1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ہر خواہش پہ دم نکلے

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از بھیا جانی, ‏29 دسمبر 2012۔

  1. بھیا جانی
    آف لائن

    بھیا جانی ممبر

    شمولیت:
    ‏10 دسمبر 2012
    پیغامات:
    56
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    ہر خواہش پہ دم نکلے
    ===================
    تیس سال کی ایماندارانہ نوکری کے بعد صاد ق صاحب ریٹائر زندگی گزار رہے تھے۔ اس پورے عرصے میں انھوں نے عزت کمائی تھی اور عزت سے زندگی گزاری تھی۔کبھی کسی کو جرات نہیں ہوئی تھی کہ انکے کام پر یا انکی ذات پر انگلی تک اٹھا سکے۔اور انھوں نے اپنی اولاد کو بھی اسی ایمانداری کا سبق پڑھایا تھا۔یہ نیک اولاد انکی زندگی کا ثمر تھی۔انکے خاندان والے بھی صادق صاحب کی زندگی اور انکی اولاد کی مثالیں دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اتنا کرم رکھا تھا کہ ساری زندگی کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا تھا۔اس ذات پاک نے ہمیشہ انکی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا تھا۔جب نوکری اس مرحلہ پر پہنچی کہ پورے ماہ کے اخراجات کے بعد کچھ تھوڑا بہت بچا سکیں تو ان کو خواہش ہوئی کہ اپنی چھت تان سکیں۔ یہ سوچتے ہوئے انھوں نے رقم پس انداز کرنا شروع کر دی۔ کیونکہ جتنا عرصہ وہ نوکری کرتے رہے ، کرائے کے گھر میں رہے۔ حتٰی کہ ریٹائر ہوئے تو بھی گھر کرائے کا ہی تھا۔ ہر پانچ دس سال بعد مکان تبدیل کرتے۔ کبھی ایک وجہ ہوتی تو کبھی کوئی دوسری۔

    اللہ نے صادق صاحب پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ نہ صرف بڑا بیٹا جمال شادی کی عمر کو پہنچ چکا تھا بلکہ بیٹی کی عمر بھی بیاہنے لائق تھی۔بیٹے کی شادی کرنے سے اسلیے کترا رہے تھے کہ کرائے کے گھر میں بہو کو لانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔اوپر سے بیٹا بھی ایسا کہ شادی کی فکر ہی نہیں تھی۔ یہ نہیں کہ غلط کاموں میں ملوث تھا۔بلکہ اس نے کبھی شادی کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ صبح نوکری پر جانا، شام کو کوئی گیم کھیلنا یا پھر چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر گپ شپ کرنا، رات کو سوتے تک کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنا جو کہ در حقیقت اسکا مشغلہ تھا۔ بس یہ لگا بندھا وقت کا ایک دھارا تھا، جس کے ساتھ جمال بہتا رہتا تھا۔

    صادق صاحب نے ایک دن اپنے دوستوں سے مشورہ کیا۔اپنی نیک سیرت بیوی سے اصلاح لی اور نتیجہ بیٹے کی شادی کی صورت میں نکلا۔کبھی کبھی کسی گھر کو کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ صادق صاحب کے گھر بھی برسوں بعد یہ خوشی آئی تھی۔جب شادی کی تقریبات جاری تھیں تو کسی نے پوچھا کہ وہ بہت اترا اترا کر چل رہے ہیں تو صادق صاحب نے انتہائی عاجزی سے جواب دیا کہ یہ اترانا اصل میں اللہ کی طرف سے ہی ہے۔ آج اس ذات پاک نے اس قابل بنایا کہ وہ بھی اپنے بیٹے کی شادی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا خرچہ کرنے کے قابل ہوں گے۔تو بس اللہ کا شکر مجھے یہ سب کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔خیر ابھی اس خوشی کو ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ انکے دوسرے بیٹے شہزاد سے ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا۔وہ اور اسکے دفتر کے کچھ ساتھی کرائے کی گاڑی لیکر دفتر کے کسی کام سے دوسرے شہر گئے تھے۔ واپسی پر کوئی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ بارش کی وجہ سے پھسلن روڈ پر گاڑی پھسل کر روڈ کے کنارے پر نبی پلی کو توڑتے ہوئے کوئی دس فٹ کی گہرائی میں جا گری۔گاڑی کوتو نقصان پہنچاہی تھا لیکن گاڑی کے اندر موجود شہزاد کے دو دوست موقع پر ہی فوت ہو گئے جب کہ ایک کی ٹانگ فریکچر ہو گئی۔ شہزاد گاڑی چلا رہا تھا۔ بظاہر تو اسے کوئی زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی بس ہلکی ہلکی خراشیں آئی تھیں لیکن اندرونی طور پر کافی دباﺅ آیا تھا۔پولیس موقع پر پہنچی متوفیوںاور زخمیوں کو گاڑی سے نکالا اور انھیں تھانے کے ساتھ ہی بنے ہوئے ہسپتال پہنچایا۔

    جاری ہے۔۔۔۔
     
  2. بنت الهدی
    آف لائن

    بنت الهدی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جون 2012
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ہر خواہش پہ دم نکلے

    :thnk:کھانی اگر آگے چلتی تو رلا دیتی اسی لیے اٹک گئی اللہ تیرا شکر ھے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں