1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دیوان غالب

Discussion in 'اردو شاعری' started by آصف احمد بھٹی, Jul 25, 2011.

  1. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    جواب: دیوان غالب


    غزل

    جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
    تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا
    اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخئ ناز
    جوہرِ آئینہ کو طوطئ بسمل باندھا
    یاس و امید نے اک عرَبدہ میداں مانگا
    عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا
    نہ بندھے تِشنگئ ذوق کے مضموں، غالبؔ
    گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

     
    نعیم likes this.
  2. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    جواب: دیوان غالب


    غزل

    میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
    گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟
    ہے ایک تیر جس میں دونوں چھِدے پڑے ہیں
    وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا
    درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں
    جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا


     
    نعیم likes this.
  3. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    جواب: دیوان غالب


    غزل


    گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
    بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
    تنگئ دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے
    کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا
    بعد یک عمرِ وَرع بار تو دیتا بارے
    کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا


     
    نعیم likes this.
  4. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    جواب: دیوان غالب


    غزل



    نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
    ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
    ہُوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
    نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
    ہوئی مدت کہ غالبؔ مرگیا، پر یاد آتا ہے
    وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

     
    نعیم likes this.
  5. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    جواب: دیوان غالب


    غزل


    یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
    یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا
    بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
    کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا
    بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
    کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
    تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے
    تِریاکئِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا
    سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے
    پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
    بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار
    یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا
    باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل
    ابرِ بہار خمکدہ کِس کے دماغ کا!


     
  6. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    جواب: دیوان غالب


    غزل

    وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
    رازِ مکتوب بہ بے ربطئِ عنواں سمجھا
    یک الِف بیش نہیں صقیلِ آئینہ ہنوز
    چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا
    شرحِ اسبابِ گرفتارئِ خاطر مت پوچھ
    اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
    بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام
    رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا
    عجزسے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہوگا
    نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا
    سفرِ عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی
    ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا
    تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دمِ مرگ
    دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا
    دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار، اسدؔ
    غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا


     
  7. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    جواب: دیوان غالب


    غزل

    پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
    دل، جگر تشنۂ فریاد آیا
    دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
    پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
    سادگی ہائے تمنا، یعنی
    پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا
    عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!
    نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا
    زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
    کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
    کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی
    گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
    آہ وہ جرأتِ فریاد کہاں
    دل سے تنگ آکے جگر یاد آیا
    پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال
    دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا
    کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
    دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
    میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
    سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

     
    نعیم likes this.
  8. آصف احمد بھٹی
    Offline

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص Staff Member

    جواب: دیوان غالب


    غزل

    ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
    آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
    تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
    اس میں کچھ شائبۂ خوبیِ تقدیر بھی تھا
    تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟
    کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
    قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد
    ہاں! کچھ اک رنجِ گرانباریِ زنجیر بھی تھا
    بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا!
    بات کرتے، کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا
    یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئی
    گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا
    دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا
    نالہ کرتا تھا، ولے طالبِ تاثیر بھی تھا
    پیشے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو نام
    ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا
    ہم تھے مرنے کو کھڑے، پاس نہ آیا، نہ سہی
    آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا
    پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
    آدمی کوئی ہمارا َدمِ تحریر بھی تھا؟
    ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا



     
    نعیم likes this.
  9. معصومہ
    Offline

    معصومہ ناظم Staff Member

    جواب: دیوان غالب

    بہت خو ب ۔ بہت مہنت کی ہے آپ نےّ
     
  10. اوجھڑ پینڈے
    Offline

    اوجھڑ پینڈے ممبر

    جواب: دیوان غالب

    غزل

    [COLOR="Bluبازیچہءِ اطفال ہے دُنیا میرے آگے
    ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے

    مت پُوچھ کہ کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے
    تودیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا میرے آگے

    ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا میرے ہوتے
    گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا میرے آگے

    ایماں مُجھے روکے ہے،جو کھینچے ہے مُجھے کُفر
    کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے

    گو ھاتھ کو جُمبِش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
    رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے

    اِک کھیل ہے اورنگِ سُلیماں میرے نزدیک
    اِک بات ہے اعجاز مسیحا میرے آگے [/COLOR]
     
    نعیم likes this.
  11. سلطان مہربان
    Offline

    سلطان مہربان ممبر

    بہترین کاوش
     

  12. جناب
     
  13. مانی.شہزادہ
    Offline

    مانی.شہزادہ ممبر

    کیا پوری غزل مل سکتی ہے
     
    زنیرہ عقیل likes this.
  14. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھادیتے تھے
    دیکھوں اب مرگئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے
    غالب
     
  15. ناصر إقبال
    Offline

    ناصر إقبال ممبر

    گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
    جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر

    کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقت سخن
    جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر

    کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
    لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

    جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
    سر جائے یا رہے نہ رہیں پر کہے بغیر

    چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا
    چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر

    مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام
    چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر

    ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
    بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

    بہرا ہوں میں تو چاہیئے دونا ہو التفات
    سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

    غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
    ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر

    مرزا غالب
     
  16. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا

    جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
    سویدا تا بلب زنجیر سے دودِ سپند آیا

    مہِ اختر فشاں کی بہرِ استقبال آنکھوں سے
    تماشا کشورِ آئینہ میں آئینہ بند آیا

    تغافل، بد گمانی، بلکہ میری سخت جانی ہے
    نگاہِ بے حجابِ ناز کو بیمِ گزند آیا

    فضائے خندۂ گُل تنگ و ذوقِ عیش بے پروا
    فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل پسند آیا

    عدم ہے خیر خواہِ جلوہ کو زندانِ بے تابی
    خرامِ ناز برقِ خرمنِ سعیِ پسند آیا

    جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
    مبارک باد اسدؔ، غمخوارِ جانِ دردمند آیا
    [​IMG]
     
    مانی.شہزادہ likes this.
  17. ناصر إقبال
    Offline

    ناصر إقبال ممبر

    عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
    درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

    تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
    تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

    دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام
    مٹ گیا گھسنے میں اس عقدے کا وا ہو جانا

    اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
    اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا

    ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا
    باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

    دل سے مٹنا تری انگشت حنائی کا خیال
    ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا

    ہے مجھے ابر بہاری کا برس کر کھلنا
    روتے روتے غم فرقت میں فنا ہو جانا

    گر نہیں نکہت گل کو ترے کوچے کی ہوس
    کیوں ہے گرد رہ جولان صبا ہو جانا

    بخشے ہے جلوۂ گل ذوق تماشا غالبؔ
    چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا

    تا کہ تجھ پر کھلے اعجاز ہوائے صیقل
    دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا
     
  18. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

    بہت نکلے مرے ارمان لیکن، پھر بھی کم نکلے
     
  19. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
     
  20. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا

    نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا کیا

    ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال

    ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

    ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

    تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟

    دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

    میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

    اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

    ساغر جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے

    حال دل لکھوں کب تک، جاؤں اُن کو دکھلا دوں

    انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا
     
  21. ناصر إقبال
    Offline

    ناصر إقبال ممبر

    وہ فراق اور وہ وصال کہاں
    وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

    فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
    ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

    دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
    شورِ سودائے خطّ و خال کہاں

    تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
    اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

    ایسا آساں نہیں لہو رونا
    دل میں‌طاقت، جگر میں حال کہاں

    ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"
    واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

    فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
    میں کہاں اور یہ وبال کہاں

    مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
    وہ عناصر میں اعتدال کہاں
     
  22. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
    برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم
    محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ باز ِ خیال
    ہیں ورق گردانِ نیرنگئی یک بت خانہ ہم
    باوجود یک ہنگامہ پیدائی نہیں
    ہیں چراغاں شبستانِ دل پروانہ ہم
    ضعف سے ہے کہ قناعت سے یہ ترکِ آرزو
    ہیں وبال ِ تکیہ گاہ ِ ہمت مردانہ ہم
    دائم الحبس اس میں لاکھوں آرزوئیں ہیں اسدؔ
    جانتے ہیں سینہ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
     
  23. مانی.شہزادہ
    Offline

    مانی.شہزادہ ممبر

    بہت شکریہ
     
    زنیرہ عقیل likes this.
  24. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    خوش رہیے
     
    مانی.شہزادہ likes this.
  25. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
    تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
    غالب
     
  26. ناصر إقبال
    Offline

    ناصر إقبال ممبر

    حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
    مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

    چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
    ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو میں

    جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
    اے کاش جانتا نہ ترے رہگزر کو میں

    ہے کیا جو کس کے باندھئے میری بلا ڈرے
    کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں

    لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
    یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں

    چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیزرو کے ساتھ
    پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

    خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
    کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں

    پھر بے خودی میں بھول گیا راہ کوئے یار
    جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں

    اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا
    سمجھا ہوں دل پذیر متاع ہنر کو میں

    غالبؔ خدا کرے کہ سوار سمند ناز
    دیکھوں علی بہادر عالی گہر کو میں
     
  27. سید شہزاد ناصر
    Offline

    سید شہزاد ناصر ناظم Staff Member

    کیا ادھر مکمل دیوان غالب ٹائپ کیا جا رہا ہے؟
    اس سلسلے میں اگر ضرورت ہو تو دیوان غالب مکمل کی سافٹ کاپی میرے پاس ہے
     
  28. زاھرا
    Offline

    زاھرا ممبر

    amazing thanks for sharing
     
  29. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    رحم کر ظالم کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے
    نبض بیمار وفا دود چراغ کشتہ ہے
    دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
    ورنہ یاں بے رونقی سود چراغ کشتہ ہے
    نشۂ مے بے چمن دود چراغ کشتہ ہے
    جام داغ شعلہ اندود چراغ کشتہ ہے
    داغ ربط ہم ہیں اہل باغ گر گل ہو شہید
    لالہ چشم حسرت آلود چراغ کشتہ ہے
    شور ہے کس بزم کی عرض جراحت خانہ کا
    صبح یک بزم نمک سود چراغ کشتہ ہے

    غالب
     
  30. زنیرہ عقیل
    Offline

    زنیرہ عقیل ممبر

    حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
    بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد

    منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
    ہوئی معزولی انداز و ادا میرے بعد

    شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
    شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

    خوں ہے دل خاک میں احوال بتاں پر یعنی
    ان کے ناخن ہوئے محتاج حنا میرے بعد

    در خور عرض نہیں جوہر بیداد کو جا
    نگۂ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد

    ہے جنوں اہل جنوں کے لیے آغوش وداع
    چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد

    کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
    ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

    غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
    کہ کرے تعزیت مہر و وفا میرے بعد

    آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالبؔ
    کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

    تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب
    بے خطر جیتے ہیں ارباب ریا میرے بعد

    تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
    متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد
     

Share This Page