1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عذاب قبر

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از ابو عزیر, ‏27 نومبر 2011۔

  1. ابو عزیر
    آف لائن

    ابو عزیر محسن

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2011
    پیغامات:
    35
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ قبر کی راحت اور عذاب حق ہے اور ملاحدہ ‘ زنادقہ‘ روافض اور معتزلہ کے سوا کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔
    قرآن و سنت کے صریح دلائل کے پیش نظریہ عقیدہ اتنا مضبوط ہے کہ محدثین کرام اور علماء اسلام کا ذمہ دار گروہ عذابِ قبر کے منکر کو کافر قرار دیتا ہے حالانکہ تکفیر کے مسئلہ میں وہ بڑا محتاط واقع ہوا ہے مگر اس سے پہلے کہ ہم عذاب قبر کے سلسلہ میں قرآنی آیات اور صحیح احادیث پیش کریں پہلے قبر کا حقیقی مفہوم واضح کر دیں کیونکہ موصوف کا خیال ہے کہ عذاب اس ارضی اور حسی قبر و گڑھے میں نہیں ہوتا بلکہ عالم برزخ کی قبر میں ہوتا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:۔
    ’’لاریب ‘‘کہ مرنے کے بعد قیامت تک قبر کا عذاب یا راحت یقینی چیزیں ہیں مگر افسوس کہ آج دنیا والوں کی اکثریت نے اسی دنیا کی زمین کے ایک خطہ کو وہ قبر ماننا شروع کر دیا ہے جہاں سوال و جواب کے لئے ہر مرنے والے کو اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور پھر قیامت تک اس کے ساتھ عذاب یا راحت کا معاملہ ہوتا رہتا ہے ‘‘۔
    ’’اللہ تعالیٰ کے فرمان سے معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے اس کی لاش کو جلا کر خاک کر دیا جائے یا اس کی میت درندوں اور مچھلیوں کے پیٹ کی غذا بن جائے۔ یہی وہ اصلی قبر ہے جہاں روح کو دوسرے (برزخی) جسم میں ڈال کر قیامت تک رکھا جائے گا اور اسی پر راحت یا عذاب کا پورا دور گزرے گا اور یہ معاملہ صرف مومنوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ کافر‘ مشرک ‘فاسق و فاجرو منافق ہر ایک کے ساتھ یہی ہو گا۔ قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے‘‘۔(عذاب قبر ص۲)
    اس عبارت سے صاف طور پر عیاں ہو گیا کہ موصوف اس ارضی قبر کے عذاب کے منکر ہیں اور وہ راحت یا عذاب کو برزخی قبر کے ساتھ متعلق سمجھتے ہیں معلوم نہیں کہ یہ دو قبروں کا عقیدہ کس آیت یا حدیث سے ماخوذ ہے ؟ کیونکہ کسی آیت یا حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ راحت و عذاب کسی دوسری (برزخی) قبر میں ہوتا ہے۔
    ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔ پھر جب وہ تمہیں زمین سے پکارے گا تو تم اچانک نکل آؤ گے‘‘۔
    آسمان اور زمین کے ذکر کے بعد انسان کے زمین سے نکلنے کے ذکر سے معلوم ہوا کہ انسان مرنے کے بعد اسی زمین میں جائے گا اور قیامت کے دن اسی زمین سے نکالا جائے گا۔ معلوم ہوا کہ انسان کی قبر آسمان یا کسی دوسرے مقام پر نہیں بلکہ زمین ہی میں بنتی ہے۔
    حدیث بھی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ تمام انسان اسی زمین سے اس طرح نکلیں گے جیسا کہ سبزہ زمین سے اگتا ہے۔

    چنانچہ جناب ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صور کی دو پھونکوں کے درمیان چالیس کا وقفہ ہو گا۔ پوچھنے والے نے کہا کہ چالیس دن کا وقفہ ؟ ابو ہریرہؓ نے جواب دیا کہ نہیں کہہ سکتا۔پھر کہنے والے نے کہا کہ چالیس سال کا وقفہ؟ ابوہریرہؓ نے جواب دیا کہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اس وقفہ کے بعد اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا اور لوگ اسطرح اگ پڑیں گے جیسے سبزہ اگتا ہے۔ انسان کے جسم میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو برباد نہ ہو جائے سوائے ایک ہڈی ’’عجب الذنب‘‘ کے اور اسی سے جسم انسانی کو پھر بنایا جائیگا۔ (ص ۷۳۵ بخاری مطبوعہ دہلی بحوالہ عذاب قبر ص۱۱)موصوف اس واضح حدیث کو نقل کرنے کے باوجود بھی قبر کے معاملے میں تذبذب کا شکار
    ’’ جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے سے منع فرمایا اور اس سے بھی کہ قبر کے اوپر کوئی عمارت بنائی جائے یا قبر پر بیٹھا جائے۔ (مسلم)
    عن ثمامۃ بن شفی قال کنا مع فضالۃ بن عبید بارض روم برودس فتوفی صاحب لنا فامر فضالۃ بقبرہ فسوی ثم قال سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یامر بتسویتھا (مسلم)
    عَنْ ثُمَامَةَ بْنَ شُفَيٍّ قَالَ كُنَّا مَعَ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِأَرْضِ الرُّومِ بِرُودِسَ فَتُوُفِّيَ صَاحِبٌ لَنَا فَأَمَرَ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ بِقَبْرِهِ فَسُوِّيَ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِتَسْوِيَتِهَا * (مسلم)
    ثمامہ بن شفی ؒ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ فضالۃ بن عبید ؓ کے ساتھ ارض روم کے جزیرہ رودس (rhodes)میں تھے کہ ہمارے ایک ساتھی کاانتقال ہو گیا۔فضالتہؓ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم ان کی قبر کو برابر کر دیں پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی حکم دیتے ہوئے سنا ہے‘‘ (مسلم جلد ص۳۵ مصری)
    عَنْ اَبِی الْھَیَّاجِ الْاَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِیْ عَلِیٌّ اَلَآ اَبْعَثُکَ عَلیٰ مَا بَعَثَنِیْ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ لَّا تَدَعْ تِمْثَالاً اِلَّاطَمَسْتَہٗ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفاً اِلَّا سَوَّیْتَہٗ (رواہ مسلم)
    ’’ ابو الہیاج اسدی ؒ روایت کرتے ہیں کہ علی ؓ نے مجھ سے کہا کہ اے ابو الہیاج کیا میں تم کو اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا اور وہ کام یہ ہے کہ جائو اور جو تصویر تم کو نظر آئے اس کو مٹا دو اور جو قبر اونچی ملے اسے برابر کر دو ‘‘۔(مشکوٰۃ ص۱۴۸‘مسلم)(بحوالہ یہ قبریں یہ آستانے ص۲‘۵‘۶)
    ان احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ قبروں سے مراد یہی ارضی قبریں ہیں اور کتاب کا نام’’ یہ قبریں یہ آستانے‘‘ بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے۔ ’’ یہ قبریں‘‘ میں یہ اسم اشارہ قریب کے لئے ہے جو انہیں ارضی قبروں کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور ظاہر ہے کہ موصوف نے یہ کتابچہ بھی قبر پرستی کے خلاف ہی لکھا ہے۔ عوام انہی قبروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں اور وہاں جا جا کر نذر و نیاز اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں ‘کوئی شخص بھی کسی برزخی قبر پر یہ سب کچھ کرنے کے لئے نہیں جاتا۔
    عذاب قبر کا تذکرہ قرآن کریم میں

    ۱۔ اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :۔
    وَلَوْ تَرٰیٓ اِذِا الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰئِکَۃُ بَاسِطُوْا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اﷲِ غَیْرَ الْحَقِ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیَاتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ (انعام:۹۳)
    ’’ اور اگر تو دیکھے جس وقت کہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے اور کہیں گے کہ نکالو اپنی جانیں آج کے دن تمہیں بدلہ ملے گا ذلت کے عذاب کا اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹی باتیں کہتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کیا کرتے تھے‘‘۔
    اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ قبض روح کے وقت فرشتے کافروں کو عذاب کی خوشخبری سناتے ہیں۔ اور سورۃ الانفال آیت ۵۰ اور سورۃ محمد آیت ۲۷ میں ہے کہ فرشتے کافروں کے چہروں اور پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں۔ حالانکہ پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ ضربیں لگتی ہوئی دکھائی نہیں دیتیں اور نہ ہی وہ میت کے بدن پر ضرب کی کوئی علامت دیکھتے ہیں ایک مقام پر یوں بھی ارشاد ہوتا ہے:۔
    فَلَوْ لَا اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ۔ وَاَنْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنظُرُوْنَ۔ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۔ فَلَوْ لَا اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ۔ تَرْجِعُوْنَھَا اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (الواقعہ آیات ۸۳ تا ۸۷)
    ’’تو (ایسا ) کیوں نہیں کہ جب (جان) حلق تک پہنچ جاتی ہے اور تم دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم اس وقت تم سے زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم (یہ سب) نہیں دیکھتے تو اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو تو اس جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے اگر تم (اس خیال میں ) سچے ہو‘‘۔
    آیت الیوم تجزون عذاب الھون یعنی آج کے دن تمہیں ذلت کا عذاب ملے گا سے مراد عذاب قبر ہے جس کا آغاز نزع کی حالت ہی میں ہو جاتا ہے۔

    وَلَوْ تَرٰیٓ اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ (انفال:۵۰)
    ’’ اور اگر دیکھے تو جس وقت جان قبض کرتے ہیں فرشتے کافروں کی (اور) مارتے ہیں ان کے منہ اور ان کی کمریں اور کہتے ہیں چکھو عذاب جلنے کا‘‘۔
    دوسرے مقام پر ارشاد ہے :۔

    فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَہُمْ وَاَدْبَارَھُمْ (محمد:۲۷)
    ’’پھر کیا حال ہو گا (ان کافروں کا) جب فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے ان کی روحیں قبض کریں گے‘‘۔
    یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اخراج روح کے وقت ہی عذاب شروع ہو جاتا ہے اور یہ عذاب قبر کی ابتداء ہے ان آیات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ میت ابھی نزع کے عالم میں ہوتی ہے کہ فرشتے اس کی پٹائی شروع کر دیتے ہیں لیکن یہ تمام کاروائی لوگوں سے پوشیدہ ہوتی ہے کیونکہ اس کا تعلق غیب سے ہے‘‘۔
    ایک اور مقام پر ارشاد ہے :۔
    وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعُوْنَ سُوْئُ الْعَذَابِ۔ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوٓا اٰلَ فِرْعُوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (مؤمن: ۴۵۔۴۶)
    ’’اور فرعون کے ساتھیوں کو بدترین عذاب نے گھیر لیا یعنی آگ نے جس کے سامنے وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (تو حکم ہو گا) داخل کرو آل فرعون کو سخت عذاب میں‘‘۔
    مرنے کے بعد کافروں ‘مشرکوں اور منافقوں کی روحیں جہنم میں داخل ہو جاتی ہیں جبکہ اہل ایمان کی روحیں جنت میں داخل ہو جاتی ہیں اور جب قیامت برپا ہو گی تو حساب و کتاب کے بعد یہ روحیں اپنے جسموں سمیت جنت یا جہنم میں داخل ہوں گی اور اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ العزیز۔
    جب کفار کی روحیں جہنم میں ہوتی ہیں تو آل فرعون کے صبح و شام آگ پر پیش ہونے کا کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ بلاشبہ روحیں جہنم میں ہیں اور ان کے جسموں کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے اور یہی عذاب قبر ہے۔ جناب عبد اللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی وفات پا جاتا ہے تو اس کا ٹھکانہ صبح و شام اس پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے تو جنت کا ٹھکانہ اور اہل جہنم میں سے ہوتا ہے تو جہنم کا ٹھکانہ (اس پر پیش ہوتا ہے) اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے (قبر سے) اس کی طرف اٹھائے(یعنی اس میں داخل کر دے) (بخاری و مسلم) یہ حدیث آگے آ رہی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے۔
    المیت یعرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشی
    یعنی میت پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس حدیث سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ قبر میں میت پر اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے اور یہ حدث سورۃ المومن کی اوپر والی آیت کی وضاحت بھی کر دیتی ہے۔یعنی جس طرح آل فرعون صبح و شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اسی طرح ہر میت پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم پیش کیا جاتا ہے۔
    ان تمام آیات سے واضح طور پر عذابِ قبر ثابت ہوتا ہے۔البتہ اس مسئلہ کی مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعہ فرمائی ہے۔ کیونکہ آپ قرآن کریم کے شارح ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کی تفسیر و تشریح خوب وضاحت سے بیان فرمائی ہے۔

    عذابِ قبر کے سلسلے میں بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ ہم یہاں کریں گے:۔
    عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ يَهُودِيَّةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَذَكَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَهَا أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ * (صحیح بخاری کتاب الجنائز)
    ’’عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور پھر کہا اللہ تم کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ عائشہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کا حال پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں قبر کا عذاب (برحق ہے‘‘۔یہ الفاظ امام منذر نے بیان کئے ) عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ (بخاری و مسلم)
    عذاب قبر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعائوں میں بالعموم اور نمازوں میں بالخصوص عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو بھی اس کی تعلیم دی۔
    ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی آخری رکعت کے تشہد سے فارغ ہو تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں سے پناہ طلب کیا کرے یعنی عذاب جہنم سے ‘ عذاب قبر سے‘ زندگی اور موت کے فتنہ سے اور مسیح دجال کے شر (اور فتنہ) سے۔ (مسلم ‘ مشکوۃ ۸۷)
    ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو یہ دعا اس طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے ‘چنانچہ فرماتے اس طرح کہو:
    اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَالِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ (مسلم مشکوۃ ص ۸۷)
    ابوہریرہؓ کی روایت بتا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امت کو آخری تشہد کے آخر میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا اور ابن عباسؓ کی روایت بتا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کو (جن میں چار چیزوں سے پناہ طلب کی گئی ہے )اتنے اہتمام کے ساتھ سکھایا جتنے اہتمام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔
    یہ مضمون اس کتاب سے لیا گیا ہے۔
    تألیف
    ڈاکٹرابوجابرعبداللہ دامانوی

    الناشر
    مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی


    جملہ حقوق بحق ناشرمحفوظ ہیں
    ڈائرکٹ لنک
     
  2. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عذاب قبر

    شکریہ جی۔۔۔۔۔
     
  3. عرفان چاند
    آف لائن

    عرفان چاند ممبر

    شمولیت:
    ‏30 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: عذاب قبر

    اسلاعلیکم ابوعذیر
    و جذاک اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں