1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔ بیٹے کی خواہش

Discussion in 'اردو ادب' started by intelligent086, Aug 9, 2020.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    Joined:
    Apr 28, 2013
    Messages:
    7,273
    Likes Received:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدیؒ ۔۔۔۔۔۔ بیٹے کی خواہش

    حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ میں دیار بکر (موجودہ ترکی کا ایک شہر) میں ایک امیر آدمی کے گھر مہمان تھا۔ مال و دولت کے علاوہ خدا نے اس شخص کو ایک خوبرو بیٹا بھی دیا تھا۔ ایک رات وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ سعدیؒ، شاید تمھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ میرے گھر یہ بیٹا ایک مدت کی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد پیدا ہوا ہے۔ فلاں مقام پر ایک بابرکت درخت ہے۔ لوگ اس درخت کے قریب جا کر دعائیں مانگتے ہیں اور ان کی مرادیں مل جاتی ہیں۔ میں نے اس بابرکت درخت کے پاس جا کر دعا مانگی اور اللہ نے میری مراد پوری کر دی۔
    سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جس وقت امیر باپ اپنے بیٹے کے بارے میں یہ باتیں کر رہا تھا بیٹا اپنے دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہوا یہ کہہ رہا تھا۔ کہ اے کاش !مجھے معلوم ہو جائے کہ وہ بابرکت درخت کس جگہ ہے۔ میں آج ہی وہاں جاؤں اور یہ دعا مانگوں کہ میرا باپ جلد مر جائے تاکہ سارا مال اور جائیداد میرے قبضے میں آئے۔
    گزر جاتی ہے مدت تجھ سے اتنا بھی نہیں ہوتا
    سمجھ لے تیرا بیٹا بھی یونہی اغماض برتے گا
    کہ اپنے باپ کی تربت پہ بہر فاتحہ جائے
    یہی قانون قدرت ہے کہ جو بوئے وہی پائے
    حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسانی زندگی کے ایک المیے کے طرف اشارہ کیا ہے کہ جس اولاد کے لیے انسان اتنے پاپڑ بیلتا ہے اور رنگارنگ تمنائیں سینے میں بساتا ہے وہ اس کی ذات کے مقابلے میں اس کے مال کو زیادہ عزیز رکھتی ہے اور بالعموم یہ تمنا کرتی ہے کہ بڑے میاں کل کی جگہ آج ہی دنیا سے چلے جائیں تاکہ اسے کھل کھیلنے کا موقع ملے۔ اس حکایت میں اولاد کے لیے یہ سبق ہے کہ آج جیسا سلوک وہ اپنے ماں باپ سے کر رہے ہیں، کل ویساہی سلوک ان کی اولاد ان کے ساتھ کرے گی۔​
     
  2. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    Joined:
    Sep 27, 2017
    Messages:
    21,126
    Likes Received:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ خیراّ کثیرا
     

Share This Page