1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزل۔

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از رشید حسرت, ‏2 جولائی 2021۔

  1. رشید حسرت
    آف لائن

    رشید حسرت ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2020
    پیغامات:
    46
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    غزل

    دیکھا نہ کبھی تُم نے سُنا، دیکھتا ہوں میں
    بس تُم کو نہیں اِس کا پتا دیکھتا ہوں میں

    چہروں کی لکِیروں کے مُجھے قاعدے از بر
    پڑھتا ہوں وہی جو بھی لِکھا دیکھتا ہوں میں

    ماضی کے جھروکوں سے نہیں جھانک ابھی تُو
    (غش کھا کے گِرا) شخص پڑا دیکھتا ہوں میں

    کہنے کو تِرا شہر بہُت روشن و تاباں
    ہر چہرہ مگر اِس میں بُجھا دیکھتا ہوں میں

    گُلشن میں خزاں رُت ہے سمن پِیلے پڑے ہیں
    جاتے ہی تِرے زِیست سے، کیا دیکھتا ہوں میں

    اُس پار گیا جو بھی نہیں لوٹ کے آیا
    کیا بھید چُھپا اِس میں سو جا دیکھتا ہوں میں

    وہ جِس کے بنا زِیست مِری آدھی ادھوری
    رُخ کیسے بدلتا ہے، ادا دیکھتا ہوں میں

    اے دوست نہ بہلا کہ ہوئی بِیچ میں حائل
    کم ہو نہ کبھی جو، وہ خلا دیکھتا ہوں میں

    ویران مِرے دل کا نگر جِس نے بتایا
    جُھوٹا ہے، رشیدؔ اِس کو سجا دیکھتا ہوں میں

    رشید حسرتؔ
     
    شکیل احمد خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. شکیل احمد خان
    آف لائن

    شکیل احمد خان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 نومبر 2014
    پیغامات:
    1,524
    موصول پسندیدگیاں:
    1,149
    ملک کا جھنڈا:
    کہنے کو ۔۔۔تِرا شہر بہُت روشن و تاباں
    ہر چہرہ مگر اِس میں بُجھا دیکھتا ہوں میں
    بہت خوب جنابِ حسرت ؔ صاحب ،
    واقعی اور وقوعی حقیقت ہےکہ بیان فرمادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاایک سانحہ ہے جس کی جیتی جاگتی تصویر بنادی
    اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں