1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان عوامی تحریک ، بابصیرت قیادت ، منظم اورجانثار ورکرز،مگراسمبلی نمائندگی سے محروم؟

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏16 اکتوبر 2017۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان عوامی تحریک ، اعلیٰ بابصیرت قیادت ، سٹریٹ لیول تک منظم اورجانثار ورکرز کے باوجود موجود انتخابی نظام میں بظاہر ناکام کیوں ہے؟

    یہ سوال اکثر و بیشتر ایک تلخ حقیقت کے طور پر ذہنوں میں ابھرتا ہے۔ لیکن اس تلخ حقیقت کے پیچھے جو حقائق ہیں انکو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
    بے شک پاکستان عوامی تحریک پاکستان کی سیاست میں ایک زندہ و جاوید حقیقت ہے جس کا انکار کوئی ذی شعورنہیں کر سکتا ۔
    یہ وہ جماعت ہے جس کا قائدڈاکٹرطاہرالقادری اس وقت پاکستان کاا نتہائی بابصیرت اور دوراندیش رہنما سمجھا جاتا ہے ۔ برسہا برس سے ڈاکٹرقادری کی کہی باتیں سو فیصد درست ثابت ہوتی ہیں جس کے بعد ہرکوئی "ڈاکٹرقادری ٹھیک کہتے تھے" کا اعتراف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ڈاکٹرقادری بہترین سپیکر بھی ہےجسکی مدلل گفتگو سامعین کے قلوب و ازہان کو اس طرح مسحور کر دیتی ہے ۔
    اس جماعت کے پاس مخلص، جان و مال قربان کردینے والے لاتعداد نظریاتی کارکنان ہیں جو ہر وقت اپنی قیادت کے ایک اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ 17جون 2014اور اسلام آباد دھرنے اسکی واضح مثالیں ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک وہ جماعت ہے جسکی تنظیمات پاکستان کے چاروں صوبوں میں ہیں اور پاکستان کی کوئی تحصیل اور یونین کونسل اس کےتنظیمی نیٹ ورک سے خالی نہیں ۔
    لیکن ان سب اوصاف کے باوجود یہ جماعت پاکستان کے انتخابی سسٹم میں بظاہر بالکل مس فٹ اور ناکام نظر آتی ہے ۔ایسا کیوں ہے؟ کیا اس جماعت کے پاس کوئی منشور نہیں۔؟ کیا اس جماعت کے پاس وژن اور پروگرام نہیں؟ کیا اس جماعت کے پاس تنظیمی نیٹ ورک نہیں؟ کیا اس جماعت کے پاس الیکشن لڑنے کی صلاحیت نہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو ایک عام بندے کے زہن میں ہوتے ہیں
    لیکن اگرہم غیرجانبدار اور دیانتدارانہ تحقیق کریں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ پاکستان عوامی تحریک ان تمام اوصاف میں پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ نہیں تو کسی سے کم بھی نہیں ۔ ایسی کوئی ایک خوبی نہیں جو ایک سیاسی جماعت میں ہونی چاہیے اور اس عوامی تحریک میں نہ ہو ۔ ان سب اوصاف اور صلاحیتوں کے باوجود انتخابی میدان میں کارکردگی صفر کیوں؟
    اس سوال کو سلجھانے کے لیے پاکستان کے موجودگی انتخابی نظام کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام میں امیدوار اگر مندرجہ ذیل اوصاف کا پیکر نہ ہو تو کیا وہ الیکشن جیت سکتا ہے ۔
    *امیدوار کا ارب پتی یا کم از کم کروڑ پتی ہونا
    *امیدوار کا علاقے کا جاگیر دار یا وڈیرا ہونا یا انکا رشتہ دار ہونا
    *امیدوار کا حکومتی یا اپوزیشن جماعت کا ٹکٹ ہولڈر ہونا
    * امیدوار کا تھانے اور کچہری تک کنٹرول ہونا
    *امیدوار کا علاقے میں غنڈہ راج کا ہونا
    *امیدوار کےپاس دھاندلی اور ڈرانے دھمکانے کیلئے بد معاشوں اور دھشت گردوں کی فوج کا ہونا
    دیگر ایسےبہت اوصاف ہیں ۔
    سب سے پہلے تو یہ حقیقت پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ڈاکٹرقادری اور انکی جماعت لادینی نہیں، بلکہ ایک ماڈرن اسلامک وژن کی حامل تحریک ہے جس کا مقصد روزاول سے ریاست مدینہ کے اصولوں کے تحت ایک اسلامی فلاحی جدید پاکستان ہے جو اپنی معیشت ، معاشرتی اقدار اور محفوظ مستقبل کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر عالم اسلام کی نمائندگی کرنے کے قابل بھی ہو۔ اس مقصدکے حصول کے لیے پاکستان میں قوتِ نافذہ کا حصول ناگزیر ہے۔ایک بااصول و بامقصد جماعت کو ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے صاف ظاہر ہے ارکانِ اسمبلی بھی ایسے درکار ہوں گے جن کے انتخاب کا معیار مال و دولت کی بجائے حسن ِکردار علم و شعور پر ہو۔ وہ باکردار ، باصلاحیت ، دیانتدار اور محب وطن امید وار جو پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکال کرخوشحال و ترقی یافتہ ملک بنانے کے جذبے سے سرشار ہوں ۔ بالخصوص جو متوسط اور شریف طبقہ سے ہوں کیونکہ سفید پوش غریب کا درد اسی کے طبقے کا بندہ سمجھ سکتا ہے۔
    افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے انتخابی سسٹم میں یہ سب اوصاف اہلیت کے بجائے نا اہلیت کا سبب بن چکے ہیں۔ایسے کردار سے مالامال ہر شخص موجودہ نظام میں مس فٹ اور خارج ہے۔
    اندریں حالات پاکستان عوامی تحریک کے پاس کیا آپشنز بچ جاتے ہیں ۔
    ایک آپشن یہ ہے کہ عوامی تحریک بھی دوسری جماعتوں کیطرح جاگیر داروں وڈیروں دہشتگردوں اور کرپٹ امیدواروں کو میدان میں اتارے تا کہ الیکشن جیت سکے اور قوم کو تبدیلی و انقلاب کے جھوٹے نعروں سے بےوقوف بناتی رہے جیسی بہت سی اسلامی و سیاسی جماعتیں کئی دہائیوں سے کررہی ہیں۔ لیکن چونکہ پاکستان عوامی تحریک ایک نظریاتی انقلابی اور اصلاحی جماعت ہے جو حصول اقتدار کے لیے اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کر سکتی اس لیے یہ آپشن تو اس کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان عوامی تحریک تمامتر خوبیوں کے باوجود اسمبلی میں نمائندگی سے محروم نظر آتی ہے۔
    دوسرا سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان عوامی تحریک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کیا آپشن اختیار کرے؟ کیونکہ ملک و معاشرے کے ترقی ، فلاح اور خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کے لیےقوتِ نافذہ بھی ضروری ہے اور اصولوں پر سمجھوتہ بھی نہیں تو پاکستان عوامی تحریک کے پاس ایک ہی آپشن بچ جاتا ہے جس پر وہ پچھلے 30 سال سے میدان عمل میں ہے وہ یہ ہے کہ پہلے اس فرسودہ کرپٹ مفلوج اور کرپٹ انتخابی نظام کو بدلا جائے جو اعلی تعلیم یافتہ باصلاحیت اور متوسط لوگوں کے ایوانِ اقتدار تک پہننے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ جو نظام غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر کرتے کرتے ، 20/22کروڑ عوام کو چند خاندانوں کی غلامی میں دے کر پاکستان کو تباہی کے دہانے لا چکا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک پاکستان میں غربت کرپشن اور فرسودہ حالی کے اسباب سے اج سے 30 سال پہلے ہی آگاہ تھی ۔ جس کی وجہ سے اس نے اپنی جماعتی حکمت عملی کو ایک خاص ڈگر پر استقامت سے رواں دواں رکھا ہوا ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے کہ موجود کرپٹ اور فرسودہ نظام کے ہوتے ہوئے 100 بار بھی الیکشن کروانے سے غریب عوام کا مقدر بدل نہیں سکتا اگر غریب کو اپنا مقدر بدلنا ہے تو غریب کا اسمبلیوں میں پہچنا ہو گا ۔ڈاکٹرقادری نے 25مئی1989 کو موچی دروازہ لاہور میں تاسیس انقلاب کانفرنس میں پاکستان عوامی تحریک کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ساری زندگی اس کرپٹ سسٹم میں الیکشن اور چند سیٹوں کے لیے نہیں بلکہ ملک و قوم کا مقدر سنوارنے کی جدوجہد کریں گے۔90 کی دہائی سے لے کر آج تک ڈاکٹرقادری اور انکی جماعت اس غریب کش ، کرپٹ اور ظالمانہ نظامِ انتخاب کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے اور جلد یا بدیر انقلاب پسند، تبدیلی پسند اور ہر باشعور کو اسی نکتے پر متحد ہوکر اس کرپٹ نظامِ انتخاب کو ایک منصفانہ ، شفاف اور ایماندارانہ نظام سے بدلنے کے لیے متفق و متحد ہونا ہوگا
    (منقول )
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں