1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

واصف یار نے نظر جو کیتی

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏13 فروری 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    واصف یار نے نظر جو کیتی​
    تصوف میں ”نظر“ کو کرم کی نگاہ کہا جاتا ہے، اس کو فیض بھی کہا جا سکتا ہے ۔ جب کسی صوفی یا بزرگ کو پڑھنے کے بعد محبت پیدا ہو جائے تو اس بات کا مطلب ہے کہ اس ہستی کے ساتھ آپ کا تعلق ہے. حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں
    ”وہ جگہ جہاں پر رقت طاری ہو، آنکھ میں نمی آ جائے، اس جگہ تمہارا فیض پڑا ہوتا ہے“.
    آپؒ مزیدفرماتے ہیں ”ہروہ مزار، ہروہ بزرگ اور ہروہ جگہ جہاں پرآ پ کی آنکھ میں نمی آ جائے اس مقام کے ساتھ آپ کی روحانیت جڑی ہوتی ہے۔“

    جب کوئی شخص سٹیج پر بولتا ہے تو وہ خود نہیں بولتا بلکہ اس کا یقین بولتا ہے، اگر بات میں یقین نہ ہو تو پھر اس کا اثر نہیں رہتا، جیسے ایک دفعہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی طبیعت ناساز تھی، جس کی وجہ سے آپؒ خطبہ نہ دے سکے، آپؒ کی جگہ آپ ؒ کے فرزند نے خطبہ دیا، جب وہ بات کر رہے تھے تو وہ کیفیت نہیں بن رہی تھی، لوگوں نےآپ ؒ سے درخواست کی کہ آپ ؒ تھوڑا سا بولیں، آپؒ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور منبر پر آ کر صرف اتنا کہا کہ ”آج میری طبیعت ناساز ہے“. لوگوں کا اتنا سننا تھا کہ کئی غش کھا کر گر پڑے، اس کی وجہ یہ تھی کہ جو بولنے والا تھا، اس کا روحانی مقام بول رہا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ کام، کام اور کام تو اس جملے کو اہمیت نہیں ملے گی لیکن اگر حضرت قائداعظم محمد علی جنا ح ؒ کہیں تو یہ جملہ کافی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے کیونکہ جس مقام سے یہ جملہ بولا جا رہا ہے، وہاں چھوٹی سی بات بھی بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ اللہ والا بھی ایک بھید ہوتا ہے، اس تک آسانی سے نہیں پہنچا جا سکتا.

    ایک مجلس میں کسی نے حضرت واصف علی واصفؒ ؒ سے پوچھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپؒ کی گفتگو کسی بڑی جگہ پر ہو جہاں پر زیادہ لوگ ہوں، آپؒ نے فرمایا کہ دیکھو یہ تمھارے کہنے اور سوچنے سے نہیں ہے، اگر یہ چند افراد میں کی ہوئی گفتگو قبول ہو گئی تو پھر یہ خود ہی لوگوں تک پہنچ جائے گی، جو مجھ سے گفتگو کروا رہا ہے، وہ اس گفتگو کا بھی محافظ ہے، اور اگر وہ محافظ ہے تو پھر وہ آگے بھی پہنچا دے گا، اگر یہ گفتگو قابل نہیں ہے تو پھراس کو اپنے زمانے سےآگے نہیں جانا چاہیے۔

    جب مالک نگاہ کرتا ہے تو یہ دنیا بدلی بدلی لگتی ہے، پھر اسی دنیا میں واقعات اور حادثات کے معانی بدل جاتے ہیں۔ ایک پھول جو بہت خوبصورت ہے،
    • اگر اس کو کوئی عاشق دیکھے گا تو وہ کہے گا کہ میں اس کو اپنے محبوب کو دوں گا،
    • اگر حکیم دیکھے گا تو کہے گا کہ میں اس کی گل قند بناؤں گا،
    • اور کوئی جانور دیکھے تو وہ اسے اپنا چارہ سمجھ کر کھائے گا،
    ایک ہی نظارہ اور ایک ہی چیز، ہر ایک کے لیے جدا ہوتی ہے، جو ہماری سوچ ہوتی ہے اسی کے تحت ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں۔

