کہنے نہ پایا تھاکہ باہر سے دو ہزار آدمیوں کی ایک جماعت شور مچاتی ہوئی داخل ہوئی۔ ان کے آگے آگے ایک جسیم شخص سیاہ رنگ کا جبہ پہنے ہوئے تھا۔ اس کے سرپر سفید عمامہ اور گلے میں موتیوںکابیش قیمت ہار لٹک رہا تھا۔ طلحہ نے نووارد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ” دیکھیے۔ وہ ابن صادق ہے، مجھے ڈر ہے کہ وہ جلسے میں ضرور کوئی ہنگامہ پیدا کرے گا۔“
    ابن صادق نعیم سے چند گزکے فاصلے پر بیٹھ گیا اور اس کی دیکھا دیکھی پیچھے آنے والی جماعت بھی ادھر ادھر دیکھ کر بیٹھ گئی۔
    ابن عامر نے ان لوگوں کے خاموشی سے بیٹھ جانے کا انتظار کیا اوربالآخر اپنی تقریر شروع کی:
    ”فدایانِ رسولﷺ کے غیور بیٹوں! دنیا گذشتہ اسی یا نوے برس میں ہمارے آباؤ اجداد کی غیرت و شجاعت، صبر و استقلال ، جبر و سطوت کا امتحان کر چکی ہے۔اس زمانے میں ہم نے بڑی سے بڑی طاقتو ں کا مقابلہ کیا ہے۔ بڑے بڑے جابر اور مغرور بادشاہوں کو نیچا دکھایا۔ ہمارے اقبال کی داستانیں اس وقت سے شروع ہوتی ہیں جبکہ کفرکی آندھیاں شمع رسالت کے پروانوں کو فنا کردینے کی نیت سے مدینہ کی چار دیواری کی طرف بڑھ رہی تھیں اور وہ تین سو تیرہ فدایانِ رسولﷺ نخل اسلام کو اپنے مقدس خون سے شاداب کرنے کی نیت سے کفار کیے تیروں، نیزوں اور تلواروں کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہوگئے تھے ۔ اس عظیم فتح کے بعد ہم توحید کا پرچم اٹھا کر کفر کے تعاقب میں نکلے اور دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے۔ لیکن ابھی تک اس وسیع زمین پر بہت سے خطے ایسے ہیں جہاں ابھی تک خدا کا آخری پیغام نہیں پہنچا۔ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے آقا و مولا کا پیغام دنیا کے ہرملک میں پہنچا اورجو قانون وہ اپنے ساتھ لائے تھے، دنیا کے تمام انسانوں پر نافذ کردیں، کیونکہ یہی وہ قانون ہے جس کی بدولت دنیا کی کمزور اور طاقت ور اقوام مساوات کے ایک وسیع دائرہ میں لائی جا سکتی ہیں۔ جس کی بدولت مظلوم و بے کس انسان اپنے کھوئے ہوئے حقوق واپس لے سکتے ہیں۔
    تاریخ شاہد ہے کہ آج تک دنیامیںجو طاقتیں عظیم الشان اورعالم گیر قانون کے مقابلے میں اٹھیں، کچل دی گئیں۔
     
  16. bilal260
    آف لائن

    bilal260 ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مارچ 2012
    پیغامات:
    182
    موصول پسندیدگیاں:
    46
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب اس کاوش پر بے حد مبارک باد ہو آپ کو۔
     
  17. جبرائیل کنگ
    آف لائن

    جبرائیل کنگ ممبر

    شمولیت:
    ‏20 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    2
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ بڑی اچھی کتاب اور وہ بھی ٹائپ کر کے یونیکوڈ میں اللہ آ پ کو جزائے خیر دے
     
  18. برھان خلیل لون
    آف لائن

    برھان خلیل لون ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2017
    پیغامات:
    1
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ ھماری اردو پیاری بہت اچھا فورم ھے آج نیٹ پے بیٹھ کر نسیم حجازی صاحب کا ناول مجاہد سرچ کر رھا تھا اردو فورم میں آگیا ناول تو ابھی پورا نہی پڑھا لیکن اردو فورم کا ممبر بننے کو پہلے ترجیع دی اور ممبر بنتے ھی یہ تحریر لکھ رہا ھوں میری تمام پاکستانیو سسے گذارش ھے اردو فورم کے ممبر بنیے اور میں شکر گزار ھوں اردو فورم کے ایڈمن اور انکی ٹیم کا جن کی انتھک محنت سے ھم جیسے طالب علموں کو یہ فورم میسر آیا اللہ تعالٰی اس کو مزید ترقی عطا فرمائے آمین ثم آمین
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. مقصود حسنی
    آف لائن

    مقصود حسنی ممبر

    شمولیت:
    ‏2 مارچ 2017
    پیغامات:
    23
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    زبردست
    بہت خوب
     

اس صفحے کو مشتہر کریں