یہ اس موضوع پر اب تک سب سے بہترین بات جو میں نے پڑھی اور سنی ہے ۔ بلکہ عقل کو تسلیم بات ہے ۔ ۔ ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ برابری تو نہ مرد عورت کی کر سکتا ہے اور نہ عورت مرد کے ، دونوں عزت و شرف میں برابر ہیں ۔ ۔ ۔
پچھلی پوسٹ میں مجھ سے ایک غلطی ہو گی ، عزت میں یقینا دونوں برابر ہیں مگر شرف میں اللہ نے مرد کو تھوڑی فوقیت دی ہے ۔ اور یہ فوقیت اللہ نے دی ہے ۔ جس طرح کچھ لوگ اپنے آپ کو اتنا گرا دیتے ہیں کہ وہ انسانیت کے کسی بھی معیار پر پورے نہیں اُترتے ، اسی طرح بعض مرد حضرات بھی اللہ کی طرف سے دئیے ہوئے اس شرف کو کھو دیتے ہیں ۔
آپ نے درست کہا ۔۔ مرد کو عورت کا نگہبان بنایا ۔۔ اور عورت کو سختی سے بولا گیا ہے کے اسکی تابیداری کرے ،، اور اس بات کو لے کربض مرد بہت غلط فایدہ اٹھاتے ہیں ۔ عزت میں دونوں کو برابر کا درجہ دیا گیا ہے ۔۔۔ بس یہ بات سمجھ میں آجائے تو پھر بات ہی کیا ہے ۔۔
عورت ۔۔ اگر وہ بیوی ہے وہ دنیا کا سب سے بڑا خزانہ ہے، اگر بیٹی ہے ، تو آتش دوزخ سے بچانے کا وسیلہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، ماں ہے تو اس کے پاؤں تلے جنت، غرض یہ کہ، اسلام نے عورت کو ہر حیثیت ، چاہے وہ ماں ہو ، یا بیٹی ، بہن ہو ، یا شریک حیات، انتہائی تکریم و اعزاز کا مستحق گردانا ہے۔ شرف انسانیت میں مرد و عورت کی تفریق روا نہیں رکھی گئی۔ عالم انسانیت کے محسن اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ظالم مرد سے پکار کر فرمایا کہ عورت اس لئے نہیں ہے کہ اسے حقارت سے ٹھکرا کر قعر مذلت میں دھکیل دیا جائے۔ داعی اسلام نے صرف فکری اور نظری اعتبار سے ہی عورت کا مقام و مرتبہ بلند نہیں کیا بلکہ قانون کے ذریعے سے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی اور مردوں کے ظلم کی روک تھام کا موثر انتظام کر دیا۔ جہاں شرع نے مرد کو ناگزیر حالت کی بناء پر طلاق دینے کا اختیار سونپ رکھا ہے۔ وہاں عورتوں کو بھی کسی معقول وجہ کے باعث مرد سے طلاق لینے کا اختیار دلایا ہے اور اس طرح فریقین کو ایک مکمل مساوات پر لاکھڑا کیا۔
ایک تصحیح کر لیں ۔ ۔ ۔ عورت طلاق لے نہیں سکتی ، وہ خلع لے سکتی ہے ۔ ۔ ۔ طلاق دی جاتی ہے اور خلع لی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ طلاق کا اختیار صرف مرد کو ہے عورت طلاق دے نہیں سکتی اور مرد خلع لے نہیں سکتا ۔ ۔ ۔ یعنی ۔ ۔ ۔ مساوات