    کسی نے بانو قدسیہ سے پوچھا کہ آپ میں اور واصف ؒ صاحب میں کیا فرق ہے؟
    انھوں نے جواب دیا کہ جو فرق صوفی اور عام انسان میں ہوتا ہے۔ وہ واقعات جو ایک عام انسان کی زندگی میں ہوتے ہیں، وہی واقعات صوفی کی زندگی میں بھی ہوتے ہیں، لیکن صوفی کا جواب مختلف ہوتا ہے، وہ جواب اللہ کی منشا کے مطابق دیتا ہے۔

    حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں
    ”اگر عام بندے کو پتھر پڑا ہے تو وہ پتھر مارنے والے سے لڑے گا،
    اگر اللہ والے کو پتھر پڑے تو وہ اوپر دیکھے گا اور کہے گا کہ میرا اس سے واسطہ ہے جو خیال کو پیدا کرتا ہے، جو پتھر اٹھانے کی طاقت کو پیدا کرتا ہے، جو پتھر اٹھانے والے کو پیدا کرتا ہے، جو خیال ڈالتا ہے کہ اس کے سر پر پتھر مار، اس کا یقین ہوتا ہے کہ اگر وہ خیال چھین لے تو وہ پتھر اٹھانے کے قابل ہی نہ رہے۔“

    اگر کسی اللہ والے سے سچی محبت ہے تو اس کے لیے مرنا آسان ہو جاتا ہے، وہ ایسے کہ اگر اللہ والا دوسری پار ہے تو وہ کہے گا کہ اگر میری محبت دوسرے پار ہے تو پھر موت کیا چیز ہے؟ موت تو میرے اور محبوب کے درمیان حائل ہے۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری محبت سچی نہیں ہوتی۔ حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں کہ ”جو رسول کریم ﷺ کا عاشق ہے، اس کے لیے موت کیا مسئلہ ہے“، مو ت اس کے لیے مسئلہ ہے جس کا پار کوئی نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ کی زندگی میں سب سے بڑا حسن یہ ہے کہ آپؒ انسانوں میں عام بن کر رہے. آپؒ فرماتے ہیں کہ ”دل کی بیعت ہوتی ہے“، آپ ؒمزید فرماتے کہ ”حکم اس کے لیے ہے جو حکم ماننے کے قابل ہے، سب پر برابر حکم نہیں لگتا“۔ آپؒ نے تعلق کے بغیر تبلیغ سے بھی منع فرمایا کیونکہ آپ ؒ فرماتے تھے کہ بغیر تعلق کے تبلیغ ایسے ہی ہے جیسے غیر زبان میں تقریر، پہلا کام تعلق بنانا ہے پھر تبلیغ ہے۔ آپؒ نے سارے لوگوں کو اپنی نشست میں نہیں بٹھایا، کچھ لوگ اکیلے میں ملتے تھے، کچھ مجلس کے لوگ تھے ۔

    آپؒ فرماتے ”جو تم سے کھانا مانگے اسے کلمہ نہ پڑھانا، اسے کھانا دینا، ڈوبنے والے سے اس کا عقیدہ پوچھنے والا ظلم کرتا ہے کیونکہ ایسے موقع پر بچانا حکم ہے“۔ جس طرح بادل برستا ہے، سورج چمکتا ہے، دریا کی روانی ہوتی ہے، اسی طرح اللہ والا تمام انسانوں پر مہربان ہوتا ہے۔ کسی میں تعصب ہو اور دعویٰ بھی کرے کہ میں اللہ والا ہوں، وہ اللہ والا نہیں ہے، کیونکہ تعصب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق نہیں، تعصب والا ہمیشہ تقسیم کرے گا ،میں اور تو کے جھگڑوں میں رہےگا۔ کسی کشتی میں ایک اللہ والے سفر کر رہے تھے، اسی کشتی میں کچھ نوجوان شوروغل کر رہے تھے، جومرید تھے انہیں بہت غصہ آ رہا تھا، کسی مرید نے کہا کہ ان کے لیے بد دعا کریں، ان کو تو ادب بھی نہیں کرنا آتا، ان بزرگ نے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی، پھر تاریخ نے بتایا کہ وہ تمام لوگ وقت کے ولی بنے، یہ ہے اللہ والے کا جواب، عام بندہ اس طرح نہیں سوچ سکتا، وہ تو ان جیسے لوگوں کو مارنے کے بارے میں سوچے گا۔

    اگر کوئی مرشد سے منسلک ہے لیکن حسن خیال نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ منسلک نہیں ہے کیونکہ جو منسلک ہوتا ہے وہ خیال والا ہوتا ہے۔ حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ ”توغنی از ہر دوعالم من فقیر“، آپ ؒ فرماتے اے مالک! تو کائنات کا مالک ہے، بخشنے والا ہے، میر ی صرف ایک التجا ہے، روز محشر جب میرا نامہ اعمال کھلے تو آپﷺ کی ذات گرامی کے سامنے نہ کھلے، میں سامنا نہیں کر سکوں گا، یہ حسن خیال بتاتا ہے کہ اقبال ؒ کتنا بڑا عاشق رسول ﷺ ہے۔ اگر یار نظر کر دے تو پھر خیال حسن کا خیال بن جاتا ہے، وہ مستی کا سبب بن جاتا ہے، وہ تنہائیوں میں میلے لگانے لگ پڑتا ہے. حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں ”عین ممکن ہے کہ کوئی محفل میں اکیلا ہو اور عین ممکن ہے کہ کسی کی تنہائی میں رونق ہو“. یہ ضرور دیکھیں کہ آپ کے پاس خیال کی آسانی کتنی ہے. اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کریں کہ اے میرے مالک! تو نے مجھے اچھے رزق سے نوازا ہے، تو نے مجھے اچھی شکل دی ہے، میرے مالک! مجھ پر کرم فرما، مجھے اچھی سوچ بھی عطا فرما، مجھے ایسی سوچ دے کہ میری تنہائیوں میں میلہ لگے، میری روح سجدہ کرے۔

    ایک نیک شخص کو حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ سے بڑی محبت تھی. ایک دفعہ کچھ لوگ اس شخص کی امامت میں پاکپتن گئے، جب وہ وہاں پہنچ گئے اور کھانا لگ گیا تو وہ سارے دستر خوان پر بیٹھ گئے، جبکہ نیک شخص مزار کی دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئے. کسی نے کان میں آ کر کہا کہ کھانا گرم ہے، یہ ادب کے خلاف ہے کہ ہم آپ کے بغیر شروع کریں، آپ آجائیں تاکہ کھانا شروع کیا جا سکے. انھوں نے کہا کہ انتظار کریں، اس کے بعد پھر وہ مراقبے میں چلے گئے، بڑی دیر گزر گئی، کھانا ٹھنڈا ہو گیا، بڑی دیر کے بعد اٹھے اور کھانا کھانا شروع کر دیا. بعد میں کسی نے پوچھا کہ آپ نے کھانا کیوں ٹھندا کروایا؟ انھوں نے جواب دیا کہ پہلے میں نے باباجی کی بارگاہ میں تم لوگوں کو قبول کروایا، میں نے سوچا کہ اگر یہ لوگ اس بارگاہ میں قبول ہوں تو پھر کھانا بنتا ہے، ویسے تو روٹی گھر میں بھی مل جاتی ہے، وہ لوگ کہنے لگے کہ کچھ دنوں بعد پتا چلا کہ ہم بدلے بدلے سے ہیں۔ خوش قسمتی یہ ہوتی ہے کہ آپ مانگنے دنیا جائیں اور اللہ کی محبت مل جائے ۔

    ہم ان کے پاس گئے حرف آرزو بن کر
    حریم ناز میں پہنچے تو بے نیاز ہوئے

    خوش قسمت وہ ہے جو اس بارگاہ میں پہنچے اور اس بارگاہ کا جلال دیکھ کر کہے کہ میں نے کچھ نہیں مانگنا، خوش نصیب وہ ہے جو اللہ یا اللہ والے کی بارگاہ میں پہنچے اور بے نیاز ہو جائے. حضرت واصف علی واصف ؒفرماتے ”خواہش پوری کرنے والا بزرگ ایک ہوتا ہے، جبکہ خواہش سے نجات دلانے والا کوئی اور ہوتا ہے“۔

    حضرت واصف علی واصف ؒ اپنی کتاب حرف حرف حقیقت میں فرماتے ہیں ”اپنے ہاں میں بھی جو لوگ عظیم ہیں، ان کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے، جس شعبے میں اور جس مقام میں وہ عظیم ہیں، ان کو سلام پیش کیا جائے اور جہاں ان کی زندگی معذرت سےگزری ہے وہاں سے گریز کیا جائے، ہمارے ہاں دقت یہ ہے کہ علماء صاحبان وقت کے تقاضوں کی عظمتوں سے بےخبر ہیں، اور جو لوگ عظیم ہیں وہ احکام شریعت سے غافل نظر آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قوم جب کسی ہیرو کی تقلید کرتی ہے تو دین سے بےراہ ہو جاتی ہے اور اگر دینی طور پر پابند زندگی گزرے تو وقت کے تقاضے نظر انداز ہو جاتے ہیں. ہم یہاں تک متعصب ہیں کہ کسی بڑے آدمی کا نام بھی نہیں سننا چاہتے کہ وہ دینی معاملات میں کمزور تھا. ہم اس کی خوبی کے پرستار ہیں، عظمت کی پرستش کے دوران اس کی زندگی کے غافل حصوں کی بھی تقلید کر جاتے ہیں، مثلا کوئی عظیم مفکر قوم کو عظمتوں سے آشنا کرانے والا دین کے کسی فرض کی ادائیگی میں ذرا کمزور تھا تو کہنے کی بھی جرات نہیں ہوتی کہ یہاں وہ صحیح نہیں ہے۔ ہماری قوم ایک مثالی اور عظیم آدمی کی تلاش میں ہے اور یہ بڑے افسوس کی بات ہےکہ ہم لوگ سمجھ نہیں سکتے کہ دنیا کے عظیم انسانوں میں صرف ایک یا چند صفات عظمت کی ہیں، واحد عظیم ہستی حضوراکرم ﷺ کی ہے جن کی زندگی کا ہر شعبہ مثالی ہے، ہرعمل بےمثال ہے، جن کی ہرصفت، جن کی نشست و برخاست، جن کا جاگنا سونا، جن کا بولنا سننا باعث تقلید ہے، جن کے نقش قدم پر چلنا ہی فلاح راہ ہے، باقی تمام عظیم ہستیوں کا ان کی صفات کے مطابق جائزہ لینا چاہیے، جس شعبے میں وہ عظیم ہیں، ہر آدمی خواہ کتنا ہی عظیم ہو تقلید کے قابل نہیں ہے. اگر ہم ہر ایک کو قابل تقلید رہنما بنا رہے ہیں تو قوم ایک بےسمت سفر میں گم ہو سکتی ہے۔ اکابرین ملت کو آفتاب رسالتﷺ کی کرنیں ہی مانا جائے، بس نور ظہور سب حضورﷺ کا ہے، باقی سب عظمتیں دیکھنے کے لیے ہیں، تقلید کے لیے نہیں ہیں، تقلید صرف اس ذات کی جسے اللہ کی تائید حاصل ہے۔“

    تحریر: سید قاسم علی شاہ
    13/02/2017
     
    Last edited by a moderator: ‏20 فروری 2017
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں