1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

:::::: غیر مسلموں کے تہواروں میں شمولیت :::::::

Discussion in 'تعلیماتِ قرآن و حدیث' started by عادل سہیل, Dec 25, 2012.

  1. عادل سہیل
    Offline

    عادل سہیل ممبر

    Joined:
    Jul 24, 2008
    Messages:
    410
    Likes Received:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    ::::::غیرمسلموں کےتہواروں میں شمولیت:::::::
    [font=al_mushaf]بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ[/font]
    [font=al_mushaf]الْحَمدُ لِلَّهِ حَمدًا كَثيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرضَى ، و افضَلُ الصَّلاۃِ و اَتمُّ السَّلام ِعَلَی رَسُولِہِ الکَریم ، امَّا بَعد ، [/font]
    ہم پیدائشی ، خاندانی مُسلمانوں کی مُسلمانی میں اِیمان کو قتل کرنے والے امراض کی کثرت ہوتی جا رہی ہے ، اِن اِیمان کے قاتل امراض میں سے ایک مرض غیر مُسلموں کے لیے قلبی لگاؤ بھی ہے ایسا قلبی لگاؤ جو بسا اوقات مُحبت کی صُورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور جب یہ مرض شدت اختیار کر جاتا ہے تو ہم اپنوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور کافروں سے مُحبت کا اقرار ،
    جی ہاں مُحبت ، اُس مُحبت کے اقرار و اظہار کے انداز و اطوار میں سے ایک انداز اُن کافروں کے تہواروں میں شمولیت بھی ہے ، خواہ وہ تہوار خالصتاً دینی ہوں ، کفریہ عقائد پر مبنی ہوں ، یا محض اُن کافروں کی عادات میں سے ہوں ،
    ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں رہی کہ کافروں کے تہوار میں شمولیت کے بارے میں ہمارے دِین میں ہمارے لیے کیا حُکم ہے ؟ ہم اُن میں شامل ہوتے ہیں ، اور کچھ نہ ہو تو انہیں نیک تمنائیں اور مبارک کی دعائیں تو دے ہی دیتے ہیں ،
    ہمیں صِرف یہ شوق حُدود جنون میں داخل کر چکا ہے کہ ہمیں کسی طور ہم پر """ تنگ نظر ، یا ، قدامت پرست ، یا ، بنیاد پرست ، یا ، دقیانوسی """، یا ماضی قریب میں انہی کافروں کی طرف سے ہماری محبتوں کے جواب میں دیے گئے نئے لقب """دھشت گرد """ وغیرہ میں سے کوئی لقب نہ دے دیا جائے ،
    ہم تو فقط اپنے اندر موجود کفار کی محبت اور ان سے مرعوبیت اور کہیں اُن کے خوف کی وجہ سے اُنہیں خوش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، خواہ اُس میں دُنیا کی ذِلت بھی ملتی رہے اور آخرت بھی تباہ ہوتی رہے
    جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، کیونکہ لوگوں کے أعمال ان کے عقائد اور نیتوںکا نتیجہہوتے ہیں حتیٰ کے وہ أعمال بھی جو لاشعوری طور پر سر زد ہو جاتے ہیں ان کےپیچھے بھی انسان کا کوئی نہ کوئی اِرداہ کارفرما ہوتا ہے جو اُس کے لاشعور میں مُقیم ہونے کی وجہ سے اس کے ادراک سے باہر ہوتا ہے ، پس أعمال کو دیکھ کر ہی عاملین کے عقائد اور نیتوں کا اندازہ کیا جاتا ہے ،
    اس مخلوط و حیراں کیفیت کے بارے میں اس سے زیادہ اور کیا کہوں کہ """[font=al_mushaf]إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [/font]"""،
    کافروں کے تہواروں اور اُ ن کی عادات میں شمولیت اور اُن کی عادات کی نقالی کے بارے میں اِسلامی احکام کا ذِکر کرنے سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو قران کریم کو اللہ کی آخری ، حتمی ، مکمل اور غیر محرف کتاب نہیں مانتا وہ کافر ہے ، ہر وہ شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جو کہ عبداللہ بن عبدالمطب کے بیٹے تھے ، کو اللہ کا آخری رسول نہیں مانتا وہ کافر ہے ، خواہ وہ اللہ پر اِیمان رکھتا ہو اور بظاہر اُس کے پاس موجود کتابوں یا باتوں کے مطابق اللہ کا عبادت گذار اور تابع فرمان نظر آتا ہو ، وہ مُسلمانوں کی صفوف میں شُمار نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ کافر ہی مانا جائے گا ،
    اِس وضاحت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، کافروں کی پہچان نظر میں رکھتے ہوئے ، پہلے بیان کردہ باتوں کی روشنی میں ہمیں یہ جان رکھنا چاہیے کہ ہمارا دین ہمیں معاشرے میں الگ تھلگ رہنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ معاشرےمیں ہمارا اور کافروں کا وہ مقام برقرار رکھنے کی تعلیم دیتا ہے جو اللہ نےمقرر کر رکھا ہے،ہمارے اور اُن کے درمیان وہ فرق برقرار رکھنے کی تعلیم دیتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کر رکھے ہیں ،
    بحیثت انسان کافروں کی جان مال اور عِزت پر ہاتھ نہ ڈالنا اور ان کے ساتھ ظُلم و زیادتی نہ کرنا اِسلامی تعلیمات میں سے ہے ،کافروں کے ساتھ معاشرتی زندگی میں نرمی اور اچھائی والا رویہ رکھنا اسلامی تعلیمات میں سے ہے ،اپنے اردگرد پائے جانے والے کفار کے ساتھ بات چیت کرنا اوراسلامی حدود میں رہتے ہوئے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا بحثیت انسان ان کےحقوق میں سے ہے ،
    ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ اچھے اسلامی اخلاق کے ساتھ پیش آنا ہی چاہیے اور ساتھ ساتھ انہیں اسلام کی دعوت بھی دیتے رہنا چاہیے ،
    دُکھ درد اور غم و تکلیف کے وقت اُن کی داد رسی کرنا بھی اسلامی تعلیمات میں سے ، لیکن ان سب اعمال کی حُدود و شرائط ہیں ، معاشرتی زندگی میں کافروں کی خوشیوں اور تہواروں میں شمولیت ایک الگ معاملہ ہے ،
    کافروں کے لیے قلبی میلان رکھنے ، اُن کی عادات کو اپنانے ، اُن کی نقالی کرنے ، ان کے تہواروں پر اُنہیں برکت کی دُعا دینے ، اُن کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے ، اور اُن کے تہواروں میں شامل ہونے جیسی اپنی اِن بدعملیوں سے بڑھ کر بد عملی یہ ہے کہ ہم اپنی بد عملیوں ، خامیوں اور اپنے دِین کی درست تعلیمات سے اپنی دُوری کو ختم کرنے کی بجائے اپنے دِلوں اور دِماغوں پر مُسلط خلافءِ اِسلام خیالات کو دُرست بنانے کے لیے ، اور اِن خیالات کے مطابق کیے جانے والے اپنے اعمال کو دُرست ثابت کرنے کے لیے دِین کوبھی بدلنے کی کوشش کر ڈالتے ہیں ، جب کہ ہمیں ہمارے اکیلے لا شریک خالق و مالک ، جِس کی واحدنیت اور الوہیت کا کلمہ پڑھنے کے سبب ہم مسلمانوں کی صفوف میں شُمار ہوتے ہیں ، اُس رب نے تو ہمیں حُکم دیا ہے کہ ((((([font=al_mushaf]فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیءٍ فَرُدُوہُ اِلَی اللّٰہِ و الرَّسُولِ اِن کُنتُم تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ الیَومِ الاٰخِرِ، ذَلِکَ خَیرٌ وَ اَحسَنُ تَاوِیلاً[/font] ::: اور اگر تُم لوگوں میں کسی چیز (کام ) کے بارے میں کوئی اِختلاف ہو جائے تو اگر تو تم لوگ(واقعتا ہی) اللہ اور آخرت کے دِن پر اِیمان رکھتے ہو تو ( اِختلاف کو حل کرنے کے لیے ) اُس اِختلاف کو اللہ کی طرف اور رسول کی طرف لوٹاؤ ، اور یہ (یعنی اِختلاف کا حل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامت میں تلاش کرنا اور اس پر عمل کرنا)بہت خیر والا اور اچھے انجام والا ہے ))))) ، سُورت النِساء/آیت 59،
    اور اِسی اللہ نے جِس کی بندگی کا ہم دعوی ٰ رکھتے ہیں ، اور جِس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت کا ہم دم بھرتے ہیں ، اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کے بارے میں حکم فرمایا ہے ((((( [font=al_mushaf]وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لَا لِمُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسوُلَہُ اَمراً اَن یَکُونَ لَھُم الخِیرَۃُ مَن اَمرِھِم وَ مَن یَعصِ اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ فَقَد ضَلَّ ضَلٰلاً مُبِیناً [/font]::: اور جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو کِسی اِیمان والے مَرد اور کِسی اِیمان والی عورت کے لیے اُن (یعنی اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )کے فیصلے کے بارے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (یعنی وہ فیصلے ماننا اُس پر فرض ہے )اور جِس نے اللہ اور اُس کے رسول کی نا فرمانی کی تو وہ یقیناً کھلی واضح گمراہی میں جا پڑا )))))سُورت الاحزاب /آیت 36،
    اللہ پاک نے اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بلا مشروط اور کسی تاویل کے بغیر تابع فرمانی کے احکامات بار بار صادر فرما رکھے ہیں ، پس اگر ہم واقعتا ہی اِیمان والے ہیں تو ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی ہی کریں گے اور اگر ہم صِرف نام نہاد اِیمان والے ہیں تو پھر اپنی سوچوں ، فلسفوں ، آراء اور عقلوں کو کسوٹیاں بنا کر اپنی بد عملیوں کو درست بنانے کی کوشش کرتے دکھائی گے ،
    ایسے لوگوں کو دیکھ کر اللہ کا یہ فرمان دل و دماغ میں گونجنے لگتا ہے کہ((((( [font=al_mushaf]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ[/font] ::: اے ایمان والو ، اللہ کی بات قبول کرو اور رسول کی بات قبول کرو جب کہ وہ تم لوگوں کو زندگی بخش چیز کی طرف ہی بلاتے ہیں اور جان لو کہ اللہ (ان کی بات نہ ماننے والے)بندے اور اس کے دِل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے (اور پھر اُس بندے کے لیےحق سمجھنے کی گنجائش نہیں رہتی)اور تم لوگوں کو اللہ کی طرف ہی ہانکا جایا گا )))))سُوعت الانفال/آیت24،
    ان بھائی بہنوں کو شاید پتہ نہیں کہ وہ اللہ کی بات سن کر اپنی سوچوں کی بنا پر انکاری کی سی کیفیت میں اس سے منہ ُ پھیر کر کس قدر نقصان کما رہے ہیں ، اور وہاں کا نقصان کما رہے ہیں جہاں کوئی دوستی کام نہ آئے گی ، سوائے دو ایمان والوں کی وہ دوستی جو صرف اللہ کے لیے تھی ،
    ((((([font=al_mushaf]وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ[/font]::: اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جسے اللہ کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جائے اور وہ اُن آیات سے(نہ ماننے کی صورت میں) مُنہ پھیر لے(تو ایسے لوگ یاد رکھیں کہ)یقیناً ہم مجرموں سے انتقام لے کر رہیں گے)))))سُورت سجدہ/آیت22،
    اللہ ہم سب کو ہمارے ہر اس مسلمان بھائی اور بہن کو ہدایت دے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات سن کر بھی اُن کے خلاف اپنے خیالات کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ، اور نصیحت کی بات کو ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات کو حقارت اور طنز کے ساتھ رد کرتا ہے،اور کچھ تو ایسے ہیں جو کہ غلط فہمیوں پر مبنی اپنے فلسفوں اور سوچوں کے دھارے میں اس قدر بہہ رہے ہوتے ہیں کہ اپنے تیئں قران کریم کے مدبر بنے ہوئے اللہ کی اسی قران میں اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مُبارکہ کا انکار کرتے ہیں ، اللہ ہی جانے اُن کی قران فہمی میں اللہ کا یہ فرمان کہاں ہوتا ہے کہجو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں ، ان سے دُشمنی رکھتے ہیں ، ان کو غصہ دلانے والے اعمال کرتے ہیں ، خواہ وہ کلمہ گو ہوں یا کافر ان سب کا انجام اللہ نے ایک ہی بتایا ہے
    ((((( [font=al_mushaf]أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَٰلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ[/font]:::کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول سے دُشمنی رکھے گا (اور ان کی نافرمانی کرے گا اور ، انہیں غصہ دلانے والے کام کرے گا)تو یقیناً اُس کے لیے جہنم ہے جِس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور یہ بہت بڑی ذِلت ہے )))))سُورت التوبہ/آیت63،
    اور یہ طے شدہ امر ہے کہ کافروں کے لیے دوستی ، قلبی میلان اور ان کے کفر پر رضا مندی والا معاملہ رکھنا، یہ سب عمل اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی ہیں ، اور انہیں غُصہ دِلانے والے ہیں ،
    ((((( [font=al_mushaf]وَ لَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ[/font]:::اور تُم لوگ اُن لوگوں کی طرف مائل مت ہو جنہوں نے (اللہ کا دِین اور حق قبول نہ کر کے اپنی جانوں)ظُلم کیا (اگر ایسا کرو گے)تو تُم لوگوں کو جہنم پکڑ لے گی اور تُم لوگوں کے اللہ کے علاوہ کوئی سرپرست اور والی نہ ہو گا اور پھر تم لوگوں کی کوئی مدد نہ کی جائے گی )))))سُورت ھُود/آیت113،
    اس مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں کسی اہل کتاب یا کسی خاص نسل و قِسم کے کافروں کا ذِکر نہیں ، بلکہ ہر قسم کے کافروں اور حتیٰ کہ کلمہ گو منافقوں اور فاسقوں و فاجروں کے ساتھ تعلق داری کا ایک ہی حکم بیان ہوا ہے ،
    لہذا کسی کو یہ غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے کہ یہ آیات یا اِن میں دیا گیا حُکم صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں ہے ،
    اب اگر اتنے صاف اور واضح حُکم کے بعد بھی کوئی صاف صریح کھلے کافروں سے قلبی لگاؤ رکھتا ہو، اُن کی عادات اور ان کے کفر و عناد پر مبنی تہواروں کی طرف مائل ہوتا ہو ، بلکہ اُن کو دُرست سمجھ کر اور ان احکامات کو نا دُرُست سمجھ کر ، اُن کافروں کو اُن کے کفر پر مبنی اعمال اور تہواروں پر برکت کی دعاء دینے اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے، اور اُن کے ساتھ اُن تہواروں میں شامل ہو نے میں کوئی برائی نہیں سمجھتا تو ہم اس کے لیے دُعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ اسے ہدایت دے اور سب ہی مسلمانوں کو ہر اس معاملے میں ہدایت دے جس میں وہ گمراہ ہیں ،
    اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ کا فرمان مُبارک ہے ((((([font=al_mushaf]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ[/font]:::اے اِیمان لانے والو ، تُم لوگ نصاریٰ (عیسائیوں) اور یہودیوں کو دوست مت بناؤ ، وہ لوگ ایک دوسرے کے ہی دوست ہیں ، اور تُم لوگوں میں سے جِس نے اُن(کافروں)کے ساتھ دوستی کی تو وہ(میرے ہاں )اُن ہی میں سے ہے)))))سُورت المائدہ/آیت51،
    دوستی جو کہ قلبی لگاؤ کے ایک انداز کا نام ہے ، جِس میں دوست کے دُکھ پر غم ہوتا ہو اور اُس کی خوشی پر خوشی محسوس ہوتی ہو ، قطع نظر اس کے کہ اُس کے غم یا خوشی کا سبب کفر ہی کیوں نہ ہو ، اُس کی غمی اور خوشی میں شامل ہونا ، کسی بھی انداز میں شرکت کرنا اس قلبی لگاؤ کا ثبوت ہوتا ہے ، اورکسی مُسلمان کی طرف سے کسی کافر کے لیے ایسے قلبی لگاؤکو روا رکھنے کی اسلام میں اجازت نہیں ،
    اور کسی کام کے لیے اللہ یا اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اجازت نہ ہونا کچھ معمولی بات نہیں کہ وہ کام کر لیا جائے تو کوئی حرج نہ ہوگا ، یا کچھ ہلکا پھلکا سو نقصان ہو گا ، بلکہ اُس کام کو کرنا آخرت کی مکمل تباہی کے اسباب میں سے ہے اور کافروں سے قلبی لگاؤ رکھنا بھی ایک ایسا ہی کام ہے ،
    یہ آیت بھی ملاحظہ فرمایے اس میں بھی مطلقاً کافروں کا ذِکر ہے صِرف یہود و نصاریٰ کا نہیں ،
    ((((([font=al_mushaf]لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ[/font]:::اِیمان والے (دوسرے)اِیمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں ، اور جس نے ایسا کیا تو اس کے لیے اللہ کی طرف سے کسی(خیر و بخشش والا معاملہ ) میں نہیں ، ایسا صرف (ظاہری طور پر )اس وقت کر سکتے ہو جب تم لوگ ان کافروں سے کسی طور بچنا چاہتے ہو اور اللہ تُم لوگوں کو اپنی ذات مبارک کے بارے میں خبر دار کرتا ہے اور اللہ کی طرف(تم سب نے)پلٹنا ہے)))))سُورت آل عمران/آیت 28،
    اس آیت میں اللہ تعالیٰ سب ہی کافروں سے دوستی کرنے والوں کے لیےہر خیر و بخشش سے محروم کر دیے جانے کا اعلان فرما رہے ہیں ، اس آیت مبارکہ اور دیگر آیات مبارکہ کے مطابق بالکل ظاہر سی بات ہے ایسا کسی اِیمان والے کے ساتھ نہ ہوگا ، یعنی ایسا کرنے والا شخص اگر اللہ کے ہاں اِیمان والوں میں رہے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے آخرت کی ہر خیر سے محروم ہونے کی وعید نہ فرماتا،
    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی اس معاملے میں واضح احکامات دیے ہیں ، ان میں سے ایک حُکم تو ایک عام قاعدے قانون کی صُورت میں ہے جس میں کافروں کی ہر قسم کی نقالی کی ممانعت ہے ، کیونکہ کسی کی نقالی اُس کے لیے قلبی لگاؤ ، اُس سے مُحبت اور اُس سے متاثر
    ہونے کا مُنہ بولتا ثبوت ہے ، کوئی صحیح عقل و سمجھ والا انسان کبھی کسی ایسے شخص کی عادات ، انداز و اطوار نہیں اپناتا ، اُن کی نقالی نہیں کرتا جِس شخص کو وہ اچھا نہ سمجھتا ہو ،
    :::::: عبداللہ ابن عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((([font=al_mushaf]مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ[/font]:::جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُسی قوم میں سے ہے )))))سُنن ابو داؤد /حدیث4033/کتاب اللباس/باب5،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے فرمایا """حسنٌ صحیح""
    :::::: جریر بن عبداللہ البُجلی رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی تو انہوں نے فرمایا((((([font=al_mushaf]أُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتُنَاصِحَ الْمُسْلِمِينَ وَتُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ[/font]:::میں ان باتوں پرتمہاری بیعت لیتا ہوں کہ تُم اللہ کی عبادت کرو گے اور نماز ادا کرو گے اور مسلمانوں کو نصیحت کرو گے اور مشرکوں سے الگ رہو گے)))))سُنن النسائی/حدیث4194/کتاب البیعۃ/باب17،السلسلہ الاحادیث الصحیحہ/ حدیث636،
    اس میں مشرکوں سے الگ رہنے کا مطلب معاشرتی علیحدگی نہیں کیونکہ ایسا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دور مبارک میں مسلم معاشرے میں بھی نہ تھا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کی عادات اور نقالی سے الگ رہو گے ، اور اگر کوئی معاملہ اُن کے ہاں دینی نوعیت کا ہو تو پھر تو اس میں کسی بھی طور شمولیت بدرجہ اَولیٰ ممنوع ہے ،
    یہ مفہوم ہمیں دیگر احادیث اور آثار میں ملتا ہے جس کی مثال کے طور پر آپ کو اُمت کے سب سے مقدس اور پاکیزہ طبقے کے عُلماء رضی اللہ عنہم اجمعین کے فتاویٰ میں سے کچھ پیش کرتا ہوں ،
    :::::: عبداللہ ابن عَمرو رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے کہ((((([font=al_mushaf]مَنْ بَنَى بِبِلاَدِ الأَعَاجِمِ وَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ حَتَّى يَمُوتَ وَهُوَ كَذَلِكَ حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ[/font]::: جو کوئی کافروں کے شہروں میں آباد ہوا اور ان کے تہوار منائے اور ان کی نقالی کی یہاں تک وہ اسی حالت میں مر گیا تو قیامت والے دن اس کا حشر انہی کافروں کے ساتھ ہو گا )))))سنن البیہقی ، حدیث صحیح ہے ،
    اور ایک روایت میں((((( [font=al_mushaf]مَنْ بَنَى بِبِلاَدِ المُشرکین[/font])))))کے الفاظ ہیں اور وہ روایت بھی صحیح ہے ،
    :::::: دوسری حدیث بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے
    ((((([font=al_mushaf]لا تَعلَّمُوا رَطانةَ الأَعاجِم ، ولا تَدخُلُوا علىَ المُشرِكِين في كَنَائسِهِم يَومَ عِيدهُم ، فإنَّ السَخطةَ تَنزِلُ عَلِيهِم [/font]::: نہ تو کافروں کا خاص لہجہ سیکھو ، اور نہ ہی مشرکوں کے تہواروں والے دِن ان کی عباد گاہوں میں داخل ہو کیونکہ ایسے میں ان پر اللہ کا غصہ نازل ہو رہا ہوتا ہے)))))سنن البیھقی میں صحیح سند کے ساتھ روایت ہے ،
    :::::: میں ان مذکورہ بالا آثار کو کو حدیث اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس میں ایک ایسی خبر ہے جو وحی کے بغیر نہیں دی جا سکتی ایسی خبر کو """ موقوف فی حکم الرفع """ کہا جاتا ہے ،
    اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے((((( [font=al_mushaf]وَالَّذِينَ لا يَشْهَدُونَ الزُّ ورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَاماً [/font]::: اور وہ جو بے کار کاموں کی طرف نہیں دیکھتے اور اگر فضول کاموں والی جگہوں سے گذر ہو تو عزت کے ساتھ گذر جاتے ہیں ))))) سُورت الفُرقان/آیت72،اس فرمان کی تفیسر اگر آپ تفیسر ابن کثیر میں ہی دیکھ لیجیے تو آپ کو صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کی طرف سے """ [font=al_mushaf]الزُّ ور[/font]""" کی تفیسر """ کافروں کے تہوار""" بھی ملے گی ،
    پس اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے مذکورہ بالا فرامین کی روشنی میں ، کافروں سے دوستی ، ان کے تہواروں میں کسی قسم کی شمولیت ناجائز کام ہیں ،
    یہ معاملہ بھی بہت اچھی طرح سے ذہن و قلب میں جما رکھنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام نازل فرماتے وقت ، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث مبارکہ صادر فرماتے وقت یقیناً خوب جانتا تھا کہ قیامت تک میرے مسلمانوں نے کہاں کہاں اور کیسے کیسے اور کس کس کے ساتھ رہنا ہے ، پس ہمیں اپنے زندگی کے معاملات اور خاص طور پر عقیدے سے متعلق معاملات مختلف علاقوں کے حالات و عادات اور مختلف لوگوں کی سوچ و فِکر کے مطابق نہیں سمجھنے ،
    لہذا یہ بات بھی خُوب یاد رکھنے کی ہے کہ شریعت کے احکام مختلف علاقوں کی عادات اور مختلف لوگوں کی معاشرتی دلچپیوں یا لگاؤ ، یا مجبوریوں سے اخذ نہیں کیے جا سکتے ، بلکہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات سے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے اخذ کیے جاتے ہیں ، اور وہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال کے مطابق نہ کہ ہر کس و ناکس اپنی اپنی سوچ و فِکر کی بنا پر ایسا کرنے کا اہل ہے ،
    اس موضوع پر اور بھی کافی بات کی جاسکتی ہے لیکن امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ اتنی ہی کافی رہے گی ،
    [font=al_mushaf]وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ[/font]،،،،،[font=al_mushaf]وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ [/font]،،،،، والسلام علیکم۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس موضوع سے متعلق ایک اور فورمز پر کچھ بھائیوں سے کافی بات چیت رہی ، اُس میں سے ایک سوال اور اُس کا میری طرف سے جواب بھی یہاں نقل کر رہا ہوں ، اِن شاء اللہ اشکالات رفع ہونے کے سبب میں سے ہو گا ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ::: سوال :::
    میں مبارکباد والی بحث پر آپ کی رائے سے مطمئن نہیں‌ ہوں۔ کسی کو مبارکباد دینے سے اس کے ساتھ دوستی کیسے قائم ہوجاتی ہے؟
    ::: جواب :::
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    ۔۔۔ بھائی ،
    جزاک اللہ خیرا ، کہ آپ نے اپنی بات کہی ،
    آپ کی بات کے ایک پہلو کا جواب تو ۔۔۔ بھائی نے بہت پیارے انداز میں دیا ہے ، غالباً مراسلہ رقم ۲۱ ہے ،
    اور دوسرے پہلو سے میں کچھ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ، ان شاء اللہ ،
    ۔۔۔ بھائی ، انسانی معاشرے میں انسانی تعلقات یا تو دوستی اور محبت پر مبنی ہوتے ہیں ،
    یا دُشمنی اور نفرت پر ،
    یا ان سب جذبات سے عاری محض معاشرتی راہ و رسم کی حد تک ہوتے ہیں ،
    صرف رسمی تعلقات میں انسان عموماً کسی کے کام میں کوئی شراکت نہیں کرتا ، نہ خوشی میں نہ غمی میں ،
    جی یہ ہوتا ہے کہ انسانی جذبات کی وجہ سے کسی کا غم محسوس کرتا ہے ، کبھی اس غم یا دُکھ میں کمی کی کوئی کوشش بھی کر لیتا ہے ،
    دُشمنی اور نفرت کی صُورت میں تو لوگ اپنے دُشمن کے غم اور دُکھ پر خوشی محسوس کرتے ہیں ، اور اس کی خوشی پر غم اور دُکھ محسوس کرتے ہیں ،
    دوستی ، محبت ، قلبی لگاؤ ، وغیرہ ہی ایسے جذبات ہیں کہ جس کے لیے ہوں اس کی خوشی میں انسان خوشی محسوس کرتا ہے اور اس کے لیے جسمانی اور قلبی طور پر اپنی اچھی خواہشات کا اظہار کرتا ہے ، (خیال رہے یہاں اچھی کا استعمال صرف لغوی طور پر ہے شرعی طور پر نہیں )،
    جسمانی اظہار میں سے پہلااور کم سے کم اظہار زبانی طور پر ہوتا ہے ، انسان کے ہر عمل کی طرح یہ سب اعمال بھی اس کے دِل کی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ، وہ ان کا اقرار کرے یا نہ کرے ، انہیں سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو،
    پس میرے بھائی ، جب ہم کسی کو اس کے کسی کام پر دعا دیتے ہیں ، جی ہاں مبارک باد دینا دُعا ہی تو ہے ، ۔۔۔ بھائی نے یہ بات بھی بتائی تھی ،
    جی تو جب ہم کسی کو مبارک باد دیتے ہیں تو یہ ہمارا یہ عمل ہمارے قلبی میلان کی نشاندہی کرتا ہے، اسے دوستی کہیے ، یا محبت ، لیکن نفرت یا محض معاشرتی راہ و رسم نہیں کہا جا سکتا اور اگر کوٕئی کہے بھی تو مانا نہیں جا سکتا ،
    یوں بھی ہ۔۔۔ بھائی ، جب معاملہ عقائد کا ہو تو وہاں کسی کفر یہ عمل پر کسی کافر کو دعائیں دینے یا اس کے لیے اپنی نیک تمناوں کا اظہار کرنے کا مطلب یہ ہی ہوتا ہے کہ مبارک باد دینے والا اس کے کفر پر راضی ہے اور اس کو اپنے دوستوں میں سمجھتا ہے ،
    اگر ایسا نہ ہو تو وہ اس کو کفر پر مبارک باد نہیں دے گا ،
    اگر اس کافر کے کفر سے دُشمنی نہیں رکھتا تو اس کافر کے ساتھ صرف بلا جذبات معاشرتی راہ و رسم رکھے گا اور ایک اچھے مسلمان کی حیثیت سے، اُس کافر کے وہ حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے گا جو اس کی شریعت نے ایک انسان کی حیثیت میں اس کافر کے لیے مقرر کیے ہوں ،
    اور ان حقوق میں سے کسی کفر پر نیک تمنائیں پیش کرنا قعطاً نہیں ،
    اب اگر کوئی مسلمان ایسا کرتا ہے تو وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایسے کافروں سے صرف ایک انسان کی حیثیت سے معاشرتی رسم و راہ نہیں رکھے ہوئے بلکہ اس سےبڑھ کر""" کچھ اور """ہے اور اس """ کچھ اور """ کا سب سے ہلکا اور پہلا درجہ قلبی میلان اور اس کے اعمال پر رضا مندی ہے جو دوستی کے ابتدإئی مراحل میں سے ہے ، اور جسےاللہ کے فرامین میں منع کردہ """ الولاء""" کے مفاہیم میں سے ایک مانا جاتا ہے ،
    اور معاذ اللہ اگر کوئی مسلمان کسی کافر کے کفر کو کفر جاننے کے بعد بھی اپنے دل میں اس کے کفر کے رضا مندی پاتا ہے اور اس کافر کے لیے ایک انسان سے بڑھ کر کسی بھی اور طرح کوٕئی احترام پاتا ہے تو یہ اس مسلمان کے ایمان اور آخرت کے لیے انتہائی خوفناک نتائج کی نشاندہی ہے ،
    ہو سکتا ہے ۔۔۔ بھائی آپ ان باتوں سے مطمئن نہ ہوں ، کیونکہ یہاں میں اسلامی عقإئد کے ایک بہت ہی اہم ، بنیادی اور طویل و عریض موضوع """ الولاء و البرءاۃ """ کو صرف چند سطروں میں محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ،
    اس کے باوجود میں فی الحال انہی پر اکتفاء کرتا ہوں ، کیونکہ بھائی ۔۔۔۔۔۔ صاحب بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں ، ان کی طرف سے بھی بات ہو جانے دیجیے ، ہو سکتا ان کی بات میں سے ہماری بات کچھ اور واضح ہو جائے ، و السلام علیکم۔
     
  2. مفتی ناصرمظاہری
    Offline

    مفتی ناصرمظاہری ممبر

    Joined:
    Feb 5, 2013
    Messages:
    9
    Likes Received:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: :::::: غیر مسلموں کے تہواروں میں شمولیت :::::::

    ہندوستانی اثرات
    ہندوستان کے مشترکہ کلچر کی نشوو نمامیں تین قسم کے رویے نظر آتے ہیں ایک رویہ اس طبقہ کا ہے جو بالکل الگ تھلک رہنا چاہتا ہے دوسرا طبقہ مخصوص حدود میں میل ملاپ چاہتا ہے اورتیسرا طبقہ ہر قسم کی پابندیوںسے بے نیازہوکر اورٹوٹ کر ملنے پرآمادہ رہتا ہے ،میرے پیش نظر اس مضمون میں آخرالذکردو طبقوںکا رویہ رہے گا کیونکہ پہلے طبقہ کی حالت تو یہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنے آپ کو الگ رکھنا چاہتا ہے چاہے اس کوشش میں صورت حال مضحکہ خیزہی کیوں نہ ہوجائے چنانچہ ہندؤں میں چھوت چھات اورمسلمانوں میں مشابہت سے بچنے کا جذبہ اکثر ایسی ہی صورت پیدا کردیتا ہے ،شیخ محمد عبد اللہ وزیر اعلیٰ کشمیرراوی ہیںکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی دو قوموںکی تھیوری کے جوازمیں ان کے سامنے یہ قصہ بیان کیا کہ ایک دفعہ غالباً پنڈت مدن موہن مالوی سے ایسے وقت ملنے آئے جب کہ قائد اعظم کھانا کھانے بیٹھ رہے تھے انہوں نے پنڈت جی کو میز پر ہی بلالیااورچونکہ میز پر کچھ سبزیاںبھی موجود تھیں،پنڈت جی کو کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی ،پنڈت جی نے کہا کہ مجھے آپ کے ساتھ بیٹھ کر سبزی کا کھانا کھانے میںکوئی ترددنہیںلیکن میز پوش اورنیچے سے قالین ہٹوادیںکیونکہ ہمارے نزدیک چھوت کپڑے کے ذریعہ لگتی ہے ،آپ کی چھوت میز پوش اورقالین کے ذریعہ سفر کرتی ہوئی مجھ تک آسکتی ہے ۔
    دومشہور مسلمان عالموںکا قصہ ہے کہ ان پرکچھ ایسی افتاد پڑی کہ میز کرسی پرکھانا کھانے کے لئے مجبور ہوگئے بیٹھنے کو میز کرسی پر بیٹھ گئے مگر آنکھوںہی آنکھوںمیں سوال وجواب ہونے لگے اورایک دوسرے سے گویا یہ کہا جانے لگاکہ میز کرسی پر تو کرسٹان کھانے کھاتے ہیں ہم بھی میز پر کھائیں گے تو ان کی مشابہت ہوجائے گی ۔ آخرایک مولانا کویہ ترکیب سوجھی کہ کرسی پر معمول کے مطابق پیرلٹکاکرنہ بیٹھیںبلکہ اکڑوںیا آلتی پالتی مار کربیٹھ جائیں،ہر چند کہ یہ صورت مضحکہ خیزہوگی لیکن کرسٹانوں کی مشابہت سے تو بچ جائیں گے ۔
    دوسرے طبقے کے پیش نظر ہمیشہ اسلام کا یہ اصول رہتا ہے کہ بنیادجواز ہے اورناجائز صرف وہی چیزیں ہیں جن کی صاف طورپرنشان دہی کردی گئی ہواورجن سے روک دیا گیا ہوچنانچہ یہ لوگ غیر عرب ممالک کے ان تمام علوم وفنون اوررسم ورواج کو اپنانے میںہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے جو اسلام کے بنیادی اصولوںسے نہیں ٹکراتے ۔
    تیسرا رویہ اس طبقہ کا ہے جو نیا نیا مسلمان کیا جاتا ہے اورجائز ناجائز کی بحث سے الگ اپنے قدیم رسم ورواج کو یکسر چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا ،ہندوستان کے بت پرست عربوںکی طرح صرف روٹی ،بیٹے اورجنگ جیتنے کے لئے دیوی دیوتاؤںکو نہیں پوجتے تھے ،ان کے ہاں دنیا اورآخرت کے بارے میںباقاعدہ ایک فلسفہ تھا اوراپنے عقیدے میں وہ اتنے راسخ تھے کہ حضرت امیر خسروؒ ان کی مثال دے کر مسلمانوں کو شرم دلاتے تھے کہ یہ لوگ بیجان پتھروںسے ایسی عقیدت رکھتے ہیں کہ تم اپنے حی اورقیوم اللہ کی عبادت میں ان کی شیفتگی اوروارفتگی کونہیں پہنچتے ،بے شمار رسوم ان ہندوؤںکے مزاج کا حصہ ہیں اورمسلمان ہونے کے بعدبھی وہ ان رسوم کو آسانی سے ترک نہیں کر سکتے ان میں سے اکثر رسوم مشرکانہ ہیں اوراسلام کے بنیادی اصولوںسے ٹکراتی ہیں اس لئے اس عجیب صورت حال کا سامنا اورسانپ کی موت اورمکڑی کا سامان اس طرح کیا گیا کہ خفیف سے ردو بدل اورناموں کی تبدیلی ملے خود ان مشرکانہ رسوم کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش ہوئی مثلاً بچوں کی سلامتی اوردوسری مرادوںکے لئے دیوی دیوتاؤںکے سامنے منت کے دئے جلاتے ہیں یہ کام چھوڑا نہیں گیا بس جگہ بدل دی ،مندر کے بجائے مسجد اوردرگاہ میںاس مقصدسے چراغ روشن کئے جاے لگے ، میرے علم میں نہیں ہے کہ مسجداورچراغ کا یہ مصرف ہندوستان کے علاوہ کسی اورمسلمان ملک میں بھی ہو۔
    حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے ایک برہمن کا قصہ بیان کیا ہے جس کا سارامال اسباب حاکم نے ضبط کرلیا تھا اوروہ بالکل کنگال ہوگیا تھا مگر پھر بھی خوش تھا اورمگن تھا اورسب سے کہتا تھا کہ دولت چلی گئی توکیا ہو ا ، میرا جنیئوتو میرے پاس ہے !ایسے لوگ جب مسلمان ہوتے تھے تو جنیئوکا تصورکسی طرح ان کے ذہن سے نہیں نکلتا تھا اس کا علاج مبلغین نے یہ کیا کہ ان کے گلے میں سبز رنگ کا ایک ڈوراڈالا اورکہا کہ یہ حضرت خواجہ صاحب اجمیری کی بدھی ہے ۔یہ بدّھی اب کئی رنگوںکی ہوگئی ہے اوراس کو کلاوہ کہنے لگے ہیں فاتحہ کی شیرینی کے ساتھ کچے سوت کے یہ لال پیلے دھاگے بھی رکھے جاتے ہیں اورفاتحہ کے بعد ان کو بطور تعویذگلے میںڈال لیا جاتا ہے ۔
    برکت اورصحت وسلامتی کے لئے بچے بوڑھے ،ا نہیں مستقل نہیں پہنا جاتا ،کچھ دن کے بعداتار دیتے ہیں اوردریا ،تالاب یا کنویں میں ڈال دیتے ہیں اوراسے کلاوے کو ٹھنڈاکرنا کہتے ہیں ۔
    قدیم ہندوستان میں جب کہ راستے غیر محفوظ اورسفر دشوار تھا ،کوئی شخص تیرتھ کی یاتراکاارادہ کرتا تو بطورنشانی ایک چھڑی میںکپڑالپیٹ کرہاتھ میں لے لیتا ،یہ چھڑی یاترا کی علامت ہوتی تھی اوراسے دیکھ کر یاترا کا ارادہ رکھنے والے دوسرے لوگ بھی ساتھ ہوجاتے تھے اورایک بڑا قافلہ بن جاتا تھا اس طرح متعدد چھڑیاںکسی اہم مقام پر جمع ہوجایا کرتی تھیںاورچھڑیوںکے یہ قافلے مل کر ایک ساتھ سفر کرتے تھے ،راستے بھر ان مذہبی زائرین کی آؤبھگت ہوتی تھی اور چو ر ڈاکو بھی ان کااحترام کرتے تھے اورراستہ چھوڑدیتے تھے ،ہندوستان کے نو مسلمو ںنے اس رسم کو حضرت خواجہ صاحب اجمیری ؒ اوردوسرے بزرگوںکے عرس میں شرکت کیلئے اپنا لیا، گاؤں گاؤںسے چھڑیاں چلتیں اورزیارت کو پہنچتیں،اجمیرجانے والی چھڑیاںٹھیک ۱۷؍جمادی الثانی کو دہلی آجاتی ہیں اور حضرت خواجہ صاحب اجمیری ؒ کے جانشین حضرت خواجہ قطب صاحب ؒ کے مزار پر مہر ولی پر چھڑیوںکامیلہ لگتاہے اورپتوں کے دَونوںمیں زردہ رکھ کر نیا زدلائی جاتی ہے اور اس چھوٹے سے دَونے کو’’ خواجہ دیگ‘‘کہتے ہیں،دوسرے دن سبز رنگ کے ایک بڑے اسلامی جھنڈے کی قیادت میںیہ قافلہ جسے ’’خواجہ کی مہندی ‘‘کہتے ہیں،اجمیر شریف روانہ ہوتا ہے اورعرس سے پہلے وہاںپہنچ جاتا ہے راستے بھر اس قافلہ کی خاطر تواضع ہوتی ہے ، جھنڈے کے نیچے گیت گائے جاتے ہیں جنہیں’’خواجہ کے سوپے‘‘کہتے ہیں۔ریل،موٹراورہوائی جہازکے اس نئے زمانہ میں بھی یہ رسم قائم ہے اورایک چھوٹاسا قافلہ فقراء کے ساتھ آج بھی پیدل اجمیر جاتا ہے ۔
    کعبے کا طواف عربوںکی بہت پرانی رسم تھی جو بت پرستی کے عہدمیں بھی جاری رہی ۔قرآن نے مسلمانوں کو اس کی اجازت دے دی تھی ۔کعبے کے غسل کوبھی روکا نہیںگیا،اسلام جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر دوسرے ملکوںمیں پہنچاتو وہاں طواف اورغسل کی قسم کی کوئی رسم غالباً موجود نہیں تھی اس لئے وہاںکے نو مسلموںنے اس کو اپنی دیسی رسم نہیںبنایااورطواف وغسل کعبے تک محدود رہا لیکن ہندوستان میں مندر کی پرکرمااورمورتی کو اشنان کرانے کا رواج تھا ،یہاںکے نو مسلموںسے مندر اورمورتیاںچھوٹیںلیکن یہ رسم نہیں چھوٹی ۔بزرگوںکی قبروںکوگلاب کیوڑے سے غسل دینا اوران کا طواف کرنا اورصندل وپھول چڑھانارواج پاگیا ،دکن کی درگاہوںمیں تو عرس کی خاص رسم ہی صندل مالی کی ہوتی ہے اوراس صندل کا جلوس نکالا جاتا ہے اورمزار پر چڑھا ہوا صندل بطورتبرک استعمال ہوتا ہے لفظ صندل کے محلول میں رنگ کر کپڑے کی ایک پٹی بطورتبرک زائرین کے سرپر باندھی جاتی تھی اب اس نے باقاعدہ دستاربندی کی صورت اختیار کرلی ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مندر میںتبرک کے جو ٹیکے اورقشقے لگائے جاتے تھے اس کا بدل یہ صندل کی پٹی تھی ۔
    محرم کی عزاداری میںتعزیوںکے جلوس کا جو طریقہ ہے وہ ہندوستانی ہے ،ہندوستان میںتقسیم کار کے لئے پیشہ وروںکی بہت سی برادریاںوجود میں آئی تھیں۔ان میں سے ہر پیشے سے متعلق فنکاروںنے یہ تعزیہ بنانے میں اپنی مخصوص مہارت کی نمائش کی ۔مثلاًروئی کا تعزیہ ،موم کا تعزیہ ،ٹین کا تعزیہ ،ہرے جو اوررائی کا تعزیہ ،مٹی کا تعزیہ ،مختلف پیشوںسے متعلق صناعی کے مظاہر ے ہوتے ہیں ۔
    ہندوستان میں رائج رسوم کا اتنا اثر مسلمانوں کے ذہنوںپر رہاکہ انہوں نے اپنے بعض تاریخی واقعات کوبھی ان رسوم کی روشنی میں دیکھا ،چنانچہ جب کربلا کا حال بیان کیا گیا اورمرثیے لکھے گئے تو ہندوستانی رسوم مثلاً مہندی کی رسم کا بھی تذکرہ آیا ،حالانکہ یہ رسم عربوں میں نہیں اوراہل بیت میں تو یقینانہ ہو گی ،میر انیس وغیرہ کے مراثی میں تمام مناظراورجذبات ہندوستانی ہیں۔
    ہندولڑکی کا حصہ چونکہ باپ کی متروکہ جائیدادمیں نہ تھا اس لئے ماں باپ بھائی اوردیگررشتہ دارمختلف بہانوںسے اس کی تلافی کرتے رہتے تھے ،تیگ کی رسم بھی غالباً لڑکیوںکو نوازنے اوران کو رقم دینے کے لئے ایجاد ہوئی تھی بی بی کی صحنک نے بھی مسلمانوںمیں کچھ اسی طرح کی حیثیت اختیارکر لی ۔یعنی ہر تیج تیوہارکے موقع پر میکے سے لڑکی کے ہاں فاتحہ اورنیازکا کچا سامان بہت بڑی تعدادمیں سیدھے کے نام سے بھیجا جاتا ہے یہ سامان مختلف قسم کا ہوتا ہے اورفاتحہ کی ضروریات سے یقینابہت زیادہ ہوتا ہے اورایک طرح سے یہ لڑکی کی امداد تیج تیوہارپر ہوتی ہے ۔
    شعبان کی پندرھویںتاریخ مسلمانوںمیں عبادت اورقبرستان کی زیارت کے لئے مخصوص تھی ،کچھ اس طرح کا تصوربھی تھا کہ مردو ںکی روحیںاس روز اپنے ورثاء اورگھروالوںکی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔قرآن خوانی اورخیر خیرات کے ذریعہ مُردوںکو ایصال ثواب کا دستورتھا ۔
    خوشی اورایصالِ ثواب کے اسلامی تصورکا ملاپ یہاں کناگت کی ہندو رسم سے ہوا اورشب برات نے ایک تیوہارکا روپ دھارکرکر عجیب عجیب طرح کے خیالات اوررسوم کو جنم دیا،مکانات لیپے پوتے جانے لگے ،آتش بازیاں چھوٹنے لگیںاورخوشی کے ساتھ یہ وہم بھی اس میں شامل ہوگیا کہ آتش بازی کے بغیرمردوںکی روحیں واپس نہیںجائیں گی وغیرہ ۔اس موقع پر قدیم زمانے میںجو تُک بندیاںکی جاتی تھیںان سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی ماحول نے شب برأت کوکیارنگ دے دیا تھا۔مثلاً ایک تُک بندی ہے ۔
    آئی شب برأت ………بہو ساس سے لڑی ………ساس بہوسے لڑی………… … کوئی لیپے ہے کوئی پوتے ہے کوئی کمہارکے کھڑی ………کمہار رے کمہارمجھے ہنڈیا دے بڑی …… آئیں گے میرے مُردے چھوڑیں گے پھول جھڑی ‘‘۔
    جاگیر داری عہد میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا تھا جس کے پاس بے محنت کا پیسہ اورفالتووقت بہت تھا ، وقت گذاری کے لئے جہاں گنجفہ،شطرنج ،چوسراورپچیسی جیسے گھریلوکھیل تھے ،وہاں نت نئی رسوم بھی ایجاد کی جاتی تھیں، ہندوستان چونکہ ہمیشہ سے رسوم کا گہوارہ رہا ہے اس لئے مسلمان امراء اورجاگیرداران بنی بنائی ایجاد شدہ رسوم کو فوراً اپنالیتے تھے ،بعض اوقات سماجی دباؤاورفضاء وماحول سے متاثرہوکربھی انہیں اختیار کیا جاتا ،مثلاً مردے کے اورسوئم چالیسویںوغیرہ کے موقع پر پوری برادری کو کھانا کھلانا اورروٹی دینا…یا جس طرح پنڈت کو دچھنا دی جاتی ہے اسی طرح مرنے والے کی طرف سے پیر یا مسجدکے مولوی کو جوڑااوررقم دینا ۔
    مقامی توہمات کے زیر اثرچیچک اوردوسری وباؤںکے وقت مسلمان بھی اپنے دروازوں پر آم کے پتے لٹکاتے تھے اورٹونے ٹوٹکے کرتے تھے ۔ایک زمانے میں ستیلا دیوی کی پوجا میں مسلمان عورتوںکی ڈھکی چھپی شرکت اپنے ہندو پڑوسیوںکے ساتھ اس طرح ہونے لگی تھی کہ حضرت مرزا مظہر جان جانا ں کو اس کے خلاف مہم چلانی پڑی تھی ،مسلمان عورتیں چیچک کی بیماری کو ماتا کہنے لگی تھیںجو ستیلا دیوی کی خو شامد کا ایک طریقہ تھا ، بچوں کے سرپر چوٹیاں رکھنا ایک خاص مدت کے بعدان کو منڈانا آج تک مروج ہے آخری دور کے مغل شہزادوںمیں سے جو تخت کے امید وار ہوسکتے تھے وہ ملکی رواج کے احترام میں ختنہ نہیں کراتے تھے ۔
    ہولی ،دسہرہ ،خالص ہندوتیوہارہیں ،اکبرکے زمانہ میں ان کامحل میں رواج ہوااورپھر رعیت نے بھی کثیر تعدادمیں اسے بلا تکلف اختیار کرلیا اورجنہوں نے اختیار نہیں کیا ان کے یہاں ان کی تمثیلیںاورکہاوتیںاس طرح لٹریچراورگفتگوکے تانے بانے بن گئیںکہ بالکل مسلمانوں کی چیزیںمعلوم ہونے لگیں،خالص نعت کے شعروںمیں’’بانسری‘‘کا ذکر آیا، ہولی کے گیت قوالی میں گائے جانے لگے ۔
    آؤ رے چشتیو، ہولی کھیلو
    خواجہ پیا مورے آنگن آئے
    تیس چالیس برس پہلے تک دہلی کے مسلمانوں میں یہ رسم تھی کہ یوپی خاص کر لکھنؤکی طرف بھی اس کا رواج تھا کہ دسہرے سے دس دن پہلے محلے اورگاؤں کے ہر یجن مٹی کا ایک چھوٹاسا پتلا بناتے تھے اوراسے تین لکڑیوںکے اسٹینڈپر کھڑا کرکے ’’ٹیسو‘‘نام دھرتے تھے ،یہ ٹیسوروزانہ دس دن تک شام کے وقت مسلمان گھروں میں جاتا تھا اوراس کے سامنے گیت گائے جاتے تھے اورتُک بندیاں ہوتی تھیں۔یہ تک بندیاں اور گیت عام طورپرمذہبی نہیں ہوتے تھے اس لئے ثقہ لوگ بھی ان پر اعتراض نہیں کرتے تھے بلکہ کسی مجبوری سے ٹیسووالے ناز کرجاتے تھے اوردوسرے دن شکایت اورتقاضاہوتا تھا ،ٹیسوکے سامنے لحن سے پڑھی جانے والی تک بندیوںمیں تاریخ ،جغرافیہ ،مقامی سیاست ،سب کچھ زیر بحث آتا تھا اورمخالف دھڑے گاؤں کے ایک دوسرے کی ہجو ان تک بندیوںمیں کراتے تھے ،۱۸۵۸ئ؁ کے حالات بھی عرصے تک ان میں بیان کئے جاتے رہے ،مثلاً ایک تک بندی تھی۔
    پنجاب سے آئے پانچ سوار
    جیٹھ مہینہ دن اتوار
    پانچوں نے آکر کیا جو غل……جا پہنچے جمنا کے پل ……جمنا کے پل پر بٹی تھی روٹی …… واںکے لٹ گئے سارے دھوبی ……دھوبی لٹے توسچی جان ……چوک میں لٹ گئیں چار دوکان …… دوکان لٹی تو مچی دہائی ……خیر صاحب سیٹن پرآئی ……سیٹن نے تو یہی کہی ……میرے بس کی نا رہی … کالے نے بولی بولی……سیٹن کے ماروگولی ……گولی لگتے ہی ہوگیا لیٹ ……سیٹن کی میم کا پھوڑدو پیٹ……پیٹ پھوٹتے ہی پکڑی چھاتی ……سب دنیا مطلب کی بانسی……۔
    ٹیسوکے گیت دسہرے کے موقع پر لڑکے بالے گاتے ہیں ان کے ساتھ جھانجی والیں آتی ہیں جھانجی مٹی کی ہانڈی ہوتی تھی جس میںبہت سے چھیدکرکے اندردیا جلایاجاتا تھااوراسے سر پر رکھ کر رقص کیا جاتا تھا ،کمال یہ ہوتا تھا کہ انتہائی تیز رقص کے باوجوددِیا بجھنے نہ پائے ۔ہانڈی کے سوراخوںمیں سے دئے کی روشنی بھلی معلوم ہوتی تھی ۔جھانجیاںدس روز تک لڑکیاںلے کرآتی تھیںاورزنانے میں دعائیہ گیت گاتی تھیں۔
    بسنت کا موسمی تیوہارہندوستان کے مسلمانوںمیں آج بھی بڑے جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اورروایت ہے کہ اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنے چہیتے اورجوان صالح بھانجے کی ناوقت موت کے بعد بہت رنجیدہ رہا کرتے تھے حضرت امیر خسروؒ نے ان کا دل بہلانے اورخوش کرنے کی یہ ترکیب نکالی کہ بسنت کے دن سرسوںکے پھول لیکرآئے اورپیر ومرشدکے قدموںمیں رکھ کر جھومنے لگے اوربولے ؎
    عرب یار توری بسنت منائی
    ہندواپنے بت پر پھول چڑھانے جارہے ہیں ،میں اپنے صنم کی نذرکرنے کے لئے پھول لایا ہوںاورپھریہ شعر گانے لگے ؎
    اشک ریز آمدند ابر و بہار
    ساقیا گل بریزد بادہ بہار
    اس دن سے آج تک ہندوستان کی چشتی درگاہوںمیں یہ رواج ہے کہ بسنت کے دن ہندؤںکے ساتھ مسلمان بھی بسنتی کپڑے پہنتے ہیںیا کم از کم ایک بسنتی رنگ کا رومال ضرورپاس رکھتے ہیں اورسرسوںکے پھول ہاتھوںمیں لئے گاتے بجاتے ،جلوس کی شکل میں بزرگوںکے مزارات پر جاتے ہیں اورپھول چڑھانے کے بعدوہاںقوالی ہوتی ہے ،بہت سے شعراء نے اس موقع پر گانے کے لئے شعر کہے ہیں،حضرت امیر خسروؒ کے علاوہ حضرت شاہ نیاز ؒ بریلوی اوربہادر شاہ ظفرکی کہی ہوئی بسنت کی چیزیںخاص طورپر مقبول ہیں۔
    دو تہذیبوںکے ملنے سے ہندوستان میں ایک دلچسپ صور ت حال ہے ایک طرف بعض ہندوبزرگوںکو نئی نسل سے شکایت پیدا ہوتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ؎
    رام جی نے بیٹا دیا وہ بھی مسلمان کا
    پوری کچوری کھاتا نئیں ہے ٹکڑا مانگے نان کا
    اوردوسری طرف مسلمان ،نان چھوڑکرپوری کچوری کی ورائٹی سے اپنے دسترخوان سجارہے ہیں،شمالی ہندوستان خاص کردہلی کے مسلمان گھروں میںعید کے دن خستہ کچوریاںبھی اتنی ہی ضروری اوراہم سمجھی جاتی ہیں جتنی سوئیاںاورشیرخرماء دسترخوان پر الگ الگ پلیٹوںمیں کھانا بھی مسلمانوں کو شاید ہندوستان ہی کی دین ہے یہاں تو الگ الگ کھانے کی ضرورت اونچ نیچ اورچھوت چھات کے تصورسے تھی لیکن مسلمانوںنے اسے ایک نفاست کے طورپراپنایا۔ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن نے ہمیں کھلی چھٹی دے دی ہے …… چاہے الگ کھائیں،چاہے مل کر کھائیں۔اگر سالن سوکھا ہو تو مل کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن شوربے دار سالن میںسب کاایک ساتھ انگلیاںڈالنا کراہت پیدا کرتا ہے ۔
    عربوں میں نمک کو ابوالفتح یعنی ابتداء اورپہل کرنے والی چیز اورلوٹے اورطشت کو ابوالیاس کہتے تھے یعنی یہ مایوسی کی علامت ہے اس کے بعد کھانے کی کوئی چیزنہیں لائی جائے گی ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم ہندوستانیوںکا ابوالیاس پان ہے کہ اس کو سب سے آخر میںپیش کرتے ہیں،مسلمانوں نے پان سے متعلق ہندوستانی رسموںکو جس بڑے پیمانے پر اختیار کیا غالباً کسی رسم کے سلسلہ میں یہ کیفیت نہیں رہی ، دکن میں آج بھی یہ طریقہ ہے کہ مہمان کوآتے ہی پان نہیں دیا جاتا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بس ! مہمان نوازی تمام ہوئی ۔اب آپ تشریف لے جاسکتے ہیںحضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری ؒ مرید ہونے کی نیت سے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے پاس آئے تھے لیکن حضرت نے ان کے لئے فوراً پان منگوایااوراس سے شیخ منیریؒ نے یہ نتیجہ نکالاکہ حضرت نے میری بیعت قبول نہیں کی اوررخصت کا حکم دے دیا۔
    بیڑا اٹھانے ،کل کے لئے پان بنانے اوراپنی یاد دلانے کی کہاوتیںاورلگاوٹیںمسلمانوں کی تہذیب اورلٹریچرکی جان ہیں،شادی غمی ہرموقع پر پان کا استعمال ہوتا ہے ،شادی بیاہ کے موقع پر دو گھرانوںمیں جولین دین ہوتا ہے وہ پان کے بغیرمکمل نہیں سمجھاجاتا،رشتہ مانگنے جاتے ہیںتو مٹھائی کے ساتھ پان ضرور ہوتے ہیںاوراگر سامنے والے نے پان رکھ لئے تو یہ امیدافزاء علامت ہوتی ہے ،نو مولودکو دیکھنے جاتے ہیں تب بھی پان لیجاتے ہیں،قبرستان سے گھرواپس آتے ہیںتب بھی اکثرجگہ میت کا وارث پان ہاتھ میں لے کر اپنی چوکھٹ پر قدم رکھتا ہے کہ یہ آبادی اورہر ے بھرے رہنے کی نشانی سمجھاجاتا ہے ۔
    ایام غراء میں بہت سے لوگ پان چھوڑدیتے ہیں اورپان کی طلب دھنئے کی بھنی ہوئی گری ،خربوزے کے بیجوںاورکترے ہوئے کھوپرے سے تیار کردہ کوٹے سے پوری کرتے ہیں۔سچ پوچھئے تو پان نے ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طرح کا تقدس حاصل کرلیا ہے اوریہ برگ سبزتحفہ ٔ درویش بن گیا ہے ،سماع کی محفلوںمیں کھانا پینا معیوب سمجھاجاتا ہے لیکن کلے میں گلوری دبی ہوئی ہو تو زیادہ اعتراض نہیں ہوتا ۔نئے لوگوں میںبیڑی سگریٹ پان ہی کا قائم مقام ہیں لیکن بزرگوںکے سامنے بیڑی سگریٹ پینا برا سمجھاجاتاہے۔ہمارے علماء کرام میں پان مقبول نہ ہوتا تو تمباکوبھی ان کے منھ نہ چڑھتا ۔
    لباس میں دھوتی یا تہ بندکا رواج ہندوستان کے طول وعرض میں ہے اورہر مذہب کے ماننے والوں میں ہے بالکل شمال اوربالکل جنوب میں اس کو باندھنے کی وضع کم وبیش دیسی ہی ہے جیسی دوسرے اسلامی ممالک میںپائی جاتی ہے ،لیکن ان ممالک میںشلواراورپاجامے اورنیچی قباؤںکا رواج بھی ہے اورتہ بندگھریلوسہولت کا لباس زیادہ تر ہے اس لئے اس کو باندھنے کی وضع بھی ایسی ہے کہ صرف فرصت میں مفید ہوسکتی ہے ،بھاگ دوڑ کی زندگی میں سارے کام اس سے سہولت کے ساتھ نہیں ہوسکتے اس لئے ہندوستان کے ان علاقوںکے مسلمانو ں نے جہاں شلوارپاجامے کا رواج نہیں تھا ،دھوتی بالکل ہندوانی وضع پر باندھی کیونکہ اس سے کام کاج میں آسانی ہوتی تھی ،خاص کر قدیم زمانے میں گھوڑے کی سواری اورموجودہ دور میں سائیکل کی سواری میں سہولت رہتی ہے ، ساڑھی کا رواج بھی خالص ہندوستانی لباس ہے ۔
    عجیب بات ہے کہ آج کل جب کہ قومی دھارے کا بہت شور ہے ،گنگا الٹی بہنے لگی ہے اورمسلمانوںکی اکثریت ہندوستانی رسم ورواج سے چونکتی ہے اورپرہیزکی مہم بھی کچھ عرصہ سے چل رہی ہے حالانکہ اس زمانہ میں جب کہ مسلمان جزوکل کے مختار تھے ،یکجہتی کا عمل بڑی تیزی سے جاری تھا ،مسلمان عورتوں نے اسلامی قمری مہینوںکے عربی نام تک بدل دئے تھے اوراپنی سہولت اورآسانی کے لئے صفر کانام تیرہ تیری ،ربیع الاول کا نام بارہ وفات ،ربیع الثانی کا نام میراں جی ،جمادی الاول کا مدار،جمادی الثانی کا خواجہ معین الدین ،شعبان کا شب برأت ، شوال کا عید،ذی قعدہ کا خالی اورذی الحجہ کا بقرعیدرکھ لیا تھا اورآج بھی عورتوںمیں یہی نام مقبول ہیں اورزبانوںپر چڑھے ہوئے ہیں ،محرم،رجب اوررمضان کے نام بدلنے کی ضرورت اس لئے نہ سمجھی گئی کہ ان مہینوں میں جو رسوم ہوتی ہیں ان کی نمائندگی بڑی حد تک ان ناموں سے ہوجاتی ہے ۔
    قدیم زمانے میں پڑھے لکھے امراء کے طبقے اوراہل علم دیندارلوگوں میں بھی امیرچھجواوربی بی رانی پسندیدہ نام تھے اب اس طرح کے نام دیہاتی اوران پڑھ دین سے کم واقف مسلمانوںکا حصہ رہ گئے ہیں ،پہلے مسجدوںکی تعمیر میںہندو کاریگروںکو اپنے فن کے مظاہرے کی پوری اجازت دی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے آسائش اورضرورت میں خلل پڑتا تھا ۔جیسے کہ احمدآبادکی جامع مسجدکہ اس میں ہندوطرز کے ستون اس طرح قائم کئے گئے ہیںکہ صف بندی اورستون کے سامنے سجدہ کرنے میں سخت دشواری ہوتی ہے لیکن اسے گوارا کیا جاتا تھا بعض مسجدوںکے کتبے عربی فارسی کے بجائے سنسکرت اوردیگر مقامی زبانوںمیں لکھے جاتے تھے ،برہان پور کی عالیشان جامع مسجد کے سنسکرت کتبے اس کا ایک خوبصورت نمونہ ہیں ۔
    مسجدوں کے تین گنبدجہا ں حسن توازن کا نمونہ پیش کرتے ہیںاوردرمیان کے گنبدکی پیل روکتے ہیںوہیں ترشول اورمندروںکی تین مروجہ گمٹیوںکو بھی یاددلاتے ہیں مسلم عمارتوںمیں کنگورے دار محراب بھی ہندوستانی اثرات کے تحت وجود میں آئی ۔
    سلطان محمد غوری کے زمانے کے بعض سکے ایسے دریافت ہوئے ہیں جن پر عبارت ہندی میںہے اورمزیداری یہ کہ سلطان کے ساتھ پر تھوی راج کا نام بھی درج ہے یہ سکے غالباً دو جنگوںکے درمیان کے زمانہ میں ڈھالے گئے ہوںگے ۔
    شادی غمی کی رسموںمیں سے چند نمایاںرسمیںیہ ہیں کہ ہندؤںمیں تیسرے دن مرگھٹ سے راکھ اورہڈیاںچنی جاتی ہیںاورانہیںپھول چنناکہتے ہیں،مسلمانوںمیں سوئم کی فاتحہ اورقرآن خوانی بھی پھول سے موسوم ہوئی خان آرزونے کہا تھا ؎
    رکھے سیپارۂ گل کھول کے عندلیبوںکے
    چمن میں آج گویا پھول ہیں تیرے شہیدوں کے
    اس دن پھولوںکی چادر اورصندل زعفران وغیرہ سے مرکب خوشبوقبر پر بھیجنا ضروری قرارپایا،تیجے کے روز فاتحہ کے بعد پھولوںسے بھری رکابی اورصندل زعفران کی خوشبوکا پیالہ مجلس کے تمام شرکاء کے سامنے لایاجاتا ہے اورہر شخص ایک ایک پھول قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌپڑھ کر خوشبو کے پیالے میں ڈال دیتا ہے اوریہ خوشبو پھولوںکے ساتھ قبر کی مٹی میںسرہانے کے رخ دفن کردی جاتی ہے ۔
    لڑکے کے بالغ ہونے کے بعد مونچھوںکو صندل لگانا اورمونچھوںکے کونڈے کرنا، ایام حمل میں ہونے والی ماںکی گود ترکاری اورمیوؤںسے بھرنا ،بچے کی پیدائش کے بعد زچہ گیر یاںگانا جن میں زیادہ تر کرشن جی کے جنم کی مناسبت کے گیت ہوتے ہیں،زچگی کے چھ دن بعد چھٹی چھوچھک کی رسم کرنا جس میں زچہ بچہ غسل کرتے ہیںاورلڑکی کے میکے سے بچے کیلئے اورسمدھیانے والوںکیلئے تحائف آتے ہیں،سب ہندوستانی رسمیںہیں ۔
    شادی بیاہ کی تمام رسمیںہندوستانی اثر سے بھری پڑی ہیںاوریہ اتنی کثرت سے ہیں اورہندوستان کے علاقے علاقے میں ان کے اندراتنا تنوع ہے کہ اس کے تذکرے کے لئے شایدایک علیحدہ مضمون یا علیحدہ کتاب کی ضرورت ہواس لئے ان کی طرف صرف اشارہ کرنا کافی ہوگا ،اسلام میں تو منادی صرف ایجاب وقبول ہے باقی جو کچھ ہے سب عجمی،خاص کر ہندوستانی ہے ،شادی سے پہلے منگنی،پھر بیاہ مانگنا، مائیوںبٹھانا،ابٹن کھیلنا، برات کوروک کرنیگ مانگنا،شادی کے بعد چوتھی چالے کی رسمیںاول سے آخرتک ہندوستانی ہیں اور مسلمانوں میں عام طورپرمروج ہوگئی ہیں ۔
    حیدرآبادکے امراء میں تو وہ شادی شادی نہ سمجھی جاتی تھی جس کی رسمیںایک ماہ تک نہ ہوتی رہتی تھیںاوراس طرح کے چونچلے بکثرت ہوتے تھے کہ پیغام کے ساتھ دل پکاکربھیجاجاتاتھا اوراس کے جواب میںاگرقبول پک کر آتی تھی تو رشتہ منظور سمجھا جاتا تھا ،مہر اورطلاق کے اسلامی قانون کی بے حرمتی اس طرح ہوتی تھی کہ مہر میں ایک بڑی رقم کے ساتھ مچھرکی تولہ بھر چربی بھی لکھی جاتی تھی کہ نہ تو من تیل ہو اورنہ رادھاناچے ،نہ یہ رقم اورمچھر کی چربی فراہم ہونہ دل پھینک شوہربیوی کو طلاق دینے کی ہمت کرے لیکن ان میںسے اکثررسمیںمعاشی دباؤاوراصلاحی تحریکوںکے زیراثررفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں اوردم توڑرہی ہیںاورزندہ رہنے کے آثاربس اسلام کے سادہ رسم ورواج ہی کے نظر آتے ہیں ۔
     
  3. مفتی ناصرمظاہری
    Offline

    مفتی ناصرمظاہری ممبر

    Joined:
    Feb 5, 2013
    Messages:
    9
    Likes Received:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: :::::: غیر مسلموں کے تہواروں میں شمولیت :::::::

    ہندوستانی اثرات
    ہندوستان کے مشترکہ کلچر کی نشوو نمامیں تین قسم کے رویے نظر آتے ہیں ایک رویہ اس طبقہ کا ہے جو بالکل الگ تھلک رہنا چاہتا ہے دوسرا طبقہ مخصوص حدود میں میل ملاپ چاہتا ہے اورتیسرا طبقہ ہر قسم کی پابندیوںسے بے نیازہوکر اورٹوٹ کر ملنے پرآمادہ رہتا ہے ،میرے پیش نظر اس مضمون میں آخرالذکردو طبقوںکا رویہ رہے گا کیونکہ پہلے طبقہ کی حالت تو یہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنے آپ کو الگ رکھنا چاہتا ہے چاہے اس کوشش میں صورت حال مضحکہ خیزہی کیوں نہ ہوجائے چنانچہ ہندؤں میں چھوت چھات اورمسلمانوں میں مشابہت سے بچنے کا جذبہ اکثر ایسی ہی صورت پیدا کردیتا ہے ،شیخ محمد عبد اللہ وزیر اعلیٰ کشمیرراوی ہیںکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی دو قوموںکی تھیوری کے جوازمیں ان کے سامنے یہ قصہ بیان کیا کہ ایک دفعہ غالباً پنڈت مدن موہن مالوی سے ایسے وقت ملنے آئے جب کہ قائد اعظم کھانا کھانے بیٹھ رہے تھے انہوں نے پنڈت جی کو میز پر ہی بلالیااورچونکہ میز پر کچھ سبزیاںبھی موجود تھیں،پنڈت جی کو کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی ،پنڈت جی نے کہا کہ مجھے آپ کے ساتھ بیٹھ کر سبزی کا کھانا کھانے میںکوئی ترددنہیںلیکن میز پوش اورنیچے سے قالین ہٹوادیںکیونکہ ہمارے نزدیک چھوت کپڑے کے ذریعہ لگتی ہے ،آپ کی چھوت میز پوش اورقالین کے ذریعہ سفر کرتی ہوئی مجھ تک آسکتی ہے ۔
    دومشہور مسلمان عالموںکا قصہ ہے کہ ان پرکچھ ایسی افتاد پڑی کہ میز کرسی پرکھانا کھانے کے لئے مجبور ہوگئے بیٹھنے کو میز کرسی پر بیٹھ گئے مگر آنکھوںہی آنکھوںمیں سوال وجواب ہونے لگے اورایک دوسرے سے گویا یہ کہا جانے لگاکہ میز کرسی پر تو کرسٹان کھانے کھاتے ہیں ہم بھی میز پر کھائیں گے تو ان کی مشابہت ہوجائے گی ۔ آخرایک مولانا کویہ ترکیب سوجھی کہ کرسی پر معمول کے مطابق پیرلٹکاکرنہ بیٹھیںبلکہ اکڑوںیا آلتی پالتی مار کربیٹھ جائیں،ہر چند کہ یہ صورت مضحکہ خیزہوگی لیکن کرسٹانوں کی مشابہت سے تو بچ جائیں گے ۔
    دوسرے طبقے کے پیش نظر ہمیشہ اسلام کا یہ اصول رہتا ہے کہ بنیادجواز ہے اورناجائز صرف وہی چیزیں ہیں جن کی صاف طورپرنشان دہی کردی گئی ہواورجن سے روک دیا گیا ہوچنانچہ یہ لوگ غیر عرب ممالک کے ان تمام علوم وفنون اوررسم ورواج کو اپنانے میںہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے جو اسلام کے بنیادی اصولوںسے نہیں ٹکراتے ۔
    تیسرا رویہ اس طبقہ کا ہے جو نیا نیا مسلمان کیا جاتا ہے اورجائز ناجائز کی بحث سے الگ اپنے قدیم رسم ورواج کو یکسر چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا ،ہندوستان کے بت پرست عربوںکی طرح صرف روٹی ،بیٹے اورجنگ جیتنے کے لئے دیوی دیوتاؤںکو نہیں پوجتے تھے ،ان کے ہاں دنیا اورآخرت کے بارے میںباقاعدہ ایک فلسفہ تھا اوراپنے عقیدے میں وہ اتنے راسخ تھے کہ حضرت امیر خسروؒ ان کی مثال دے کر مسلمانوں کو شرم دلاتے تھے کہ یہ لوگ بیجان پتھروںسے ایسی عقیدت رکھتے ہیں کہ تم اپنے حی اورقیوم اللہ کی عبادت میں ان کی شیفتگی اوروارفتگی کونہیں پہنچتے ،بے شمار رسوم ان ہندوؤںکے مزاج کا حصہ ہیں اورمسلمان ہونے کے بعدبھی وہ ان رسوم کو آسانی سے ترک نہیں کر سکتے ان میں سے اکثر رسوم مشرکانہ ہیں اوراسلام کے بنیادی اصولوںسے ٹکراتی ہیں اس لئے اس عجیب صورت حال کا سامنا اورسانپ کی موت اورمکڑی کا سامان اس طرح کیا گیا کہ خفیف سے ردو بدل اورناموں کی تبدیلی ملے خود ان مشرکانہ رسوم کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش ہوئی مثلاً بچوں کی سلامتی اوردوسری مرادوںکے لئے دیوی دیوتاؤںکے سامنے منت کے دئے جلاتے ہیں یہ کام چھوڑا نہیں گیا بس جگہ بدل دی ،مندر کے بجائے مسجد اوردرگاہ میںاس مقصدسے چراغ روشن کئے جاے لگے ، میرے علم میں نہیں ہے کہ مسجداورچراغ کا یہ مصرف ہندوستان کے علاوہ کسی اورمسلمان ملک میں بھی ہو۔
    حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے ایک برہمن کا قصہ بیان کیا ہے جس کا سارامال اسباب حاکم نے ضبط کرلیا تھا اوروہ بالکل کنگال ہوگیا تھا مگر پھر بھی خوش تھا اورمگن تھا اورسب سے کہتا تھا کہ دولت چلی گئی توکیا ہو ا ، میرا جنیئوتو میرے پاس ہے !ایسے لوگ جب مسلمان ہوتے تھے تو جنیئوکا تصورکسی طرح ان کے ذہن سے نہیں نکلتا تھا اس کا علاج مبلغین نے یہ کیا کہ ان کے گلے میں سبز رنگ کا ایک ڈوراڈالا اورکہا کہ یہ حضرت خواجہ صاحب اجمیری کی بدھی ہے ۔یہ بدّھی اب کئی رنگوںکی ہوگئی ہے اوراس کو کلاوہ کہنے لگے ہیں فاتحہ کی شیرینی کے ساتھ کچے سوت کے یہ لال پیلے دھاگے بھی رکھے جاتے ہیں اورفاتحہ کے بعد ان کو بطور تعویذگلے میںڈال لیا جاتا ہے ۔
    برکت اورصحت وسلامتی کے لئے بچے بوڑھے ،ا نہیں مستقل نہیں پہنا جاتا ،کچھ دن کے بعداتار دیتے ہیں اوردریا ،تالاب یا کنویں میں ڈال دیتے ہیں اوراسے کلاوے کو ٹھنڈاکرنا کہتے ہیں ۔
    قدیم ہندوستان میں جب کہ راستے غیر محفوظ اورسفر دشوار تھا ،کوئی شخص تیرتھ کی یاتراکاارادہ کرتا تو بطورنشانی ایک چھڑی میںکپڑالپیٹ کرہاتھ میں لے لیتا ،یہ چھڑی یاترا کی علامت ہوتی تھی اوراسے دیکھ کر یاترا کا ارادہ رکھنے والے دوسرے لوگ بھی ساتھ ہوجاتے تھے اورایک بڑا قافلہ بن جاتا تھا اس طرح متعدد چھڑیاںکسی اہم مقام پر جمع ہوجایا کرتی تھیںاورچھڑیوںکے یہ قافلے مل کر ایک ساتھ سفر کرتے تھے ،راستے بھر ان مذہبی زائرین کی آؤبھگت ہوتی تھی اور چو ر ڈاکو بھی ان کااحترام کرتے تھے اورراستہ چھوڑدیتے تھے ،ہندوستان کے نو مسلمو ںنے اس رسم کو حضرت خواجہ صاحب اجمیری ؒ اوردوسرے بزرگوںکے عرس میں شرکت کیلئے اپنا لیا، گاؤں گاؤںسے چھڑیاں چلتیں اورزیارت کو پہنچتیں،اجمیرجانے والی چھڑیاںٹھیک ۱۷؍جمادی الثانی کو دہلی آجاتی ہیں اور حضرت خواجہ صاحب اجمیری ؒ کے جانشین حضرت خواجہ قطب صاحب ؒ کے مزار پر مہر ولی پر چھڑیوںکامیلہ لگتاہے اورپتوں کے دَونوںمیں زردہ رکھ کر نیا زدلائی جاتی ہے اور اس چھوٹے سے دَونے کو’’ خواجہ دیگ‘‘کہتے ہیں،دوسرے دن سبز رنگ کے ایک بڑے اسلامی جھنڈے کی قیادت میںیہ قافلہ جسے ’’خواجہ کی مہندی ‘‘کہتے ہیں،اجمیر شریف روانہ ہوتا ہے اورعرس سے پہلے وہاںپہنچ جاتا ہے راستے بھر اس قافلہ کی خاطر تواضع ہوتی ہے ، جھنڈے کے نیچے گیت گائے جاتے ہیں جنہیں’’خواجہ کے سوپے‘‘کہتے ہیں۔ریل،موٹراورہوائی جہازکے اس نئے زمانہ میں بھی یہ رسم قائم ہے اورایک چھوٹاسا قافلہ فقراء کے ساتھ آج بھی پیدل اجمیر جاتا ہے ۔
    کعبے کا طواف عربوںکی بہت پرانی رسم تھی جو بت پرستی کے عہدمیں بھی جاری رہی ۔قرآن نے مسلمانوں کو اس کی اجازت دے دی تھی ۔کعبے کے غسل کوبھی روکا نہیںگیا،اسلام جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر دوسرے ملکوںمیں پہنچاتو وہاں طواف اورغسل کی قسم کی کوئی رسم غالباً موجود نہیں تھی اس لئے وہاںکے نو مسلموںنے اس کو اپنی دیسی رسم نہیںبنایااورطواف وغسل کعبے تک محدود رہا لیکن ہندوستان میں مندر کی پرکرمااورمورتی کو اشنان کرانے کا رواج تھا ،یہاںکے نو مسلموںسے مندر اورمورتیاںچھوٹیںلیکن یہ رسم نہیں چھوٹی ۔بزرگوںکی قبروںکوگلاب کیوڑے سے غسل دینا اوران کا طواف کرنا اورصندل وپھول چڑھانارواج پاگیا ،دکن کی درگاہوںمیں تو عرس کی خاص رسم ہی صندل مالی کی ہوتی ہے اوراس صندل کا جلوس نکالا جاتا ہے اورمزار پر چڑھا ہوا صندل بطورتبرک استعمال ہوتا ہے لفظ صندل کے محلول میں رنگ کر کپڑے کی ایک پٹی بطورتبرک زائرین کے سرپر باندھی جاتی تھی اب اس نے باقاعدہ دستاربندی کی صورت اختیار کرلی ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مندر میںتبرک کے جو ٹیکے اورقشقے لگائے جاتے تھے اس کا بدل یہ صندل کی پٹی تھی ۔
    محرم کی عزاداری میںتعزیوںکے جلوس کا جو طریقہ ہے وہ ہندوستانی ہے ،ہندوستان میںتقسیم کار کے لئے پیشہ وروںکی بہت سی برادریاںوجود میں آئی تھیں۔ان میں سے ہر پیشے سے متعلق فنکاروںنے یہ تعزیہ بنانے میں اپنی مخصوص مہارت کی نمائش کی ۔مثلاًروئی کا تعزیہ ،موم کا تعزیہ ،ٹین کا تعزیہ ،ہرے جو اوررائی کا تعزیہ ،مٹی کا تعزیہ ،مختلف پیشوںسے متعلق صناعی کے مظاہر ے ہوتے ہیں ۔
    ہندوستان میں رائج رسوم کا اتنا اثر مسلمانوں کے ذہنوںپر رہاکہ انہوں نے اپنے بعض تاریخی واقعات کوبھی ان رسوم کی روشنی میں دیکھا ،چنانچہ جب کربلا کا حال بیان کیا گیا اورمرثیے لکھے گئے تو ہندوستانی رسوم مثلاً مہندی کی رسم کا بھی تذکرہ آیا ،حالانکہ یہ رسم عربوں میں نہیں اوراہل بیت میں تو یقینانہ ہو گی ،میر انیس وغیرہ کے مراثی میں تمام مناظراورجذبات ہندوستانی ہیں۔
    ہندولڑکی کا حصہ چونکہ باپ کی متروکہ جائیدادمیں نہ تھا اس لئے ماں باپ بھائی اوردیگررشتہ دارمختلف بہانوںسے اس کی تلافی کرتے رہتے تھے ،تیگ کی رسم بھی غالباً لڑکیوںکو نوازنے اوران کو رقم دینے کے لئے ایجاد ہوئی تھی بی بی کی صحنک نے بھی مسلمانوںمیں کچھ اسی طرح کی حیثیت اختیارکر لی ۔یعنی ہر تیج تیوہارکے موقع پر میکے سے لڑکی کے ہاں فاتحہ اورنیازکا کچا سامان بہت بڑی تعدادمیں سیدھے کے نام سے بھیجا جاتا ہے یہ سامان مختلف قسم کا ہوتا ہے اورفاتحہ کی ضروریات سے یقینابہت زیادہ ہوتا ہے اورایک طرح سے یہ لڑکی کی امداد تیج تیوہارپر ہوتی ہے ۔
    شعبان کی پندرھویںتاریخ مسلمانوںمیں عبادت اورقبرستان کی زیارت کے لئے مخصوص تھی ،کچھ اس طرح کا تصوربھی تھا کہ مردو ںکی روحیںاس روز اپنے ورثاء اورگھروالوںکی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔قرآن خوانی اورخیر خیرات کے ذریعہ مُردوںکو ایصال ثواب کا دستورتھا ۔
    خوشی اورایصالِ ثواب کے اسلامی تصورکا ملاپ یہاں کناگت کی ہندو رسم سے ہوا اورشب برات نے ایک تیوہارکا روپ دھارکرکر عجیب عجیب طرح کے خیالات اوررسوم کو جنم دیا،مکانات لیپے پوتے جانے لگے ،آتش بازیاں چھوٹنے لگیںاورخوشی کے ساتھ یہ وہم بھی اس میں شامل ہوگیا کہ آتش بازی کے بغیرمردوںکی روحیں واپس نہیںجائیں گی وغیرہ ۔اس موقع پر قدیم زمانے میںجو تُک بندیاںکی جاتی تھیںان سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی ماحول نے شب برأت کوکیارنگ دے دیا تھا۔مثلاً ایک تُک بندی ہے ۔
    آئی شب برأت ………بہو ساس سے لڑی ………ساس بہوسے لڑی………… … کوئی لیپے ہے کوئی پوتے ہے کوئی کمہارکے کھڑی ………کمہار رے کمہارمجھے ہنڈیا دے بڑی …… آئیں گے میرے مُردے چھوڑیں گے پھول جھڑی ‘‘۔
    جاگیر داری عہد میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا تھا جس کے پاس بے محنت کا پیسہ اورفالتووقت بہت تھا ، وقت گذاری کے لئے جہاں گنجفہ،شطرنج ،چوسراورپچیسی جیسے گھریلوکھیل تھے ،وہاں نت نئی رسوم بھی ایجاد کی جاتی تھیں، ہندوستان چونکہ ہمیشہ سے رسوم کا گہوارہ رہا ہے اس لئے مسلمان امراء اورجاگیرداران بنی بنائی ایجاد شدہ رسوم کو فوراً اپنالیتے تھے ،بعض اوقات سماجی دباؤاورفضاء وماحول سے متاثرہوکربھی انہیں اختیار کیا جاتا ،مثلاً مردے کے اورسوئم چالیسویںوغیرہ کے موقع پر پوری برادری کو کھانا کھلانا اورروٹی دینا…یا جس طرح پنڈت کو دچھنا دی جاتی ہے اسی طرح مرنے والے کی طرف سے پیر یا مسجدکے مولوی کو جوڑااوررقم دینا ۔
    مقامی توہمات کے زیر اثرچیچک اوردوسری وباؤںکے وقت مسلمان بھی اپنے دروازوں پر آم کے پتے لٹکاتے تھے اورٹونے ٹوٹکے کرتے تھے ۔ایک زمانے میں ستیلا دیوی کی پوجا میں مسلمان عورتوںکی ڈھکی چھپی شرکت اپنے ہندو پڑوسیوںکے ساتھ اس طرح ہونے لگی تھی کہ حضرت مرزا مظہر جان جانا ں کو اس کے خلاف مہم چلانی پڑی تھی ،مسلمان عورتیں چیچک کی بیماری کو ماتا کہنے لگی تھیںجو ستیلا دیوی کی خو شامد کا ایک طریقہ تھا ، بچوں کے سرپر چوٹیاں رکھنا ایک خاص مدت کے بعدان کو منڈانا آج تک مروج ہے آخری دور کے مغل شہزادوںمیں سے جو تخت کے امید وار ہوسکتے تھے وہ ملکی رواج کے احترام میں ختنہ نہیں کراتے تھے ۔
    ہولی ،دسہرہ ،خالص ہندوتیوہارہیں ،اکبرکے زمانہ میں ان کامحل میں رواج ہوااورپھر رعیت نے بھی کثیر تعدادمیں اسے بلا تکلف اختیار کرلیا اورجنہوں نے اختیار نہیں کیا ان کے یہاں ان کی تمثیلیںاورکہاوتیںاس طرح لٹریچراورگفتگوکے تانے بانے بن گئیںکہ بالکل مسلمانوں کی چیزیںمعلوم ہونے لگیں،خالص نعت کے شعروںمیں’’بانسری‘‘کا ذکر آیا، ہولی کے گیت قوالی میں گائے جانے لگے ۔
    آؤ رے چشتیو، ہولی کھیلو
    خواجہ پیا مورے آنگن آئے
    تیس چالیس برس پہلے تک دہلی کے مسلمانوں میں یہ رسم تھی کہ یوپی خاص کر لکھنؤکی طرف بھی اس کا رواج تھا کہ دسہرے سے دس دن پہلے محلے اورگاؤں کے ہر یجن مٹی کا ایک چھوٹاسا پتلا بناتے تھے اوراسے تین لکڑیوںکے اسٹینڈپر کھڑا کرکے ’’ٹیسو‘‘نام دھرتے تھے ،یہ ٹیسوروزانہ دس دن تک شام کے وقت مسلمان گھروں میں جاتا تھا اوراس کے سامنے گیت گائے جاتے تھے اورتُک بندیاں ہوتی تھیں۔یہ تک بندیاں اور گیت عام طورپرمذہبی نہیں ہوتے تھے اس لئے ثقہ لوگ بھی ان پر اعتراض نہیں کرتے تھے بلکہ کسی مجبوری سے ٹیسووالے ناز کرجاتے تھے اوردوسرے دن شکایت اورتقاضاہوتا تھا ،ٹیسوکے سامنے لحن سے پڑھی جانے والی تک بندیوںمیں تاریخ ،جغرافیہ ،مقامی سیاست ،سب کچھ زیر بحث آتا تھا اورمخالف دھڑے گاؤں کے ایک دوسرے کی ہجو ان تک بندیوںمیں کراتے تھے ،۱۸۵۸ئ؁ کے حالات بھی عرصے تک ان میں بیان کئے جاتے رہے ،مثلاً ایک تک بندی تھی۔
    پنجاب سے آئے پانچ سوار
    جیٹھ مہینہ دن اتوار
    پانچوں نے آکر کیا جو غل……جا پہنچے جمنا کے پل ……جمنا کے پل پر بٹی تھی روٹی …… واںکے لٹ گئے سارے دھوبی ……دھوبی لٹے توسچی جان ……چوک میں لٹ گئیں چار دوکان …… دوکان لٹی تو مچی دہائی ……خیر صاحب سیٹن پرآئی ……سیٹن نے تو یہی کہی ……میرے بس کی نا رہی … کالے نے بولی بولی……سیٹن کے ماروگولی ……گولی لگتے ہی ہوگیا لیٹ ……سیٹن کی میم کا پھوڑدو پیٹ……پیٹ پھوٹتے ہی پکڑی چھاتی ……سب دنیا مطلب کی بانسی……۔
    ٹیسوکے گیت دسہرے کے موقع پر لڑکے بالے گاتے ہیں ان کے ساتھ جھانجی والیں آتی ہیں جھانجی مٹی کی ہانڈی ہوتی تھی جس میںبہت سے چھیدکرکے اندردیا جلایاجاتا تھااوراسے سر پر رکھ کر رقص کیا جاتا تھا ،کمال یہ ہوتا تھا کہ انتہائی تیز رقص کے باوجوددِیا بجھنے نہ پائے ۔ہانڈی کے سوراخوںمیں سے دئے کی روشنی بھلی معلوم ہوتی تھی ۔جھانجیاںدس روز تک لڑکیاںلے کرآتی تھیںاورزنانے میں دعائیہ گیت گاتی تھیں۔
    بسنت کا موسمی تیوہارہندوستان کے مسلمانوںمیں آج بھی بڑے جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اورروایت ہے کہ اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنے چہیتے اورجوان صالح بھانجے کی ناوقت موت کے بعد بہت رنجیدہ رہا کرتے تھے حضرت امیر خسروؒ نے ان کا دل بہلانے اورخوش کرنے کی یہ ترکیب نکالی کہ بسنت کے دن سرسوںکے پھول لیکرآئے اورپیر ومرشدکے قدموںمیں رکھ کر جھومنے لگے اوربولے ؎
    عرب یار توری بسنت منائی
    ہندواپنے بت پر پھول چڑھانے جارہے ہیں ،میں اپنے صنم کی نذرکرنے کے لئے پھول لایا ہوںاورپھریہ شعر گانے لگے ؎
    اشک ریز آمدند ابر و بہار
    ساقیا گل بریزد بادہ بہار
    اس دن سے آج تک ہندوستان کی چشتی درگاہوںمیں یہ رواج ہے کہ بسنت کے دن ہندؤںکے ساتھ مسلمان بھی بسنتی کپڑے پہنتے ہیںیا کم از کم ایک بسنتی رنگ کا رومال ضرورپاس رکھتے ہیں اورسرسوںکے پھول ہاتھوںمیں لئے گاتے بجاتے ،جلوس کی شکل میں بزرگوںکے مزارات پر جاتے ہیں اورپھول چڑھانے کے بعدوہاںقوالی ہوتی ہے ،بہت سے شعراء نے اس موقع پر گانے کے لئے شعر کہے ہیں،حضرت امیر خسروؒ کے علاوہ حضرت شاہ نیاز ؒ بریلوی اوربہادر شاہ ظفرکی کہی ہوئی بسنت کی چیزیںخاص طورپر مقبول ہیں۔
    دو تہذیبوںکے ملنے سے ہندوستان میں ایک دلچسپ صور ت حال ہے ایک طرف بعض ہندوبزرگوںکو نئی نسل سے شکایت پیدا ہوتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ؎
    رام جی نے بیٹا دیا وہ بھی مسلمان کا
    پوری کچوری کھاتا نئیں ہے ٹکڑا مانگے نان کا
    اوردوسری طرف مسلمان ،نان چھوڑکرپوری کچوری کی ورائٹی سے اپنے دسترخوان سجارہے ہیں،شمالی ہندوستان خاص کردہلی کے مسلمان گھروں میںعید کے دن خستہ کچوریاںبھی اتنی ہی ضروری اوراہم سمجھی جاتی ہیں جتنی سوئیاںاورشیرخرماء دسترخوان پر الگ الگ پلیٹوںمیں کھانا بھی مسلمانوں کو شاید ہندوستان ہی کی دین ہے یہاں تو الگ الگ کھانے کی ضرورت اونچ نیچ اورچھوت چھات کے تصورسے تھی لیکن مسلمانوںنے اسے ایک نفاست کے طورپراپنایا۔ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن نے ہمیں کھلی چھٹی دے دی ہے …… چاہے الگ کھائیں،چاہے مل کر کھائیں۔اگر سالن سوکھا ہو تو مل کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن شوربے دار سالن میںسب کاایک ساتھ انگلیاںڈالنا کراہت پیدا کرتا ہے ۔
    عربوں میں نمک کو ابوالفتح یعنی ابتداء اورپہل کرنے والی چیز اورلوٹے اورطشت کو ابوالیاس کہتے تھے یعنی یہ مایوسی کی علامت ہے اس کے بعد کھانے کی کوئی چیزنہیں لائی جائے گی ،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم ہندوستانیوںکا ابوالیاس پان ہے کہ اس کو سب سے آخر میںپیش کرتے ہیں،مسلمانوں نے پان سے متعلق ہندوستانی رسموںکو جس بڑے پیمانے پر اختیار کیا غالباً کسی رسم کے سلسلہ میں یہ کیفیت نہیں رہی ، دکن میں آج بھی یہ طریقہ ہے کہ مہمان کوآتے ہی پان نہیں دیا جاتا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بس ! مہمان نوازی تمام ہوئی ۔اب آپ تشریف لے جاسکتے ہیںحضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری ؒ مرید ہونے کی نیت سے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے پاس آئے تھے لیکن حضرت نے ان کے لئے فوراً پان منگوایااوراس سے شیخ منیریؒ نے یہ نتیجہ نکالاکہ حضرت نے میری بیعت قبول نہیں کی اوررخصت کا حکم دے دیا۔
    بیڑا اٹھانے ،کل کے لئے پان بنانے اوراپنی یاد دلانے کی کہاوتیںاورلگاوٹیںمسلمانوں کی تہذیب اورلٹریچرکی جان ہیں،شادی غمی ہرموقع پر پان کا استعمال ہوتا ہے ،شادی بیاہ کے موقع پر دو گھرانوںمیں جولین دین ہوتا ہے وہ پان کے بغیرمکمل نہیں سمجھاجاتا،رشتہ مانگنے جاتے ہیںتو مٹھائی کے ساتھ پان ضرور ہوتے ہیںاوراگر سامنے والے نے پان رکھ لئے تو یہ امیدافزاء علامت ہوتی ہے ،نو مولودکو دیکھنے جاتے ہیں تب بھی پان لیجاتے ہیں،قبرستان سے گھرواپس آتے ہیںتب بھی اکثرجگہ میت کا وارث پان ہاتھ میں لے کر اپنی چوکھٹ پر قدم رکھتا ہے کہ یہ آبادی اورہر ے بھرے رہنے کی نشانی سمجھاجاتا ہے ۔
    ایام غراء میں بہت سے لوگ پان چھوڑدیتے ہیں اورپان کی طلب دھنئے کی بھنی ہوئی گری ،خربوزے کے بیجوںاورکترے ہوئے کھوپرے سے تیار کردہ کوٹے سے پوری کرتے ہیں۔سچ پوچھئے تو پان نے ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طرح کا تقدس حاصل کرلیا ہے اوریہ برگ سبزتحفہ ٔ درویش بن گیا ہے ،سماع کی محفلوںمیں کھانا پینا معیوب سمجھاجاتا ہے لیکن کلے میں گلوری دبی ہوئی ہو تو زیادہ اعتراض نہیں ہوتا ۔نئے لوگوں میںبیڑی سگریٹ پان ہی کا قائم مقام ہیں لیکن بزرگوںکے سامنے بیڑی سگریٹ پینا برا سمجھاجاتاہے۔ہمارے علماء کرام میں پان مقبول نہ ہوتا تو تمباکوبھی ان کے منھ نہ چڑھتا ۔
    لباس میں دھوتی یا تہ بندکا رواج ہندوستان کے طول وعرض میں ہے اورہر مذہب کے ماننے والوں میں ہے بالکل شمال اوربالکل جنوب میں اس کو باندھنے کی وضع کم وبیش دیسی ہی ہے جیسی دوسرے اسلامی ممالک میںپائی جاتی ہے ،لیکن ان ممالک میںشلواراورپاجامے اورنیچی قباؤںکا رواج بھی ہے اورتہ بندگھریلوسہولت کا لباس زیادہ تر ہے اس لئے اس کو باندھنے کی وضع بھی ایسی ہے کہ صرف فرصت میں مفید ہوسکتی ہے ،بھاگ دوڑ کی زندگی میں سارے کام اس سے سہولت کے ساتھ نہیں ہوسکتے اس لئے ہندوستان کے ان علاقوںکے مسلمانو ں نے جہاں شلوارپاجامے کا رواج نہیں تھا ،دھوتی بالکل ہندوانی وضع پر باندھی کیونکہ اس سے کام کاج میں آسانی ہوتی تھی ،خاص کر قدیم زمانے میں گھوڑے کی سواری اورموجودہ دور میں سائیکل کی سواری میں سہولت رہتی ہے ، ساڑھی کا رواج بھی خالص ہندوستانی لباس ہے ۔
    عجیب بات ہے کہ آج کل جب کہ قومی دھارے کا بہت شور ہے ،گنگا الٹی بہنے لگی ہے اورمسلمانوںکی اکثریت ہندوستانی رسم ورواج سے چونکتی ہے اورپرہیزکی مہم بھی کچھ عرصہ سے چل رہی ہے حالانکہ اس زمانہ میں جب کہ مسلمان جزوکل کے مختار تھے ،یکجہتی کا عمل بڑی تیزی سے جاری تھا ،مسلمان عورتوں نے اسلامی قمری مہینوںکے عربی نام تک بدل دئے تھے اوراپنی سہولت اورآسانی کے لئے صفر کانام تیرہ تیری ،ربیع الاول کا نام بارہ وفات ،ربیع الثانی کا نام میراں جی ،جمادی الاول کا مدار،جمادی الثانی کا خواجہ معین الدین ،شعبان کا شب برأت ، شوال کا عید،ذی قعدہ کا خالی اورذی الحجہ کا بقرعیدرکھ لیا تھا اورآج بھی عورتوںمیں یہی نام مقبول ہیں اورزبانوںپر چڑھے ہوئے ہیں ،محرم،رجب اوررمضان کے نام بدلنے کی ضرورت اس لئے نہ سمجھی گئی کہ ان مہینوں میں جو رسوم ہوتی ہیں ان کی نمائندگی بڑی حد تک ان ناموں سے ہوجاتی ہے ۔
    قدیم زمانے میں پڑھے لکھے امراء کے طبقے اوراہل علم دیندارلوگوں میں بھی امیرچھجواوربی بی رانی پسندیدہ نام تھے اب اس طرح کے نام دیہاتی اوران پڑھ دین سے کم واقف مسلمانوںکا حصہ رہ گئے ہیں ،پہلے مسجدوںکی تعمیر میںہندو کاریگروںکو اپنے فن کے مظاہرے کی پوری اجازت دی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے آسائش اورضرورت میں خلل پڑتا تھا ۔جیسے کہ احمدآبادکی جامع مسجدکہ اس میں ہندوطرز کے ستون اس طرح قائم کئے گئے ہیںکہ صف بندی اورستون کے سامنے سجدہ کرنے میں سخت دشواری ہوتی ہے لیکن اسے گوارا کیا جاتا تھا بعض مسجدوںکے کتبے عربی فارسی کے بجائے سنسکرت اوردیگر مقامی زبانوںمیں لکھے جاتے تھے ،برہان پور کی عالیشان جامع مسجد کے سنسکرت کتبے اس کا ایک خوبصورت نمونہ ہیں ۔
    مسجدوں کے تین گنبدجہا ں حسن توازن کا نمونہ پیش کرتے ہیںاوردرمیان کے گنبدکی پیل روکتے ہیںوہیں ترشول اورمندروںکی تین مروجہ گمٹیوںکو بھی یاددلاتے ہیں مسلم عمارتوںمیں کنگورے دار محراب بھی ہندوستانی اثرات کے تحت وجود میں آئی ۔
    سلطان محمد غوری کے زمانے کے بعض سکے ایسے دریافت ہوئے ہیں جن پر عبارت ہندی میںہے اورمزیداری یہ کہ سلطان کے ساتھ پر تھوی راج کا نام بھی درج ہے یہ سکے غالباً دو جنگوںکے درمیان کے زمانہ میں ڈھالے گئے ہوںگے ۔
    شادی غمی کی رسموںمیں سے چند نمایاںرسمیںیہ ہیں کہ ہندؤںمیں تیسرے دن مرگھٹ سے راکھ اورہڈیاںچنی جاتی ہیںاورانہیںپھول چنناکہتے ہیں،مسلمانوںمیں سوئم کی فاتحہ اورقرآن خوانی بھی پھول سے موسوم ہوئی خان آرزونے کہا تھا ؎
    رکھے سیپارۂ گل کھول کے عندلیبوںکے
    چمن میں آج گویا پھول ہیں تیرے شہیدوں کے
    اس دن پھولوںکی چادر اورصندل زعفران وغیرہ سے مرکب خوشبوقبر پر بھیجنا ضروری قرارپایا،تیجے کے روز فاتحہ کے بعد پھولوںسے بھری رکابی اورصندل زعفران کی خوشبوکا پیالہ مجلس کے تمام شرکاء کے سامنے لایاجاتا ہے اورہر شخص ایک ایک پھول قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌپڑھ کر خوشبو کے پیالے میں ڈال دیتا ہے اوریہ خوشبو پھولوںکے ساتھ قبر کی مٹی میںسرہانے کے رخ دفن کردی جاتی ہے ۔
    لڑکے کے بالغ ہونے کے بعد مونچھوںکو صندل لگانا اورمونچھوںکے کونڈے کرنا، ایام حمل میں ہونے والی ماںکی گود ترکاری اورمیوؤںسے بھرنا ،بچے کی پیدائش کے بعد زچہ گیر یاںگانا جن میں زیادہ تر کرشن جی کے جنم کی مناسبت کے گیت ہوتے ہیں،زچگی کے چھ دن بعد چھٹی چھوچھک کی رسم کرنا جس میں زچہ بچہ غسل کرتے ہیںاورلڑکی کے میکے سے بچے کیلئے اورسمدھیانے والوںکیلئے تحائف آتے ہیں،سب ہندوستانی رسمیںہیں ۔
    شادی بیاہ کی تمام رسمیںہندوستانی اثر سے بھری پڑی ہیںاوریہ اتنی کثرت سے ہیں اورہندوستان کے علاقے علاقے میں ان کے اندراتنا تنوع ہے کہ اس کے تذکرے کے لئے شایدایک علیحدہ مضمون یا علیحدہ کتاب کی ضرورت ہواس لئے ان کی طرف صرف اشارہ کرنا کافی ہوگا ،اسلام میں تو منادی صرف ایجاب وقبول ہے باقی جو کچھ ہے سب عجمی،خاص کر ہندوستانی ہے ،شادی سے پہلے منگنی،پھر بیاہ مانگنا، مائیوںبٹھانا،ابٹن کھیلنا، برات کوروک کرنیگ مانگنا،شادی کے بعد چوتھی چالے کی رسمیںاول سے آخرتک ہندوستانی ہیں اور مسلمانوں میں عام طورپرمروج ہوگئی ہیں ۔
    حیدرآبادکے امراء میں تو وہ شادی شادی نہ سمجھی جاتی تھی جس کی رسمیںایک ماہ تک نہ ہوتی رہتی تھیںاوراس طرح کے چونچلے بکثرت ہوتے تھے کہ پیغام کے ساتھ دل پکاکربھیجاجاتاتھا اوراس کے جواب میںاگرقبول پک کر آتی تھی تو رشتہ منظور سمجھا جاتا تھا ،مہر اورطلاق کے اسلامی قانون کی بے حرمتی اس طرح ہوتی تھی کہ مہر میں ایک بڑی رقم کے ساتھ مچھرکی تولہ بھر چربی بھی لکھی جاتی تھی کہ نہ تو من تیل ہو اورنہ رادھاناچے ،نہ یہ رقم اورمچھر کی چربی فراہم ہونہ دل پھینک شوہربیوی کو طلاق دینے کی ہمت کرے لیکن ان میںسے اکثررسمیںمعاشی دباؤاوراصلاحی تحریکوںکے زیراثررفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں اوردم توڑرہی ہیںاورزندہ رہنے کے آثاربس اسلام کے سادہ رسم ورواج ہی کے نظر آتے ہیں ۔
     

Share This Page