1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ترغیب و ترہیب کیلئے جھوٹ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد اجمل خان, ‏17 فروری 2017۔

  1. محمد اجمل خان
    آف لائن

    محمد اجمل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    209
    موصول پسندیدگیاں:
    181
    ملک کا جھنڈا:
    ترغیب و ترہیب کیلئے جھوٹ

    ہر دور میں مسلمانوں میں ایسے علماء ’ مشائخ’ صوفیہ اور دانشوروں رہے ہیں جو جھوٹے قصے کہانیاں’ روایات اور موضوع احادیث کے ذریعے عام لوگوں میں دینی رغبت پیدا کرنے‘ ان کے دلوں کو نرم کرنے اور دلوں میں خوفِ الٰہی بٹھانے کے قائل رہے ہیں یعنی ترغیب و ترہیب کیلئے جھوٹ کا سہارا لینے کو جائز سمجھتے رہے ہیں اور جھوٹ کا سہا را لیتے رہے ہیں۔

    ایسے لوگو ں نے بے شمار عجیب و غریب بناوٹی احادیث و روایات اور قصے کہانیوں کو اپنی دعوت و تبلیغِ اور درس و تدریس کا حصہ بنایا جنہیں ان کے ماننے والے اور عام مسلمانوں نے سچ سمجھ کر آگے بیان کرتے گئے اور جسے وقت کےساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا ہی حصہ سمجھ لیا گیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج عام مسلمانوں میں جهوٹ اور سچ پر مبنی دینِ اسلام کی ایک خلط ملط صورت موجود ہے ۔

    جن لوگوں نے عام مسلمانوں کو دیندار بنانے کیلئے جهوٹ کا سہارا لیا ‘ وہ عوام میں کوئی خیر تو نہ لا سکے البتہ :
    • جهوٹ بول کر کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے۔
    • اللہ اور رسول اللہﷺپر جهوٹ باندها جو کہ جہنم میں جانے کا سیدھا راستہ ہے۔
    • عام لوگوں کو جهوٹ کی راہ پر لگا کر اسلام کی سچائیوں اور برکتوں سے دور کیا ۔
    • عام لوگوں کو قرآن و سنت سے دور کیا اور بدعات ایجاد کرکے عوام کو بدعات میں لگایا۔
    • عوام میں اسلام کی غلط تعلیمات رائج کیا جس سے دین کا کام کرنے والوں کو صحیح دین پیش کرنے میں مشکلات درپیش رہی۔
    • فرقہ واریت کو فروغ دے کر مسلمانوں کو فرقہ در فرقہ تقسیم کرنے کا کام کیا۔
    • مسلمانوں کی اجتماعیت اور اتحاد کو پارہ پارہ کیا۔
    • غیر مسلموں کے نظروں میں مسلمانوں اور اسلام کی غلط تصاویر پیش کی۔
    وغیرہ وغیرہ

    آج بهی ایسے جھوٹے علماءو مشائخ اور صوفیہ و دانشوروں کی کمی نہیں ہے جو جهوٹ کے راستے سے خیر کے متلاشی ہیں ‘ جو جھوٹے قصے کہانیاں ‘ روایات اور موضوع احادیث کے ذریعے سے عام مسلمانوں کے دلوں کو نرم کرنا اور خوف الٰہی سے پُر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن شاید ان کے اپنے دل ہی اتنے سخت اور خشیتِ الٰہی سے عاری ہیں کہ وہ صادق و مصدوق رسول مقبولﷺکی وعید کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ ’’ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ‘‘۔ بخاری: (1291) مسلم: (933)

    یا پھر یہ لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے :

    إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ۖوَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ (۱۰۵)(سورہ النحل)
    ’’ جھوٹ تو صرف وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں ‘‘

    خشیتِ الٰہی سے معمور قلوب کے حامل مومن بندے تو قرآن و حدیث کی ان باتوں کو سن کرہی کانپ اٹھتے ہیں چہ جائکہ کہ وہ اللہ اور رسول اللہﷺپر کوئی جھوٹ باندھیں یا دعوت و تبلیغِ دین کیلئے جھوٹی روایات اور قصے کہانیوں کا سہارا لیں۔

    کیا کتاب اللہ اور سنت رسولﷺسے ثابت شدہ سیدھی سچی باتیں ترغیب و ترہیب یعنی لوگوں کو دیندار بنانے اور بے دینی سے روکنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ ایک داعیٔ اسلام کو جھوٹ گھڑنا پڑے؟

    لیکن اِن نادانوں کو کون سمجھائے جو چھوٹے قصے کہانیاں و روایات اور من گھڑت احادیث کو کتاب اللہ اور سچی احادیث جیسی قیمتی علمی اور روحانی سرمائے پر ترجیح دیتے ہیں ۔جھوٹ کا سہارا لے کردِیندار بننا اور بنانا چاہتے ہیں جو کہ نا ممکن ہے۔

    جھوٹ بے دین تو بناتا ہے لیکن دِیندار ہرگز نہیں۔
    جھوٹ دل کو سخت تو کرتا ہے لیکن نرم ہرگز نہیں۔
    جھوٹ شیطان کا بندہ تو بناتا ہے مگر رحمٰن کا بندہ ہرگز نہیں۔

    امام نوویرحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:
    "نبی ﷺ پر جھوٹ باندھتے ہوئے کوئی شرعی حکم بیان کیا جائے یا ترغیب و ترہیب، یا نصیحت کی شکل میں فضائل وغیرہ بیان کئے جائیں، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، ہر صورت میں یہ کبیرہ گناہ ہےاوراہلِ علم کے نزدیک قبیح ترین عمل ہے برخلاف کرّامی بدعتی فرقے کے ان کےہاں یہ خود ساختہ نظریہ ہے کہ ترغیب و ترہیب کیلئے احادیث گھڑنا جائز ہے، اور انہی کے پیچھے لگ کر اپنے آپ کو زہد و ورع ( تقویٰ اور پرہیزگاری) سے منسلک کرنے والے کچھ جاہل بھی اسی بات کے قائل ہیں"

    اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اور تمام احباب کو جهوٹ سے بچائے (آمین) کیونکہ نیت کتنی ہی اچهی کیوں نہ ہو سوائے تین معروف معاملے کے جهوٹ میں کبهی کوئی خیر نہیں.
     
    Last edited: ‏18 فروری 2017
  2. محمد اجمل خان
    آف لائن

    محمد اجمل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    209
    موصول پسندیدگیاں:
    181
    ملک کا جھنڈا:
    اس تحریر میں مجھے تھوڑی ترمیم کرنی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
     
    Last edited: ‏18 فروری 2017
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    تدوین کو کلک کریں

    asd.jpg
     
    محمد اجمل خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. محمد اجمل خان
    آف لائن

    محمد اجمل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    209
    موصول پسندیدگیاں:
    181
    ملک کا جھنڈا:
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم محترم محمد اجمل خان صاحب۔
    آپکا مضمون بہت مفصل ہے ۔ لیکن ایک پہلو تشنہ ہے۔ براہ کرم مندرجہ ذیل حدیث پاک ملاحظہ فرما کر اپنی رائے سے آگاہ فرما دیں۔ شکریہ

    ٭ جھوٹ بولنے کی اجازت کب ہے ٭
    حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے سنا کہ جھوٹ بولنے کی کہیں بھی رخصت نہیںدی مگر تین مقامات ایسے ہیں جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے اور میں اسے جھوٹا شمار نہیں کرتا۔

    (١)''لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے وہ ایسی بات کرتا جس سے اس کا مقصد لوگوں کے درمیان صلح کرانا ہوتا ہے ۔''
    (٢)''دوران جنگ'' کہ جنگ کے بارے میں فرمایا گیا کہ جنگ دھوکے کا نام ہے
    (٣)''مردکا اپنی بیوی سے اور بیوی کا اپنے مرد سے اس وجہ سے جھوٹ بولنا کہ ان کے درمیان نفرت ختم ہو جائے ''

    حوالہ (ابوداؤد ،الحدیث 4275 ،الشاملہ)
     
  6. محمد اجمل خان
    آف لائن

    محمد اجمل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اکتوبر 2014
    پیغامات:
    209
    موصول پسندیدگیاں:
    181
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ
    محترم نعیم صاحب
    نوازش ۔ میں نے اس حدیث مبارک کا حوالہ تو نہیں دیا لیکن مضمون میں اس کا اشارہ دیا گیاہے ۔اگر آپ اس مضمون کا آخری جملہ ملاحظہ فرمائیں تو وہاں لکھا ہے :
    ’’ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اور تمام احباب کو جهوٹ سے بچائے (آمین) کیونکہ نیت کتنی ہی اچهی کیوں نہ ہو سوائے تین معروف معاملے کے جهوٹ میں کبهی کوئی خیر نہیں.‘‘
    مضمون کی طوالت سے بچنے کیلئے مکمل حدیث نہیں لکھا کیونکہ طویل مضمون پڑھنے کا رجحان اب نہیں رہا اور نہ ہی لوگوں کے پاس اب اتنا وقت ہے۔ اس لئے کوشش کرتا ہوں کہ مضمون طویل نہ ہو۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں